ایک تحریر میری بھی

روؤف بھائی کی تحریر پڑھکر دل چاہا کہ کچھ میں بھی شئیر کروں۔
جو کچھ کمی محسوس ہو، توجہ ضرور دلائیے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی ہجوم سے مخاطب ہوا،ڈگڈگی بجائ اور پھر پاؤں باندھ کر ہوا میں اچھلنے کوتیار ہوگیا۔چھلانگ لگانے کی کوشش ناکام رہی،لوگ ہنسنے لگے،اس نے ہمت نہ ہاری اور مسکرا کر بولا ،"ٹھہرو ابھی دیکھو ،ہوا میں ایسی قلابازیاں لگاؤںگا کہ حیران رہ جاؤ گے"
اس نے پاؤں باندھ کر پوری قوت سے اوپر کو زور لگایا ،مگر اسکا سر اور بازو اسکے دھڑ کو نہ کھینچ سکے،یہ کیا؟اسے حیرت ہوئی میرے پاؤں کیوں زمین کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں۔وہ بیٹھ گیا ،لوگوں کی طنزیہ ہنسی اسکا منہ چڑا رہی تھی،
لڑکے آوازے کس رہے تھے جو اسکے کانوں کے پردے چیر کر اندر گھس رہے تھے۔"دفع ہو جاؤ"وہ زور سے چیخا۔نیچے بیٹھ کر اپنے پاؤں پکڑ کر دیکھنے لگا ،کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ پاؤں زمین سے کیوں نہ اٹھتے تھے۔بیٹھ کر دونوں پاؤں باری باری پکڑ کر دیکھے بالکل ٹھیک تھے۔مایوسی اور غصے نے اسے بےحال کر دیا تھا۔گھر آکر جب اپنے آنگن میں اس نے جمپ لگایا تو ہمیشہ کی طرح کامیاب ،یہ بات اس کیلئے قابلِ قبول نہ تھی۔اگلے دن وہ نئی تیاری کے ساتھ نئے علاقے میں نکلا اسے اپنے اوپر پورا یقین تھا مگر آج بھی کل جیسی ذلت مقدر بنی ۔اس نے زندگی میں ہارنا نہیں سیکھا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک بتیس سال کا جوان تھا، مضبوط اور چھریرا جسم ۔ اپنے جسم کی حفاظت اسکاایمان تھا ،کیونکہ وہ اس سے ہی اپنی قسمت بدلنے میں کامیاب ھوا تھا۔ آج اسکی شکستِ ثانیہ تھی۔وہ مایوس تو نہ تھا مگر صرف یہ بات سمجھ نہ آتی تھی کہ پاؤں زمین سے کیوں چپک جاتے ہیں۔
رات کو لیٹا سوچ رہا تھا کہ کہیں اسکا زوال تو نہیں شروع ہوگیا۔نہیں نہیں ۔ یہ نہیں ھوگا صبح کسی اچھے ڈاکٹر کو پاؤں چیک کرواؤں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چھوٹا سا تھا جب وہ اپنے باپ کے ساتھ بندر کا تماشا دکھانے جاتا تھا، اسکی ماں اسکی پیدائش پر ہی دارِ فانی سے کوچ کر گئی تھی،اسکو اسکے باپ نے پالا تھا،کچی اور گندی آبادی میں انکا جھونپڑی نما ایک کمرے کا گھر تھا،روزانہ دونوں باپ بیٹا بندر لیکر نکل جاتے اور جگہ جگہ رک کر تماشہ دکھاتے۔ گھر آکر باپ روٹی پکا کر کھلاتا تھا، ایک دن اسکے باپ کو سانپ نے ڈس لیا ،سانپ اتنا زہریلا تھا کہ پڑوسیوں کوبتاتے بتاتے ہی اسکے منہ سے جھاگ نکلنے لگی ،وہ باپ کی حالت دیکھکر رونے لگا ،اور دیکھتے ہی دیکھتے چند گھنٹوں میں باپ اسکو چھوڑ گیا،اسکی عمر تب کوئی نو یا دس سال کی تھی۔ کئی دن وہ کام پر نہ گیا ،نہ ہی بندر کی دیکھ بھال کر سکا۔۔۔ کئی دنوں بعد وہ بندر لیکر نکلا ،ڈگڈگی بجاتے بندر کو گھسیٹ رہا تھا۔ بھوکا پیاسا بندر نڈھا ہوکر گر گیا اور پھر اٹھ نہ سکا۔وہ دیوار کے ساتھ بیٹھ کرمرے ہوئے بندرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے زور زور سے رونے لگا۔ بچے آ آ کراور ہنس ہنس کر اسکا تماشا بنا رہے تھے۔ ان کی ہنسی اسے زہر لگ رہی تھی۔۔ جب رورو کر تھک گیا تو اچانک اس میں ہمت آئی اور وہ کھڑا ہوااور ھوا میں جمپ لگایا ،اور ہوا میں قلا بازی لگاتے ہوئے واپس سیدھا زمین پر کھڑا ھوگیا،یہ سب اس کے وہم و گمان میں نہ تھا،پتہ نہیں سب کیسے ہوگیا تھا،وہ خود بھی اپنی حرکت پر ششدر رہ گیا۔بچے تالیاں بجانے لگے ،کوئی آٹا کوئی پیسے دینے لگا۔پھر اس کا معمول بن گیا۔آہستہ آہستہ اسکا جمپ شہرت کی بلندی پر جا پہچا اور اس نے ڈھیروں روپے کمائے،ماڈرن علاقے میں گھر،گاڑی ،بینک بیلنس ،ان سب سے اسکا شمار امیر لوگوں میں ہونے لگا۔ اسکے جمپ پر ایک امیر زادی بھی فدا ہو بیٹھی تھی،ملاقاتیں ہونے لگیں ،محبت بڑھنے لگی،اور اب تو دونوں شادی کرنے والے تھے ،پھر اب یہ کیا ؟ اسکے پاؤں کو کیا ہوا؟
پھر روز بروز ڈاکٹرز بدلے جانے لگے ،ٹیسٹ ھونے لگے،سب رپورٹ کے مطابق کوئی تکلیف نہ تھی۔وقت گزرنے لگا۔وہ خود سے الجھنے لگا ۔مایوسی کے سائے گھنے اور گھمبیر ھونے لگے،ویرانیاں اس میں گھر کرنے لگیں ۔ایک دن یونہی مایوسی میں چلتے چلتے ساری رات بتا دی ،وہ اپنے پاؤں کو سزا دے رہا تھا۔
اس نہیں معلوم تھا کہ کہاں پہنچ گیا ہے آخر تھک کر گر گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکھ کھلی تو ایک بزرگ سفید داڑھی والے اسے اپنی گود میں لئے بیٹھے تھے۔بہت پیار سے اسکو پوچھ رہے تھے،انکا پیار دیکھ کر اسکا دل بھر آیا ،اور رونے لگا اور سب بتا دیا۔بڑے میاں سب سن کر کچھ دیر خاموش رہے پھر دھیرے سے بولے، یاد کرو کبھی کسی کا دل تو نہیں دکھایا ، اگر ایسا ھے تو اس سے معافی طلب کرو، اس سے اللہ خوش ہوتا ہے ،کچھ صدقہ کرو،اس سے مصیبت ٹلتی ھے۔
صدقہ،معافی،یہ کیا ہے میں نہیں جانتا۔ "بیٹا نہ جانے میں ہم سے کسی کی حق تلفی ہو جاتی ہے اور اسکی آہ سے ہمارا رب ہم سے روٹھ جاتاہے۔"
"رب" یہ کون ہے؟ " اسے تو بس پیسہ کمانے سے غرض تھی یہ سب اس نے کبھی نہ سوچا تھا ،اسکا نہ کوئی دین تھا نہ دھرم ۔
"بیٹا رب وہ ہے جو ہمیں پالتا ہے ، ہمیں روزی دیتا ہے ،ہمارے لئے وسیلے پیدا کرتا ہے"بڑے میاں اسے سمجھانے لگے۔
کچھ دیر بعد وہ کچھ بحال ہوا تو واپس جانے کی ٹھانی۔ یہ سب باتیں ہیں ،بیکار ہیں ،کسی کی آہ نہیں لگتی۔۔۔وہ انہی سوچوں میں غلطاں و پیچاں گھر پہنچ گیا۔ تھک ہار کر سوگیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بچہ بندر پکڑے ڈگڈگی بجا رہا تھا، بچے اس کا تماشہ دیکھ رہے تھے،پھراچانک یہ وہاں پر جاتا ہے اور جمپ لگاتا ہے ،سب تماشائی اسکی طرف متوجہ ہوگئے،بندر والا بچہ رونے لگا،"میری اماں بیمار ہے میں نے دوائی لینی ہے ،مجھے بھی کچھ پیسے دے دو"۔
خواب میں یہ الفاظ سنتے ہی اس کی آنکھ کھل گئی ،اسے وہ منظر یاد آیا جب سچ مچ ایسا ہی ہوا تھا،خواب میں وہی بچہ تھا، "انجانے میں ہم کسی کا دل دکھا دیتے ہیں" بڑے میاں کے الفاظ کی باز گشت سنائی دے رہی تھی ۔کیا میں سائیکو ہو گیا ہوں ،کیا یہ پاگل پن ہے" اس نے تلخی سے سوچا "نہیں نہیں ،میں ٹھیک ہوں" اسکے دماغ نے حاضر جوابی دکھائی ۔ صبح بے دلی سے ناشتہ کرکے وہ اس علاقے کی طرف چل دیا جہاں اس نے اس بچے کی حق تلفی کی تھی۔ کچھ ہی تگ و دو سے اس کا پتہ چل گیا، گھر میں داخل ہوکر جو منظر دیکھا وہ اسکا اپنا ہی بچپن تھا،ایک بوڑھی عورت بیمار پڑی تھی اور بچہ پاس مایوس بیٹھا تھا۔ اچانک اسکے دل میں درد کی ہوک اٹھی ۔اس نے لپک کر عورت کو بازوؤں میں اٹھایا ،"چلو اسکو ہسپتال لے چلتے ہیں " بچہ حیرت سے اسکے پیچھے لپکا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ سکون تھا جس سے آج سے پہلے یہ روشناس نہ تھا۔۔۔ بچے کو اس نے سکول داخل کروا دیا ۔
اس نے بڑے میاں کو تلاش کیا۔" مجھے اللہ سے ملوا دیجئے" ان سے ملتے ہی وہ بے تاب ھوگیا۔
بڑے میاں اسکو لیکر مسجد لے گئے۔ جب واپس آیا تو وہ مکمل بدل چکا تھا ۔
زندگی آہستہ آہستہ پھر سے خوبصورت ہونے لگی،لیکن اس مرتبہ اس خوبصورتی میں سکون بھی تھا۔ اسکی گرل فرینڈ اسے چھوڑ کر جا چکی تھی،اسے کوئی افسوس نہیں ہوا تھا۔"کوئی بات نہیں ،اسکی زندگی پر اسکا ہی حق ہے میرا نہیں " اس نے تلخی سے سوچا۔
پھر اس نے بھی گھر بسا لیا ،بڑے میاں کی بیٹی بہت حسین و جمیل ہونے ساتھ ساتھ سگھڑاپے میں بھی بے مثال تھی۔
اب شہر کے بہت سارے مدرسے اس کے دیے ہوئے پیسے سے چلتے تھے۔
اسکے جمپ کااب بھی ڈنکا بجتا تھا۔ اسکے بچے شہر کر بڑے مدرسے میں پڑھتے تھے۔ زندگی کایہ روپ اس نے کبھی پہلے نہ دیکھا تھا۔جہاں سکون کی گھنی چھاؤں کے لمبے سائے تھے۔
؎ ڈھونڈنے نکلا تھا وہ ، گل و گلزار کے غنچے،
نہ جانتا تھا کہ ، خاردار ہے راہ ِ حیات ۔
ام عبدالوھاب
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین

وسیم

محفلین
برا نا منائیے گا۔ آغاز اچھا تھا۔ لیکن پھر کہانی نے ایک غوطہ کھایا اور آخر میں ایسی کہانی بن گئی جو بچوں کے رسالوں میں اکثر نیکی کر صلہ ملے گا ٹائپ انجام کے مقاصد کو ذہن میں رکھ کر لکھی جاتی ہے۔ میرے نزدیک جیسا آپ نے آغاز لیا تھا، دو پیراگراف کے بعد آپ نے اس سے انصاف نہیں کیا، اور یہ ایک روایتی سی فارمولہ کہانی بن گئی۔
ایک بات اور جب وہ بدل چکا تو پھر اس نے اپنی گرل فرینڈ کے متعلق تلخی سے سوچا والی بات اس کے بدل جانے والی شخصیت سے میل نہیں کھاتی۔ اور ذرا سا کہانی کو حقیقت کے قریب کر لیں، چھلانگ کے بل بوتے پہ اسے امیر ضرور بنائیں لیکن اتنا بھی نہیں، جتنا آپ نے بنا دیا ہے کہ شہر کے سارے مدرسے ہی اس نے چلانے شروع کر دئیے ہیں۔۔۔

شکریہ
 

سیما علی

لائبریرین
اسکے جمپ کااب بھی ڈنکا بجتا تھا۔ اسکے بچے شہر کر بڑے مدرسے میں پڑھتے تھے۔ زندگی کایہ روپ اس نے کبھی پہلے نہ دیکھا تھا۔جہاں سکون کی گھنی چھاؤں کے لمبے سائے تھے۔
؎ ڈھونڈنے نکلا تھا وہ ، گل و گلزار کے غنچے،
نہ جانتا تھا کہ ، خاردار ہے راہ ِ حیات ۔
بہت خوبصورت تحریر شائستہ بٹیا:
ڈھر ساری داد قبول کیجیے آپکی تحاریر میں آپکی شخصیت کا عکس نظر آتا ہے !!!!سلامت رہیے
 

عترت

محفلین
روؤف بھائی کی تحریر پڑھکر دل چاہا کہ کچھ میں بھی شئیر کروں۔
جو کچھ کمی محسوس ہو، توجہ ضرور دلائیے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی ہجوم سے مخاطب ہوا،ڈگڈگی بجائ اور پھر پاؤں باندھ کر ہوا میں اچھلنے کوتیار ہوگیا۔چھلانگ لگانے کی کوشش ناکام رہی،لوگ ہنسنے لگے،اس نے ہمت نہ ہاری اور مسکرا کر بولا ،"ٹھہرو ابھی دیکھو ،ہوا میں ایسی قلابازیاں لگاؤںگا کہ حیران رہ جاؤ گے"
اس نے پاؤں باندھ کر پوری قوت سے اوپر کو زور لگایا ،مگر اسکا سر اور بازو اسکے دھڑ کو نہ کھینچ سکے،یہ کیا؟اسے حیرت ہوئی میرے پاؤں کیوں زمین کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں۔وہ بیٹھ گیا ،لوگوں کی طنزیہ ہنسی اسکا منہ چڑا رہی تھی،
لڑکے آوازے کس رہے تھے جو اسکے کانوں کے پردے چیر کر اندر گھس رہے تھے۔"دفع ہو جاؤ"وہ زور سے چیخا۔نیچے بیٹھ کر اپنے پاؤں پکڑ کر دیکھنے لگا ،کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ پاؤں زمین سے کیوں نہ اٹھتے تھے۔بیٹھ کر دونوں پاؤں باری باری پکڑ کر دیکھے بالکل ٹھیک تھے۔مایوسی اور غصے نے اسے بےحال کر دیا تھا۔گھر آکر جب اپنے آنگن میں اس نے جمپ لگایا تو ہمیشہ کی طرح کامیاب ،یہ بات اس کیلئے قابلِ قبول نہ تھی۔اگلے دن وہ نئی تیاری کے ساتھ نئے علاقے میں نکلا اسے اپنے اوپر پورا یقین تھا مگر آج بھی کل جیسی ذلت مقدر بنی ۔اس نے زندگی میں ہارنا نہیں سیکھا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک بتیس سال کا جوان تھا، مضبوط اور چھریرا جسم ۔ اپنے جسم کی حفاظت اسکاایمان تھا ،کیونکہ وہ اس سے ہی اپنی قسمت بدلنے میں کامیاب ھوا تھا۔ آج اسکی شکستِ ثانیہ تھی۔وہ مایوس تو نہ تھا مگر صرف یہ بات سمجھ نہ آتی تھی کہ پاؤں زمین سے کیوں چپک جاتے ہیں۔
رات کو لیٹا سوچ رہا تھا کہ کہیں اسکا زوال تو نہیں شروع ہوگیا۔نہیں نہیں ۔ یہ نہیں ھوگا صبح کسی اچھے ڈاکٹر کو پاؤں چیک کرواؤں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چھوٹا سا تھا جب وہ اپنے باپ کے ساتھ بندر کا تماشا دکھانے جاتا تھا، اسکی ماں اسکی پیدائش پر ہی دارِ فانی سے کوچ کر گئی تھی،اسکو اسکے باپ نے پالا تھا،کچی اور گندی آبادی میں انکا جھونپڑی نما ایک کمرے کا گھر تھا،روزانہ دونوں باپ بیٹا بندر لیکر نکل جاتے اور جگہ جگہ رک کر تماشہ دکھاتے۔ گھر آکر باپ روٹی پکا کر کھلاتا تھا، ایک دن اسکے باپ کو سانپ نے ڈس لیا ،سانپ اتنا زہریلا تھا کہ پڑوسیوں کوبتاتے بتاتے ہی اسکے منہ سے جھاگ نکلنے لگی ،وہ باپ کی حالت دیکھکر رونے لگا ،اور دیکھتے ہی دیکھتے چند گھنٹوں میں باپ اسکو چھوڑ گیا،اسکی عمر تب کوئی نو یا دس سال کی تھی۔ کئی دن وہ کام پر نہ گیا ،نہ ہی بندر کی دیکھ بھال کر سکا۔۔۔ کئی دنوں بعد وہ بندر لیکر نکلا ،ڈگڈگی بجاتے بندر کو گھسیٹ رہا تھا۔ بھوکا پیاسا بندر نڈھا ہوکر گر گیا اور پھر اٹھ نہ سکا۔وہ دیوار کے ساتھ بیٹھ کرمرے ہوئے بندرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے زور زور سے رونے لگا۔ بچے آ آ کراور ہنس ہنس کر اسکا تماشا بنا رہے تھے۔ ان کی ہنسی اسے زہر لگ رہی تھی۔۔ جب رورو کر تھک گیا تو اچانک اس میں ہمت آئی اور وہ کھڑا ہوااور ھوا میں جمپ لگایا ،اور ہوا میں قلا بازی لگاتے ہوئے واپس سیدھا زمین پر کھڑا ھوگیا،یہ سب اس کے وہم و گمان میں نہ تھا،پتہ نہیں سب کیسے ہوگیا تھا،وہ خود بھی اپنی حرکت پر ششدر رہ گیا۔بچے تالیاں بجانے لگے ،کوئی آٹا کوئی پیسے دینے لگا۔پھر اس کا معمول بن گیا۔آہستہ آہستہ اسکا جمپ شہرت کی بلندی پر جا پہچا اور اس نے ڈھیروں روپے کمائے،ماڈرن علاقے میں گھر،گاڑی ،بینک بیلنس ،ان سب سے اسکا شمار امیر لوگوں میں ہونے لگا۔ اسکے جمپ پر ایک امیر زادی بھی فدا ہو بیٹھی تھی،ملاقاتیں ہونے لگیں ،محبت بڑھنے لگی،اور اب تو دونوں شادی کرنے والے تھے ،پھر اب یہ کیا ؟ اسکے پاؤں کو کیا ہوا؟
پھر روز بروز ڈاکٹرز بدلے جانے لگے ،ٹیسٹ ھونے لگے،سب رپورٹ کے مطابق کوئی تکلیف نہ تھی۔وقت گزرنے لگا۔وہ خود سے الجھنے لگا ۔مایوسی کے سائے گھنے اور گھمبیر ھونے لگے،ویرانیاں اس میں گھر کرنے لگیں ۔ایک دن یونہی مایوسی میں چلتے چلتے ساری رات بتا دی ،وہ اپنے پاؤں کو سزا دے رہا تھا۔
اس نہیں معلوم تھا کہ کہاں پہنچ گیا ہے آخر تھک کر گر گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکھ کھلی تو ایک بزرگ سفید داڑھی والے اسے اپنی گود میں لئے بیٹھے تھے۔بہت پیار سے اسکو پوچھ رہے تھے،انکا پیار دیکھ کر اسکا دل بھر آیا ،اور رونے لگا اور سب بتا دیا۔بڑے میاں سب سن کر کچھ دیر خاموش رہے پھر دھیرے سے بولے، یاد کرو کبھی کسی کا دل تو نہیں دکھایا ، اگر ایسا ھے تو اس سے معافی طلب کرو، اس سے اللہ خوش ہوتا ہے ،کچھ صدقہ کرو،اس سے مصیبت ٹلتی ھے۔
صدقہ،معافی،یہ کیا ہے میں نہیں جانتا۔ "بیٹا نہ جانے میں ہم سے کسی کی حق تلفی ہو جاتی ہے اور اسکی آہ سے ہمارا رب ہم سے روٹھ جاتاہے۔"
"رب" یہ کون ہے؟ " اسے تو بس پیسہ کمانے سے غرض تھی یہ سب اس نے کبھی نہ سوچا تھا ،اسکا نہ کوئی دین تھا نہ دھرم ۔
"بیٹا رب وہ ہے جو ہمیں پالتا ہے ، ہمیں روزی دیتا ہے ،ہمارے لئے وسیلے پیدا کرتا ہے"بڑے میاں اسے سمجھانے لگے۔
کچھ دیر بعد وہ کچھ بحال ہوا تو واپس جانے کی ٹھانی۔ یہ سب باتیں ہیں ،بیکار ہیں ،کسی کی آہ نہیں لگتی۔۔۔وہ انہی سوچوں میں غلطاں و پیچاں گھر پہنچ گیا۔ تھک ہار کر سوگیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بچہ بندر پکڑے ڈگڈگی بجا رہا تھا، بچے اس کا تماشہ دیکھ رہے تھے،پھراچانک یہ وہاں پر جاتا ہے اور جمپ لگاتا ہے ،سب تماشائی اسکی طرف متوجہ ہوگئے،بندر والا بچہ رونے لگا،"میری اماں بیمار ہے میں نے دوائی لینی ہے ،مجھے بھی کچھ پیسے دے دو"۔
خواب میں یہ الفاظ سنتے ہی اس کی آنکھ کھل گئی ،اسے وہ منظر یاد آیا جب سچ مچ ایسا ہی ہوا تھا،خواب میں وہی بچہ تھا، "انجانے میں ہم کسی کا دل دکھا دیتے ہیں" بڑے میاں کے الفاظ کی باز گشت سنائی دے رہی تھی ۔کیا میں سائیکو ہو گیا ہوں ،کیا یہ پاگل پن ہے" اس نے تلخی سے سوچا "نہیں نہیں ،میں ٹھیک ہوں" اسکے دماغ نے حاضر جوابی دکھائی ۔ صبح بے دلی سے ناشتہ کرکے وہ اس علاقے کی طرف چل دیا جہاں اس نے اس بچے کی حق تلفی کی تھی۔ کچھ ہی تگ و دو سے اس کا پتہ چل گیا، گھر میں داخل ہوکر جو منظر دیکھا وہ اسکا اپنا ہی بچپن تھا،ایک بوڑھی عورت بیمار پڑی تھی اور بچہ پاس مایوس بیٹھا تھا۔ اچانک اسکے دل میں درد کی ہوک اٹھی ۔اس نے لپک کر عورت کو بازوؤں میں اٹھایا ،"چلو اسکو ہسپتال لے چلتے ہیں " بچہ حیرت سے اسکے پیچھے لپکا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ سکون تھا جس سے آج سے پہلے یہ روشناس نہ تھا۔۔۔ بچے کو اس نے سکول داخل کروا دیا ۔
اس نے بڑے میاں کو تلاش کیا۔" مجھے اللہ سے ملوا دیجئے" ان سے ملتے ہی وہ بے تاب ھوگیا۔
بڑے میاں اسکو لیکر مسجد لے گئے۔ جب واپس آیا تو وہ مکمل بدل چکا تھا ۔
زندگی آہستہ آہستہ پھر سے خوبصورت ہونے لگی،لیکن اس مرتبہ اس خوبصورتی میں سکون بھی تھا۔ اسکی گرل فرینڈ اسے چھوڑ کر جا چکی تھی،اسے کوئی افسوس نہیں ہوا تھا۔"کوئی بات نہیں ،اسکی زندگی پر اسکا ہی حق ہے میرا نہیں " اس نے تلخی سے سوچا۔
پھر اس نے بھی گھر بسا لیا ،بڑے میاں کی بیٹی بہت حسین و جمیل ہونے ساتھ ساتھ سگھڑاپے میں بھی بے مثال تھی۔
اب شہر کے بہت سارے مدرسے اس کے دیے ہوئے پیسے سے چلتے تھے۔
اسکے جمپ کااب بھی ڈنکا بجتا تھا۔ اسکے بچے شہر کر بڑے مدرسے میں پڑھتے تھے۔ زندگی کایہ روپ اس نے کبھی پہلے نہ دیکھا تھا۔جہاں سکون کی گھنی چھاؤں کے لمبے سائے تھے۔
؎ ڈھونڈنے نکلا تھا وہ ، گل و گلزار کے غنچے،
نہ جانتا تھا کہ ، خاردار ہے راہ ِ حیات ۔
ام عبدالوھاب
ماشا۶اللہ
 
Top