ایک تازہ غزل تبصرہ، تنقید و رہنُمائی کیلئے، ''دیر اُس نے کی، رات اُس نے کی''

دیر اُس نے کی، رات اُس نے کی
دُکھ بھری کائنات، اُس نے کی

جانتا ہوں اُسے نہیں آنا
فاصلوں کی جو بات اُس نے کی

مجھ کو چھوڑا نہیں کہیں کا بھی
تنگ میری حیات اُس نے کی

بے نیازی مری کو ٹھُکرا کر
پیار میں ذات پات اُس نے کی

دل ہے مسروق، کیا شکایت ہو؟
اک عجب واردات اُس نے کی

کوئی خنجر نہیں چلا اظہر
زخم کیسا ہے؟ بات اُس نے کی​
 

الف عین

لائبریرین
نہیں بھئی اظہر، اکثر اشعار میں مطلب واضح نہیں ہو رہا۔ سوائے اس شعر کے
مجھ کو چھوڑا نہیں کہیں کا بھی
تنگ میری حیات اُس نے کی
 

طارق شاہ

محفلین
دیر اُس نے کی، رات اُس نے کی
دُکھ بھری کائنات، اُس نے کی

جانتا ہوں اُسے نہیں آنا
فاصلوں کی جو بات اُس نے کی

مجھ کو چھوڑا نہیں کہیں کا بھی
تنگ میری حیات اُس نے کی

بے نیازی مری کو ٹھُکرا کر
پیار میں ذات پات اُس نے کی

دل ہے مسروق، کیا شکایت ہو؟
اک عجب واردات اُس نے کی

کوئی خنجر نہیں چلا اظہر
زخم کیسا ہے؟ بات اُس نے کی​

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

غزل
دیر اُس نے کی ، رات اُس نے کی
بے یقیں اپنی ذات اُس نے کی

تب یقیں ہو چلا نہ آئے گا !
فاصلوں کی جب بات اُس نے کی

ہر ستم کو روا سمجھتے ہوئے
تنگ مجھ پر حیات اُس نے کی

انحرافِ اصولِ عشق کے ساتھ
پیار میں ذات پات اُس نے کی

دل تھا مائل چُرائے جانے پر
کیا عجب واردات اُس نے کی

زخم یہ تیغ کے نہیں اظہر !
نشتروں سی جو بات اُس نے کی


:):)
 
آخری تدوین:
Top