ایک بھاشا۔۔۔ جو مسترد کر دی گئی۔۔ تبصرے

الف عین

لائبریرین
گیان چند کی کتاب ’ایک بھاشا ، دو لکھاوٹ، دو ادب‘ کے رد میں پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ کی کتاب ایک ’بھاشا جو مسترد کر دی گئی‘۔ میں نے مکمل کر دی ہے۔
یہ کتاب خلیل صاحب نے مجھے سی ڈی میں بھیجی تھی۔
 

جیہ

لائبریرین
خلیل صاحب کی اچھی کاوش ہے۔ جین کے کتاب کا جواب ضروری تھا۔

کیا اس کی پروف ریڈنگ ہوچکی ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
کچھ حد تک پروف ریڈنگ کر چکا ہوں۔ کچھ باقی ہے۔ بریکٹس وغیرہ اب بھی گڑبڑ ہیں۔ کبھی ورڈ میں درست نظر آتے ہیں لیکن یہاں الٹے ہو جاتے ہیں۔ مکمل دیکھنے کے بعد وکی میں‌پوسٹ کروں گا۔ اگرچہ میں اب بھی وہاں مطمئن نہیں ہوں۔
 

جیہ

لائبریرین
اگر آپ کے پاس وقت نہ ہو تو مجھے بھیج دیں ۔ میں کردوں گی۔ بریکٹس کا مسئلہ میرے پاس بھی آتا ہے ورڈ میں
 

قیصرانی

لائبریرین
بریکٹس الٹے لگائیں گے تو ادھر آ کر سیدھے ہو جائیں گے۔ ورنہ ورڈ کا فائنڈ‌اینڈ ری پلیس استعمال کریں
 

الف عین

لائبریرین
’’ ایک بھاشا جو مسترد کردی گئی‘‘ کی تقریبِ رونمائی میں عالموں اور دانشوروں کا اظہارِ خیال ۲۲/ جولائی ۲۰۰۷ ء کو ۱۱ بجے دن میں ابن سینا اکیڈمی، علی گڑھ کے زیرِ اہتمام پروفیسر گیان چند جین کی تصنیف ’’ایک بھاشا :دو لکھاوٹ، دوادب‘‘ کے رد میں پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ کی لکھی ہوئی کتاب ’’ایک بھاشا جو مسترد کردی گئی‘‘ کی رسمِ اجراء کی پروقار تقریب منعقد ہوئی جس کی صدارت پروفیسر ریاض الرحمٰن خاں شروانی نے فرمائی۔ تقریب کا آغاز ابنِ سینا اکیڈمی کے ڈائرکٹر پروفیسر حکیم سیدظل الرحمن کے خیر مقدمی کلمات سے ہوا۔ انھوں نے بھوپال میں پروفیسر گیان چند جین کے ساتھ اپنے دیرینہ مراسم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ انھیں ہمیشہ نہایت قدر و منزلت کی نگا ہ سے دیکھتے تھے اور اردو زبان وادب کی گرانمایہ شخصیت سمجھتے تھے،لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ امریکہ جانے کے بعد انھوں نے ’’ایک بھاشا:دو لکھاوٹ، دوادب‘‘ کے نام سے ایک دل آزار اور متنازع فیہ کتاب لکھ دی جس میں اردو زبان و ادب کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی برا بھلا کہا گیا ہے۔ ظلِ الرحمن صاحب نے مہمانوں اور حاضرین کا خیر مقدم کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگر چہ جین صاحب کی کتاب پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے ، لیکن پروفیسر مرزاخلیل احمد بیگ نے جس سنجیدگی اور متانت کے ساتھ معروضی حقائق کی روشنی میں پروفیسر جین کی باتوں کا جواب اپنی کتاب’’ ایک بھاشا جو مسترد کردی گئی‘‘ میں دیا ہے وہ لائقِ ستائش ہے۔ خیر مقدمی کلمات کے بعد ڈاکٹر قمرالہدیٰ فریدی نے ’’ایک بھاشا جو مسترد کردی گئی‘‘ پر پروفیسر صغرا مہدی کا لکھا ہوا جامع تبصراتی مضمون پڑھ کر سنایا جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ’’جین صاحب اپنی بیماری اور طویل العمری کی وجہ سے وہ سب باتیں لکھ گئے ہیں جن کا کتاب کے موضوع سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑھاپے میں بہت سی لاشعور کی باتیں شعورمیں آجاتی ہیں ‘‘۔ صغرا مہدی نے اپنے مضمون میں یہ بھی کہا کہ ’’ اس کتاب کو پڑھ کر یہ گمان گذرتا ہے کہ یہ جین صاحب کی بڑھاپے کی غلطی ہے۔‘‘ مرزا خلیل احمد بیگ کی کاوش کی داد دیتے ہوئے انھوں نے اپنے مضمون میں اس بات کا ذکر کیا کہ ’’ یہ ضروری تھا کہ جین صاحب کی کہی ہوئی باتوں اور ان کی تھیوریز کا مدلل جواب تاریخی اور لسانی تناظر میں دیا جائے۔ بیگ صاحب کی کتاب’’ ایک بھاشا جو مسترد کردی گئی‘‘ نے اس ضرورت کو بحسن و خوبی پورا کیا ہے ‘‘ ۔انھوں نے اپنے مضمون میں یہ بھی کہا کہ بیگ صاحب نے یہ کتاب لکھ کر’’ یہ نظیر پیش کی کہ عالموں ،محققوں اور نقادوں کی تنقید کا معیار کیا ہونا چاہئے‘‘۔ بقولِ صغرا مہدی ’’ ایک بھاشا جو مسترد کرد گئی ‘‘ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مصنف نے سنجیدگی اوراستدلال کو ہر جگہ ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔ اس تقریبِ رونمائی کے پہلے مقرر پروفیسر قاضی افضال حسین نے اپنی نہایت پرُ مغز تقریر میں گیان چند جین کے اس لسانی نظریے کو رد کردیا کہ اردو اور ہندی ایک زبانیں ہیں ۔ انھوں نے مرزا خلیل احمد بیگ کے اس موقف کی کہ ارد واور ہندی دو علاحدہ ، آزاد اور مستقل زبانیں ہیں ، تائید کرتے ہوئے ان دونوں زبانوں کے درمیان فرق کو کئی مثالوں سے واضح کیا اور کہا کہ اگرچہ بول چال کی سطح پریہ دونوں زبانیں ایک دوسرے کے بہت قریب آجاتی ہیں ،لیکن ان دونوں زبانوں میں ہرسطح پر نمایاں فرق پایاجاتا ہے۔ اس لیے اردو اور ہندی کو ایک زبانیں قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ انھوں نے ہندی جارحیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اردو کو ہندی کی شیلی کہنا ہندوستان کی اردو بولنے والی لسانی اقلیت کے وجود سے انکار کرنا ہے۔ انھوں نے نہایت دلچسپ انداز میں کہا کہ باہر سے آنے والے مسلمانوں نے کھڑی بولی کو جو دہلی اورنواحِ دہلی کی بولی تھی حسن عطا کیا اور اسے جمال بخشا تب کہیں جاکر یہ اردو کہلائی۔ قاضی صاحب نے ایک ’’بھاشا جو مسترد کردی گئی‘‘ کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ بیگ صاحب نے اپنی اس کتاب میں ان لسانی مسائل کو سنجیدگی اورعلمی دیانت داری کے ساتھ بحث کاموضوع بنایا ہے جن کوجین صاحب نے اپنی کتاب میں غلط ڈھنگ سے پیش کیا ہے اور جن پرتبصرہ نگاروں نے بہت کم توجہ دی ہے۔ زبان اور بولی کے فرق پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے قاضی افضال حسین نے کہا کہ جنھیں اہلِ ہندی بولی کہتے ہیں ،مثلاً اودھی ، بھوجپوری ، برج بھاشا، میتھلی وغیرہ وہ دراصل زبانیں ہیں ،لیکن سیاسی مصلحت کی بنا پر انھیں ہندی کی بولی کہاجاتاہے۔ اردو کھڑی بولی پر ضرور قائم ہے لیکن یہ نہ تو بولی ہے اور نہ شیلی۔یہ ہندی سے علاحدہ زبان ہے ۔یہ ایک ترقی یافتہ اور معیاری زبان بھی ہے،اور ادبی لحاظ سے بھی یہ ایک نہایت متمول زبان ہے جس کا اپنا رسمِ خط ہے۔ پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے اپنی نہایت مربوط اور مدلل تقریر میں کہا کہ’’ ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب‘‘ کو پڑھ کرایسا محسوس ہوتا ہے کہ جین صاحب پرہندوقومیت کا گویاکوئی قرض تھا جسے انھوں نے یہ کتاب لکھ کراتارنے کی کوشش کی ہے۔ قاسمی صاحب نے بیگ صاحب کی اس بات کے لیے ستائش کی کہ انھوں نے جین صاحب کی فرقہ واریت کو اپنی کتاب ’’ایک بھاشا جو مسترد کردی گئی‘‘ کے ایک الگ باب میں بیان کیا ہے، اور بقیہ ابواب میں صرف لسانی نکات پر ہی تفصیل سے بحث کی ہے اور فورٹ ولیم کالج میں اردو کی اہمیت اور وقعت پر بھی بھر پور روشنی ڈالی ہے۔ قاسمی صاحب نے اس حقیقت کابھی اظہارکیا کہ فورٹ ولیم کالج میں ہندوستانی،ہندی،اورہندوی اردو کے ہی الگ الگ نام تھے لیکن ان کا رسم خط ایک تھایعنی اردو رسم خط۔ قاسمی صاحب نے یہ بھی کہا کہ ہندی والوں نے بولی (Dialect) کی روایت کو اپنے ادب میں شامل کرکے ہندی کی تاریخ کو وسعت دے دی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان کھڑی بولی ہندی سے کئی سو سال پہلے معرضِ وجود میں آچکی تھی۔ قاسمی صاحب نے بیگ صاحب کو دادوتحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے علمی سطح پر نہایت توازن کے ساتھ جین صاحب کی کتاب کا جواب دیا ہے۔ اہلِ اردو ان کے شکر گزار ہیں ۔ پروفیسر فرحت اللہ خاں نے اپنی عالمانہ تقریر میں گیان چندجین کی فرقہ واریت پر تفصیل سے اظہارِخیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کتاب کی بنیاد کمیونلزم پر ہے اور اس میں علمی باتیں بہت کم ہیں ۔ اس کے علاوہ جو زبان انھوں نے استعمال کی ہے وہ نہایت غیر مہذب ہے، علمی زبان نہیں ہے۔ جین صاحب کی کتاب سے مثالیں پیش کرتے ہوئے فرحت اللہ خاں نے کہا کہ اردو اکابرین کے بارے میں اتنی گندی اور بھونڈی زبان کسی اہلِ علم کی نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اس کتاب کو علمی دائرے میں نہیں لایا جاسکتا۔ انھوں نے مرزا خلیل احمد بیگ کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے نہایت سلجھے ہوئے انداز میں اور ادب واحترام کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے مستند حوالوں اوردلیلوں کے ساتھ جین صاحب کی باتوں کا جواب دیا ہے جس کے لئے انھیں مبارک باد دی جانی چاہیے۔ پروفیسرمیرزا سعید الظفرچغتائی نے اپنی جامع تقریر میں کہاکہ انھوں نے جین صاحب کی کتاب’’ ایک بھاشا:دو لکھاوٹ، دوادب ‘‘ پڑھناشروع کردی ہے۔ اسے پڑھنے کے بعد ہی اس کے بارے میں کوئی مثبت یا منفی رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ لیکن شمس الرحمن فاروقی کے تبصرے اور مرزا خلیل احمد بیگ کی کتاب ’’ ایک بھاشا جو مسترد کردی گئی‘‘ کو پڑھ کرتو یہی کہا جاسکتا ہے کہ جین صاحب نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہندی اردو کے مسئلے کواٹھایا ہے اوراردوپر ہندی کے زمانی تقدم کوثابت کرنے کی کوشش کی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اردو کھڑی بولی ہندی سے قدیم تر زبان ہے کیوں کہ اس کی ادبی روایات ہندی سے کئی سو سال پرانی ہیں اور اس کا ادبی سرمایہ کافی قدیم اور دقیع ہے۔ اوراس کے حوالے بیگ صاحب کی کتاب میں کئی جگہوں پر ملتے ہیں ۔ آخر میں ’’ایک بھاشا جو مسترد کردی گئی‘‘ کے مصنف پروفیسرمرزا خلیل احمد بیگ کو اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ بیگ صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ ڈیڑھ سال قبل جب انھوں نے جین صاحب کی کتاب ’’ایک بھاشا :دو لکھاوٹ، دوادب ‘‘ کا بالاستیعاب مطالعہ کیا تو ان کے ذہن میں تین طرح کے رد ہائے عمل پیدا ہوئے۔ سب سے پہلا ردِعمل تو یہ تھا کہ یہ کتاب یک طرفہ اور یک رخے انداز سے لکھی گئی ہے اور اس میں حد درجہ جانب داری سے کام لیا گیا ہے ،نیز فرقہ وارانہ خیالات اور منفی طرزِ فکرکو بھی اس میں جگہ دی گئی ہے۔دوم یہ کہ یہ کتاب صریحاً اردو اور مسلمانوں (بالخصوص اردو بولنے والے مسلمانوں )کے خلاف لکھی گئی ہے اور ہندی کی بیجا پاسداری کی گئی ہے۔ تیسرے ردِ عمل کے طور پر بیگ صاحب نے یہ محسوس کیا کہ تحقیقی نقطئہ نظر سے بھی یہ ایک کمزور کتاب ہے کیوں کہ بنیادی مآخذ سے استفادہ کرنے کے بجائے دوسروں کی تحقیق پر اکتفا کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں غلط بیانی اور دروغ گوئی سے بھی کام لیا گیاہے، نیز حقائق کی پردہ پوشی کی گئی ہے۔ان سب باتوں کے علاوہ تضادات (Contradictions) سے بھی یہ کتاب پرُ ہے۔بیگ صاحب نے بتایا کہ انھیں ’’ایک بھاشا جو مسترد کردی گئی‘‘ لکھنے کی تحریک انھیں سب باتوں سے ملی۔ اگر وہ یہ کتاب نہ لکھتے تو اپنے فرض سے کوتاہی کرتے ۔ اپنے خطاب میں مرزا خلیل احمد بیگ نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ جین صاحب شدید طور پر علیل ہیں اور پورٹرول (کیلی فورنیا) کے اولڈ ایج ہوم میں قیام پذیر ہیں ،تاہم وہ اپنی متنازع فیہ کتاب پر جاری بحث و مباحثے میں سرگرمی سے حصہ لے رہے ہیں ۔ چند ماہ قبل ادارئہ ادبیاتِ اردو، حیدرآباد کے ترجمان ’’سب رس‘‘ میں انھوں نے ایک مضمون بعنوان’’مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں ‘‘ شائع کروایا ہے جس میں علمی باتیں تو کم کہی گئی ہیں ،اردو کے جلیل القدر ادیب و نقاد شمس الرحمن فاروقی کی کردار کشی زیادہ کی گئی ہے اوران کی ذات اور شخصیت کوہدفِ ملامت بنایا گیا ہے۔فاورقی صاحب کا قصور صرف اتناہے کہ انھوں نے جین صاحب کی کتاب پر دوٹوک انداز میں بے لاگ تبصرہ لکھ دیا تھا۔ بیگ صاحب نے یہ بھی کہا کہ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جین صاحب کے متذکرہ مضمون کا رام پرکاش کپور نے نہایت مدلل اور مستحکم جواب دیا ہے جو ’’سب رس‘‘ کے علاوہ اردو کے کئی اوررسائل میں بھی شائع ہوا ہے۔ پروفیسر ریاض الرحمن خاں شروانی نے اپنے صدارتی کلمات میں فرمایا کہ بیگ صاحب نے بیحد متوازن طور پر جین صاحب کی کتاب کا جواب دیاہے۔ یہ محض جواب برائے جواب نہیں ہے بلکہ کافی تحقیق اور چھان بین کے بعد یہ کتاب لکھی گئی ہے۔ شروانی صاحب نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی کے تبصرے کے بعدجین صاحب کی کتاب کے بارے میں یہ دوسری ا ہم تحریر سامنے آئی ہے۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ مرزاخلیل احمد بیگ کی یہ کتاب علمی حلقوں میں قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھی جائے گی اور محققین بھی اس سے استفادہ کریں گے۔ پروفیسر افتخار عالم خاں کے شکریہ کے ساتھ یہ شاندارتقریبِرونمائی اختتام پذیر ہوئی۔رپورٹ : مہر الٰہی ندیم (علیگ)
 

جیہ

لائبریرین
کتاب کی پروف ریڈنگ شروع ہوچکی ہے ۔ اب تک دیباچہ اور 3 ابواب کی پروف ریڈنگ مکمل کرچکی ہوں۔ ٹائپنگ کی غلطیاں کم ہیں‌البتہ زاید سپیس دینے یا نہ دینے کی غلطیاں کافی ہے، جیسے اہلِ‌اردو " اہلِاردو" ٹائپ ہوا ہے یا ازمنہ "از منہ"
 

جیہ

لائبریرین
بابا جانی میں 7 دن میں ہی پروف ریڈنگ مکمل کرکے فائل آپ کے جی میل والے ایڈرس پر بھیج دی ہے
 
Top