ایک بلوچی کی ایک دہائی پر مبنی جدوہد کی روداد جو اس نے اپنے چچا کو ایجنسیوں سے چھڑوانے کے لئے کی!

سید ذیشان

محفلین
ربط

’آدمی کئی طریقوں سے مر سکتا ہے‘


محمد حنیف
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

’آدمی کئی طریقوں سے مر سکتا ہے‘ یہ کوئٹہ ڈگری کالج کے سابق طالبِ علم انتیس سالہ نصراللہ بنگلزئی نے ملٹری انٹیلیجینس کے ایک کرنل کو بتایا۔ نصراللہ بنگلزئی اپنے گم شدہ چچا علی اصغر بنگلزئی کی رہائی کے لیے کافی عرصے تک مہم چلاتا رہا تھا۔ پانچ برسوں تک عدالتوں میں اپیلوں، احتجاجوں اور کاوشوں کے بعد اسے کوئٹہ کنٹونمنٹ میں ملٹری انٹیلیجینس کے افسران سے ملاقات کے لیے مدعو کیا گیا۔ ملاقات میں سات یا آٹھ اور افسران بھی موجود تھے، جو تمام میجر یا کیپٹن تھے۔ ’اگر میرے چچا زندہ ہیں تو میں ہمت نہیں ہاروں گا۔ کوئی شخص بھی اپنے لوگوں کو ایسے نہیں چھوڑ سکتا۔ ہو سکتا ہے میرے چچا طبعی وجوہات کی بنا پر فوت ہو گئے ہوں۔ ہو سکتا ہے آپ لوگوں نے ان پر تشدد کرکے انھیں مار ڈالا ہو۔ میں آپ سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ مجھے ان کی قبر تک لے جائیں۔ میں قبر کھودوں گا، ان کی شناخت کروں گا، فاتحہ پڑھوں گا اور پھر کبھی آپ کو تنگ نہیں کروں گا۔‘
نصراللہ بنگلزئی کو کرنل ظفر نے ملاقات کے لیے اس لیے بلایا تھا کیونکہ اس کی ان تھک مہم اور کوئٹہ پریس کلب کے باہر اس کا مستقل احتجاجی کیمپ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لیے پریشانی کے باعث بنے ہوئے تھے۔ کرنل ظفر نے نصراللہ کو بتایا کہ ’یہ بنیادی طور پر آئی ایس آئی کا کیس ہے، لیکن ہمارے آئی ایس آئی کے دوستوں سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ گم شدہ افراد کے اہلِ خانہ سے کوئی رابطہ نہ رکھیں۔اور اب ہم سے یہ کہا گیا ہے کہ ہم اس مسئلے کو حل کریں۔ آپ لوگ ہمارے پاس پہلے کیوں نہیں آتے؟‘ نصراللہ نے اسے یہ یاد دلانے کی کوشش کی کہ کوئی بھی ملٹری انٹیلیجینس کے دفاتر میں یونہی چلتے ہوئے نہیں آ سکتا۔ اس نے کرنل کو یاد دلایا کہ اس کے والد یعنی گم شدہ چچا کے بھائی داد خان کو کئی مرتبہ کنٹونمنٹ کے گیٹ سے واپس بھجوایا جا چکا ہے۔
’ کیا تم گورنر سے ملتے رہے ہو؟‘ کرنل ظفر نے اس سے پوچھا۔ ہاں وہ گورنر سے ملتا رہا تھا۔ یہ ملاقات کم از کم سات مرتبہ ہو چکی تھی۔ ’اور کیا تم اسے یہ کہتے رہے ہو کہ آئی ایس آئی کے مقامی کمانڈر کو گورنر ہاؤس طلب کیا جائے؟‘۔ ہاں وہ ایسا کرتا رہا تھا۔ ’وہ تو یہاں موجود میرے سب سے جونیئر کیپٹن کو بھی طلب نہیں کر سکتا۔ وہ یہ جانتا ہے اور تمھیں بھی جان لینا چاہیے۔‘
ملاقات تین گھنٹے جاری رہی۔ نصراللہ نے اس دوران وہ تمام شواہد پیش کیے جو اس نے اپنی پانچ سال کی بے کار تلاش میں اکٹھے کیے تھے۔ اس کے پاس کاغذات کا ایک پلندا موجود ہے، عدالتی احکامات، سابق گم شدہ افراد کے حلفیہ بیانات، ارکانِ قومی اسمبلی کی گواہیاں کہ انھیں فوج کے سینئر حکام نے یقین دلایا ہے کہ چچا علی اصغر کو کچھ روز میں رہا کر دیا جائے گا۔ کرنل ظفر نے کسی بھی مرحلے پر اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کی کہ علی اصغر ان کی تحویل میں ہے۔‘ مجھ پر اس کا غصہ بڑھتا ہی جا رہا تھا،’ نصراللہ نے بتایا جو ایک واضح جواب سننے کے لیے بے تاب تھا۔ ’ہو سکتا ہے آپ لوگوں نے اسے مار دیا ہو اور کسی ایسی جگہ دفنا دیا ہو جہاں رسائی ممکن نہ ہو۔ ہو سکتا ہے آپ مجھے ان کی قبر تک نہ لے جا سکتے ہوں،‘ نصراللہ نے اسے کہا۔ ’اگر ایسا ہے تو قرآن لائیں، اس پر ہاتھ رکھیں اور مجھے سچ بتا دیں۔ پھر میں آپ کو کچھ نہیں کہوں گا۔’ کرنل ظفر، نصراللہ کی جذبانی اپیلوں سے متاثر نہ ہوا۔‘ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
"​
ہم ایک مشین ہیں۔ ہم جذبات سے عاری ایک مشین ہیں۔’ نصراللہ بھی پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا۔ ’لیکن یہ حقیقت کہ آپ نے مجھے یہاں ملاقات کے لیے بلایا ہے بتاتی ہے کہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کو تشویش ضرور ہے۔‘
کرنل ظفر نے، جو واضح طور پر تنگ آ چکا تھا، اپنا موقف دہرایا کہ یہ درحقیقت آئی ایس آئی کا معاملہ تھا اور وہ تو صرف مدد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور مدد کرنے کی کوشش کیسے کر رہا تھا؟ نصراللہ بنگلزئی کو یہ کہہ کر کہ وہ اپنی بکواس بند کردے۔ فوجی انداز کی رجائیت کا واحد ٹکڑا ،جو نصراللہ تین گھنٹے کی اس ملاقات سے حاصل کر پایا ،یہ تھا کہ کرنل ظفر نے اسے بتایا: ہم اتنے بھی برے نہیں۔ اگر ہم تمہارے چچا کو قتل کردیں گے تو تمہیں اس کی لاش کہیں نہ کہیں مل جائے گی۔
اس ملاقات کو چھ سال ہو چکے۔ علی اصغر کے اہلِ خانہ کو اب تک اس کی لاش نہیں ملی۔ اس کا انتظار کرتے کرتے انھیں گیارہ سال ہو چکے ہیں۔
علی اصغر بنگلزئی سریاب روڈ کوئٹہ کے قریب ڈی فرنچ ٹیلرز کے نام سے درزی کی ایک دکان چلاتا تھا۔ اس کا بھتیجا نصراللہ دکان پر موجود تھا جب سن دو ہزار میں علی اصغر کو پہلی مرتبہ اٹھایا گیا۔ پولیس کی دو پک اپ آئیں، جن کے پیچھے سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد سے بھری تین جیپیں تھیں۔ انھوں نے علی اصغر کے ہاتھ باندھ دیے اور اسے ایک لینڈ کروزر کے پچھلے حصے میں دھکیل دیا۔ جب مارکیٹ میں لوگ اکٹھے ہو گئے تو ایک چالیس سالہ شخص نے اعلان کیا: ہم ایجنسیوں کے آدمی ہیں اور اسے تفتیش کے لیے لے جا رہے ہیں۔ وہ کچھ دیر بعد واپس آ جائے گا۔
علی اصغر بلاشبہ چودہ روز بعد واپس لوٹ آیا۔ اس پر تشدد کیا گیا تھا، اسے برقی جھٹکے دیے گئے تھے اور ایک اجنبی مقام پر الٹا لٹکایا گیا تھا۔ علی اصغر ایک سیاسی کارکن تھا اور خیر بخش مری کی سیاسی جماعت حق توار کا رکن تھا۔ انھوں نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور اسے ایک کنویں میں الٹا لٹکا دیا۔ ’وہ وہاں کھڑے ہو گئے اور خدا کی قسم کھا کر بولے کہ اگر میں خیر بخش مری کے خلاف ہو جانے پر آمادہ نہ ہوا تو وہ رسی کاٹ دیں گے،‘ علی اصغر نے اپنی رہائی کے بعد یہ سب اپنے لاڈلے بھتیجے نصراللہ کو بتایا۔
نصراللہ کے مطابق ’اپنی مصیبت سے رہائی کے بعد جب وہ واپس آئے تو ان کی حالت عجیب تھی۔ ان کے ہاتھ اتنے لرزنے لگے کہ کبھی کبھی تو وہ سگریٹ بھی نہیں پکڑ سکتے تھے۔کبھی کبھی وہ رات کو کپکپاتے ہوئے نیند سے بیدار ہو جاتے اور ان کے ہاتھ اور پیر سوجے ہوئے ہوتے۔ ہم انھیں ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئے اور ڈاکٹر نے کہا کہ انھیں کسی کیمیکل کا انجکشن لگایا گیا ہے جس سے ان کا اعصابی نظام تباہ ہو گیا ہے۔‘
علی اصغر نے پھر سے ڈی فرنچ ٹیلرز میں کام شروع کر دیا لیکن اس دوران اسے یہ خدشہ رہتا کہ وہ لوگ اس کی تلاش میں دوبارہ آئیں گے۔ انھوں نے اسے مایوس نہیں کیا۔ وہ ڈگری کالج ہوسٹل میں اپنے ایک دوست سے مل کر آ رہا تھا کہ انھوں نے اسے روکا، آنکھوں پر پٹی باندھی، اس کے دوست اقبال کو ایک اور جیپ میں بٹھایا اور دونوں کو لے کر چلتے بنے۔
’انھوں نے مجھے ایک زیرِ زمین سیل میں رکھا،‘ اقبال نے بتایا جسے چوبیس روز بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ ان پر تشدد فوری طور پر شروع کر دیا گیا تھا۔ چار روز بعد اقبال نے آوازیں سنیں۔ ’اٹھ جاؤ علی اصغر نماز کا وقت ہو گیا۔ ’اس سے اس نے یہ اندازہ لگایا کہ علی اصغر ساتھ ہی کے ایک سیل میں موجود ہے۔‘ پھر ایک روز انھوں نے مجھے بتایا کہ علی اصغر نے یہ اقبالِ جرم کر لیا ہے کہ وہ ایک غیر ملکی ایجنٹ ہے۔

اور مجھے بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔’اقبال نے وہاں ایک قسم کی بھوک ہڑتال شروع کردی۔ کچھ روز بعد اسے اپنے گردوں میں شدید درد ہوا۔ ’درد اتنا شدید تھا کہ میں صبح سے شام تک اپنا سر دیوار سے مارتا رہا۔ ’انھیں اس پر ترس آ گیا اور وہ ایک ڈاکٹر کو بلا لائے۔‘ ڈاکٹر نے انھیں بتایا کہ اگر مجھے صحیح ٹریٹمنٹ نہ ملی تو میں مر جاؤں گا، یا پھر زندگی بھر کے لیے معذور ہو جاؤں گا۔‘ انھوں نے اسے دوا دی اور رہائی کا وعدہ کیا۔ اپنے اغوا کے چوبیس روز بعد اقبال کو رہا کر دیا گیا۔
وہ گھر آیا اور علی اصغر کی اطلاع دی۔ وہ ان تین لوگوں میں سے ایک تھا جو علی اصغر سے متعلق خبر لائے۔
جب علی اصغر کو اٹھایا گیا تھا تو اس کے سب سے بڑے بیٹے کی عمر بارہ سال تھی۔ اس کا سب سے چھوٹا بیٹا چھ ماہ کا تھا جبکہ ان کے آٹھ بچے تھے۔
نصراللہ نے وہی کیا جو بلوچستان میں ہر وہ شخص کرتا ہے جس کے خاندان کا کوئی رکن اغوا کر لیا جاتا ہو۔ وہ سریاب روڈ تھانے گیا اور ایک ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی۔ وہ انٹیلیجینس ایجنسیوں کو اغوا کاروں کے طور پر نامزد کرنا چاہتا تھا۔ ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ وہ ہائی کورٹ گیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ ایف آئی آر درج کرلی جائے۔ ایف آئی آر تب بھی درج نہیں کی گئی۔
اقبال صدمے اور دہشت کا شکار تھا اس لیے نصراللہ اسے صرف ایک مرتبہ عدالت اور ایک مرتبہ ایک پریس کانفرنس میں لے کر گیا۔ وہ بستر سے لگ گیا۔ وہ مدد کرنا چاہتا تھا اور اس نے کی بھی، لیکن نصراللہ اسے زیادہ مجبور نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ پھر سے بلوچستان ہائی کورٹ گیا جہاں ایک جج نے اسے بتایا کہ تم کیا سوچ رہے ہو؟ یہ لوگ وردی والے ہیں، ہم ان کے بارے میں کیا کر سکتے ہیں۔ جج نے پھر سے ایک فیصلہ دیا کہ ایف آئی آر درج کر لی جائے۔ لیکن علی اصغر کے اغوا کے ایک سال بعد بھی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ ایف آئی آر کے اندراج کے لیے علی اصغر کے اہلِ خانہ کو مزید نو سال انتظار کرنا پڑا۔
سال دو ہزار تین میں نصراللہ کے اہلِ خانہ کور کمانڈر کوئٹہ تک رسائی میں کامیاب ہو گئے جو اتفاق سے ایک بلوچ تھا۔ عبدالقادر بلوچ ،جو اب مسلم لیگ ن کے رکنِ قومی اسمبلی ہیں۔ وہ مددگار ثابت ہوئے۔ فوج کے دو افسران علی اصغر کے اہلِ خانہ سے ملے اور کہا کہ ہاں آپ کا آدمی ہمارے پاس ہے۔ اگلے پندرہ روز مزید انتظار کرو، وہ آپ کے پاس واپس آ جائے گا۔ لیکن ہوا پھر بھی کچھ نہیں۔
وردی والوں سے مایوس ہونے کے بعد علی اصغر کے اہلِ خانہ نے سیاست کی طرف دیکھا۔ ’ہم نے مدد کے لیے حافظ حسین احمد سے کہا۔ ہم نے انھیں کہا کہ وہ ہمارے نمائندے ہیں۔ اگر وہ ہماری مدد نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔‘
حافظ حسین احمد متاثر ہوئے۔ انھوں نے فون اٹھایا اور کسی بریگیڈئر صدیق کو ملایا جو کوئٹہ میں آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ ’میرے دفتر آ جاؤ‘ انھیں بتایا گیا۔
نصراللہ، اس کے والد داد خان اور حافظ حسین احمد کو بریگیڈئر صدیق کے دفتر میں چائے پیش کی گئی۔ اس نے کرنل بنگش کو بلایا اور اسے کہا کہ علی اصغر کی فائل لائی جائے۔
کرنل ایک فائل لے کر آیا۔ بریگیڈئر صدیق نے کچھ منٹوں تک اس کا مطالعہ کیا، پھر سر اٹھایا اور وہ کہا جو نصراللہ اگلے آٹھ برسوں تک دہراتا رہے گا۔ ’مبارک ہو‘، بریگیڈئر صدیق نے کہا۔ ’آپ کا آدمی ہمارے پاس ہے۔ وہ زندہ ہے اور ٹھیک بھی۔ ہم نے اسے مشتبہ سمجھ کر پکڑا تھا۔ بس اس سے کچھ سوال پوچھ رہے ہیں ہم۔‘
حافظ حسین احمد بولے۔ ’اگر اس نے ریاست کے خلاف کچھ کیا ہے، اگر آپ کو شبہ ہے کہ اس نے کچھ کیا ہے، تو میں اس کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہوں گا۔ آپ اپنی تفتیش جاری رکھیں، اور جتنا چاہیں وقت لے لیں۔‘
اگلے ایک برس تک بریگیڈئر صدیق ہر ماہ علی اصغر کے اہلِ خانہ سے ملتا رہا۔ تفتیش اب بھی جاری تھی۔ اہلِ خانہ نے علی اصغر سے ملاقات کی تاکہ انھیں اس کے وجود کی کوئی گواہی مل سکے۔ انھیں کہا گیا کہ وہ علی اصغر کے لیے کچھ کپڑے لے آئیں۔ یہ بات اہلِ خانہ کے لیے بڑی حوصلہ افزا تھی۔ اگر آئی ایس آئی کا مقامی سربراہ آپ سے اپنے گم شدہ چچا کے لیے کپڑے لانے کا کہتا ہے تو یقینا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا چچا نہ صرف زندہ ہے بلکہ اتنا ٹھیک بھی کہ کپڑوں کے ایک نئے جوڑے کا استحقاق رکھ سکے۔
انھیں بتایا گیا کہ کچھ نہ کچھ ہو رہے گا، اور بدلے میں ان سے خاموش رہنے کو کہا گیا۔ انھیں بریگیڈئر کے اختیارات کی ایک جھلک دکھلائی گئی۔ ایک روز نصراللہ بریگیڈئر کے دفتر میں بیٹھا تھا جب اس کے اسٹاف نے اسے اطلاع دی کہ ایک وزیر اسے ملنے آیا ہے۔ بریگیڈئر صدیق نے اپنے اسٹاف سے کہا کہ اسے بتادیں کہ وہ مصروف ہے اور وزیر سے مل نہیں سکتا۔ پھر وہ نصراللہ کی جانب مڑا اور کہا۔ ’دیکھو تم میرے دفتر میں بیٹھے ہو اور ایک وزیر کمرے میں نہیں آ پا رہا۔ اب اپنا احتجاج اور عدالت میں دائر اپنا مقدمہ ختم کر دو۔‘ نصراللہ کے پاس صرف دو سوال تھے کہ آپ نے مجھے تفتیش سے متعلق جو بتایا تھا اسے ایک سال ہو گیا۔ تفتیش میں کتنا عرصہ لگتا ہے؟ اور اگر تفتیش اب بھی جاری ہے تو کیا علی اصغر سے رابطے کا کوئی طریقہ ہو سکتا ہے، چاہے کوئی فون کال ہی سہی۔ اچھے بریگیڈئر صاحب اس پر آمادہ ہو گئے۔ بتایا گیا کہ آپ کے گھر ایک فون آئے گا۔ نصراللہ کے اہلِ خانہ کے پاس گھر میں کوئی فون نہیں تھا۔ اس نے اپنے پڑوسی کا فون نمبر دیا، اور یہ بنگلزئی خاندان کی بدقسمتیوں کی ذیل میں ایک اور قدم ثابت ہوا۔ فون آیا، اور فون کرنے والوں نے کہا کہ وہ فوج کی طرف سے بات کر رہے ہیں، کیا آپ کے پڑوسی داد خان سے بات ہو سکتی ہے۔ فون اٹھانے والا شخص خوف زدہ ہو گیا اور اس نے فون رکھ دیا۔ اگر آپ کسی ایسے شخص کے پڑوسی ہوں جو تین سال سے گم شدہ ہو تو فوج کے نامعلوم کالر کی جانب سے اس پڑوسی کے اہلِ خانہ کا پوچھنے پر ڈرنے کے بعد آپ کو معاف کیا جا سکتا ہے۔

بریگیڈئر صدیق سن دو ہزار چار میں ریٹائر ہو گئے اور اچانک منظر سے غائب بھی۔ ایک نیا بریگیڈئر آیا جس نے نصراللہ سے ایک ملاقات کی اور کہا کہ ابھی اس نے ٹھیک طریقے سے چارج نہیں سنبھالا اور جب وہ ایسا کر پائے گا تو نصراللہ سے رابطہ کرے گا۔ نئے بریگیڈئر نے اس پہلی ملاقات کے بعد سے اس کی فون کال سننا بھی گوارا نہیں کی۔
کوئٹہ میں ان کی امیدیں دھندلا رہی تھیں۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنے مصائب کے منبع کا رخ کریں ۔ حا فظ حسین احمد نے راول پنڈی میں ایک جنرل سے ان کی ملاقات کا وعدہ کیا۔ نصراللہ کے والد داد خان نے ہوائی جہاز کے چار ٹکٹوں کے لیے پیسے اکٹھے کیے اور وہ سب اسلام آباد پہنچ گئے۔ انھوں نے پارلیمنٹ لاجز میں حافظ حسین احمد کے کمرے میں قیام کیا۔ حافظ انھیں کسی جنرل ذکی سے ملوانے لے گئے جہاں انھوں نے اپنے مطالبات دہرائے۔ ہمارا آدمی آپ کے پاس ہے۔ آپ اس سے تفتیش میں مزید کتنا عرصہ لیں گے۔ جنرل ذکی نے فون اٹھایا اور کوئٹہ میں اپنے آدمی کو ملایا۔ جنرل ذکی کا پیغام واضح تھا کہ ہاں مسئلہ واقعی موجود ہے۔ مگر یہ مسئلہ راولپنڈی میں نہیں، کوئٹہ میں ہے۔ واپس جائیے، بریگیڈئر نثار آپ سے ملاقات کریں گے۔ وہ آپ کی مدد کریں گے۔ وہ واپس کوئٹہ آئے، بریگیڈئر نثار سے ملے جس نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔
نصراللہ نے دیگر گم شدہ افراد کے اہلِ خانہ کو اکٹھا کیا اور انھوں نے کوئٹہ پریس کلب کے باہر ایک احتجاجی کیمپ قائم کر لیا۔ وہ پھر سے بلوچستان ہائی کورٹ بھی گیا۔ ہائی کورٹ نے ایک مرتبہ پھر فیصلہ دیا کہ پولیس ایف آئی آر درج کرے۔ نصراللہ نے ایک پرانا عدالتی حکم پیش کیا جس میں یہی بات کہی گئی تھی۔ علی اصغر کے اغوا کے چار برس بعد بھی کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی تھی۔ ’کیا ہم انسان نہیں؟‘ نصراللہ نے ہائی کورٹ میں دلیل دی۔ ’آپ پولیس سے ایک سادہ سا مقدمہ کیوں درج نہیں کرا سکتے۔‘
اس وقت کے وزیرِاعلیٰ بلوچستان جام یوسف کو کوئٹہ میں احتجاجی کیمپ اپنی حکومت کے لیے بہت پریشان کن محسوس ہوا۔ وہ گم شدہ افراد کے مسئلے کو پریشان کن نہیں سمجھتے تھے تاہم صوبائی دارالحکومت کے عین وسط میں ان کے اہلِ خانہ کے کیمپ لگانے کو پریشان کن ضرور سمجھتے تھے۔ انھوں نے ایک پیش کش کی۔ احتجاج روک دو اور تمھارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ نصراللہ نے دیگر خاندانوں سے مشورہ کیا، ان سب نے انکار کر دیا۔ جام یوسف نے ایک اور فراخ دلانہ پیش کش کی کہ اپنے ٹینٹ لگے رہنے دو، لیکن احتجاج مت کرو۔ گھر میں ہی رہو، تمھارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ نصراللہ نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
انٹیلی جینس بیورو کے مقامی سربراہ نے مداخلت کی کوشش کی۔ اس کا مطالبہ بھی وہی تھا۔ ’احتجاجی کیمپ ختم کر دو، گھر جاؤ اور ہم تمھاری مدد کریں گے،‘ اس نے نصراللہ کو بتایا۔ ’مجھے لکھ کر دے دو اور میں احتجاج ختم کر دوں گا،‘ نصراللہ نے جواب دیا۔ آئی بی کے ڈائریکٹر نے کہا کہ اسے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر سے بات کرنا پڑے گی۔ اس نے فون اٹھایا، کال ملائی اور پھر انتظار ہی کرتا رہ گیا۔ دوسری جانب کسی نے فون ہی نہیں اٹھایا۔ آئی بی کا سربراہ چلایا اور غلیظ گالی دے کر کہ ’یہ میرا فون تک نہیں اٹھاتے اور پھر بھی مجھ سے توقع رکھتے ہیں کہ میں ان کے پیدا کیے ہوئے مسائل حل کر دوں گا۔ یہ لوگ ہمارا نام بدنام کر رہے ہیں۔‘
بلوچستان کے گورنر اویس غنی نے نصراللہ کو صبر سے سنا۔ ’گورنر نے مجھے بتایا کہ اس نے بریگیڈئر صدیق سے بات کی ہے جس نے انھیں بتایا کہ انھوں نے علی اصغر کو کبھی نہیں اٹھایا اور وہ ان کی تحویل میں نہیں ہے۔‘ کئی برس تک یہ بات تسلیم کرتے رہنے کے بعد پہلی بار حکومت کا ایک ذمہ دار شخص نصراللہ کو بتا رہا تھا کہ ان کے پاس اس کے چچا موجود نہیں۔ اویس غنی نے بھی وہی مطالبہ کیا جو باقی لوگ کر چکے تھے کہ احتجاج ختم کردو، گھر جاؤ نصراللہ نے اپنے خیال کے مطابق ایک سادہ سی تجویز پیش کی کہ بریگیڈئر صدیق اور کرنل بنگش کو بلائیے۔
انھیں میرے سامنے کہنے دیجیے کہ میرے چچا ان کے پاس موجود نہیں۔ انھیں میرے سامنے اس بات کی تردید کرنے دیجیے کہ انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ میرے چچا کو اٹھا چکے ہیں۔ یہ کام کر دیں اور آپ یہ مسئلہ آدھے گھنٹے میں حل کر سکتے ہیں۔ ’میں کور کمانڈر کو نہیں بلا سکتا، غنی نے کہا۔ ’لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ میں کسی کرنل یا بریگیڈئر کو ضرور طلب کر سکتا ہوں۔ میں کسی ملاقات کا اہتمام کروں گا۔‘
اس ملاقات کا اہتمام نہ کیا جا سکا۔ اس کے بجائے اسے ملٹری انٹیلیجینس کے مقامی دفتر طلب کیا گیا جہاں اس نے کرنل اور اس کے ساتھی افسروں کو بتایا کہ کوئی شخص اپنے لوگوں کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑ سکتا۔ ’آدمی کئی طریقے سے مر سکتا ہے،‘ اس نے انھیں بتایا اور مطالبہ کیا کہ اگر علی اصغر مر چکا ہے تو اسے اس کی قبر تک لے جایا جائے اور اگر وہ زندہ ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔ تین گھنٹے کی اس طویل ملاقات سے واحد واضح چیز جو وہ لے کر لوٹا وہ کرنل کا یہ دعویٰ تھا کہ اگر ہم اسے مار چکے ہوتے تو تمھیں اس کی لاش مل چکی ہوتی۔
ملٹری انٹیلی جینس کے ساتھ اس ٹاکرے کے بعد اسے گورنر اویس غنی سے ملاقات کے لیے بلایا گیا۔ گورنر کو اپنے اختیارات کی حدود کا اندازہ تھا اس لیے انھوں نے سچائی سے کام لیا۔ ’اگر تم اپنا احتجاج جاری رکھتے ہو تو میں تمھاری حفاظت کی بھی ضمانت نہیں دے سکوں گا،‘ گورنر غنی نے کہا۔ نصراللہ ششدر رہ گیا۔ ’میں وہاں بیٹھ گیا اور دس منٹ تک مجھ سے ایک لفظ بھی بولا نہیں گیا،‘ اس نے کہا۔ گورنر نے اس کی منت کی کہ وہ کچھ بولے۔ ’بیٹے، کچھ بولو۔‘ ایک مرتبہ تو نصراللہ تلخی سے بول ہی پڑا۔ ’میں نے اسے بتایا کہ میں ایک عام آدمی ہوں۔ آپ گورنر ہیں۔ ہم آپ کے گورنر ہاؤس میں بیٹھے ہیں اور آپ مجھے میرے تحفظ سے متعلق دھمکی دے رہے ہیں۔‘ گورنر غنی کے پاس سوائے اس کے اپنے دفاع میں کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا کہ نصراللہ اور اس کے ساتھی احتجاجی مظاہرین کی سرگرمیاں حکومت کے لیے بدنامی کا باعث بن رہی ہیں۔
وزارتِ داخلہ کا ایک اعلیٰ سطح کا افسر ہوائی جہاز کے ذریعے کوئٹہ آیا اور نصراللہ سے ملا۔ ’اس نے ہم سے وعدہ کیا کہ اگر ہم احتجاجی کیمپ ہٹا دیں تو وہ یہ بات یقینی بنائے گا کہ علی اصغر دو ہفتوں میں رہا کر دیا جائے۔ اس نے ہمیں بتایا کہ اسے کہیں بارڈر کے آس پاس رہا کیا جائے گا اور ہمیں بس یہ دعویٰ کرنا ہوگا کہ وہ اتنے برسوں تک بیرونِ ملک رہا تھا۔‘

گورنر غنی کی دھمکی اور وزارتِ داخلہ کے افسر کے وعدے نے کام کر دکھایا۔ نصراللہ نے دیگر خاندانوں سے رابطہ کیا اور احتجاجی کیمپ عارضی طور پر بند کر دیا گیا۔ دو مہینے گزر گئے۔ پھر چار مہینے گزر گئے۔ پھر وہ اپنے احتجاج کو اسلام آباد لے گئے، وہاں انھوں نے وزارتِ داخلہ کے اس آدمی سے رابطے کی کوشش کی جس نے علی اصغر کی رہائی کا وعدہ کیا تھا۔ ان پر یہ واضح ہو گیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا۔
علی اصغر کو کوئٹہ سے اٹھائے جانے کے دس سال بعد اس کے اغوا کی ایف آئی آر درج کر لی گئی۔ ایسا سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد کیا گیا۔ ایف آئی آر میں بریگیڈئر صدیق، کرنل بنگش اور اس وقت کے کور کمانڈر کوئٹہ عبدالقادر کو مرکزی ملزمان نامزد کیا گیا۔ تین ماہ پہلے سپریم کورٹ نے آئی جی بلوچستان کو حکم دیا کہ بریگیڈئر صدیق کو گرفتار کیا جائے۔ پولیس نے بیان جمع کرایا کہ اس نے خیبر پختونخوا کے سیکرٹری داخلہ کو خط تحریر کر دیا ہے جہاں بریگیڈئر صدیق ان دنوں قیام پذیر ہے۔ وہ خیبر پختونخوا کے سیکرٹری داخلہ کے جواب کی اب تک منتظر ہے۔
اگر ملزم بریگیڈئر کو گرفتار کر ہی لیا جاتا اور اس پر علی اصغر کے اغوا کا چارج باقاعدہ طریقے سے لگا دیا جاتا، تو کم از کم پہلا کام تو ہوتا۔ نصراللہ نے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ اپنی جدوجہد میں پچھلے دس برسوں کے دوران یہ معاملات بہت دیکھے ہیں۔ یہ عدلیہ سول بیوروکریٹوں اور صاحبِ اقتدار سیاست دانوں کو تو طلب کر سکتی ہے لیکن جب باری کسی حاضر سروس، حتیٰ کہ ریٹائرڈ فوجی افسر کی آتی ہے تو اس کے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ یہ وہ واحد لکیر ہے جسے اب تک ہماری طاقتور عدلیہ پار نہیں کر سکتی۔ ’اگر ایک منتخب وزیرِاعظم عدلیہ کی حکم عدولی کرتا ہے تو اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ عدلیہ اسے گھر بھیج دیتی ہے۔ لیکن وہ ایک ریٹائرڈ بریگیڈئر کو عدالت میں آ کر خود پر لگائے جانے والے الزامات کا سامنا کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔‘
نصراللہ اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ قتل کرکے پھینکنے کی پالیسی کے شکار افراد کے لیے انصاف حاصل کرنے اور مزید لوگوں کو غائب ہونے سے بچانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ قصور وار افراد کو عدالتوں تک لایا جائے۔ ’آپ تب تک انھیں روک سکتے جب تک میجر اور کرنل ہانک کر عدالت نہ لے آئے جائیں۔ ٹھیک ہے، اگر آپ انھیں سزا نہیں دے سکتے، انھیں جیل نہیں بھیج سکتے، ان کی ترقیاں ہی روک دیں۔ ان سے ان کے فوائد و استحقاق واپس لے لیں تو یہ سب اپنے گندے راز اگلنا شروع کر دیں گے۔ اور باقیوں کو بھی سبق ملے گا۔‘
دس برس قبل جب علی اصغر کو اٹھایا گیا تھا تو نصراللہ کی عمر تئیس برس تھی اور وہ کالج کا طالبِ علم تھا۔ علی اصغر کے آٹھ بچوں کو سنبھالنے اور اس کی رہائی کی مہم چلانے کے لیے اس نے کالج چھوڑ دیا۔ دس سال کی جدوجہد میں اسے صرف دو مرتبہ اپنے چچا سے متعلق فرسٹ ہینڈ معلومات حاصل ہوئیں، دونوں مواقع پر ان سیاسی کارکنوں کی جانب سے جو فوج کے تہ خانوں میں وقت گزار کر آئے تھے۔ قید میں ساڑھے سات سال گزار کر آنے والے گل محمد بگٹی نے علی اصغر کو کوئٹہ چھاؤنی کے ایک لاک اپ میں دیکھا تھا۔ پھر ایک اور قیدی نے جسے تربت سے گرفتار کرکے ایک ہیلی کاپٹر میں راول پنڈی لایا گیا تھا، پنڈی چھاؤنی میں علی اصغر کے ساتھ ایک چھوٹی سی جیل نما جگہ میں کچھ وقت گزارا۔ ’اس کی صحت اچھی تھی، اس پر تشدد رک چکا تھا لیکن وہ لوگ بس اسے روکے ہوئے تھے۔ علی اصغر کو یقین نہیں تھا کہ وہ لوگ اسے کسی نہ کسی موقع پر گھر جانے دیں گے یا قتل کرکے اسی طرح پھینک دیں گے جس طرح انھوں نے دوسروں کے ساتھ کیا ہے‘۔
جب علی اصغر غائب ہوا تو اس کے سب سے بڑے بیٹے کی عمر بارہ سال اور سب سے چھوٹے بیٹے کی صرف چھ ماہ تھی۔ اپنے چچا کی تلاش میں گیارہ سال صرف کرنے کے بعد نصراللہ اپنی ذہنی حالت کے بارے میں کوئی لگی لپٹی رکھنے پر تیار نہیں۔ ’تمام خاندان نفسیاتی مسائل کا شکار ہو چکا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم سب ذہنی طور پر بیمار ہیں۔‘ بنگلزئی خاندان کے مسلسل مصائب کے باوجود زندگی کی گاڑی کو تو آگے چلنا ہی ہے۔ علی اصغر کے سب سے بڑے بیٹے کی شادی کچھ برس پہلے ہو گئی۔ ’تمام خاندان اکٹھا تھا، اور پھر کسی نے علی اصغر کا نام لے لیا اور رونا شروع کر دیا۔ پھر سب رونے لگے۔ ہم سب ایک ہفتے تک روتے رہے۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنے زیادہ لوگوں کو اتنا زیادہ روتے کبھی نہیں دیکھا۔' ان کا گھر علی اصغر کی ان تصویروں سے بھرا پڑا ہے جنھیں وہ اپنے احتجاجی کیمپوں اور جلوسوں میں لے کر جاتے ہیں۔ اپنی غیر موجودگی میں علی اصغر دادا بن چکا ہے۔ ’اس کا پوتا بھی اسے چاچا کہتا ہے، کیونکہ میں بھی اسے چاچا کہتا ہوں۔ وہ بچہ ان تصویروں کو دیکھتا ہے اور مجھ سے پوچھتا ہے کہ چاچا گھر کب آئے گا؟
جب کبھی میں اسلام آباد جاتا ہوں، وہ مجھ سے کہتا ہے کہ اس بار آپ چاچا کو اپنے ساتھ گھر ضرور لائیے گا۔‘
نصراللہ ایک لحظے کے لیے رکتا ہے، جیسے وہ چاہتا ہو کہ اپنے جذبات کی رو میں نہ بہہ جائے۔ ’آپ کو معلوم ہے حال ہی میں اس کی بیٹی نے مجھ سے کیا کہا؟‘
’کیا کہا؟‘ میں نے پوچھا
اس نے اپنا ارادہ تبدیل کر لیا۔ ’نہیں،' اس نے اپنا سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا۔ ’یہ برداشت سے باہر ہے۔ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ میں نہیں چاہتا کہ رونا شروع کر دوں۔‘
 

حسان خان

لائبریرین
ذیشان بھائی، بلوچی زبان کا نام ہے جبکہ بلوچ نژادی گروہ کا نام ہے۔ ہمارے بلوچ برادران اس بات پر خفیف سی ناگواری ظاہر کرتے ہیں جب اُنہیں بلوچی پکارا جاتا ہے۔
 
چشم کشا تحریر ہے۔
آخر جب ایک آدمی کی بے گناہی ثابت ہو گئی ہے اور یہ بھی انہوں نے "اپنے زرائع" سے کی ہے تو یہ لوگ اسے آزاد کیوں نہیں کر دیتے۔
ان پر بھی وہی غرور سوار ہے جو کہ اس ملک کے ہر صاحب اختیار پر سوار ہے کہ "میں کوئی غلطی نہیں کر سکتا"
 
شکریہ نایاب بھائی۔احباب کی آسانی کی خاطربراہ راست یہیں خبر لگا رہا ہوں۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے گذشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران پانچ بلوچ نوجوانوں کی لاشیں ملی ہیں جو بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ قرار دیے گئے تھے۔
اس سے پہلے کراچی سے بلوچ نوجوانوں کی گمشدگی کے کئی واقعات نظر آتے ہیں مگر لاشیں ملنے کا نیا رجحان سامنے آیا ہے۔
سرجانی کے علاقے سے پیر کو دو نوجوانوں کی لاشیں ملی ہیں۔ پولیس کے مطابق یہ لاشیں نادرن بائی پاس کے سامنے پڑی ہوئی تھیں۔ ایس ایچ او سرجانی اعجاز راجپر نے بی بی سی کو بتایا کہ مقتولین کی جیب میں پرچی موجود تھی جن پر ان کے نام نعمت اللہ اور اختر رند تحریر تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں نوجوانوں کو گھلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق ان کے لواحقین کو اطلاع کر دی گئی تھی جو میتیں اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
ان تشدد شدہ لاشوں میں سے چار سرجانی اور ایک لاش ملیر کے ویران علاقے سے ملی ہیں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسن کے وائس چیئرمین قدیر ریکی نے بتایا نعمت اللہ اور اختر علی کا تعلق تربت سے تھا۔
نعمت اللہ کو 22 اکتوبر سنہ 2012 کو بوڑھی ماں کی موجودگی میں بس سے حراست میں لیا گیا تھا جس کے کئی چشم دید گواہ ہیں۔
قدیر بلوچ کے مطابق 24 سالہ اختر علی رند کو 24 اکتوبر سنہ 2012 کو اس وقت حراست میں لے گیا جب وہ تربت میں ایک میڈیکل سٹور سے دوائی خرید رہے تھے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے 30 جنوری کو سرجانی کے علاقے سے ہارون بلوچ اور رزاق پالاری کی تشدد شدہ لاشیں ملی تھیں، دونوں نوجوان گوادر کے علاقے پشکان سے لاپتا تھے۔ اس سے پہلے 28 جنوری کو عدنان بلوچ کی ملیر کے علاقے سے لاش ملی تھی، جو مند کے علاقے سے کئی ماہ سے لاپتا تھے۔
سرجانی ٹاؤن کے علاقے سے زیادہ لاشیں کیوں مل رہی ہیں، اس بارے میں ایس ایچ او سرجانی اعجاز راجپر کا کہنا ہے کہ اس کی کوئی خاص وجہ نہیں تاہم یہ علاقہ وسیع اور ویران ہے اس لیے انہیں مارکر یہاں پھینک دیا جاتا ہے تاہم وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہیں اغوا کر کے یہاں لایا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ پچھلے دنوں سپریم کورٹ میں آئی جی سندھ فیاض لغاری نے بیان دیا تھا کہ پولیس نے طالبان کے علاوہ بلوچ لبریشن آرمی یعنی بی ایل اے کے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور اسی وجہ سے ہی پولیس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تاہم انہوں نے کسی واقعے کی نشاندہی نہیں کی اور نہ گرفتار ہونے والوں کے نام ظاہر کیے تھے۔
غیر سرکاری ادارے وائس فار مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین قدیر ریکی کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے نوجوانوں کو حراست میں لے کر کراچی کے عقوبت خانے میں منتقل کیا جاتا ہے اور جب وہ تشدد میں ہلاک ہوجاتے ہیں تو ان کی لاشیں یہاں ہی پھینک دی جاتی ہیں جو پہلے صرف بلوچستان سے برآمد ہوتی تھیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے اور ایف سی، بلوچ نوجوانوں کی حراست اور ان پر تشدد سے لاتعلقی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
 

زین

لائبریرین
لاپتہ افراد کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔مذہبی سیاسی کارکنوں اور مسلح تنظیموں کے ارکان کی جبری گمشدگی نائن الیون کے بعد سے شروع ہوئی جبکہ بلوچ سیاسی کارکنوں،مسلح تنظیموں کے ارکان کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ 2006ء ،2007ء سے جاری ہے چند ایک مثالیں اس سے پہلے کی بھی موجود ہیں ۔ بلوچ تنظیمیں لاپتہ افراد کی تعداد کم و بیش دس ہزار بتاتی ہیں ، سرکاری طور پر یہ تعداد سو دو سو سے زیادہ تسلیم نہیں کی جاتی۔ بلاشبہ بلوچ تنظیموں بھی مبالغہ آرائی سے کام لیتی ہیں اور ان کے پاس لاپتہ افراد کے مکمل کوائف بھی نہیں۔ لاپتہ افراد کی فہرست میں ایسے افراد کے نام بھی موجود ہیں جو افغانستان ، ایران یا پھر دبئی بیٹھے ہیں ۔ اس لئے لاپتہ افراد کی صحیح تعداد کا اندازہ مشکل ہے ۔ میری نظر میں یہ تعداد پانچ سو سے زیادہ نہیں۔

لاپتہ افراد کی لاشیں ملنے کے واقعات
سیاسی یا مسلح تنظیموں کے کارکنوں کی گمشدگی کے بعد لاشیں ملنے کے واقعات غالباً 2009ء سے سامنے آرہے ہیں اور اب تک بلوچستان میں کم و بیش 400 لاپتہ افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ ان میں بے گناہ سیاسی کارکن، رہنماء بھی شامل تھےاور مسلح تنظیموں کے ارکان بھی ۔تعلق کا اعتراف مسلح تنظیمیں خود بھی کرتی رہی ہیں۔ (مثال کے لئے ذیل میں دی گئی آج کی دو خبروں کو ملاحظہ فرمائیے )

19 فروری 2013
بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے فیروز آباد سے دو تشدد زدہ مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں جن کی شناخت عبدالحق مینگل اور نعمت بلوچ کے نام سے کر لی گئیں ۔مقتول کو سر اور سینے میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ عبدالحق مینگل کا تعلق تحصیل وڈھ سے تھا جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ میر جاوید مینگل (سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل کے بھائی)کے قریبی ساتھی تھے جنہیں 19اکتوبر 2012ءکو وڈھ سے لاپتہ کیا گیا ۔

----دوسری خبر
19 فروری 2013
کوئٹہ۔ کالعدم تنظیم لشکر بلوچستان نے کہا ہے کہ عبدالحق مینگل نے پیران سالی اور ضعیف العمری میں ریاستی ظلم و جبر برداشت کرتے ہوئے مادر وطن کے دفاع میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ان کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی ۔کالعدم تنظیم لشکر بلوچستان کے ترجمان لونگ بلوچ نے نامعلوم مقام سے سیٹلائٹ فون کے ذریعے بتایا کہ قابض دشمن کی جانب سے عبدالحق مینگل کو 19اکتوبر 2012ءکو وڈھ سے لاپتہ کیا گیا عقوبت خانوں غیر انسانی ظلم و تشدد کا نشانہ بناکر انہیں شہید کرکے ان کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاش پھینکی گئی ۔عبدالحق مینگل لشکر بلوچستان کے اہم و بنیادی ساتھیوں میں سے تھے جنہوں نے پیران سالی اور ضعیف العمری کے باوجود ریاستی ظلم و جبر کا مقابلہ بہادری سے کیا ان کی قربانی پر سرخ سلام پیش کرتے ہیں ان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ہماری جدوجہد جاری رہے گی ۔
(وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کے بقول لشکر بلوچستان کے سربراہ سردار اختر مینگل کے بھائی جاوید مینگل ہیں،یہ تنظیم خضدار، قلات اور لسبیلہ میں سرگرم ہے ۔ )

سیاسی کارکنوں، مسلح تنظیموں کے ارکان کی گمشدگیوں اور قتل کے بعد واقعات میں صرف خفیہ ادارے ہی نہیں بلکہ کئی مسلح گروہ بھی ملوث ہیں ۔ ماورئے عدالت گمشدگیوں یا قتل کے واقعات کا جواز کسی طور پیش نہیں کیا جاسکتا باوجود اس کے ہمارے عدالتی نظام اور دہشتگردی کے قوانین میں خامیاں پائی جاتی ہیں۔وقت یاد نہیں آرہا غالباً تین چار سال پہلے کی بات ہے جب کوئٹہ میں لسانی دہشتگردی عروج پر تھی ۔ جامعہ بلوچستان کے ایک پروفیسر کو کوئٹہ کے سٹی تھانے پر دستی بم پھینکتے ہوئے لوگوں نے دھرلیا اور تشدد کا نشانہ بنانے لگے، پولیس نے پہنچ کر ہجوم سے بچا یا اور گرفتار کرلیا۔ چالان کرکے عدالت میں پیش کیاگیا تو ہجوم میں سے کوئی عدالت گواہی دینے نہیں آیا اس طرح پروفیسر رہا ہوگیا۔ ماورائے آئین اقدامات کا تدارک ضروری ہے ، کوئی ادارہ ، گروہ یا فرد آئین و قانون سے بالاتر نہیں ۔ اگر نظام میں کہیں خامیاں ہیں تو اسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔کوئی ملزم ہے تو عدالت سے سزا دلائی جائے ، گواہان اور ججز کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ۔ اس طرح نہ صرف قانون مضبوط ہوگا بلکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی سطح پر بدنامی بھی نہ ہوگی۔
 
Top