دردِ سر شام سے اس زلف کے سودے میں رہا

یہاں کسرۂ اضافت کی ضرورت نہیں۔
اس پر اس سے قبل یہاں گفتگو ہو چکی۔
شُہرہ آفاق بددُعا ہے مجھے
لیکن ہو سکتا ہے کہ میرا قیاس نادرست ہو۔ غالب کا ایک مصرع یاد آرہا ہے:
گر نفس جادۂ سر منزلِ تقوی نہ ہوا

یہاں غالباً سر منزل، منزل کے ہی معنی رکھتا ہے۔ شاید سرشام بھی اسی قبیل کی شے ہو۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
لیکن ہو سکتا ہے کہ میرا قیاس نادرست ہو۔ غالب کا ایک مصرع یاد آرہا ہے:
گر نفسِ جادۂ سر منزلِ تقوی نہ ہوا

یہاں غالباً سر منزل، منزل کے ہی معنی رکھتا ہے۔ شاید سرشام بھی اسی قبیل کی شے ہو۔


کسرہ کا استعمال تو دونوں طرح سے ٹھیک لگتا ہے بس اس کی ضرورت، صوتیت کو بھی مدِ نظر رکھا گیا ہے کہیں کہیں .. آپ کی یہ بات کچھ وضاحت چاہتی ہے سر منزل اور منزل کا عروضی اعتبار سے ایک ہونا کیسے ثابت ہے؟ معانی تو تقریبا ایک ہی ہے اور استعمال بھی جائز ہے. شاید جب دو کسرہ اضافت استعمال ہوں تو وزن پر اثر پڑتا ہوگا ۔۔۔
 
آخری تدوین:
کسرہ کا استعمال تو دونوں طرح سے ٹھیک لگتا ہے بس اس کی ضرورت، صوتیت کو بھی مدِ نظر رکھا گیا ہے کہیں کہیں
معاف کیجیے گا. آپ کی باتیں مجھ کم فہم کی سمجھ میں کم ہی آتی ہیں. سر شام اور سر منزل کو اگر سرِ شام اور سرِ منزل لکھیں تو مصرعے ساقط الوزن ہو جائیں گے.
سر منزل اور منزل کا عروضی اعتبار سے ایک ہونا کیسے ثابت ہے؟
یہ بات میں نے کہاں کی؟
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
معاف کیجیے گا. آپ کی باتیں مجھ کم فہم کی سمجھ میں کم ہی آتی ہیں. سر شام اور سر منزل کو اگر سرِ شام اور سرِ منزل لکھیں تو مصارع ساقط الوزن ہو جائیں گے.

یہ بات میں نے کہاں کی؟

تو جلتا اک چراغ روشنی کی خود مثال ہے

کسرہ کے حوالے سے اور اوزان کے حوالے سے طویل گفتگو اس دھاگے میں ہوچکی ہے ۔ اوزان کی تبدیلی ہر بحر میں شاعر نے اپنے انداز سے کی ہے اور اس پر مختلف شعراء کی رائے بھی موجود ہے ۔ آپ کے موجودہ لنک میں ہما صاحبہ کی رائے زیادہ مقدم ہے ۔ ایک طرف آپ نے کہا کہ کسرہ لگانا چاہیے دوسری جانب خود ہی اس پر اپنی رائے دے دی ۔ اس حوالے سے مجھے بھی آپ کی بات سمجھ نہیں آئی تھی
 
آخری تدوین:
اضافت میں وزن بدلا بھی جاسکتا ہے اور وزن تبدیل نہیں بھی ہوتا ہے
اضافت میں وزن ہر صورت تبدیل ہوتا ہے. یہ تبدیلی صرف تب غیر اہم ہوتی ہے جب کسرہ اس حرف پر ہو جو تقطیع میں کسی رکن کا آخری حرفِ متحرک ہو.
بلکہ جس رکن کی ساخت میں وتدِ مفروق شامل ہو، اس وتدِ مفروق کے آخری حرف کا ساکن یا متحرک ہونا ایک ہی بات ہے.
سر شام یا سرِ شام دونوں ہی عروضی اعتبار سے بحر میں فٹ ہوسکتے ہیں ۔
جی نہیں.
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
دردِ سر شام سے اس زلف کے سودے میں رہا

یہاں کسرۂ اضافت کی ضرورت نہیں۔
اس پر اس سے قبل یہاں گفتگو ہو چکی۔
شُہرہ آفاق بددُعا ہے مجھے


یہ بحث تب ہی ختم ہو سکتی ہے جب مذکورہ مصرع درست پڑھا جائے -

دردِ سر ' شام سے اس زلف کے سودے میں رہا-

دردِ سر کے بعد وقف کرنے سے بحث تو یہیں نمٹ گئی کہ "سرِ شام" کی اضافت یہاں مذکور ہی نہیں-
 
یہ بحث تب ہی ختم ہو سکتی ہے جب مذکورہ مصرع درست پڑھا جائے -

دردِ سر ' شام سے اس زلف کے سودے میں رہا-

دردِ سر کے بعد وقف کرنے سے بحث تو یہیں نمٹ گئی کہ "سرِ شام" کی اضافت یہاں مذکور ہی نہیں-
درست فرمایا آپ نے. مصرع پر تھوڑا غور کرنا چاہیے تھا.
عجیب بے وقوف آدمی ہوں میں.
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
کس فارمولے کے تحت؟
اضافت میں وزن ہر صورت تبدیل ہوتا ہے. یہ تبدیلی صرف تب غیر اہم ہوتی ہے جب کسرہ اس حرف پر ہو جو تقطیع میں کسی رکن کا آخری حرفِ متحرک ہو.
بلکہ جس رکن کی ساخت میں وتدِ مفروق شامل ہو، اس وتدِ مفروق کے آخری حرف کا ساکن یا متحرک ہونا ایک ہی بات ہے.

جی نہیں.
آپ کی رائے کافی مرتبہ تبدیل ہوئی ہے ۔ :) وتد مفروق والی بات آپ نے درست کہی ہے ۔ آپ نے پوچھا ہما صاحبہ کی رائے کس حوالے سے معتبر ہے تو کچھ گزارشات ہیں

واصف صاحب نے فرمایا

میں نعرہ مستانہ
شاعری میں صوتیت کا دخل ہوتا ہے ، بحور اصل میں اس صوتی اتار چڑھاؤ کو دیکھ کے بنائیں گی ۔ اس لیے نعرہِ مستانہ جو ردھم پیدا کرتا ہے وہ نعرہ مستانہ پیدا نہیں کررہا ہے ۔

دوسرا اس حوالے سے محترم الف عین کی رائے مقدم ہے

تو جلتا اک چراغ روشنی کی خود مثال ہے
جِلو میں تیرے رہنا زندگی کا بھی سوال ہے

مرا وجود تیرے عشق کی جو خانقاہ ہے
ہوں آئنہ جمال ،تیرے ُحسن کا کمال ہے

مقامِ طُور پر یہ جلوے نے کِیا ہے فاش راز
کہ اَز فنائے ہست سے ہی چلنا کیوں محال ہے

ِفشار میں َرواں تُو جان سے قرین یار ہے
جو دورِیاں ہیں درمیاں، فقط یہ اک خیال ہے

نگاہِ خضر مجھ پہ ہے کہ معجزہ مسیح ہے
عروجِ ذات میرا تیرے ساتھ کا کمال ہے

تری طلب کی جستجو میں جو اسیر ہوگئی
تجھے علم کہ کس پڑاؤ اوج یا زوال ہے

تو بحربے کنار ، خامشی ترا سلیقہ ہے
میں موج ہُوں رواں کہ شور نے کیا نڈھال ہے


۔ لیکن معجزہ مسیح اور معجزہء مسیح کے اوزان میں بہت فرق ہے۔ یہاں نور کی غزل میں استعمال غلط ہے۔


میں نے اس غزل میں آئنہ جمال اور معجزہ مسیح ہی باندھا تھا، جو کہ اضافت کے بنا تھا جبکہ محترم الف عین کی رائے میں اسے آئنہِ جمال ہونا چاہیے جسکا وزن تبدیل ضرور ہوتا ہے ،جبکہ محترم وارث صاحب کی رائے اس لحاظ سے کچھ مختلف پڑھی ہے

یوں تو اضافتوں کا وزن شمار نہیں ہوتا لیکن بوقت ضرورت کھینچ کر ان کا وزن بنا لیا جاتا ہے، جیسے غمِ دل اگر بحر کا تقاضا ہے کہ وزن فَعِلن ہو تو غمِ دل اس پر پورا اترتا ہے لیکن اگر بحر کا تقاضا فعولن ہو تو غمِ دل کو غمے دل سمجھ کر فعولن کا وزن پورا کیا جائے گا یہ بھی شاعر کی صوابدید یا مرضی ہے۔


شُہرہ آفاق بددُعا ہے مجھے
آپ کی رائے اہم ہے مگر میں نے جو کہا ہے وہ محترم الف عین سے سیکھتے ہی کہا ہے :)
 
آپ کی رائے کافی مرتبہ تبدیل ہوئی ہے ۔
میری رائے تبدیل نہیں ہوئی۔ دردِ سر شام کو دردِ سرِ شام کرنے سے شعر بحر سے خارج ہو جائے گا۔
میں نعرہ مستانہ
شاعری میں صوتیت کا دخل ہوتا ہے ، بحور اصل میں اس صوتی اتار چڑھاؤ کو دیکھ کے بنائیں گی ۔ اس لیے نعرہِ مستانہ جو ردھم پیدا کرتا ہے وہ نعرہ مستانہ پیدا نہیں کررہا ہے ۔
مجھے الف، ب تو نہ پڑھائیں۔
میں نے اس غزل میں آئنہ جمال اور معجزہ مسیح ہی باندھا تھا، جو کہ اضافت کے بنا تھا جبکہ محترم الف عین کی رائے میں اسے آئنہِ جمال ہونا چاہیے جسکا وزن تبدیل ضرور ہوتا ہے ،جبکہ محترم وارث صاحب کی رائے اس لحاظ سے کچھ مختلف پڑھی ہے
یگانہؔ کی تصنیف "غالبؔ شکن: دوآتشہ" مطبوعہ ۱۹۳۵ء پڑھتے ہوئے اتفاقاً ہی معلوم ہوا کہ کسرۂِ اضافت کی تحذیف کو اصطلاح میں فکِ اضافت کہا جاتا ہے اور کم از کم اردو میں اسے عیب گردانا جاتا ہے۔ موصوف کے خیال میں یہ "اردو میں نہایت بھدا معلوم ہوتا ہے۔" میں ان کے اس خیال سے کافی حد تک متفق ہوں۔ گو کہ اساتذہ کے ہاں نظائر اس کے ملتے ہیں مگر اولیٰ یہی ہے کہ علی زریون اور مجھ جیسے لوگ فی زمانہ اس سے اجتناب کریں۔
یگانہؔ نے تصنیفِ مذکور کے صفحہ ۴۶ پر غالبؔ کے اس شعر کے محاکمے کی ذیل میں فکِ اضافت کا ذکر کیا ہے:
بدگمانی نے نہ چاہا اسے سرگرمِ خرام
رخ پہ ہر قطرہ عرق دیدۂِ حیراں سمجھا​
قطرہ عرق دراصل قطرۂِ عرق ہے جس کا کسرۂِ اضافت غالبؔ کو ضرورتِ شعری کے تحت اڑا دینا پڑا۔
جہاں تک آتش کے شعر کا تعلق ہے۔ وہاں کسرہ کی ضرورت ہے ہی نہیں۔ یہ ستم جہاں سے آپ نے کاپی کیا ہے غالباً وہاں ڈھایا گیا ہے۔ اس سے بے ساختہ میرا ذہن فکِ اضافت والی گفتگو کی جانب مبذول ہو گیا اور میں نے اصل مصرع پر توجہ کرنا ضروری ہی نہیں سمجھا۔ یہ خطا مجھ سے ضرور ہوئی ہے۔
 
آخری تدوین:
میری رائے تبدیل نہیں ہوئی۔ دردِ سر شام کو دردِ سرِ شام کرنے سے شعر بحر سے خارج ہو جائے گا۔
شاید کسی حد تک بحر پر منحصر ہے
مثلاً
سرِ شام ہی سے بخار ہے
مُتَفاعلن مُتَفاعلن
اگر اضافت ہٹائیں گے تو بحر سے خارج ہو جائے گا۔
 
شاید کسی حد تک بحر پر منحصر ہے
مثلاً
سرِ شام ہی سے بخار ہے
مُتَفاعلن مُتَفاعلن
اگر اضافت ہٹائیں گے تو بحر سے خارج ہو جائے گا۔
حضور میری بات صرف اسی شعر اور اسی بحر کے متعلق تھی۔
یوں بھی تسکینِ اوسط کے ذریعے متفاعلن کو مستفعلن کرنا جائز ہے اس لیے شعر بحر سے خارج نہیں ہوگا۔ اس مشاہدے کا بھی میری بات سے کوئی تعلق نہیں۔
 

یاسر شاہ

محفلین
درست فرمایا آپ نے. مصرع پر تھوڑا غور کرنا چاہیے تھا.
عجیب بے وقوف آدمی ہوں میں.
نہیں بلکہ آپ کا اعترافِ سہو ہی دلیل کمال ہے -البتّہ دشوار پسند طبیعتوں کا خاصہ ہے کہ انتہائی سامنے کی چیز یا آسان بات ان سے اوجھل ہوجاتی ہے-
 

یاسر شاہ

محفلین
شاید کسی حد تک بحر پر منحصر ہے
مثلاً
سرِ شام ہی سے بخار ہے
مُتَفاعلن مُتَفاعلن
اگر اضافت ہٹائیں گے تو بحر سے خارج ہو جائے گا۔

مزے کی بات اس مثال میں بحر سے خارج نہیں ہوگا -شیخ سعدی کی مقبول نعت کا مصرع دیکھیں :

".........صلّو علیہ و آلہ "

اور مثال ڈھونڈھیں -
 
مزے کی بات اس مثال میں بحر سے خارج نہیں ہوگا -شیخ سعدی کی مقبول نعت کا مصرع دیکھیں :

".........صلّو علیہ و آلہ "

اور مثال ڈھونڈھیں -
بس ان تفصیلات میں زیادہ نہیں پڑتا۔ جو آپ سے معلوم ہو جائے، ہو جائے۔
جیسے اب یہ معلوم ہو گیا۔ :)
ورنہ ایک غزل اس بحر میں کہتے ہوئے اسی وجہ سے مشکل کا شکار رہا، معلوم ہوتا تو شاید بہتر کاوش ہو سکتی تھی۔ :)
 

یاسر شاہ

محفلین
آپ کی رائے کافی مرتبہ تبدیل ہوئی ہے ۔ :) وتد مفروق والی بات آپ نے درست کہی ہے ۔ آپ نے پوچھا ہما صاحبہ کی رائے کس حوالے سے معتبر ہے تو کچھ گزارشات ہیں

واصف صاحب نے فرمایا

میں نعرہ مستانہ
شاعری میں صوتیت کا دخل ہوتا ہے ، بحور اصل میں اس صوتی اتار چڑھاؤ کو دیکھ کے بنائیں گی ۔ اس لیے نعرہِ مستانہ جو ردھم پیدا کرتا ہے وہ نعرہ مستانہ پیدا نہیں کررہا ہے ۔

دوسرا اس حوالے سے محترم الف عین کی رائے مقدم ہے





میں نے اس غزل میں آئنہ جمال اور معجزہ مسیح ہی باندھا تھا، جو کہ اضافت کے بنا تھا جبکہ محترم الف عین کی رائے میں اسے آئنہِ جمال ہونا چاہیے جسکا وزن تبدیل ضرور ہوتا ہے ،جبکہ محترم وارث صاحب کی رائے اس لحاظ سے کچھ مختلف پڑھی ہے




شُہرہ آفاق بددُعا ہے مجھے
آپ کی رائے اہم ہے مگر میں نے جو کہا ہے وہ محترم الف عین سے سیکھتے ہی کہا ہے :)



میں ہما صاحبہ کا بے لاگ تبصرہ پڑھ کے متاثر ہوئے بن نہیں رہ سکا-بڑی جی دار تنقید کی ہے جو کہ کافی حد تک درست بھی ہے -اب ایسے تبصرے انٹرنیٹ پر کہاں -بقول انور شعور :


خوب ہے 'خوب تر ہے 'خوب ترین
اس طرح تجزیے نہیں ہوتے

خیر صاحب غزل کے پیش کردہ اقتباس میں انہوں نے تسلیم بھی کر لیا ہے کہ فکِ اضافت فارسی شاعری میں ضرورتِ شعری کے تحت مستعمل ہے -اب نہ ان کی شاعری فارسی ہے اور نہ ضرورتِ شعری( poetic license) کا ہر شاعر اہل -
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
میں ہما صاحبہ کا بے لاگ تبصرہ پڑھ کے متاثر ہوئے بن نہیں رہ سکا-بڑی جی دار تنقید کی ہے جو کہ کافی حد تک درست بھی ہے -اب ایسے تبصرے انٹرنیٹ پر کہاں -بقول انور شعور :


خوب ہے 'خوب تر ہے 'خوب ترین
اس طرح تجزیے نہیں ہوتے

خیر صاحب غزل کے پیش کردہ اقتباس میں انہوں نے تسلیم بھی کر لیا ہے کہ فکِ اضافت فارسی شاعری میں ضرورتِ شعری کے تحت مستعمل ہے -اب نہ ان کی شاعری فارسی ہے اور نہ ضرورتِ شعری( poetic license) کا ہر شاعر اہل -

بے لاگ تبصروں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے. وہ ایسا تبصرہ نہ کرتی تو فک اضافت والا اصول سمجھ نہ آتا:) اس حوالے سے مجھے بھی بہت کچھ جاننے کو ملا ہے:)
 

نور وجدان

لائبریرین
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن

کیوں کہہ کے دل کا حال کریں ہائے ہائے دل
اچھی کہی کہ ہم سے کہو ماجرائے دل

افسوس میں نے روزِ ازل یہ نہ کہہ دیا
دے مجھ کو سب جہان کی نعمت سوائے دل

گھبرا کے بزم ناز سے آخر وہ اٹھ گئے
سن سن کے ہائے ہائے جگر ہائے ہائے دل

بہرِ عیادت آج وہ آ کر یہ کہہ گئے
ہو زندگی عزیز جسے کیوں لگائے دل

رہتا ہے دم خفا میرے سینے میں ہر گھڑی
روٹھے ہوئے کو ہائے کہاں تک منائے دل

شکوہ کیا کہ شکر کیا تیرا بار بار
تھم تھم کے نرم نرم کچھ آئی صدائے دل

کہتے نہ تھے وہ سن کے برا مان جائیں گے
اے داغ ان سے اور کہو ماجرائے دل
(داغ دہلوی)


***************************
جب مجھ سے پوچھتا ہے کوئی ماجرائے دل
بے اختیار منھ سے نکلتا ہے ہائے دل

کوئی تو بات تھی۔ کہ جو ہم تم پہ مر مٹے
صورت ہی دل رہا ہو تو کیونکر نہ آئے دل

ہم تم کو کیا کہیں۔ مگر اتنی دعا تو ہے
اس کا بھی دل دکھے جو ہمارا دکھائے دل

نقصان ہو کہ نفع برابر ہے عشق میں
جائے تو جائے جان جو آئےتو آئے دل

قاصد گیا گیا نہ گیا کس کو اعتیار
میری تو راے یہ ہے کہ ہمراہ جائے دل

حوریں بہت حسین سہی شیخ جی مگر
جو کوئی ہو تمھیں سا تو ان سے لگائے دل

دونوں کی اتحاد کی فرقت میں حد نہیں
دل آشنائے درد ہے درد آشنائے دل

سنتا نہیں وہ بانئی بیداد کیا کریں
اب اور کس سے جا کے کہیں ماجرائے دل

شکوہ کیا ستم کا تو کہنے لگا وہ شوخ
ہم پوچھتے ہیں ہم سے کوئی کیوں لگائے دل

سنتے ہیں ہجر عشق میں دیوانہ ہو گیا
پوچھو مزاج بھی تو وہ کہتا ہے ہائے دل

نواب ناظم علی خاں ہجرؔ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یا ربّ سُنائیں ہم کسےاب مُدعائے دل
کوئی نہیں جہان میں حاجت روائے دل

کیا کہیے بحرِ شوق میں اب ماجرائے دل
دل ہے سفینہ اور وہ ہیں ناخدائے دل

آئینۂ حیات کی تکمیل کے لیے
لازم ہے کائنات میں صِدق و صفائے دل

دل اور درد دونوں میں اک ربطِ خاص ہے
دل آشنائے درد ہے ، درد آشنائے دل

ہر ٹِیس جس کی تیری طرف مُلتَفِت کرے
یا ربّ ! وہ درد چاہیے مجھ کو برائے دل

دنیائے دل کا حال نہ پوچھو فراق میں
مصروفِ انتظار ہیں صبح و مسائے دل

صد ہا اٹھائیں دل کی بدولت صعوبتیں
دیکھو نصؔیر اور ابھی کیا کیا دکھائے دل

سید نصیر الدین نصیر

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭



رہنے دو چپ مجھے نہ سنو ماجرائے دل
میں حال دل کہوں تو ابھی منہ کو آئے دل

سمجھے گا کون کس سے کہوں راز ہائے دل
دل ہی سے کہہ رہا ہوں ماجرائے دل

کب تک یہ ہائے ہائے جگر ہائے ہائے دل
کر رحم اے خدائے جگر، اے خدائے دل

دو لفظوں ہی میں کہدیا سب ماجرائے دل
خاموش ہوگیا ہے کوئی کہہ کے ہائے دل

آتے نہیں ہیں سننے میں اب نالہائے دل
سنسان کیوں پڑی ہے یہ ماتم سرائے دل

ہوتا ہوں محو لذت دید قضائے دل
باغ و بہار زیست ہیں یہ داغ ہائے دل

اب ہوچکی ہے جرم سے زائد سزائے دل
جانے دو بس معاف بھی کردو خطائے دل

ہر ہر ادا بتوں کی ہے قاتل برائے دل
آخر کوئی بچائے تو کیونکر بچائے دل

اتنا بھی کوئی ہوگا نہ صبر آزمائے دل
سب سے لگائے تم سے نہ کوئی لگائے دل

اک سیل بے پناہ ہے ہر اقتضائے دل
ایسا بھی ہائے کوئی نہ پائے جو پائے دل

مجذوب تو بھی غیر خدا سے لگائے دل
عشق بتاں ہے بندہ حق ناسزائے دل

حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب
 
کوئی نہیں جہا ں میں حاجت روائے دل
کوئی نہیں جہان میں حاجت روائے دل
دل اور درد دونوں میں اک ربطِ خاص
دل اور درد دونوں میں اک ربطِ خاص ہے
سمجھے کون کس سے کہوں راز ہائے دل
سمجھے گا کون کس سے کہوں ماجرائے دل
آیئنہ حیات کی تکمیل کے لیے
آئینۂ حیات کی تکمیل کے لیے
کہتے نہ تھے سن کے وہ برا مان جائیں گے
کہتے نہ تھے وہ سن کے برا مان جائیں گے
 
Top