ایک اور کہانی ، پر ناٹ پرانی

نوید ملک

محفلین
ایک سے زیادہ دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک آدمی کو جِن قابو کرنے کا بہت شوق تھا ۔ چونکہ وہ بیوقوف آدمی تھا اس لیے کالے علم والے عالموں کی جوتیاں سیدھی کرتا تھا ، ذرا عقل والا ہوتا تو وزیرِ اعظم کا انتخاب لڑتا اور خزانے کے جِن کو اپنی جیب میں ڈالتا۔ ایک بار وہ ایک قبرستان میں بیٹھا اپنی کم عقلی پر ماتم کر رہا تھا کہ ایک آوارہ جِن وہاں آ نکلا ۔ جِن واقعی آوارہ نہیں تھا ، دراصل وہ کثیر ملکی دورے پر تھا ۔ لیکن چونکہ اس کے پاس صدرِ پاکستان کے جیسے وسائل نہیں تھے اس لیے وہ کئی مسائل کا شکار تھا۔ نہ وہ وزیروں کی فوج ظفر موج رکھ سکتا تھا اور نہ ہی اس کے پاس پروٹوکول آفیسروں کی کثیر تعداد تھی ۔ اس کے علاوہ وہ غیر ملکی امداد بھی وصول نہیں کر سکتا تھا ، لہٰذا اس کی جیب میں ڈالر تو کُجا ایک روپیہ نہیں تھا ۔ اس لیے اسے اس آدمی کے ساتھ ایک سمجھوتا کرنا پڑا۔ بیوقوف آدمی نے جن کو ملازمت کی پیش کش کی اور شرط یہ رکھی کہ وہ جو کہے گا جن کو کرنا پڑے گا ۔ جن نے جوابی شرط یہ رکھی کہ اسے ہر وقت مصروف رکھا جائے جیسے امریکہ نے صدرِ پاکستان کو وزیرستان اور بلوچستان میں مصروف رکھا ہوا ہے۔ ورنہ بے کاری کی وجہ سے اس کے عضلات کمزور ہو جائیں گے اور وہ کاہلی کا شکار ہو جائے گا ۔ چونکہ دونوں ہی ضرورت مند تھے اس لیے آدمی کو جن کی اور جن کو اس آدمی کی شرط منظور کرنی پڑی۔ اب ہوا یہ کہ اس آدمی نے جن کو مختلف کام سونپ دیے ۔ جن کوئی کام کر کے آتا تو فوراً دوسرا کام طلب کرتا ۔ کرتے کرتے اس آدمی کی تمام ضروریات پوری ہو گئیں (ویسے تو آدمی کی حرص کی وجہ سے اس کی ضروریات کبھی پوری ہوتی ہی نہیں ہیں مگر کہانی میں اکثر سچائی کو ایک طرف رکھنا پڑتا ہے ورنہ کہانی پاکستان کی معیشت کی طرح کمزور ہو جاتی ہے) ۔ اب جِن نے اس آدمی کا دماغ چاٹنا شروع کر دیا کہ مجھے کام بتاؤ میں کیا کروں بصورتِ دیگر ہمارا سمجھوتا ختم ہو جائے گا اس آدمی نے سوچا کہ اس کام خور جن کو ایسا کام بتایا جائے جو وہ کبھی نہ کر سکے ۔ اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے وہ ایک کتاب فروش کی دکان پر گیا اور وہاں اپنے مطلب کی کتاب ڈھونڈنے لگا۔ کتابیں دیکھتے دیکھتے اس کی نظر صدرِ پاکستان کی سوانح حیات پر پڑی جس کا عنوان تھا “سب سے پہلے اپنی جان” ۔ اس کتاب کو دیکھ کر اس کے ذہن میں ایک خیال آیا ۔وہ گھر واپس گیا اور جِن کو درج ذیل تین کام کرنے کا حکم دیا ۔
جنرل صاحب کی وردی اتارو۔۔ پاکستان کے سیاستدانوں کو متحد کرو۔۔ پاکستان کا “متفق علیہ” آئین بناؤ
جنرل صاحب کی وردی اتارنے کے لیے جِن صدارتی محل میں داخل ہوا مگر اسے دروازے پر ہی مشتبہ چال چلن اور غیر شریفانہ حلیہ بنانے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ۔ اس پر صدر صاحب کو بے لباس کرنے کا الزام لگا کر فردِ جُرم عائد کر دی گئی اور جیل میں ڈال دیا گیا ۔ آج کل وہ جیل میں چکی پیستا ہے اور چین کی بنسری بجاتا ھے۔ :lol: :lol: :lol: :lol: :lol: :lol: :lol: :lol:
ختم شد
 

نوید ملک

محفلین
پاکستانی نے کہا:
یہ کہانی غالبا قدیراحمدرانا کی لکھی ہوئی ہے۔۔۔۔۔ کیوں ملک صاحب؟
جی پاکستانی بھائی مجھے بھی ایک دوست کی میل کے ذریعے یہ کہانی ملی ، اسے لکھ کر یہاں پیش کر دیا ۔ ، شاید آپ کی بات ٹھیک ہو۔ کنفرم کر کے بتاؤں گا ۔
 

شمشاد

لائبریرین
ملک صاحب میں تو سمجھا تھا کہ یہ کہانی آپ کی لکھی ہوئی ہے۔ اگر کسی اور کی ہے تو آپ کو حوالہ دینا چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ناراض نہیں ہونا ملک صاحب

میں نے اس لیے لکھا تھا کہ اگر یہ اقتباس کسی اخبار رسالے وغیرہ سے لیا گیا ہے تو اسی کا ہی نام لکھ دیں

اور اگر یہ آپ کی اپنی کاوش ہے تو بہت ہی خوب ہے، ماشاء اللہ، اللہ کرئے زورِ قلم اور زیادہ۔
 

دوست

محفلین
اچھی چیز ہے۔
لیکن پہلے پڑھ چکا ہوں اور شک ہے کہ قدیر رانا کے بلاگ پر ہی پڑھی ہے۔
 

نوید ملک

محفلین
شمشاد نے کہا:
ناراض نہیں ہونا ملک صاحب

میں نے اس لیے لکھا تھا کہ اگر یہ اقتباس کسی اخبار رسالے وغیرہ سے لیا گیا ہے تو اسی کا ہی نام لکھ دیں

اور اگر یہ آپ کی اپنی کاوش ہے تو بہت ہی خوب ہے، ماشاء اللہ، اللہ کرئے زورِ قلم اور زیادہ۔

نہیں‌جناب ناراضگی کی کوئی بات نہیں ۔ اگر مجھے حوالہ معلوم ہو تو لازمی لکھتا ہوں ۔
نارسائی سے دم رکے تو رکے
ورنہ میں کسی سے خفا نہیں ہوتا
 

شمشاد

لائبریرین
یہ ہوئی ناں بات
بس ایسے ہی خلوص اور پیار سے محفل میں آتے رہا کریں۔ بہت مزہ آئے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
آ گئیں آپ، فرصت مل گئی آپ کو، خوش آمدید

میں سوچ رہا تھا کہ ایس ایم ایس کر کے پتہ تو کرؤں کہ آخر آپ ہیں کہاں؟
 
Top