ایک اور پرانی غزل :ریت ہم کو بھی یہ نبھانی ہے

زندگی کی یہی کہانی ہے
آگ دل میں نظر میں پانی ہے

تم سے الفت کی بات کرتا ہوں
بات یہ کس قدر پرانی ہے

تیری آنکھوں میں میری چاہت کی
کوئی کھوئی ہوئی نشانی ہے

پھر خمیدہ کمر مقدر ہے
چار دن کی تری جوانی ہے

مان لیتے ہیں ہم کو عشق نہیں
بے سبب بات کیا بڑھانی ہے

ہم پہ کیا گزری اس کی فرقت میں
یہ کتھا اس کو بھی سنانی ہے

بیت ہی جائے گی کبھی نہ کبھی
رات اک ہجر کی نبھانی ہے

جو تھے محبوب بن گئے ہیں رقیب
کیسی الجھی ہوئی کہانی ہے

پیار اک ریت بن گیا ہے شکیل
ریت ہم کو بھی یہ نبھانی ہے

ایک پرانی غزل تقریبا نوے کی دہائی کی

محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر احباب و اساتذہ کی نظر
 

الف عین

لائبریرین
مقطع کے دوسرے مصرعے میں ریت کی جگہ رسم کر دیں تاکہ ریت ہی دہرایا نہ جانے
اس کے علاوہ رات کا نبھانا بھی عجیب محاورہ لگ رہا ہے
باقی پوری غزل عمدہ اور درست ہے
 
مقطع کے دوسرے مصرعے میں ریت کی جگہ رسم کر دیں تاکہ ریت ہی دہرایا نہ جانے
اس کے علاوہ رات کا نبھانا بھی عجیب محاورہ لگ رہا ہے
باقی پوری غزل عمدہ اور درست ہے
شکریہ محترم
رات والے مصرع میں نبھانی ٹائپو ہو گیا، اصلاََ یہ مصرع یوں ہے
بیت ہی جائے گی کبھی نہ کبھی
رات اک ہجر کی بِتانی ہے
اب رہنمائی فرمائیں
 
Top