ایک اور نظم برائے اصلاح و رہنمائی بعنوان نان اینٹیٹی (Non Entity)

نان اینٹیٹی (Non Entity)
بے یقیں ساعتوں کے سحر سے نکلے تو جا ن پائے
محبتوں کے سراب لمحوں سے پار اترے تو جان پائے
تمام عمر جس بھرم کی خاطر عذاب جھیلے
عمر کے لمبے سفر سے تھک کر زمیں پہ اترے تو جان پائے
------- کیا؟
سحر کی ساعت
سراب کے پل
عذاب کے دن
خود اپنی ہستی کے بےثمر کارزاروں میں اگ رہے تھے
سراب لمحے، عذاب رستے
وجود ہی کے نہاں دریچوں میں خیمہ زن تھے
وجود سے باہر
ایک بے نام بے نشاں ہوموسیپین (homo sapiens) تھا
پانچ ارب اپنے جیسے وجود والوں کے درمیان ایک
بس ایک!!!!!​
 

الف عین

لائبریرین
مفاعلاتن کی گردان جیسے اکثر مصرعوں میں ہے، وہی قائم رہے تو روانی اور تاثر میں بہتری ممکن ہے۔ پہلا مصرع ہی بحر میں نہیں، شاید سحر کے غلط تلفظ کی وجہ بھی ہو۔ تیسرا اور چوتھا بھی۔ شاید عمر کے غلط تلفظ کی وجہ سے۔ درست ’عمر‘ میں میم پر جزم ہے۔ آخری چار مصرعوں میں ’وجود‘ وزن میں نہیں آتا۔
 
Top