تعارف ایک انٹرویو-31 دسمبر 2015 -دنیا پاکستان

نایاب

لائبریرین
محترم راشد اشرف بھائی
بلاشبہ آپ کا شمار اردو کے دیوانوں کی پہلی صف میں ہوتا ہے
ویسے تو بلاشبہ مکمل انٹرویو ہی بہت خوب ہے ۔
اچھے سوال اور بہترین جواب
اور درج ذیل بیانئے سے تو کسی طور اختلاف ممکن نہیں ،
بہت دعائیں
’کٹ اینڈ پیسٹ‘ کا دور دورہ ہے۔ اکثر کہتا ہوں کہ اگر پاکستان میں ’ گوگل سرچ انجن ‘ کی سہولت بند کردی جائے تو یقین کیجیے کہ اردو کے آدھے اخبار راتوں رات دم توڑ جائیں گے، آدھی صحافت کا صفایا ہوجائے۔
کئی لکھنے والوں نے اس انداز سے خودنوشت لکھی ہے کہ اپنے قاری کو ’درگور‘ کردیا ہے۔
اس وقت جو سب سے بڑا گناہ کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی تصنیفات کو ستائشی مضامین لکھ لکھ کر نمایاں کیا جارہا ہے جن کا کام محض بھرتی کا کام ہے۔
کسی بھی عمدہ و دلچسپ کتاب کو کسی فرد واحد کی ذاتی جاگیر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے ہرخاص و عام کی دسترس میں ہونا چاہیے۔
کوئی اہم اور تاریخی کتاب اگر کسی صاحب کے کتب خانے میں برسوں سے پڑی ہے اور وہ اگر اس پر پھن کاڑھے بیٹھے ہیں تو اس کا دوسروں کو کیا فائدہ۔
علمی حوالے سے مغرب کے جو احسانات ہم پر ہیں، میں تو اسے بھی ان کے سامراجی اقدامات کے ساتھ ساتھ ایک ایسا اقدام بھی سمجھتاہوں کہ جس کی وجہ سے ہماری علمی و تہذیبی فضیلتیں ایک ثبوت اور حقیقت کے طور پروہاں محفوظ ہیں اور خود ہمارے استفادے کے لیے بھی موجود ہیں اور ہم ان سے حسب ِ استطاعت فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔اگر وہ سب کچھ، جو مغربی کتب خانوں میں آج محفوظ ہے،وہاں محفوظ نہ رہتا تویہاںہمارے عبرت ناک اور نہ رکنے والے زوال کے باعث وہ سب بھی ضائع ہوچکاہوتا۔
برصغیر کے نامساعد حالات میں لوگوں کا آگے بڑھنا، زیست کرنا، اس میں درپیش مصائب کا بیان اور ہمت اور عزم کے ساتھ ان سے نبرد آزما ہونے کا احوال۔ یہ قاری کو ہمت اور حوصلہ دیتا ہے۔
میری نظر میں برصغیر ہند وپاک میں اردو زبان کا مستقبل تمام تر ناموافق حالات کے باوجود پائدار ہے۔ خاص کر ہندوستان میں جب تک ’اردو‘زبان میں فلم بنتی رہے گی، اردو آگے بڑھتی رہے گی۔ یقین کیجیے کہ جب تک چھوٹے چھوٹے اداکار بچے ہندوستان میں بنی چلر پارٹی جیسی فلموں میں بے عیب، ش قاف کا خیال رکھتے ہوئے اردو بولتے رہیں گے، اردو آگے بڑھتی رہے گی۔
 

راشد اشرف

محفلین
محترم راشد اشرف بھائی
بلاشبہ آپ کا شمار اردو کے دیوانوں کی پہلی صف میں ہوتا ہے
ویسے تو بلاشبہ مکمل انٹرویو ہی بہت خوب ہے ۔
اچھے سوال اور بہترین جواب
اور درج ذیل بیانئے سے تو کسی طور اختلاف ممکن نہیں ،
بہت دعائیں
’کٹ اینڈ پیسٹ‘ کا دور دورہ ہے۔ اکثر کہتا ہوں کہ اگر پاکستان میں ’ گوگل سرچ انجن ‘ کی سہولت بند کردی جائے تو یقین کیجیے کہ اردو کے آدھے اخبار راتوں رات دم توڑ جائیں گے، آدھی صحافت کا صفایا ہوجائے۔
کئی لکھنے والوں نے اس انداز سے خودنوشت لکھی ہے کہ اپنے قاری کو ’درگور‘ کردیا ہے۔
اس وقت جو سب سے بڑا گناہ کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی تصنیفات کو ستائشی مضامین لکھ لکھ کر نمایاں کیا جارہا ہے جن کا کام محض بھرتی کا کام ہے۔
کسی بھی عمدہ و دلچسپ کتاب کو کسی فرد واحد کی ذاتی جاگیر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے ہرخاص و عام کی دسترس میں ہونا چاہیے۔
کوئی اہم اور تاریخی کتاب اگر کسی صاحب کے کتب خانے میں برسوں سے پڑی ہے اور وہ اگر اس پر پھن کاڑھے بیٹھے ہیں تو اس کا دوسروں کو کیا فائدہ۔
علمی حوالے سے مغرب کے جو احسانات ہم پر ہیں، میں تو اسے بھی ان کے سامراجی اقدامات کے ساتھ ساتھ ایک ایسا اقدام بھی سمجھتاہوں کہ جس کی وجہ سے ہماری علمی و تہذیبی فضیلتیں ایک ثبوت اور حقیقت کے طور پروہاں محفوظ ہیں اور خود ہمارے استفادے کے لیے بھی موجود ہیں اور ہم ان سے حسب ِ استطاعت فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔اگر وہ سب کچھ، جو مغربی کتب خانوں میں آج محفوظ ہے،وہاں محفوظ نہ رہتا تویہاںہمارے عبرت ناک اور نہ رکنے والے زوال کے باعث وہ سب بھی ضائع ہوچکاہوتا۔
برصغیر کے نامساعد حالات میں لوگوں کا آگے بڑھنا، زیست کرنا، اس میں درپیش مصائب کا بیان اور ہمت اور عزم کے ساتھ ان سے نبرد آزما ہونے کا احوال۔ یہ قاری کو ہمت اور حوصلہ دیتا ہے۔
میری نظر میں برصغیر ہند وپاک میں اردو زبان کا مستقبل تمام تر ناموافق حالات کے باوجود پائدار ہے۔ خاص کر ہندوستان میں جب تک ’اردو‘زبان میں فلم بنتی رہے گی، اردو آگے بڑھتی رہے گی۔ یقین کیجیے کہ جب تک چھوٹے چھوٹے اداکار بچے ہندوستان میں بنی چلر پارٹی جیسی فلموں میں بے عیب، ش قاف کا خیال رکھتے ہوئے اردو بولتے رہیں گے، اردو آگے بڑھتی رہے گی۔

جزاک آللہ جناب والا
 
Top