ایک ادیب کی یاد ۔۔۔۔ مختاراحمد ندوی

عندلیب

محفلین
خواجہ حسن نظامی کہنے کو تو ایک خانقاہی آدمی تھے اور نظام الدین اولیاء کے سلسلے کے نامور رہنما تھے، لیکن تھے بڑےدلچسپ ، ادب شناس اور اردو زبان کے اپنے طرزبیان وتحریر کے مانے ہوئے ادیب ، ہندوستان کی جنگ آزادی کی لڑائی میں ان کے اسلوب زبان کا بھی بڑا حصہ تھا، وہ بڑے بڑے ادبی اور قومی جلسوں میں ادب نوازی سے چھا جایا کرتے تھے ۔

دہلی کے گاندھی میدان میں ہندو مسلم اتحاد کے موضوع پر ایک جلسہ ہو رہا تھا ، جنگ آزادی کے متوالوں کا یہ دور تھا جو ہندو مسلم اتحاد کا بڑا یاد گار دور تھا ، جلسے میں خواجہ حسن نظامی بھی اسٹیج پر موجود تھے ۔
مقررین کی کثرت کی بناپر ہر نئے مقررسے درخواست کی جاتی تھی کی اپنی تقریرجتنی مختصر کر سکیں بہتر ہے ۔

خواجہ حسن نظامی کے نام کا اعلان ہوا تو مجمع میں بڑی ہل چل مچی، چناچہ پبلک کا رنگ دیکھ کر اناؤنسر نے خواجہ صاحب سے تقریر مختصر کرنے کی درخواست نہیں کی ، لیکن خواجہ صاحب موقع شناس تھے، اسٹیج پر آئے ، شور وغل کی آواز جب بند ہوئی تو خواجہ صاحب نے تین مرتبہ فرمایا : ہم ، ہم ،ہم ، تیسری بار جلسہ گاہ سے سامعین کے ہنسنے کی آوازیں بلند ہوئیں تو خواجہ صاحب مائک پکڑکر زور دار آواز میں فرمایا : خاموش ، مجمع اچانک چپ ہو گیا ، خواجہ صاحب نے پھر فرمایا : میرے ہندوستانی بھائیو! غور سے سنو، ہم ، ہم ، ہم ، یعنٰی ہم کے حرف مرکب میں ، "ہ" سے ہندو "م" سے مسلمان مراد ہیں ۔ اور ہ اور میم سے مل سے بن کر ہم سب ہندوستانی قوم بنے ہیں ۔

جب تک ہ اور میم ایک دوسرے کے ساتھ متحد رہیں گے ہم ہندوستانیوں کو کوئی طاقت جدا نہیں کر سکتی ، ہم سب ہندوستانی ہیں اس لئے بلند آواز سے کہو ہم ہندوستانی ہندو ہو یا مسلمان سب مل کر ہندوستانی ہیں، اس لئے جب تک ہ اور میم آپس میں مل کر رہیں گے ہمارا ملک متحد رہے گا ۔

افسوس اب یہ قصے کہانی بن کر رہ گئے ، اب کہا ہم اور کہاں ہ اور میم کا متحد ہندوستان ، اب تو ہندو ہندوستان کے دل آزار نعرے بلند ہونے لگے ، لیکن یہ سب نارے سیاسی دکانداروں کی سودے بازی کے سوا کچھ نہیں ، وہ خوب جانتے ہیں کہ ہندوستان کی دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان کا سیاسی اتحاد ملک کا اٹوٹ اتحاد ہے ۔

ملک کو تقسیم کرنے والی مفاد پرست طاقتوں نے اچھی طرح دیکھ لیا کہ متحدہ ہندوستان کی دو ملکوں میں تقسیم کا سودا کتنا مہنگا ثابت ہوا ، ہماری بد نصیب آنکھوں نے دیکھا کہ ملک کے تقسیم کے نتیجے میں اسلامی تاریخ کے بعض نا قابل برداشت ریکارڈ ٹوٹ گئے ۔

کاش اب بھی لوگ عبرت حاصل کریں اور تاریخ کا سبق یاد کریں ۔
مختار احمد ندوی
 
Top