این ڈی ایم اے کے خلاف لکھا مضمون ورلڈ بنک پہنچ گیا۔ کیا حکومت اپنے ہی اداروں کے خلاف سازش میں ملوث

ابن آدم

محفلین
چند دن پہلے کی بات ہے جب کرونا سے متاثرہ مریضوں کے لئے ایکٹمرا انجکشن کی فراہمی کا بیڑا اٹھایا تو کرونا کی وبا سے مقابلے کی حکومتی تیاری کا پول کھلتا چلا گیا۔ پنجاب حکومت تو خیر ہر کام اپنے لیڈر کی طرح با امر مجبوری کر رہی ہے۔ اسی لئے چند دن پہلے تک ایکٹمرا انجکشن سیکرٹری ہیلتھ کی سفارش کے بغیر ملنا ناممکن تھا جب کہ اس انجکشن کو بنانے والی کمپنی نے حکومت سے بے حد تعاون کیا۔ آج بھی پاکستان میں اس انجکشن کی قیمت بھارت اور بنگلہ دیش سے کم ہے لیکن امریکہ سے اس انجکشن کی درآمد کی درخواست کا فیصلہ تب کیا گیا جب یہ انجکشن پانچ لاکھ میں بھی میسر نہ رہا۔ اب کہیں جا کر یہ حکم جاری ہوا کہ یہ انجکشن براہ راست اسپتالوں کو فراہم کیے جائیں گے۔

اسی ایکٹمرا کے لئے کسی مہربان نے این ڈی ایم اے سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا۔ دو تین مریضوں سے زیادہ کا مسئلہ تو حل نہ ہو سکا کیونکہ وہاں بھی سرخ فیتہ اور سب سے پہلے وی آئی پی والی ذہنیت کسی حد تک موجود ہے۔ لیکن اس تمام محنت کے دوران کچھ ایسے ہوشربا انکشافات ہوئے جس سے یہ پتہ چلا کہ ہمارے حکمران اس وبا سے عوام کو بچانے کے لئے کس حد تک سنجیدہ ہیں یا کتنی مجرمانہ غفلت دکھائی گئی ہے۔

سو سے زائد لوگ روزانہ اس وبا سے اور دوا نہ ملنے کی وجہ سے مر رہے ہیں لیکن حکومتی ایوانوں میں ہر کوئی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہے اور جس شخص یا ادارے کو اس بیماری کی ہلاکت خیزی کا علم ہے اور بروقت اقدامات کرنا چاہتا ہے اسے ہر طرح سے روکنے کی کوشش جاری رہتی ہے۔ حکومت کی طرف سے یہ کام اسد عمر، ڈاکٹر ظفر مرزا اور ڈاکٹر فیصل سلطان بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سب وزیر اعظم کی ہدایات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

ذرا غور کیجئے کہ این ڈی ایم اے نے کتنے ماہ قبل پولیو ویکسین دینے والے عملے کو کرونا وبا کے دوران استعمال کرنے کی تجویز دی تاکہ مشتبہ مریضوں تک پہنچا جا سکے اور ان کا علاج بروقت ممکن ہو۔ یہ کارکنان بےحد تربیت یافتہ ہیں اور ان کی تعداد بھی ایک لاکھ سے زائد ہے۔ پولیو ویکسین کرنے والے یہ کارکنان ہر محلہ، گلی حتیٰ کہ گھر اور ان کے مکینوں کی تعداد سے واقف ہیں۔ لہٰذا وبا کو پھیلنے سے پہلے ہی قابو کرنے کے لئے ان لوگوں کو لاک ڈاؤن کے دوران قانون مافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے استعمال کرنے کی تجویز دی گئی۔ اس تجویز پر ڈیڑھ ماہ ضائع کر دیا گیا اور جب فیصلہ ہوا تو ٹائیگر فورس جیسی کاغذی تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

16 اپریل کو این ڈی ایم اے نے اجلاس میں آنے والے خطرات سے آگاہ کیا اور 2000 بی پائپ اور 1000 سی پائپ منگوانے کی تجویز پیش کی لیکن اس تجویز کو بھی یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ ہمیں اس حد تک پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے یہاں اس وبا کے اس حد تک جانے کا امکان نہیں ہے۔ ڈاکٹر فیصل سلطان نے تو ان بی اور سی پائپ وینٹیلیٹرز کو وینٹیلیٹرز ہی ماننے سے انکار کر دیا حالانکہ اس وقت تک تحقیقات میں یہ بات سامنے آ چکی تھی کہ روایتی وینٹیلیٹرز اس بیماری میں کارگر ثابت نہیں ہو پائے۔

قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے۔ اتنا عرصہ ضائع کرنے کے بعد وزیر اعظم نے اپنے حالیہ دورہ لاہور میں انہی وینٹیلیٹرز کے خریدنے کا اعلان کر کے کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے اعلان سے کچھ دن پہلے ہی این ڈی ایم اے ان وینٹیلیٹرز اور 1000 خصوصی بیڈز کی خریداری کے ٹینڈر کر چکا تھا۔ اسی طرح ڈریپ نے کتنے ماہ ایکٹمرا بنانے والی کمپنی (روش) کی امریکہ سے اس دوا کی درآمد کی اجازت روکے رکھی اور اس عرصے میں کتنے لوگ دوا کی عدم دستیابی کی وجہ سے اللہ کو پیارے ہو گئے۔

ورلڈ بنک سے آنے والے 242 ملین ڈالر نے بھی ایک اور قضیہ کھڑا کر دیا ہے۔ حکومتی وزرا، خاص طور پر ڈاکٹر ظفر مرزا، یہ پیسہ یونیسف کے ذریعے خرچ کرنا چاہتے ہیں جس کے ایک حفاظتی لباس کی قیمت 64 ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ یونیسف اس رقم کا 24 فیصد حصہ اپنے اخراجات کی مد میں بھی کاٹ لے گا۔ این ڈی ایم اے نے حکومت کے اس اقدام پر اعتراض کیا اور وہی لباس صرف 1500 روپے میں خرید کر دینے کی پیشکش کر دی تو جیسے طوفان آ گیا۔ ایسا اختلاف ڈاکٹر ظفر مرزا اور اسد عمر کی طبیعت پر بہت ناگوار گزرا ہے۔

اس پیشکش کے جواب میں تزئین اختر نامی شخص کا اردو اور انگریزی میں چیئرمین این ڈی ایم اے کے خلاف مضمون سامنے آتا ہے۔ پہلے یہ مضمون واٹس ایپ گروپوں میں گردش کرتا رہا لیکن اچانک یہ مضمون ورلڈ بنک کے دفتر جا پہنچا۔ وہاں سے یہ مضمون ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے دفتر پہنچا اور پھر ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے پاکستان میں انچارج نے این ڈی ایم اے کی تحقیقات شروع کر دیں۔ ذرائع کے مطابق این ڈی ایم اے نے چک شہزاد اسلام آباد میں چین کے تعاون سے بننے والے 255 بیڈز کے ورلڈ کلاس اسپتال اور کراچی میں بننے والے اسپتال کے لئے جس طرح کی مشکلات کا سامنا کیا وہ ناقابل بیان ہے۔

یہ سب سازشیں ابھی چل رہی تھیں تو این ڈی ایم اے کو یہ حکم جاری ہو گیا کہ وہ کرونا وائرس کے خلاف استعمال ہونے والے آلات کی خریداری کا بجٹ 50 فیصد تک کم کر دیں۔ ایسی تمام رکاوٹوں اور احکامات کے پیچھے ہمیشہ اسد عمر ہی نظر آتے ہیں۔ اس تمام تر دباؤ کے باوجود چیئرمین این ڈی ایم اے نے آڈیٹر جنرل پاکستان کو خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ 8 جون کے بعد این ڈی ایم اے کسی بھی وقت اپنا آڈٹ کروانے کے لئے تیار ہے جب کہ وہ اندرونی آڈٹ پہلے ہی کروا چکے تھے۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے اپنے خط کے ذریعے جواب دیا کہ وہ 15 جولائی کے بعد آڈٹ کر سکتے ہیں۔

اسد عمر کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بیک وقت وزیراعظم کا اعتماد بھی چاہتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے آپ کو متبادل کے طور پر پیش کرنے کی بھی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ اسی لئے وہ این سی او سی جیسی ماورائے آئین کمیٹی کے ذریعے ایسی حرکتیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ صرف این ڈی ایم اے ہی وہ آئینی اتھارٹی ہے جو وبا اور آفات میں کام کرنے کی مجاذ ہے لیکن اس کے اوپر این سی او سی کو مسلط کر دیا گیا ہے۔ انہی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لئے چیئرمین این ڈی ایم اے نے وزیر اعظم سے ملاقات کا وقت مانگا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں ان کا مضمون صرف یہی تھا کہ حکومت نے لاک ڈاؤن کھولنے کا اتنا بڑا فیصلہ کیا ہے تو وبا کے پھیلنے کی صورت میں ہماری تیاری کیا ہے اور یہ کہ جو ادارہ کام کر رہا ہے اس کے لئے یہ تمام رکاوٹیں کیوں پیدا کی جا رہی ہیں اور یہ کہ این ڈی ایم اے وزارتوں کے لئے پروکیورمنٹ ایجنسی نہیں بلکہ ایک آئینی اتھارٹی ہے۔

ظاہر ہے وزیر اعظم نے ان معاملات کو حل کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہوگی لیکن کیا یہ سب ان کی مرضی کے خلاف ہوتا رہا ہے یا ان کے علم میں ہی نہیں تھا؟ ہر دو صورتوں میں معاملات بہت سنگین غفلت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ کیا یہ معمولی بات ہے کہ ایک ادارے کے سربراہ کے خلاف لکھا جانے والا ڈمی کالم ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ پہنچ جائے؟ کیا حکومت کو اس بات کی پروا تک نہیں کہ اگر عوام کو پتہ چل جائے کہ اس بحرانی کیفیت میں بھی کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ ہر کام کرنے والے شخص اور ادارے کے درپے ہے اور آئے دن سازشوں میں مصروف ہیں تو کیا ہوگا؟ اب جب لاشیں گرنے لگی ہیں تو پچھلے ہفتے این سی او سی کے اجلاس میں اس بحرانی کیفیت کے ذمہ داران کسی سے آنکھ نہیں ملا پا رہے تھے۔

وزیر اعظم سمیت ان تمام ذمہ داران کے اس وبا کے بارے میں مضحکہ خیز بیانات اور اقدامات نے ملک میں بیماری کو اس سطح تک پہنچا دیا ہے۔ کیا وزیراعظم اور ان کے رفقا ایسی تمام حرکتوں کے ذریعے کسی اور کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر خدانخواستہ 15 سے 20 ہزار لوگ اس وبا کے ہاتھوں مارے جائیں تو عوام اپنے قتل کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں گے؟

اس نظام کے ذمہ داران نوٹس لیں، کہیں ان کے ہی خلاف تو سازش نہیں ہو رہی؟ احمقانہ حرکتیں اور روز مرنے والی عوام کی بے بسی تو یہی بتاتی ہے کہ کوئی گہری سازش ہے۔ یہ صرف غفلت نہیں ہو سکتی۔ ورنہ کیا یہ ممکن ہے کہ اس آفت کے دور میں ملک کا وزیر اعظم سندھ کے دورے پر جائے تو وزیراعلیٰ سندھ سے نہ ملے، سندھ کے مسائل نہ سنے، بلکہ چند دعوتیں کھا کر واپس لوٹ جائے؟ ملک کے 20 شہروں میں لاک ڈاؤن کا اعلان کرے اور عملاً کہیں بھی لاک ڈاؤن نہ ہو؟ پنجاب کے مختلف اسپتالوں میں ایکٹمرا انجکشن کی فراہمی کا نظام وضع ہو لیکن جنوبی پنجاب سے ایک بھی اسپتال اس فہرست میں شامل نہ ہو؟

اس تمام تر تحقیق کا نہ چاہنے کے باوجود تلخ نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس تمام تر تباہی اور نااہلی کا ذمہ دار وزیر اعظم کے علاوہ کوئی اور نہیں۔

این ڈی ایم اے کے خلاف لکھا مضمون ورلڈ بنک پہنچ گیا۔ کیا حکومت اپنے ہی اداروں کے خلاف سازش میں ملوث ہے؟
 

ابن آدم

محفلین
خیال ہے کہ اس سے دگنی تعداد میں پاکستانی کروناوائرس سے مریں گے

COVID-19 Projections | Pakistan
میں اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے کورونا کا ٹیسٹ نہیں کروایا لیکن ان کو کورونا ہے. اول کورونا کا ٹیسٹ کوئی سستا نہیں اور دوم لوگوں کا اس کا اعتبار بھی نہیں.
اور فوتگیاں بھی ہوئی ہیں. تو اصل تعداد کیا ہو گی میرا خیال ہے اس کا تو حکومت کو بھی نہیں علم ہو گا. جب لوگ خود ہی اپنے اس پاس کے ڈاکٹروں سے پوچھ کر علاج کر لیں گے اور ان میں سے کچھ فوت بھی ہو جائیں گے تو یہ تعداد حکومتی اعداد و شمار میں کبھی شامل ہی نہیں ہو گی
 

ابن آدم

محفلین
کورونا اورعمران حکومت کی اسٹریٹجی
عمران حکومت نےجس خوبصورتی سےکورونا پراپنی ناکامی کوچھپایا وہ پروپیگنڈا کی کامیاب مثال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے .پہلےاس حکومت نے اس مسئلہ کومتنازع بنا کر اپنی کوئی اسٹریٹجی نہ ہونے پر سےلوگوں کی توجہ ہٹادی شروع میں عمران نے لوگوں کو کہا کہ یہ ہلکا پھلکا فلو ہے. یعنی جو اس کو سیریس لے رہے ہیں وہ ڈرپوک لوگ ہیں. لوگ ہی ایک دوسرے کو طعنے دینے لگ گئے.

پھر کہا کہ یہ اشرافیہ لاک داؤن کرانا چاہتی ہے. یعنی ایک طبقہ کو دوسرے طبقہ سے لڑوا دیا. کہ جو لاک داؤن کروا رہے ہیں وہ امیر لوگ تمھارے دشمن ہیں اب یہ کہہ دیا کہ ١٠ لاکھ تک مریض ہو سکتے ہیں جولائی کے آخر تک. ١٠ لاکھ تک مریض ہونے کا مطلب ہے کہ کم از کم ٥٠ لاکھ ٹیسٹ ہوں. یعنی روزانہ کے تقریباً ١.٥ لاکھ ٹیسٹ. نہ حکومت کے پاس اتنے ٹیسٹ کرنے کی استطاعت ہے اور نہ ہی ارادہ ہے.

آخر میں جب ٢.٥ - ٣ لاکھ مریض ہوں گے جولائی کے آخر تک تو پھر کہیں گے کہ دیکھا ہماری اسٹریٹجی کتنی کامیاب رہی. عمران شروع سے ہی ٹھیک کہہ رہا تھا.

جب کوئی شخص فوت ہوتا ہے اور اس کا کورونہ ٹیسٹ نہ ہوا ہو تو حکومت اس کو کورونا میں تو شامل نہیں کرتی. اسی طرح وہ بیمار بھی کورونا کا مریض نہیں کہلاتا جس کا ٹیسٹ نہ ہوا ہو. تو آپ کواصل حقائق بھی معلوم نہیں ہوں گےاورحکومت خود ہی اپنےآپ کو شاباش بھی دےدی گی اوراس کےحواری بھی اس کی تعریفیں کرتےنہیں تھکیں گے.

ڈینگی وبا کے وقت فرق یہی تھاکہ حکومت نے ایک واضح اسٹریٹجی دی تھی، اس کو متنازع نہیں کیا تھا اوراسی لئے اس پراس قسم کی شازشی نظریات نےجنم نہیں لیا تھا. یہ حکومت خود ہی ان شازشی نظریات کو پھیلانے کا سبب بن رہی ہے اور ہر ڈاکٹر اب لوگوں کی نظر میں زہر والا ٹیکا لگانے والا بن گیا ہے. ان ڈاکٹروں کی جو عزت تھی وہ بھی یہ حکومت ختم کر کے جائے گی. آج کہہ دیا کہ مجھے پتہ ہوتا تو میں صوبوں کو ایسے لاک داؤن نہ کرنے دیتا. یعنی اب پھر لوگوں کو اپنے صوبے اور وفاق کے خلاف کھڑا دیا یا تو وہ صوبوں کی حکمت عملی کی حمایت کریں یا وفاق کی لیکن متحد ہو کر ایک اسٹریٹجی کے تحت اس کا مقابلہ نہ کریں.

تو یہ ایک اسٹریٹجی کہ تحت کیا گیا ہے تاکہ سوال حکومت سے نہ ہو بلکہ سماج کے دوسرے لوگوں سے ہو. اور بحث حکومت کی ناکام یا نامعلوم اسٹریٹجی پر نہ ہو بلکہ دو متضاد قوتوں کو لڑوا کر کسی اور ہی طرف بحث کا رخ پھیر دیا جائے اور حکومت اپنی کرپشن اسی طرح جاری رکھ سکے.
اب تک ٥٠٠ ارب سے زائد حکومت کو کورونا سے لڑنے کی امداداورقرضوں میں مل چکا ہےنہ ہی یہ بات کہیں اٹھ رہی ہےاورنہ ہی نیب اس پرحرکت میں اے گا. پرانی حکومتیں بھی جب کسی پریشانی میں پڑتی تھیں تو عوام کی توجہ کسی اور طرف لگا دیتی تھیں.
 

جاسمن

لائبریرین
کورونا اورعمران حکومت کی اسٹریٹجی
عمران حکومت نےجس خوبصورتی سےکورونا پراپنی ناکامی کوچھپایا وہ پروپیگنڈا کی کامیاب مثال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے .پہلےاس حکومت نے اس مسئلہ کومتنازع بنا کر اپنی کوئی اسٹریٹجی نہ ہونے پر سےلوگوں کی توجہ ہٹادی شروع میں عمران نے لوگوں کو کہا کہ یہ ہلکا پھلکا فلو ہے. یعنی جو اس کو سیریس لے رہے ہیں وہ ڈرپوک لوگ ہیں. لوگ ہی ایک دوسرے کو طعنے دینے لگ گئے.

پھر کہا کہ یہ اشرافیہ لاک داؤن کرانا چاہتی ہے. یعنی ایک طبقہ کو دوسرے طبقہ سے لڑوا دیا. کہ جو لاک داؤن کروا رہے ہیں وہ امیر لوگ تمھارے دشمن ہیں اب یہ کہہ دیا کہ ١٠ لاکھ تک مریض ہو سکتے ہیں جولائی کے آخر تک. ١٠ لاکھ تک مریض ہونے کا مطلب ہے کہ کم از کم ٥٠ لاکھ ٹیسٹ ہوں. یعنی روزانہ کے تقریباً ١.٥ لاکھ ٹیسٹ. نہ حکومت کے پاس اتنے ٹیسٹ کرنے کی استطاعت ہے اور نہ ہی ارادہ ہے.

آخر میں جب ٢.٥ - ٣ لاکھ مریض ہوں گے جولائی کے آخر تک تو پھر کہیں گے کہ دیکھا ہماری اسٹریٹجی کتنی کامیاب رہی. عمران شروع سے ہی ٹھیک کہہ رہا تھا.

جب کوئی شخص فوت ہوتا ہے اور اس کا کورونہ ٹیسٹ نہ ہوا ہو تو حکومت اس کو کورونا میں تو شامل نہیں کرتی. اسی طرح وہ بیمار بھی کورونا کا مریض نہیں کہلاتا جس کا ٹیسٹ نہ ہوا ہو. تو آپ کواصل حقائق بھی معلوم نہیں ہوں گےاورحکومت خود ہی اپنےآپ کو شاباش بھی دےدی گی اوراس کےحواری بھی اس کی تعریفیں کرتےنہیں تھکیں گے.

ڈینگی وبا کے وقت فرق یہی تھاکہ حکومت نے ایک واضح اسٹریٹجی دی تھی، اس کو متنازع نہیں کیا تھا اوراسی لئے اس پراس قسم کی شازشی نظریات نےجنم نہیں لیا تھا. یہ حکومت خود ہی ان شازشی نظریات کو پھیلانے کا سبب بن رہی ہے اور ہر ڈاکٹر اب لوگوں کی نظر میں زہر والا ٹیکا لگانے والا بن گیا ہے. ان ڈاکٹروں کی جو عزت تھی وہ بھی یہ حکومت ختم کر کے جائے گی. آج کہہ دیا کہ مجھے پتہ ہوتا تو میں صوبوں کو ایسے لاک داؤن نہ کرنے دیتا. یعنی اب پھر لوگوں کو اپنے صوبے اور وفاق کے خلاف کھڑا دیا یا تو وہ صوبوں کی حکمت عملی کی حمایت کریں یا وفاق کی لیکن متحد ہو کر ایک اسٹریٹجی کے تحت اس کا مقابلہ نہ کریں.

تو یہ ایک اسٹریٹجی کہ تحت کیا گیا ہے تاکہ سوال حکومت سے نہ ہو بلکہ سماج کے دوسرے لوگوں سے ہو. اور بحث حکومت کی ناکام یا نامعلوم اسٹریٹجی پر نہ ہو بلکہ دو متضاد قوتوں کو لڑوا کر کسی اور ہی طرف بحث کا رخ پھیر دیا جائے اور حکومت اپنی کرپشن اسی طرح جاری رکھ سکے.
اب تک ٥٠٠ ارب سے زائد حکومت کو کورونا سے لڑنے کی امداداورقرضوں میں مل چکا ہےنہ ہی یہ بات کہیں اٹھ رہی ہےاورنہ ہی نیب اس پرحرکت میں اے گا. پرانی حکومتیں بھی جب کسی پریشانی میں پڑتی تھیں تو عوام کی توجہ کسی اور طرف لگا دیتی تھیں.

لیکن عوام اتنی بے وقوف بھی نہیں ہے کہ اسے حکومت کی ان سٹریٹیجیز کا علم نہ ہو۔ اب تو وہ لوگ جنھوں نے انھیں ووٹ دیے تھے، بہت امیدیں باندھی تھیں۔ نعرے لگائے تھے۔ دوسری طرف کے لوگوں کو قائل کرنے کی کوششیں کی تھیں، وہ بھی بالآخر انھیں ناکام سمجھنے پہ مجبور ہو گئے ہیں۔ وہ شرمندہ ہو کر اپنی غلطی مان بھی رہے ہیں۔
لاہور میں ایک بہت مشہور ہسپتال کے سرجن سے ہم ملے تھے، کچھ باتیں اس حوالہ سے بھی ہوئیں۔ ہمارے طعنہ کے جواب میں کہ آپ ڈاکٹرز بھی اس کے ذمہ داروں میں شامل ہیں، وہ ماننے لگے کہ ان سے بہت ہی بڑی غلطی ہوئی ہے۔
اسی طرح ان کی طرف کے اور بھی بہت لوگ افسوس کر رہے ہیں۔
لیکن اب اس شرمندگی اور افسوس سے کیا ہو سکتا ہے! خدانخواستہ یہ شرمندگی اور افسوس مزید بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔
ہم اپنی حکومت تو بچانا چاہتے ہیں، کوششیں کرتے ہیں لیکن عوام کو بچانے کے لیے کوئی منصوبہ بندی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔
خوف کی فضا صرف "کورونا" کی وجہ سے نہیں ہے۔ خوف کی اصل وجوہات تو ہمارے اوپر بیٹھے یہ بے وقوف یا شاطر لوگ ہیں۔
پتہ نہیں ہم بیک وقت بے وقوف اور چالاک کیسے ہو جاتے ہیں!
اپنی طرف سے انتہائی چالاکی سے کام لے کر خود کو بچانے کی کوششیں کرتے ہیں لیکن درحقیقت بے وقوفی کر رہے ہوتے ہیں۔
اور بلاشبہ انسان خسارے میں ہے۔
 
اس نظام کے ذمہ داران نوٹس لیں، کہیں ان کے ہی خلاف تو سازش نہیں ہو رہی؟ احمقانہ حرکتیں اور روز مرنے والی عوام کی بے بسی تو یہی بتاتی ہے کہ کوئی گہری سازش ہے۔ یہ صرف غفلت نہیں ہو سکتی۔
مجھے رہ رہ کر یہ کہانی یاد آجاتی ہے۔ خدا کرے کہ ایسا نا ہو۔
مجھے ایک ایجنٹ کی کہانی یاد آ گئی۔ وہ سی آئی اے کی طرف سے روسیوں کی جاسوسی کے لیے روسی حکومت میں ایک اعلیٰ عہدے پر خفیہ طور پر براجمان تھا۔ کے جی بی ہزار کوشش کے باوجود اس پر جاسوسی کا کوئی الزام نا لگا سکی اور نا کبھی اسے پکڑ سکی۔ خیر اک مدت گزار کر وہ رفو چکر ہو گیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک سابقہ کے جی بی ایجنٹ نے اس سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ تم اتنے عرصے سی آئی اے کے لیے جاسوسی کرتے اور ہماری لاکھ کوشش کے بعد بھی تم قابو نہیں آئے، تمھارا مشن تھا کیا ؟
ایجنٹ بولا میرا ایک ہی مشن تھا کہ ہر بہترین اور اعلیٰ پوسٹ پر کوئی بیوقوف براجمان رہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
لاہور میں ایک بہت مشہور ہسپتال کے سرجن سے ہم ملے تھے، کچھ باتیں اس حوالہ سے بھی ہوئیں۔ ہمارے طعنہ کے جواب میں کہ آپ ڈاکٹرز بھی اس کے ذمہ داروں میں شامل ہیں، وہ ماننے لگے کہ ان سے بہت ہی بڑی غلطی ہوئی ہے۔
اسی طرح ان کی طرف کے اور بھی بہت لوگ افسوس کر رہے ہیں۔
لیکن اب اس شرمندگی اور افسوس سے کیا ہو سکتا ہے!
لاہور کی زیادہ تر سیٹوں ن لیگ نے جیتی تھی اس لئے کم از کم لاہوریوں کو تو شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
باقی جمہوری نظام میں اپنی پسند کی جماعت یا امیدوار کو ووٹ دینا ہر پاکستانی کا آئینی حق ہے۔ ووٹنگ کے بعد نتائج غلط آنے پر اسے شرمندہ نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے اپنا یہ حق کیوں استعمال کیا؟ اگر حکومت ڈلیور کرنے میں ناکام ہے تو اس کی ساری ذمہ داری حکومت چلانے والوں پر عائد ہوتی ہے۔ ووٹر اس کا ذمہ دار نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
Top