ایم کیو ایم

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مہوش علی

لائبریرین
نعمان صاحب،
ہمیں صوبائیت کی سطح سے اٹھ کر سب سے پہلے پاکستانی بن کر ان مسائل کا حل دیکھنا ہے۔
پشتون اور بلوچستان کے مسائل کا سارا الزام صرف آرمی پر ڈالنا مکمل انصاف نہیں ہے۔ اور اس کی وجوہات یہ ہیں:

1۔ یہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ پشتون کا ایک گروہ ہمیشہ سے پاکستان کے قیام کے خلاف رہا ہے اور اپنے آپ کو افغانستان کا حصہ سمجھتا ہے (باچا خان کی قیادت میں)۔
چونکہ پشتون مسائل اس دھاگے کا موضوع نہیں، اس لیے بحث کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ اگر مزید بحث کی ضرورت ہوئی تو نیا دھاگہ کھولنا بہتر رہے گا۔


2۔ بلوچستان کے مسائل بھی صرف آرمی کے پیدا کردہ نہیں ہیں۔ اس کے سب سے بڑے ذمہ دار خود بلوچ سردار ہیں۔
دوسرے نمبر پر قصوروار ہمارے سیاست دان ہیں (چاہے اُن کا تعلق سیاسی جماعتوں سے ہو یا آرمی کے جنرل جنہوں نے عنانِ حکومت ہاتھ میں لی، یا اُن کے تحت سول بیوروکریسی)
بلوچستان میں سب سے بڑا آپریشن سول حکومت (بھٹو صاحب) کے دور میں ہوا۔

بلوچستان کے مسائل ایک بہت بڑا موضوع ہے، اور اس کے لیے بھی یہ دھاگا مناسب نہیں۔ لہذا بحث کو یہاں ہی روکنا مناسب ہو گا۔

اب چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف، جو کہ ہے ایم کیو ایم۔

جہاں تک میں سمجھ سکی ہوں، کراچی کی عوام کو سب سے زیادہ شکایت خود اُن پشتون اور سندھی اور پنجابی مہاجرین سے تھی جو کہ کراچی آ کر آباد ہو رہے تھے۔ اسی طرح انہیں شکایت تھی کہ سندھیوں، بلوچوں اور پشتونوں کو کوٹہ سسٹم پر کیوں داخلہ مل جاتا ہے۔

انہی شکایات کی بنیاد پر ایم کیو ایم کا وجود عمل میں آیا، اور اہل کراچی نے (جو خود مہاجر ہیں) دوسرے پاکستانی علاقوں سے آنے والے دیگر پشتون، سندھی، پنجابی مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس بنیاد پر کراچی میں فسادات پھوٹے۔

ایم کیو ایم کی موجودہ قیادت کی منافقت کی بڑی نشانی میرے نزدیک یہی ہے کہ کل تک یہی قیادت اپنے کارکنوں کو کہہ رہی تھی کہ ان سندھیوں اور پشتونوں کو کراچی سے مار بھگاؤ، اور آج سیاست کی غرض سے انہی قوموں کے حقوق کے لیے لڑنے کی بات کر رہی ہے۔

ایم کیو ایم کی قیادت کا یہ موجودہ کردار صرف سیاسی حربے اور حیلے ہیں، تاکہ پاکستان کے مفادات کی قیمت پر وہ اپنی دکان چمکا سکیں۔

ہر جگہ جہاں علاقائیت کی بات ہوتی ہے، ایم کیو ایم اُس کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ایم کیو ایم خود علاقائی اور لسانی جماعت ہے، اور دیگر علاقائی اور لسانی تنظیمیں ختم ہو گئیں تو خود ایم کیو ایم کے وجود کو خطرہ پڑ جائے گا اور اس کے باقی رہ جانے کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔

کراچی کے عوام اگر ایم کیو ایم کو ووٹ دیتے ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک گیر سطح پر کوئی اور ایسی جماعت نہیں ہے جس پر وہ اعتماد کر سکیں (یعنی اُن کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے)۔

پیپلز پارٹی سندھیوں کی جماعت سمجھی جاتی ہے اور اُن کے دورِ حکومت میں کراچی کی بڑی بڑی پوسٹیں سندھیوں کو دی جاتی ہیں۔

مسلم لیگ کو پنجابی جماعت سمجھا جاتا ہے، اور اُن کے دورِ حکومت میں کراچی میں پنجابی گھس جاتے ہیں۔

کراچی میں ایم کیو ایم کے مقابلے میں اگر کوئی اور جماعت کھڑی ہونے کی کوشش کرے تو سب سے پہلے یہی ایم کیو ایم ہے جو اُس جماعت کی اینٹ سے اینٹ بجاتی ہے۔

کراچی کی یہی جماعتِ اسلامی ہے جو ایم کیو ایم پر الزام لگاتی ہے کہ وہ اُس کے ہزاروں کارکنوں کے قتل کہ ذمہ دار ہے۔ (نوٹ: اس لیے یہ الزام لگانا کہ یہ صرف آرمی ہے جو ایم کیو ایم پر الزام لگا رہی ہے، غلط ہے)۔ کراچی کے کالجوں میں بھی ووٹنگ کے وقت دیگر جماعتوں کو یہی ایم کیو ایم اپنا سٹال نہیں لگانے دیتی۔۔۔۔۔۔

لیکن اگر آج یہی ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کراچی میں گلے میں گلے ملے ہوئے نظر آ رہے ہیں، تو یہ حبِ علی سے زیادہ بغضِ معاویہ ہے۔

مختصرا، بطور پاکستانی کم از کم میری سوچ تو یہی ہے کہ مہاجروں کے ساتھ اگر کوئی زیادتی ہو رہی ہے (مثلا کوٹہ سسٹم اور بیہاری مہاجرین کے واپسی وغیرہ) تو میں اس کے خلاف ہوں۔ لیکن جہاں تک ایم کیو ایم جیسی علاقائی تنظیموں کا تعلق ہے، تو ان کا وجود پاکستان کے لیے زہر قاتل ہے۔

(نوٹ: بہاری مہاجرین کی واپسی کے خلاف ہونے کا سارا الزام فوج پر ڈال دینا پھر ناانصافی ہو گی، بلکہ یہ سندھی، بلوچی اور پشتون عوام بھی ہے جو کہ اُن کی واپسی کے خلاف ہیں۔ یاد رکھئیے، فوج بذاتِ خود کچھ نہیں، بلکہ عوام کا ہی ایک حصہ ہے اور اسی عوام کی ذہنیت کی عکاس ہے)۔
 

اظہرالحق

محفلین
مہوش علی نے کہا:
نعمان صاحب،
ہمیں صوبائیت کی سطح سے اٹھ کر سب سے پہلے پاکستانی بن کر ان مسائل کا حل دیکھنا ہے۔
پشتون اور بلوچستان کے مسائل کا سارا الزام صرف آرمی پر ڈالنا مکمل انصاف نہیں ہے۔ اور اس کی وجوہات یہ ہیں:

1۔ یہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ پشتون کا ایک گروہ ہمیشہ سے پاکستان کے قیام کے خلاف رہا ہے اور اپنے آپ کو افغانستان کا حصہ سمجھتا ہے (باچا خان کی قیادت میں)۔
چونکہ پشتون مسائل اس دھاگے کا موضوع نہیں، اس لیے بحث کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ اگر مزید بحث کی ضرورت ہوئی تو نیا دھاگہ کھولنا بہتر رہے گا۔


2۔ بلوچستان کے مسائل بھی صرف آرمی کے پیدا کردہ نہیں ہیں۔ اس کے سب سے بڑے ذمہ دار خود بلوچ سردار ہیں۔
دوسرے نمبر پر قصوروار ہمارے سیاست دان ہیں (چاہے اُن کا تعلق سیاسی جماعتوں سے ہو یا آرمی کے جنرل جنہوں نے عنانِ حکومت ہاتھ میں لی، یا اُن کے تحت سول بیوروکریسی)
بلوچستان میں سب سے بڑا آپریشن سول حکومت (بھٹو صاحب) کے دور میں ہوا۔

بلوچستان کے مسائل ایک بہت بڑا موضوع ہے، اور اس کے لیے بھی یہ دھاگا مناسب نہیں۔ لہذا بحث کو یہاں ہی روکنا مناسب ہو گا۔

اب چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف، جو کہ ہے ایم کیو ایم۔

جہاں تک میں سمجھ سکی ہوں، کراچی کی عوام کو سب سے زیادہ شکایت خود اُن پشتون اور سندھی اور پنجابی مہاجرین سے تھی جو کہ کراچی آ کر آباد ہو رہے تھے۔ اسی طرح انہیں شکایت تھی کہ سندھیوں، بلوچوں اور پشتونوں کو کوٹہ سسٹم پر کیوں داخلہ مل جاتا ہے۔

انہی شکایات کی بنیاد پر ایم کیو ایم کا وجود عمل میں آیا، اور اہل کراچی نے (جو خود مہاجر ہیں) دوسرے پاکستانی علاقوں سے آنے والے دیگر پشتون، سندھی، پنجابی مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس بنیاد پر کراچی میں فسادات پھوٹے۔

ایم کیو ایم کی موجودہ قیادت کی منافقت کی بڑی نشانی میرے نزدیک یہی ہے کہ کل تک یہی قیادت اپنے کارکنوں کو کہہ رہی تھی کہ ان سندھیوں اور پشتونوں کو کراچی سے مار بھگاؤ، اور آج سیاست کی غرض سے انہی قوموں کے حقوق کے لیے لڑنے کی بات کر رہی ہے۔

ایم کیو ایم کی قیادت کا یہ موجودہ کردار صرف سیاسی حربے اور حیلے ہیں، تاکہ پاکستان کے مفادات کی قیمت پر وہ اپنی دکان چمکا سکیں۔

ہر جگہ جہاں علاقائیت کی بات ہوتی ہے، ایم کیو ایم اُس کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ایم کیو ایم خود علاقائی اور لسانی جماعت ہے، اور دیگر علاقائی اور لسانی تنظیمیں ختم ہو گئیں تو خود ایم کیو ایم کے وجود کو خطرہ پڑ جائے گا اور اس کے باقی رہ جانے کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔

کراچی کے عوام اگر ایم کیو ایم کو ووٹ دیتے ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک گیر سطح پر کوئی اور ایسی جماعت نہیں ہے جس پر وہ اعتماد کر سکیں (یعنی اُن کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے)۔

پیپلز پارٹی سندھیوں کی جماعت سمجھی جاتی ہے اور اُن کے دورِ حکومت میں کراچی کی بڑی بڑی پوسٹیں سندھیوں کو دی جاتی ہیں۔

مسلم لیگ کو پنجابی جماعت سمجھا جاتا ہے، اور اُن کے دورِ حکومت میں کراچی میں پنجابی گھس جاتے ہیں۔

کراچی میں ایم کیو ایم کے مقابلے میں اگر کوئی اور جماعت کھڑی ہونے کی کوشش کرے تو سب سے پہلے یہی ایم کیو ایم ہے جو اُس جماعت کی اینٹ سے اینٹ بجاتی ہے۔

کراچی کی یہی جماعتِ اسلامی ہے جو ایم کیو ایم پر الزام لگاتی ہے کہ وہ اُس کے ہزاروں کارکنوں کے قتل کہ ذمہ دار ہے۔ (نوٹ: اس لیے یہ الزام لگانا کہ یہ صرف آرمی ہے جو ایم کیو ایم پر الزام لگا رہی ہے، غلط ہے)۔ کراچی کے کالجوں میں بھی ووٹنگ کے وقت دیگر جماعتوں کو یہی ایم کیو ایم اپنا سٹال نہیں لگانے دیتی۔۔۔۔۔۔

لیکن اگر آج یہی ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کراچی میں گلے میں گلے ملے ہوئے نظر آ رہے ہیں، تو یہ حبِ علی سے زیادہ بغضِ معاویہ ہے۔

مختصرا، بطور پاکستانی کم از کم میری سوچ تو یہی ہے کہ مہاجروں کے ساتھ اگر کوئی زیادتی ہو رہی ہے (مثلا کوٹہ سسٹم اور بیہاری مہاجرین کے واپسی وغیرہ) تو میں اس کے خلاف ہوں۔ لیکن جہاں تک ایم کیو ایم جیسی علاقائی تنظیموں کا تعلق ہے، تو ان کا وجود پاکستان کے لیے زہر قاتل ہے۔

(نوٹ: بہاری مہاجرین کی واپسی کے خلاف ہونے کا سارا الزام فوج پر ڈال دینا پھر ناانصافی ہو گی، بلکہ یہ سندھی، بلوچی اور پشتون عوام بھی ہے جو کہ اُن کی واپسی کے خلاف ہیں۔ یاد رکھئیے، فوج بذاتِ خود کچھ نہیں، بلکہ عوام کا ہی ایک حصہ ہے اور اسی عوام کی ذہنیت کی عکاس ہے)۔



بلکل صحیح خیالات ہیں آپکے ، میں کوئی جنرل مشرف کا حامی نہیں ہوں ، مگر جو بھی کچھ ملک میں “حقوق“ کے نام پر ہورہا ہے ، وہ اچھا نہیں ہے ۔ ۔ چاہے وہ کوئی بھی کر رہا ہو ۔ ۔ ۔

اور ہاں بی بی سی تو اپنے شہریوں (برطانوی) باشندوں کا خیال تو کرے گا نا ۔ ۔ ۔

کسی نے یہ کہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
کہ جب قومیں اپنے فرائض بھول کر اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں تو تباہ ہو جاتی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

اور ہاں ایم کیوایم کی دوغلی بات تو یہ ہی کافی ہے ، کہ ایک طرف اقتدار کا مزہ ہے دوسری طرف ۔ ۔ ۔ ۔ “عوامی رابطہ“ “کم مٹی “
 

نعمان

محفلین
پہلے مہوش بہن کے پوسٹ کے جوابات:

آپ لکھتی ہیں:
ہمیں صوبائیت کی سطح سے اٹھ کر سب سے پہلے پاکستانی بن کر ان مسائل کا حل دیکھنا ہے۔

غلط ۔ کیونکہ پاکستان کی فیڈریشن صوبوں سے ملکر بنتی ہے۔ اگر صوبوں کے درمیان فیڈریشن کے عمل سے ایسا تاثر ابھرتا ہے جس سے ناانصافی کی بو آتی ہو تو اس پر صوبوں کی عوام کو اپنے صوبے کی نمائندگی میں آواز اٹھانا چاہئیے۔ یہی جمہوریت کی روح ہے۔ ریاست کی ترقی کے لئیے ضروری ہے کہ ہر شخص پہلے اپنی ذات، پھر محلے، پھر شہر، پھر صوبے اور پھر ملک کو بارے میں سوچے۔ ملک تک سوچنے سے پہلے ہی تمام مسائل زیر بحث آجائیں گے۔ کیا صوبوں کے حقوق کا پاکستانیت سے کوئی تعلق نہیں؟

آپ لکھتی ہیں:
پشتون اور بلوچستان کے مسائل کا سارا الزام صرف آرمی پر ڈالنا مکمل انصاف نہیں ہے۔

میں نے سارا الزام آرمی پر ڈالا بھی نہیں ہے میں بلوچستان کے مسئلے کو وفاق کی ناانصافی اور پاکستانی فوج کی روایتی عوام دشمنی سمجھتا ہوں۔ میں لشکر کشی، غیر قانونی طریقے سے لوگوں چاہے وہ مجرم ہی ہوں انہیں قتل کئیے جانے کے خلاف ہوں۔

آپ لکھتی ہیں کہ اس کے ذمہ دار بلوچ سردار ہیں۔ مجھے یہ بات اسلئیے مناسب معلوم نہیں ہوتی کیونکہ کالاباغ ڈیم والی پوسٹ میں سندھیوں کی بدحالی کا ذمہ دار وڈیروں کو ٹہرادیا گیا تھا، کراچی کی ناانصافیوں کی ذمہ دار ایم کیو ایم ٹہری تھی۔ اور اب بلوچوں کی بات آئی تو سردار معتوب ٹہرے ہیں۔ میرے خیال میں یہ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی زمہ داری ہے کہ وہ عوام کی فلاح سوچیں۔ اگر صوبائی حکومتیں بری کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں تو وفاق کے پاس کئی اور ایسے ذرائع تھے اور ہیں جن سے اس بری کارکردگی کا سدباب عشروں پہلے کیا جاسکتا تھا۔ مگر بلوچستان کے وسائل اور حکومت کو یرغمال بنا کر رکھنے کے لئیے وفاق اور آرمی ڈکٹیٹروں نے سرداروں کی حاکمیت کو رواج دیا۔ اگر کسی بینک میں ڈکیتی پڑتی ہے تو پولیس بھی سب سے پہلے چوکیداروں کو پکڑتی ہے اور ان سے سوال کرتی ہے۔ اس لئیے ہمیں پورا حق ہے کہ ہم نا انصافیوں کا جواب وفاق اور پاکستان کے چوکیداروں سے طلب کریں اور فرائض سے غفلت پر انہیں لعن طعن کریں۔

آپ لکھتی ہیں
جہاں تک میں سمجھ سکی ہوں، کراچی کی عوام کو سب سے زیادہ شکایت خود اُن پشتون اور سندھی اور پنجابی مہاجرین سے تھی جو کہ کراچی آ کر آباد ہو رہے تھے۔ اسی طرح انہیں شکایت تھی کہ سندھیوں، بلوچوں اور پشتونوں کو کوٹہ سسٹم پر کیوں داخلہ مل جاتا ہے۔
انہی شکایات کی بنیاد پر ایم کیو ایم کا وجود عمل میں آیا، اور اہل کراچی نے (جو خود مہاجر ہیں) دوسرے پاکستانی علاقوں سے آنے والے دیگر پشتون، سندھی، پنجابی مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس بنیاد پر کراچی میں فسادات پھوٹے۔

کراچی کے عوام میں آٹومیٹکلی پشتون، سندھی اور پنجابی سب آجاتے ہیں۔ رہی بات مہاجروں کی تو انہیں ان لوگوں سے کوئی شکایت نہ تھی اور نہ ہے۔ اگر کراچی کے لوگوں نے نئے آنے والوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہوتا اور اس بناء پر فسادات پھوٹے ہوتے تو کراچی میں شمال کی طرف سے آنے والوں کو رک جانا چاہئیے تھا۔ مگر کراچی کی تاریخ میں کوئی سال ایسا نہیں گزرا جب اندرون ملک سے آنے والے لوگوں کا تانتا ٹوٹا ہو۔ کراچی کے لوگ اگر پاگل ہوتے تو وہ شاید ایسی حرکتیں اور مطالبے کرتے کیونکہ کراچی کی ترقی کی بنیادی وجہ ہی ہماری ڈائیورسٹی ہے۔ فسادات پھوٹنے کی وجوہات کچھ اور تھیں جو اب تاریخ کا حصہ ہیں۔

کوٹہ سسٹم پر کراچی کے لوگوں کو اب بھی اعتراض ہے کیونکہ عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اداروں میں کارکردگی اور صلاحیت کو اہلیت مانا جانا چاہئیے نہ کہ جغرافیائی اور گروہی طبقہ بندیوں کو کیونکہ اس مقابلے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور نا انصافی بڑھتی ہے۔ اس سے ادارے بھی تباہ ہوجاتے ہیں۔ کراچی کے عوام کی اکثریت مقابلے کی معیشت اور مقابلے کی معاشرت پر یقین رکھتی ہے۔

"ایم کیو ایم کی موجودہ قیادت کی منافقت کی بڑی نشانی میرے نزدیک یہی ہے کہ کل تک یہی قیادت اپنے کارکنوں کو کہہ رہی تھی کہ ان سندھیوں اور پشتونوں کو کراچی سے مار بھگاؤ، اور آج سیاست کی غرض سے انہی قوموں کے حقوق کے لیے لڑنے کی بات کر رہی ہے۔ "

اگر ایک آدمی کل تک کوئی غلط بات کہتا تھا اور آج وہ صحیح بات کہہ رہا ہے تو کیا ہم اس کی بات صرف اسلئیے رد کردیں کیونکہ کل اسنے کوئی غلط بات کہی تھی؟

"ہر جگہ جہاں علاقائیت کی بات ہوتی ہے، ایم کیو ایم اُس کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ایم کیو ایم خود علاقائی اور لسانی جماعت ہے، اور دیگر علاقائی اور لسانی تنظیمیں ختم ہو گئیں تو خود ایم کیو ایم کے وجود کو خطرہ پڑ جائے گا اور اس کے باقی رہ جانے کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔ "

میں اس کا جواب اوپر دے چکا ہوں۔ علاقوں سے ملکر ہی پاکستان بنتا ہے جب آپ کسی علاقے یا گروہ کے حق کے لئیے آواز اٹھاتے ہیں تو دراصل آپ پاکستان کے حق کے لئیے ہی آواز اٹھا رہے ہوتے ہیں۔

"پیپلز پارٹی سندھیوں کی جماعت سمجھی جاتی ہے اور اُن کے دورِ حکومت میں کراچی کی بڑی بڑی پوسٹیں سندھیوں کو دی جاتی ہیں۔

مسلم لیگ کو پنجابی جماعت سمجھا جاتا ہے، اور اُن کے دورِ حکومت میں کراچی میں پنجابی گھس جاتے ہیں۔ "

غالبا آپ کو کراچی کی تاریخ سے زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ سندھ حکومت میں ایم کیو ایم سے پہلے بھی اردو بولنے والے موجود رہے ہیں کراچی کے مئیرز کی قریبا سو سالہ تاریخ میں زیادہ تر مئیر مہاجر ہی تھے نہ کہ سندھی۔ کراچی کے لوگ کراچی میں کسی کے آنے اور کراچی والا بن جانے سے قطعا خوفزدہ نہیں بلکہ اسے بہت اچھا سمجھا جاتا ہے۔ کراچی قطعا مہاجروں کا شہر نہیں ہے۔ اور میرے خیال میں فورم کے ممبران کو مہاجروں اور کراچی میں فرق کرنا چاہئیے۔ مہاجر سب سے بڑا گروہ ضرور ہیں مگر کراچی کی آبادی کا پچاس فیصد بھی نہیں ہیں۔ اور نئی تحقیقات کے مطابق کراچی میں ہر سال تین لاکھ لوگ اندرون ملک سے آکر آباد ہوتے ہیں۔ اگر مہاجر ان سے ڈرنے لگیں گے تو ہماری معیشت کا بھتہ بیٹھ جائے گا اور ہم جسے شہروں کی دلہن کہتے ہیں وہ بیوہ ہوجائیگی۔ نئے امیگرینٹس کی آمد ہمارے کلچر اور معیشت کے لئیے خون کی اہمیت رکھتی ہے۔ کراچی کا ہر مہاجر، پختون، پنجابی سندھی یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے۔

"کراچی میں ایم کیو ایم کے مقابلے میں اگر کوئی اور جماعت کھڑی ہونے کی کوشش کرے تو سب سے پہلے یہی ایم کیو ایم ہے جو اُس جماعت کی اینٹ سے اینٹ بجاتی ہے۔"

غلط کیونکہ نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ پیپلز پارٹی کا بھی کراچی میں سیگنیفیکنت ووٹ بینک ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں صبح شام کراچی پریس کلب کے باہر کانفرنسیں کرتی ہیں۔ اور جماعتوں کے درمیان تشدد کے واقعات ترقی پذیر ممالک میں عام ہیں۔ ایم کیو ایم کوئی انوکھی ہی پرتشدد جماعت نہیں ہندوستان، بنگلہ دیش، جنوب مشرقی ایشیا سب جگہ ایسا ہوتا رہتا ہے۔ اور جماعت اسلامی تشدد کو جواب بھرپور تشدد سے دیتی ہے۔

"کراچی کی یہی جماعتِ اسلامی ہے جو ایم کیو ایم پر الزام لگاتی ہے کہ وہ اُس کے ہزاروں کارکنوں کے قتل کہ ذمہ دار ہے۔ (نوٹ: اس لیے یہ الزام لگانا کہ یہ صرف آرمی ہے جو ایم کیو ایم پر الزام لگا رہی ہے، غلط ہے)۔ کراچی کے کالجوں میں بھی ووٹنگ کے وقت دیگر جماعتوں کو یہی ایم کیو ایم اپنا سٹال نہیں لگانے دیتی۔۔۔۔۔۔ "

جماعت اسلامی پر بھی ایم کیو ایم کے کئی کارکنوں کو قتل کرنے کے الزام لگتے رہے ہیں۔ کراچی کے کالجوں میں انتخابات نہیں ہوتے۔ بلکہ پورے پاکستان میں نہیں ہوتے۔ ہاں البتہ مختلف فیسٹیولز یا نئے تعلیمی سال کے آغاز پر جماعتیں اپنے اسٹال لگاتی ہیں۔ اور جتنی پاور فل جماعت اسلامی کا اسٹوڈنٹ ونگ جمیعت ہے ایم کیو ایم کی اے پی ایم ایس او تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ جو بھی کوئی یہ کہتا ہے کہ جمعیت پر اے پی ایم ایس او مظالم ڈھاتی ہے وہ غالبا کالجوں کے ماحول سے ناآشنا ہے۔ جمعیت کراچی کی سب سے زیادہ آرگنائزڈ اور پرتشدد طلبہ تنطیم ہے۔

"لیکن اگر آج یہی ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کراچی میں گلے میں گلے ملے ہوئے نظر آ رہے ہیں، تو یہ حبِ علی سے زیادہ بغضِ معاویہ ہے۔ "

میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ کراچی کے کلچر اور پاکستان کے کلچر میں فرق ہے۔ جماعت اسلامی کے موڈریٹ عناصر کو کراچی میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جیسے پروفیسر غفور احمد، نعمت اللہ خان وغیرہ۔ ایم کیو ایم کا ان سے رابطہ کرنا ایم کیو ایم کی سیاسی چال ہی صحیح مگر ایک درست قدم ہے۔ اور ویسے اس جلسے کا بنیادی ایشو بلوچستان نہیں بلکہ باجوڑ ایجنسی پر امریکی فوج کا حملہ تھا۔ کراچی کے عوام کو شدید تشویش ہے کہ نہ صرف پاک فوج خود پاکستانیوں پر کاروائیاں کررہی ہے اور ماروائے عدالت قتل کرہی ہے بلکہ اپنے غیر ملکی دوستوں کو بھی دعوت عام دے رکھی ہے۔ بطور محافظ بیرونی عناصر سے ہمیں بچانا ان کی ذمہ داری ہے۔ اسلئیے سارا الزام فوج پر ڈالنا بالکل درست ہے۔

اب نبیل بھائی کی پچھلی پوسٹ کا جواب:

فلسطینی اسرائیلی فوج کے خلاف مسلح کاروائیاں کرتے ہیں، کشمیری بھارتی فوج کے خلاف، بنگالی پاک فوج کے خلاف، انڈونیشیا کے آچے میں دیکھیں، یا آئر لینڈ میں دیکھیں، یا فرانس کے حالیہ فسادات دیکھیں۔

جب لوگوں میں عدم تحفظ اور عدم مساوات کی وجہ سے خوف پھیلتا ہے تو وہ تشدد کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ لیکن اس سے فوج، سندھ پولیس، اور نصیراللہ بابر کے جرائم کم ہوجاتے ہیں کیا؟ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد پسند عناصر کو سڑکوں پر گولی ماردینا چاہئے؟ یا کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاک فوج جب جی چاہے کسی پاکستانی کو اٹھا کر لے جائے اور جتنے دن تک چاہے اسے لاپتہ رکھے۔ ُپاکستان فوج کی زیر حراست بھی ایم کیو ایم کے کارکنان کا قتل ہوا جس کے بارے میں ابھی میرے پاس اعداد و شمار نہیں لیکن اگر آپ سرچ کریں گے تو مل جائیں گے۔ بے شک ایم کیو ایم کے کارکن مجرمان ہونگے لیکن کیا مجرمان انسان نہیں ہوتے؟ کیا ان کے کوئی حقوق نہیں ہوتےَ؟ یا وہ انسان ہی نہیں ہوتے؟


ایک صاحب یہاں بار بار بھائی کا لفظ استعمال کر رہے ہیں۔ کراچی میں بھائی کا لفظ بڑی تکریم کے لئیے استعمال کیا جاتا ہے۔ باقی پاکستان کا مجھے پتہ نہیں۔ مثال کے طور پر میں نبیل کو کئی پوسٹوں میں بھائی لکھتا ہوں۔ اپنے ایسے دوستوں کو جو مجھ سے عمر میں بڑے مگر بے تکلف ہوتے ہیں انہیں بھائی کہتا ہوں میرے چھوٹے بھائی مجھے اکثر نام سے بلاتے ہیں مگر میری بہن کے شوہر کو ہم سب اعجاز بھائی کہہ کر بلاتے ہیں۔ اس سے مراد رشتہ داری ہرگز نہیں ہے بلکہ کراچی میں اسے تکریم اور احترام کے لئیے استعمال کیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

کل رات جنرل مشرف کا خطاب سن کر میں کالا باغ ڈیم کی حمایت کی پوزیشن میں آگیا ہوں اور جنرل کے تدبر اور مدلل انداز گفتگو سے متاثر ہوا ہوں۔ لیکن پھر بھی مجھے بلوچستان کے حالات اور امریکی فوجوں اور ناٹو کی موجودگی پر شدید تشویش ہے۔ این ایف سی ایوارڈ پر بھی سندھ کے مطالبات منظور نہیں کئیے گئے اور اس این ایف سی ہمارا زائد حصہ صرف دو ارب روپے بڑھایا گیا ہے جو کہ پچھلے تین سال سے جو این ایف سی نہیں ملا اس کا سود بھی نہیں بنتا۔

میں اتنی لمبی پوسٹس لکھتا ہوں بغیر جذبات کے اور کوشش کرتا ہوں کہ دلیل سے بات کروں مجھے حیرت ہے کہ باقی لوگ اس کی آدھی دلیل بھی نہیں دے رہے اور نرے جذبات ٹھونس رہے ہیں۔ کم آن گائیز یو کین ڈو آ لاٹ بیٹر۔
 

اظہرالحق

محفلین
ویسے نعمان جی آپ پیجا بھائی کے خطاب کے بعد “لوٹے“ ہو گئے ہیں‌ :wink:

بھئی مجھے تو ڈائرئیکٹ دھمکی مل چکی ہے اسلئے ، ہم تو دم دبا کر بیٹھ جاتے ہیں کہ بقول انشا جی کے “کچھ کام ہمیں نمٹانے ہیں “

مجھے بس ثابت کرنا تھا کہ ایم کیو ایم ایک پرتشدد اور شخصیت پرست جماعت ہے ، اور یہ لوگ اپنے اوپر ذرا بھی تنقید برداشت نہیں کر سکتے ، اور یہ اس فورم کے توسط سے ظاہر ہو گیا ۔ ۔ ۔
 

haq parast

محفلین
کاش میں بھی جناب اظہار صاحب کو ان بے شمار مائوں‌کی چیخیں بھی سنا سکتا جو ہاتھ اٹھا اٹھا کر اپنے بیٹے ی کے ماورائے عدالت قتل پر نصیر اللہ بابر کو بد دعا ئیں دیتی رہیں۔۔۔
 

اظہرالحق

محفلین
haq parast نے کہا:
کاش میں بھی جناب اظہار صاحب کو ان بے شمار مائوں‌کی چیخیں بھی سنا سکتا جو ہاتھ اٹھا اٹھا کر اپنے بیٹے ی کے ماورائے عدالت قتل پر نصیر اللہ بابر کو بد دعا ئیں دیتی رہیں۔۔۔

نبیل بھیا ۔ ۔ ۔ معزرت کے ساتھ ، ان صاحب نے میرا نام لے کر یہ پوسٹ کی تھی اسلئے جواب دینا میرا فرض تھا

بھائی صاحب ، میں صرف اس وجہ سے آپکو جواب دے رہا ہوں کہ آپنے مجھے مخاطب کیا ہے ، ورنہ ۔ ۔ ۔ میری آخری پوسٹ میں ہی کافی کچھ تھا آپکے لئے ۔ ۔ ۔ نصیراللہ بابر کے آپریشن سے بہت پہلے ۔ ۔ ۔ ۔ جو آپریشن مہاجر قومی مومنٹ نے کئیے تھے وہ بہت یادگار ہیں ۔ ۔ ۔ آپ چیخیں سنانے کی بات کرتے ہو میری آنکھوں کے سامنے ہوا ہے یہ سب ، صرف ایک واقعہ بتاتا ہوں کریم آباد چورنگی میں ایک پٹھان رکشہ ڈرائیور کو میری آنکھوں کے سامنے صرف اس وجہ سے مار دیا گیا تھا کہ اسنے جئے مہاجر کا نعرہ لگانے سے انکار کر دیا تھا ۔ ۔ ۔ میری کنپٹی پر ٹی ٹی رکھکر پوچھا گیا کہ کون ہو ۔ ۔ اور جب تک شناختی کارڈ اور یونٹ انچارج سے بات نہیں ہو گئی نہی چھوڑا گیا ۔ ۔ ۔اور یہ باتیں نصیر اللہ بابر کے آپریشن سے بہت پہلے کی ہیں یعنی 1986 اور 1988 کے درمیان ۔ ۔ کی

اللہ ہمیں ہدایت دے ۔ ۔ ۔ ۔
 

نعمان

محفلین
اظہر صاحب آپکی پوسٹس مضحکہ خیز حد تک مبالغہ آمیز معلوم ہوتی ہیں۔ آپ بار بار اپنی ہر پوسٹ میں کہتے ہیں کہ میرے سامنے یہ ہوا میرے سامنے وہ ہوا۔ میں یہ جاننا چاہوں گا کہ کیا ایم کیو ایم والے یہ سب مظالم ڈھانے سے پہلے آپکو دعوت نامہ ارسال کرتے تھے یا آپ خود ہی بن بلائے مہمان کی طرح وہاں پہنچ جاتے تھے۔ یا سوئے اتفاق وہاں موجود ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ میں یہ بھی جاننا چاہونگا کہ آپکی عمر کتنی ہے۔

کراچی میں پٹھان مہاجر فسادات ہوئے ہیں بے شک مگر جو تصویر آپ کھینچ رہے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ ایم کیو ایم نے کراچی میں پٹھانوں پر اور دیگر قومیتوں پر زندگی کا دائرہ تنگ کیا ہوا تھا۔ میرے بھائی اگر اس میں رتی برابر بھی سچائی ہوتی تو آج کراچی دنیا کا سب سے زیادہ پختون آبادی والا شہر نہ ہوتا۔ فیکٹس یعنی کہ حقائق اپنی جگہ پر رہیں گے اور کامنس سینس استعمال کرنے والے لوگ خود حقیقت جان سکتے ہیں۔

قابل افسوس بات یہ ہے کہ آپ نصیراللہ بابر اور پاک فوج کے مظالم کی مذمت نہیں کرتے۔ کیوں؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جن لوگوں کو سڑکوں پر مقدمے چلائے بغیر مارا گیا وہ انسان نہیں تھے؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم نعمان۔ یہ عمر والی بات تم نے صحیح کی۔ کافی سادہ سی کیلکولیشن ہے۔ میری عمر 36 سال ہے۔ اظہرالحق دو یا تین سال چھوٹے ہوں گے مجھ سے۔ جب کراچی میں ایک طالبہ بشری زیدی ایک حادثے میں ہلاک ہوئی اور وہ فسادات شروع ہوئے جو آج تک جاری ہیں، اس وقت میں 16 سال کا تھا۔۔ یعنی میں نے ہوش کے عالم میں کراچی کی سیاست کی تمام ڈیویلپمنٹ‌ دیکھی ہے۔ تم اس وقت بچے تھے۔۔ اور میرا قیاس ہے کہ جو حق پرست یہاں آتے ہیں وہ بھی تمہاری عمر کے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ تم جنرل بابر کے آپریشن کا ذکر کرتے ہو لیکن تمہیں پکا قلعہ آپریشن یاد نہیں ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ پیپلزپارٹی خود ایک فاشسٹ‌ مزاج پارٹی ہے اور اس نے ہمیشہ سندھ پر بلا شرکت غیرے حکومت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے دونوں ادوار میں ایم کیو ایم کو طاقت سے ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہ صرف تاریخ کا ایک رخ ہے اور یہ مکمل حقیقت نہیں ہے۔
 

نعمان

محفلین
نواز شریف کے دونوں ادوار میں بھی ایم کیو ایم کو کچلنے کی بھرپور کوششیں ہوئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے فاشسٹ ماضی سے یہ بات طے تو نہیں ہوجاتی کہ ملزمان کا ماروائے عدالت قتل لائق مذمت نہیں؟ میرے خیال میں بطور انسان ہم سب کو ایسے اقدامات کو برا ہی کہنا اور سمجھنا چاہئیے نہ کہ تصویر کے بہلادینے والے خوش کن رنگوں سے دل بہلانا چاہئیے کہ جی ایم کیو ایم کوئی کم بری نہیں تھی اسلئیے ان کے کارکنان کا قتل کوئی بری بات نہیں۔ یہ طرز فکر بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ کہ ایم کیو ایم کا کبھی کوئی مجرمانہ بیک گراؤنڈ نہیں رہا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
نعمان نے کہا:
نواز شریف کے دونوں ادوار میں بھی ایم کیو ایم کو کچلنے کی بھرپور کوششیں ہوئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے فاشسٹ ماضی سے یہ بات طے تو نہیں ہوجاتی کہ ملزمان کا ماروائے عدالت قتل لائق مذمت نہیں؟ میرے خیال میں بطور انسان ہم سب کو ایسے اقدامات کو برا ہی کہنا اور سمجھنا چاہئیے نہ کہ تصویر کے بہلادینے والے خوش کن رنگوں سے دل بہلانا چاہئیے کہ جی ایم کیو ایم کوئی کم بری نہیں تھی اسلئیے ان کے کارکنان کا قتل کوئی بری بات نہیں۔ یہ طرز فکر بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ کہ ایم کیو ایم کا کبھی کوئی مجرمانہ بیک گراؤنڈ نہیں رہا۔

بات آپ کی بہت حد تک صحیح لگتی ہے۔ قانون کی خلاف ورزی ہر فریق کی طرف سے ہے۔

اچھا نعمان صاحب، اب ہم اسی بات کا ایک اور پہلو سے جائزہ لیتے ہیں۔

میرا کہنا یہ ہے کہ مکمل انصاف یہ نہیں ہے کہ کہا جائے سارے فریقین نے قانون کے خلاف کام کیا۔ بلکہ یہ طے کرنا بھی لازمی ہے کہ کس فریق نے اس سلسلے میں پہل کی اور کس کا رد عمل جوابی تھا۔

نواز شریف کے دور میں جو قانون سے بالاتر ہو کر آپریشن شروع کیا گیا، وہ ایک جوابی رد عمل تھا۔ اور یہ ردعمل اُس غیر قانونیت کا تھا جو کہ اُس وقت قائدِ ایم کیو ایم کے اشارے پر کراچی میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس سلسلے میں اگر نواز شریف حکومت گنہگار ہے، تو ایم کیو ایم زیادہ بڑی گنہگار۔

مختصراً یہ کہ اگر ایم کیو ایم اپنی مجرمانہ سرگرمیوں پر قابو پا لیتی اور انہیں ختم کر دیتی، تو پھر شاید ایک عام پاکستانی بھی اس آپریشن کی مخالفت کرتا۔ لیکن مجھے یاد ہے حالات ایسے تھے کہ مخالفت کو تو چھوڑیں، ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے میرے ایک انکل (میرے والد صاحب کے دوست، جن کا اپنا تعلق کراچی سے تھا) خود اس آپریشن کے بہت بڑے حامی تھے۔

اور جب اس قسم کے آپریشن ہوتے ہیں، تو بہت سے معصوم بھی اُس کی زد میں آ جاتے ہیں۔ یہ ایک غلط بات ہے اور کوشش ہونی چاہیے کہ کوئی معصوم اس کی زد میں نہ آئے۔ بہرحال، اس سے اُس آپریشن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کہ جس نے ایم کیو ایم کی اُس لاقانونیت کو توڑا۔

اب صورتحال یہ ہوئی کہ اُس آپریشن میں جب بہت سے معصوم لوگ بھی متاثر ہوئے، تو رائے عامہ اُس آپریشن کے بھی خلاف ہوئی۔ اور یہ حق بات بھی ہے، کیونکہ جب بھی غیر قانونی کام ہوگا، وہ غلط ہی ہو گا۔

اب آتے ہیں پکا قلعہ آپریشن کی طرف، تو بطور پاکستانی میں تو یہی محسوس کرتی ہوں کہ یہ سراسر ناجائز اور غیر قانونی تھا، اور اس کی بنیاد صرف مہاجر قوم کے خلاف عصبیت تھی۔

بہرحال، ہمارا آخری مقصد یہ تھا کہ کراچی میں ملک کا قانون نافذ ہو، اور ریاست کے اندر ایم کیو ایم نے جو ریاست بنا رکھی تھی، اُس کا وجود ختم ہو۔ اس مقصد کے حصول میں اگر غیر قانونی ذرائع استعمال ہوئے ہیں، تو اُن کی اصلاح ضروری ہے، مگر بذاتِ خود یہ مقصد غلط نہیں تھا۔
 

نعمان

محفلین
اس مقصد کے حصول میں اگر غیر قانونی ذرائع استعمال ہوئے ہیں، تو اُن کی اصلاح ضروری ہے، ۔۔۔

اصلاح؟؟

میرے خیال میں ان غیر قانونی اقدامات سے جو بداعتمادی پیدا ہوئی اس کا مداوا کیا جانا چاہئیے۔ اور ان اقدامات کی مذمت کی جانی چاہئیے۔ اس میں اگر مگر کی گنجائش اسلئیے نہیں کیونکہ ایسا حقیقتا ہوا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور اخبارات کے ضمیمہ جات موجود ہیں جنہیں کوئی بھی شخص پڑھ سکتا ہے۔

نبیل۔۔۔۔ میرے خیال میں‌کراچی میں‌تیس سال سے زیادہ عمر کے لاکھوں‌افراد ابھی بھی موجود ہیں‌ جنہوں‌ نے اس دور کا مشاہدہ کیا ہوگا۔ اگر ورڈ‌ آف ماوتھ کی کوی پاور ہے تو پھر ایم کیو ایم جیسے قاتل سفاک درندے جو رکشے والوں‌ کو جے مہاجر نہ کہنے پر گولی ماردیتے تھے وہ آج بھی الیکشن کیسے جیت رہے ہیں۔ حالانکہ پٹھان سندھی پنجابی اور مہاجر سب موجود ہیں‌ بلکہ شہر میں‌ مہاجروں‌کی آبادی کا تناسب تو الٹا کم ہوا ہے۔ امن و امان کی صورتحال بہتر ہے۔ کاروبار میں‌ بہتری آی ہے اسٹاک مارکیٹ‌ دس ہزار سے بھی اوپر جارہی ہے، شہر میں‌ فلم فیسٹیول، کوچہ ثقافت، بک بازار، راک کنسرٹس، ورلڈ میوزک کانفرنس اور سینکڑوں‌ نماشیں‌تو اسی مہینے ہوی ہیں۔ لگتا ہے کہ مجرموں‌ کی حکومت بہت اچھا کام کرہی ہے اور ایسا ہے تو پھر پاکستان فورسز کو شوٹ‌ اینڈ‌ کل کے ذریعے پاکستان کی دیگر مجرمانہ قوتوں‌ کو بھی سدھار کر حکومت دے دینی چاہیے۔

ایک اور بات۔ کیا آپ سمجھتے ہیں‌ کہ برا گروہ کوئی بھلائی کرے تو اس کی حوصلہ افزائی نہیں‌کرنا چاہئیے؟‌ صرف اسلئیے کہ وہ کبھی برے تھے ؟
 

الف نظامی

لائبریرین
کوئی اس موضوع کو قفل لگانے کی زحمت کرئے گا۔
بجائے ہم آپنگی کےنفرت پھیلائی جارہی ہے۔
کبھی تو سدھر جاو پاکستانیو۔
جو جیسا بھی ہے اپنا ہے ۔
پھر کہوں گامحبت زندہ باد
مثبت موضوعات پر بحث کیجیے۔ ملک کو سنوارنے ، ترقی دینے اور ہم اہنگی پھیلانے جیسے موضوع پر بات کریں لیکن لڑیں نہیں۔
اس سے کیا ملے گا کہ فلاں نے یہ کیا تھا فلاں نے وہ کیا تھا۔
ابھی یہ ملک تمہارے پاس ہے جب نہیں ہوگا پھر یاد آئے گا۔
وطن سے محبت کرو اور اہلِ وطن سے بھی۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
مجھے کوئی خاص وجہ تو نہیں نظر آتی اس موضوع کو مقفل کرنے کی لیکن اگر باقیوں کا بھی یہی خیال ہے تو میں ایسا ہی کروں گا۔

نعمان، میری کسی بات کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ ایم کیو ایم کے خلاف ماورائے عدالت ہلاکتیں ٹھیک تھیں۔ میرے خیال میں اس موضوع پر ہم سب گھوم پھر کر واپس ایک ہی نقطے پر آ جاتے ہیں اور اس کا کوئی نتیجہ نہیں برآمد ہو رہا۔ شاید نعیم اختر ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں۔ نعمان تم بات کرو۔۔اس کے بعد یہ تھریڈ بھی۔۔۔ :music:
 

الف نظامی

لائبریرین
بی بی سی تو ہمیشہ پاکستان کے حوالے سے جانبدار خبریں دیتا ہے۔ اسکو ہمیشہ گلاس خالی ہی دکھائی دیتا ہے۔
 

نعمان

محفلین
یہ خبر کب کی ہے بی بی سی کے صفحے پر تاریخ اشاعت موجود نہیں ہے۔ اور موصوفہ کس نمائش کا ذکر کر رہی ہیں؟ سیکوریٹی کے بارے میں حکومت کا کنسرنڈ ہونا تو اچھی بات ہے۔ امریکہ میں تو کیپیٹل ہل اور نیویارک شہر پر جنگی جہاز، ہیلی کاپٹر اور مسلح سیکویریٹی والے نگرانی کرتے ہیں۔ ان سے تو کوئی صحافی خوفزدہ نہیں ہوتا؟ حتی کہ نیویارک کے سب وے میں تو فوٹوگرافی کی بھی اجازت نہیں (پچھلے چند مہینے سے)۔ ابھی کچھ دن پہلے زکریا کی یونیورسٹی جو کہ اٹلانٹا میں ہے وہاں بم کی اطلاع پہنچ گئی تھی اور عمارتیں خالی کرالی گئی تھیں۔ دہشت گردی سے بچنے کے لئیے ہر اقدام ضروری ہے۔ کراچی میں بین الاقوامی نمائشوں کو القاعدہ سے بہت زیادہ خطرہ ہے ہمارے شہر پر القاعدہ پچھلے چند سالوں میں متعدد حملے کرچکی ہے جن میں اکثر کراچی والے ہی ہلاک ہوتے ہیں۔ اسلئیے یہ غیر معمولی سیکیوریٹی اقدامات کوئی تعجب خیز بات نہیں۔

نبیل بھائی مجھے اس پوسٹ کے بند ہونے پر کوئی اعتراض نہیں میں نے یہ تھریڈ شروع نہیں کی تھی میں تو صرف اظہر بھائی کے انتہائی جذباتی ڈائیلاگز کی وجہ سے یہاں آگیا تھا۔ آپ بصد شوق اسے قفل لگائیں۔ دوسری بات یہ کہ ٹھیک آپ ان ہلاکتوں کو صحیح نہیں سمجھتے مگر ان کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ میرا دل رکھنے کے لئیے ہی کہہ دیں کہ کراچی میں ہونے والے ماورائے عدالت قتل بھیانک گناہ تھے اور اس گھناؤنے فعل میں ملوث لوگوں کو سزا ملنی چاہئیے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
نعمان۔ ماورائے عدالت قتل کسی بھی معاشرے کی نظم و نسق کی ڈاؤن فال کی انتہا ہوتے ہیں۔ مجھے یہ بات کسی کا دل رکھنے کے لیے کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں تک اس کے مجرموں کو سزا ملنے کے تعلق ہے وہ ملنی تو چاہیے لیکن ایسا ہمارے ہاں کہاں ہوتا ہے۔ یہاں تو ملک توڑے کے ذمہ دار پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن ہوتے رہے ہیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top