ایم کیو ایم کے گھر میں تحریکِ انصاف کامیاب ہوگی؟ آپ کے خیال میں کون کامیاب ہوگا؟

آپ کے خیال میں این 246 سے اس مرتبہ کونسی سیاسی جماعت کامیاب ہوگی؟

  • ایم کیوایم

    Votes: 8 66.7%
  • جماعت اسلامی

    Votes: 1 8.3%
  • تحریک انصاف

    Votes: 3 25.0%

  • Total voters
    12
  • رائے شماری کا اختتام ہو چکا ہے۔ .
ایم کیو ایم کے گھر میں تحریکِ انصاف کامیاب ہوگی؟
شمائلہ خانبی بی سی اردو ڈاٹ کام
150408133018_mqm_rally_karachi_640x360_afp_nocredit.jpg

کراچی کا یہ حلقہ روایتی طور پر متحدہ قومی موومنٹ کا سیاسی گڑھ ہے اور سنہ 1988 سے اب تک اس حلقے سے ایم کیو ایم کو کامیابی مل رہی ہے۔
پاکستان کے شہر کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 246 میں ضمنی انتخاب قریب ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شہر کا سیاسی پارہ چڑھا ہوا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ ہو یا تحریکِ انصاف یا پھر جماعت اسلامی سب پرامید ہیں کہ اِس حلقے کے ووٹر انھی کے حق میں فیصلہ دیں گے۔

کراچی کا یہ حلقہ روایتی طور پر متحدہ قومی موومنٹ کا سیاسی گڑھ ہے اور سنہ 1988 سے اب تک اس حلقے سے ایم کیو ایم کو کامیابی مل رہی ہے۔

عام انتخابات 2013 میں اس نشست سے کامیاب ہونے والے ایم کیو ایم کے سابق رکن نبیل گبول نے ایک لاکھ 37 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کو 31 ہزار ووٹ ملے تھے۔۔ جماعت اسلامی کو الیکشن کے بائیکاٹ کے باوجود دس ہزار ووٹ مل گئے تھے۔

اس مرتبہ ضمنی انتخاب میں معاملہ اتنا سیدھا نہیں اور ایم کیو ایم کو گذشتہ چند ماہ کے دوران درپیش مشکلات نے دیگر جماعتوں خصوصا جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کو یہ احساس دلایا ہے کہ وہ یہاں مقابلہ کر سکتے ہیں۔

تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی نے انتخابی مہم کے دوران حلقے میں قابلِ ذکر جلسے کیے ہیں لیکن تجزیہ کار اس انتخاب میں بھی کوئی بڑی تبدیلی آتی نہیں دیکھ رہے۔

تجزیہ نگار پروفیسر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ ’اِس حلقے کے ووٹرز بتاتے ہیں کہ وہ پچھلے 65 سال سے یہاں آباد ہیں اور اب اسے کوئی اسلام آباد سے آ کے فتح کرنے کی بات کرے، تو انھیں یہ بات ناگوار گُزری ہے۔ اس بات کا منفی اثر پڑا اورلوگوں نے اسے ایسے لیا جیسے پنجاب سے کوئی یہاں فتح کے لیے آ رہا ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ رینجرز کے ایم کیو ایم کے مرکز پر چھاپے یا صولت مرزا کے پھانسی سے چند گھنٹے پہلے جاری ہونے والے بیان کا بھی اس حلقے میں انتخابات پر کوئی بڑا فرق نہیں پڑےگا۔

150311115344_karachi_mqm_raids_640x360_afp.jpg

تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی نے انتخابی مہم کے دوران حلقے میں قابلِ ذکر جلسے کیے ہیں لیکن تجزیہ کار اس انتخاب میں بھی کوئی بڑی تبدیلی آتی نہیں دیکھ رہے
ڈاکٹر توصیف نے کہا ’اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان سارے اہم واقعات کو رائے عامہ نے محسوس نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ ایم کیو ایم کے مقابلے میں یہاں دوسری جماعتوں کا رابطہ اور تنظیم کا مؤثر نہ ہونا ہے۔‘

ان کے مطابق ایم کیو ایم اور اس کی طلبا تنظیم آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹ آرگنائزیشن اسی علاقے میں بنی تو یہاں ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔

ڈاکٹر توصیف کے بقول ’ابھی پاکستان تحریک انصاف کو کراچی میں تنظیم سازی کی بھی ضرورت ہے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ادریس بختیار کا خیال ہے کہ گیارہ مارچ کو رینجرز کے نائن زیرو پر چھاپے سےشروع ہونے والے واقعات کے بعد جو صورتحال بنی ہے اس میں یہ امکان بہت کم ہے کہ ووٹر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے لیے نکلیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’2013 کے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کو اضافی ووٹ اس لیے پڑے کہ آخری وقت میں جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔‘

کراچی میں ضمنی انتخاب
اِس حلقے کے ووٹرز بتاتے ہیں کہ وہ پچھلے 65 سال سے یہاں آباد ہیں اور اب اسے کوئی اسلام آباد سے آ کے فتح کرنے کی بات کرے، تو انھیں یہ بات ناگوار گُزری ہے۔ اس بات کا منفی اثر پڑا اورلوگوں نے اسے ایسے لیا جیسے پنجاب سے کوئی یہاں فتح کے لیے آ رہا ہے
تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف احمد
مبصرین کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات کہتے ہیں کہ ’یہ حلقہ ایک ایسی جماعت کے قبضے میں رہا ہے جسے ہمیشہ خوف کی بنیاد پر ووٹ ڈالے گئے یا اُس نے جعلی ٹھپے لگائے ۔اسکے باجود پاکستان تحریک انصاف نے پچھلے انتخابات میں وہاں سے بھاری تعداد میں ووٹ لیے تھے ۔

انھوں نے کہا کہ ’بائیکاٹ کے باجود جماعت اسلامی کے امیدوار کو ووٹ ملے تھے اور اب وہاں پی ٹی آئی کو پذیرائی مل رہی ہے اور یہ واضح ہے کہ تحریک انصاف نے اِس حلقے میں ایم کیو ایم کے خوف کا بُت توڑ دیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’حالیہ جوڈیشل کمیشن میں پاکستان کی 21 سیاسی جماعتوں نے کہا ہے کہ اس الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی اور حالیہ حقائق کے بعد ایم کیو ایم کےاصل عزائم اور انکی سرگرمیوں سے واضح طور پر یہ چیز ثابت ہوتی ہے کہ 2013 کے الیکشن میں جعل سازی کے ذریعے ووٹ ڈالے گئے۔‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ حلقہ این اے 246 سے جیت ایم کیو ایم کے لیے اس کی بقاء کا مسئلہ ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے بڑا چیلنج۔

تحریک انصاف کو اپنے آپ کو منوانے کے لیے اس حلقے سے اتنی بڑی تعداد میں ووٹ لینے ہوں گے کہ وہ ایک متبادل جماعت کے طور پر ابھر سکے۔

دیکھنا یہ ہے کہ فتح و شکست سے قطع نظر تحریکِ انصاف کراچی کے اس انتخابی معرکے میں اپنی چھاپ چھوڑنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔
 
میرے خیال میں کامیاب تو ایم کیو ایم ہی ہوگی البتہ ووٹ پہلے سے کم حاصل کرے گی۔ اضافی جعلی ووٹ نا پڑنے کی وجہ سے :)
 
میرے خیال میں کامیاب تو ایم کیو ایم ہی ہوگی البتہ ووٹ پہلے سے کم حاصل کرے گی۔ اضافی جعلی ووٹ نا پڑنے کی وجہ سے :)
اگر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف مل جائیں تو ایم کیو ایم کو شکست ہو سکتی ہے۔ جو فی الحال تک نہیں ہو سکا۔
 
مجھے لگتا ہے کہ اب جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا اتحاد کافی مشکل ہوگیا ہے۔ شروع میں اگر اتحاد ہونے کا امکان تھا۔ مگر اب تحریک انصاف جماعت اسلامی کے حق میں دستبردار ہوکر خود کو نسبتاً چھوٹی پارٹی ثابت کرنا نہیں چاہتی اور جماعت اسلامی کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے
 

loneliness4ever

محفلین
اتحاد ہونے کی صورت میں مستقل قومی مصیبت کی شکست یقینی تھی
مگر اب چونکہ اتحاد ہونا ممکن نہیں تو یہ کہہ دینا بھی ممکن نہیں کہ
جیت یقینی طور پر مستقل قومی مصیبت کی ہوگی
اس کی وجہ انتخابی حلقے کی حدود ہے
انتخابی حلقے میں لیاقت آباد، گلشن ، دستگیر، گلبرگ وغیرہ آتے ہیں
ان علاقوں میں مستقل قومی مصیبت کے زیادہ ووٹ لیاقت آباد سے
آئیں گے، مگر نائین زیرو اور دستگیر سے ان کے ووٹ کٹ کر پی ٹی آئی
اور جماعت میں تقسیم ہو چکے ہیں، ماضی کی نسبت جتنے ووٹ یہاں سے
مستقل قومی مصیبت کو ملتے تھے اس کے مقابلے میں اب ملنے والے ووٹوں
کی تعداد بہت زیادہ کم رہے گی، اور یہی حال گلشن اور گلبرگ کا ہے
اس طرح اس وقت اس حلقے میں ان کو صرف سہارا لیاقت آباد کی نفری کا ہے
باقی جگہوں سے پڑنے والے ووٹوں پر خود ان کی زبان پر سوالات ہیں

یہ (مستقل قومی مصیبت) اپنے حالیہ جلسے میں جو نفری پکڑ کر لائے تھے، وہ نفری نارتھ کراچی
ناگن چورنگی اور بفرزون وغیرہ کی سائیٹ کی تھی، اور اس کی ہی تعداد زیادہ تھی
یعنی جس حلقے میں انتخاب ہونا ہے اس کی نفری ان علاقوں کی نفری کے مقابلے
میں بے حد کم رہی ہے جس کی وجہ سے ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ چکے ہیں

یہ ہی کچھ حال جماعت اور پی ٹی آئی کا ہے مگر ان کی ناک کا مسلہ نہیں ہے
مسلہ مستقل قومی مصیبت کی ناک اور جھوٹی آن اور نفری کا ہے

مگر یہ حقیقت ہے کہ میرے شہر کراچی کے باسی اندھے اور ظالم ہو چکے ہیں
وہ صرف اس وقت مظلوم تھے جب پہلی بار ان پر ظالم نے ظلم کیا تھا
مگر پھر اس ظلم کو خاموشی سے سہتے سہتے وہ ظالم کی طاقت کر
بڑھاتے چلے گئے اور یزیدیوں کے ہمراہ جا کھڑے ہوئے

ظلمت کی فضا میں خاموشی بڑے ظالم ہیں
ہم شہر کراچی کے باسی بڑے ظالم ہیں
-------------------------------------

لاشوں کی تجارت کی قائد کی محبت میں
اپنوں سے عداوت کی قائد کی محبت میں
قائد کے پرستاروں کہتا یہ کراچی ہے
دھرتی سے بغاوت کی قائد کی محبت میں
--------------------------------------
 
آخری تدوین:
جماعتِ اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ میں سے کوئی ایک جماعت یہ انتخاب جیت لے گی۔ رہ گئی تحریکِ انصاف، تو ان کی الیکشن مہم صرف ٹی وی چینلز پر چل رہی ہے۔ گمان غالب ہے کہ ایم کیو ایم یہ سیٹ جیت لے گی۔
 
آج صبح جیو سے پتہ چلا سنی تحریک نے 246 میں تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔
اس کے جواب میں ایم کیوایم نے شیعہ تنظیم کو ساتھ بٹھا کر اُن سے ایم کیو ایم کی حمایت کا اعلان کروایا ہے۔۔۔ ایک فضول سے سیاسی معرکہ کو مزہبی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھیں
 

سعود الحسن

محفلین
دو سو چھیالیس کے تین لاکھ
وسعت اللہ خان

حالانکہ کسی انتخابی حلقے کا ضمنی انتخاب پارلیمانی نظام میں ایک معمول کی مشق ہے مگر بھلا ہو الیکٹرونک میڈیا کی چوبیس گھنٹے کی نشریاتی بھوک کا جو کسی ایک حلقے کے ضمنی انتخاب کو مظلوم ناظر کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنانے پر قادر ہے اور کسی بھی صوبے ( بلوچستان ) کے پورے انتخابی عمل کو ایک یونین کونسل کے انتخاب کے برابر اہمیت نہ دینے پر بھی قادر۔چونکہ مختلف چینلز پر ہر طرح کے افلاطونی ماہرین اور ارستوئی اینکرز کی اٹائیں سٹائیں دیکھ سن کے میرا بھی فشارِ خون کبھی چھت تو کبھی پاتال چھونے لگتا ہے اور چونکہ کچھ دوست مجھے میڈیائی فیشن فالو نہ کرنے کے طعنے بھی دینے لگے ہیں لہذا آج میں بھی بادلِ نخواستہ دل پے پتھر رکھ کے این اے دو سو چھیالیس کی قلمی ورزش کرنا چاہتا ہوں۔

اگر تئیس تاریخ کو پولنگ بخیر و خوبی ہوگئی تو این اے دو سو چھیالیس اس بار بھی متحدہ قومی موومنٹ آسانی سے جیت جائے گی۔ پہلے اگر دھاندلی سے جیتتی تھی تو اس بار بغیر دھاندلی جیت جائے گی۔وجوہات درجِ ذیل ہیں۔

این اے دو سو چھیالیس لیاقت آباد اور فیڈرل بی ایریا کے ان علاقوں پر مشتمل ہے جہاں کی نوے فیصد آبادی نیم متوسط اور نیم غریب اردو بولنے والوں پر مشتمل ہے اور کچھ آبادی گجراتی میمن کمیونٹی ، اسماعلیوں اور بوہریوں کی بھی ہے۔یہ علاقہ انیس سو چونسٹھ کے صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح کا گڑھ تھا۔جب ایوب خان نے صدارتی انتخاب جیسے کیسے جیت لیا تو اس کے بعد ان کے صاحبزادے گوہر ایوب خان کا مسلح جلوسِ فتح بھی اس علاقے سے گذرا۔یوں کراچی نے پہلی بار نسلی کشیدگی کا تلخ مزہ اپنی زبان پر محسوس کیا۔

انیس سو بہتر میں جب سندھی کو صوبے کی سطح پر سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس کے خلاف سب سے تشدد آمیز مظاہرے کراچی کے اسی علاقے میں ہوئے۔جو لوگ پولیس فائرنگ سے جاں بحق ہوئے ان کو شہدائے اردو قرار دیا گیا اور ان کی قبریں لیاقت آباد سپر مارکیٹ کے سامنے موجود ہیں۔

اور جب انیس سو اسی کے عشرے میں شیعہ سنی فسادات کی لہر آئی تو یہی علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور لیاقت آباد میں لگ بھگ سو شیعہ خاندان بے گھر ہوئے۔تاہم اس کے بعد سے یہاں عمومی سطح پر کوئی فرقہ وارانہ جھگڑا نہیں ہوا۔جس کا ایک بڑا سبب مہاجر قومی موومنٹ کی سیکولر آیڈیالوجی بتائی جاتی ہے۔

اگرچہ اس حلقے میں سنی بریلویوں کی اچھی خاصی تعداد ہے مگر سن پچاسی تک یہ علاقہ جماعتِ اسلامی کا سیاسی گڑھ بنا رہا۔ سن ستر کے پہلے عام انتخابات میں یہاں سے ( این ڈبلیو ایک سو بتیس ) جماعتِ اسلامی کے رہنما پروفیسر غفور احمد پیپلز پارٹی کے مقابلے میں بھاری اکثریت سے جیتے۔جب سن ستتر میں پورے پاکستان سے بھٹو مخالف پاکستان قومی اتحاد کو صرف بتیس سیٹیں ملیں تو ان بتیس سیٹوں میں اس علاقے سے پروفیسر غفور احمد کی نشست ( این اے ایک سو چھیاسی ) بھی شامل تھی۔

انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات میں اس حلقے سے جماعتِ اسلامی کے ہی مظفر ہاشمی کامیاب ہوئے۔اور پھر یہاں کا ووٹ بینک ایم کیو ایم کی جانب شفٹ ہوتا چلا گیا۔ تب سے اب تک جماعتِ اسلامی دوسرے نمبر پر ہی رہی۔

انیس سو اٹھاسی اور نوے کے انتخابات میں اس علاقے سے ( این اے ایک سو ستاسی ) ایم کیو ایم کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عمران فاروق جیتے۔انیس سو ترانوے میں کراچی آپریشن کے سبب چونکہ ایم کیو ایم نے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا لہذا جماعتِ اسلامی کے حافظ محمد تقی کامیاب ہوگئے۔انیس سو ستانوے کے عام انتخابات کے وقت چونکہ عمران فاروق روپوش تھے اس لیے ان کے والد فاروق احمد اس نشست پر کامیاب ہوئے۔سن دو ہزار کے بلدیاتی انتخابات کا ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا تو اس علاقے کی تیرہ یونین کونسلوں میں سے نو یونین کونسلوں میں جماعتِ اسلامی جیت گئی۔

نئی حلقہ بندیوں کے بعد سن دو ہزار دو کے انتخابات میں اس نشست سے ( این اے دو سو چھیالیس ) سے ایم کیو ایم کے جیکب آباد سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ پولیس افسر بلوچ امیدوار حاجی عزیز اللہ بروہی کامیاب ہوئے۔تاہم حاجی عزیز اللہ بروہی کی نشست خالی ہونے کے بعد دو ہزار چار کے ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم کے سندھی نژاد امیدوار نثار پنہور کامیاب ہوئے۔

سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں یہ نشست ایم کیو ایم کے امیدوار سفیان یوسف نے اور دو ہزار تیرہ میں نبیل گبول نے جیتی اور اب ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کے درمیان سہہ طرفہ مقابلہ ہے۔ راشد نسیم اس حلقے سے دو ہزار دو کے بعد سے ہر انتخاب میں جماعتِ اسلامی کی جانب سے مسلسل امیدوار رہے ہیں۔ تحریکِ انصاف اس حلقے سے دوسری بار انتخاب لڑ رہی ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انیس سو اٹھاسی کے بعد سے اب تک ایم کیو ایم نے ہر وہ انتخاب جیتا جس کا اس نے بائیکاٹ نہیں کیا۔جب کہ اس حلقے میں جماعتِ اسلامی کا تیس تا چالیس ہزار ووٹوں کا ووٹ بینک نہ کم ہوتا ہے نہ بڑھتا ہے۔دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں بھی اس حلقے میں تحریکِ انصاف کے بجائے جماعتِ اسلامی ہی دوسرے نمبر پر آتی اگر امیرِ جماعتِ اسلامی منور حسن پولنگ کے دن اچانک انتخابی بائیکاٹ نہ کردیتے۔

اس حلقے میں تحریکِ انصاف کی گنجائش اس لیے نہیں بنتی کیونکہ نچلی سطح تک اس کا تنظیمی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔جب کہ ایم کیو ایم اور جماعتِ اسلامی اس حلقے کے تجربہ کار نباض اور کھلاڑی ہیں۔خصوصاً ایم کیو ایم کا ہیڈ کوارٹر ( نائن زیرو ) یہاں ہونے کے سبب پارٹی کے لیے اس علاقے کی وہی تاریخی و سیاسی اہمیت ہے جیسے نوڈیرو پیپلز پارٹی کے لیے ، گوالمنڈی مسلم لیگ این کے لیے ، ولی باغ عوامی نیشنل پارٹی کے لیے اور ڈیرہ اسماعیل خان فضل الرحمان برادران کے لیے۔

ہاں اس علاقے میں ایم کیو ایم کو جتنے ترقیاتی کام کرنے چاہیے تھے وہ نہیں ہوئے۔ہاں اس علاقے میں ایم کیو ایم کی تائید سے قبضہ مافیا نے بہت گل کھلائے۔ہاں اس علاقے میں ایم کیو ایم کے علاوہ کسی بھی جماعت کو آزادی سے کام کرنے یا اپنی مہم چلانے میں گھبراہٹ ، خوف اور دقت ہوتی ہے۔مگر یہاں ایم کیو ایم اگر زوال پذیر ہوئی تو اپنی وجہ سے ہی ہوگی۔

ایسا نہیں کہ یہاں کا ووٹر اپنے ردِعمل کا اظہار نہیں کرتا۔یہاں رجسٹرڈ تین لاکھ ووٹوں میں سے کبھی بھی ایک لاکھ نوے ہزار سے زائد ووٹروں نے اپنا حق استعمال نہیں کیا۔اگر ایم کیو ایم کو دو ہزار آٹھ میں اس علاقے سے ایک لاکھ چھیاسی ہزار اور دو ہزار تیرہ میں ایک لاکھ سینتیس ہزار ووٹ پڑے ہیں تو دو ہزار دو میں تریپن ہزار ووٹ بھی پڑے ہیں۔

مگر جب جب ایسا لگتا ہے کہ ووٹر ایم کیو ایم سے بیزار ہے یا ووٹ بینک کم ہورہا ہے تب تب کوئی نہ کوئی آپریشن شروع ہوجاتا ہے اور بیزار ووٹر دوبارہ ایم کیو ایم کی جانب پلٹ جاتا ہے۔ موجودہ ضمنی انتخاب بھی کچھ ایسی ہی فضا میں ہورہے ہیں۔ عام ووٹر میں یہ تاثر بڑھا ہے کہ تحریکِ انصاف کو بلاواسطہ اسٹیبلشمنٹی مدد حاصل ہے۔لیکن اگر یہ فائٹ سہہ طرفہ کے بجائے دو طرفہ ہوتی اور تحریکِ انصاف جماعتِ اسلامی کے امیدوار کی حمائت کردیتی تو مقابلہ دلچسپ ضرور ہوسکتا تھا۔

( جہاں تک تحریکِ انصاف کی ضمنی انتخابی کارکردگی کا سوال ہے تو دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد تحریکِ انصاف اپنی جیتی ہوئی این اے ون ( پشاور ) اور این اے اکہتر ( میانوالی ) ضمنی انتخاب میں ہار چکی ہے۔

ہری پور کی این اے انیس پر ری پولنگ میں ہار چکی ہے۔صرف مولانا فضل الرحمان کی خالی کردہ نشست این اے پچیس ( ڈی آئی خان۔ٹانک) جیت سکی اور جاوید ہاشمی کی چھوڑی اسلام آباد کی سیٹ برقرار رکھ پائی مگر ملتان کی جاوید ہاشمی کی خالی سیٹ پر ایک آزاد امیدوار کی حمایت پر تکیہ کیا)۔

میں تو بس یہ سوچ رہا ہوں کہ تئیس اپریل کی شب جب یہ میلہ ختم ہوجائے گا تو اگلے دن میڈیا کیا بیچے گا۔مگر اس میں سوچنا کیا ؟ میڈیا تو میرا شدو ٹھیلے والا ہے۔ایک دن اس کا ٹھیلہ کیلوں سے لدا ہوتا ہے تو دوسرے دن شرطیہ مٹھے خربوزوں سے۔آج اس کے ٹھیلے پر تربوزوں کا پہاڑ بنا ہوا تھا۔

’’بابوجی لے جاؤ ، اج ہندوانے دی ریٹنگ سب توں زیادہ اے۔باہروں جنا سبز اندروں اوناں ای لال سوآ۔پینتی روپے کلو پینتی روپے کلو ، سوہنیاں واسطے مخت۔۔۔۔۔۔‘‘
 
Top