ایم کیو ایم کے گھر میں تحریکِ انصاف کامیاب ہوگی؟
شمائلہ خانبی بی سی اردو ڈاٹ کام
کراچی کا یہ حلقہ روایتی طور پر متحدہ قومی موومنٹ کا سیاسی گڑھ ہے اور سنہ 1988 سے اب تک اس حلقے سے ایم کیو ایم کو کامیابی مل رہی ہے۔
پاکستان کے شہر کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 246 میں ضمنی انتخاب قریب ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شہر کا سیاسی پارہ چڑھا ہوا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ ہو یا تحریکِ انصاف یا پھر جماعت اسلامی سب پرامید ہیں کہ اِس حلقے کے ووٹر انھی کے حق میں فیصلہ دیں گے۔
کراچی کا یہ حلقہ روایتی طور پر متحدہ قومی موومنٹ کا سیاسی گڑھ ہے اور سنہ 1988 سے اب تک اس حلقے سے ایم کیو ایم کو کامیابی مل رہی ہے۔
عام انتخابات 2013 میں اس نشست سے کامیاب ہونے والے ایم کیو ایم کے سابق رکن نبیل گبول نے ایک لاکھ 37 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کو 31 ہزار ووٹ ملے تھے۔۔ جماعت اسلامی کو الیکشن کے بائیکاٹ کے باوجود دس ہزار ووٹ مل گئے تھے۔
اس مرتبہ ضمنی انتخاب میں معاملہ اتنا سیدھا نہیں اور ایم کیو ایم کو گذشتہ چند ماہ کے دوران درپیش مشکلات نے دیگر جماعتوں خصوصا جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کو یہ احساس دلایا ہے کہ وہ یہاں مقابلہ کر سکتے ہیں۔
تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی نے انتخابی مہم کے دوران حلقے میں قابلِ ذکر جلسے کیے ہیں لیکن تجزیہ کار اس انتخاب میں بھی کوئی بڑی تبدیلی آتی نہیں دیکھ رہے۔
تجزیہ نگار پروفیسر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ ’اِس حلقے کے ووٹرز بتاتے ہیں کہ وہ پچھلے 65 سال سے یہاں آباد ہیں اور اب اسے کوئی اسلام آباد سے آ کے فتح کرنے کی بات کرے، تو انھیں یہ بات ناگوار گُزری ہے۔ اس بات کا منفی اثر پڑا اورلوگوں نے اسے ایسے لیا جیسے پنجاب سے کوئی یہاں فتح کے لیے آ رہا ہے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ رینجرز کے ایم کیو ایم کے مرکز پر چھاپے یا صولت مرزا کے پھانسی سے چند گھنٹے پہلے جاری ہونے والے بیان کا بھی اس حلقے میں انتخابات پر کوئی بڑا فرق نہیں پڑےگا۔
تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی نے انتخابی مہم کے دوران حلقے میں قابلِ ذکر جلسے کیے ہیں لیکن تجزیہ کار اس انتخاب میں بھی کوئی بڑی تبدیلی آتی نہیں دیکھ رہے
ڈاکٹر توصیف نے کہا ’اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان سارے اہم واقعات کو رائے عامہ نے محسوس نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ ایم کیو ایم کے مقابلے میں یہاں دوسری جماعتوں کا رابطہ اور تنظیم کا مؤثر نہ ہونا ہے۔‘
ان کے مطابق ایم کیو ایم اور اس کی طلبا تنظیم آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹ آرگنائزیشن اسی علاقے میں بنی تو یہاں ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔
ڈاکٹر توصیف کے بقول ’ابھی پاکستان تحریک انصاف کو کراچی میں تنظیم سازی کی بھی ضرورت ہے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ادریس بختیار کا خیال ہے کہ گیارہ مارچ کو رینجرز کے نائن زیرو پر چھاپے سےشروع ہونے والے واقعات کے بعد جو صورتحال بنی ہے اس میں یہ امکان بہت کم ہے کہ ووٹر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے لیے نکلیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’2013 کے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کو اضافی ووٹ اس لیے پڑے کہ آخری وقت میں جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔‘
کراچی میں ضمنی انتخاب
اِس حلقے کے ووٹرز بتاتے ہیں کہ وہ پچھلے 65 سال سے یہاں آباد ہیں اور اب اسے کوئی اسلام آباد سے آ کے فتح کرنے کی بات کرے، تو انھیں یہ بات ناگوار گُزری ہے۔ اس بات کا منفی اثر پڑا اورلوگوں نے اسے ایسے لیا جیسے پنجاب سے کوئی یہاں فتح کے لیے آ رہا ہے
تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف احمد
مبصرین کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات کہتے ہیں کہ ’یہ حلقہ ایک ایسی جماعت کے قبضے میں رہا ہے جسے ہمیشہ خوف کی بنیاد پر ووٹ ڈالے گئے یا اُس نے جعلی ٹھپے لگائے ۔اسکے باجود پاکستان تحریک انصاف نے پچھلے انتخابات میں وہاں سے بھاری تعداد میں ووٹ لیے تھے ۔
انھوں نے کہا کہ ’بائیکاٹ کے باجود جماعت اسلامی کے امیدوار کو ووٹ ملے تھے اور اب وہاں پی ٹی آئی کو پذیرائی مل رہی ہے اور یہ واضح ہے کہ تحریک انصاف نے اِس حلقے میں ایم کیو ایم کے خوف کا بُت توڑ دیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’حالیہ جوڈیشل کمیشن میں پاکستان کی 21 سیاسی جماعتوں نے کہا ہے کہ اس الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی اور حالیہ حقائق کے بعد ایم کیو ایم کےاصل عزائم اور انکی سرگرمیوں سے واضح طور پر یہ چیز ثابت ہوتی ہے کہ 2013 کے الیکشن میں جعل سازی کے ذریعے ووٹ ڈالے گئے۔‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ حلقہ این اے 246 سے جیت ایم کیو ایم کے لیے اس کی بقاء کا مسئلہ ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے بڑا چیلنج۔
تحریک انصاف کو اپنے آپ کو منوانے کے لیے اس حلقے سے اتنی بڑی تعداد میں ووٹ لینے ہوں گے کہ وہ ایک متبادل جماعت کے طور پر ابھر سکے۔
دیکھنا یہ ہے کہ فتح و شکست سے قطع نظر تحریکِ انصاف کراچی کے اس انتخابی معرکے میں اپنی چھاپ چھوڑنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔
شمائلہ خانبی بی سی اردو ڈاٹ کام

کراچی کا یہ حلقہ روایتی طور پر متحدہ قومی موومنٹ کا سیاسی گڑھ ہے اور سنہ 1988 سے اب تک اس حلقے سے ایم کیو ایم کو کامیابی مل رہی ہے۔
پاکستان کے شہر کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 246 میں ضمنی انتخاب قریب ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شہر کا سیاسی پارہ چڑھا ہوا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ ہو یا تحریکِ انصاف یا پھر جماعت اسلامی سب پرامید ہیں کہ اِس حلقے کے ووٹر انھی کے حق میں فیصلہ دیں گے۔
کراچی کا یہ حلقہ روایتی طور پر متحدہ قومی موومنٹ کا سیاسی گڑھ ہے اور سنہ 1988 سے اب تک اس حلقے سے ایم کیو ایم کو کامیابی مل رہی ہے۔
عام انتخابات 2013 میں اس نشست سے کامیاب ہونے والے ایم کیو ایم کے سابق رکن نبیل گبول نے ایک لاکھ 37 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کو 31 ہزار ووٹ ملے تھے۔۔ جماعت اسلامی کو الیکشن کے بائیکاٹ کے باوجود دس ہزار ووٹ مل گئے تھے۔
اس مرتبہ ضمنی انتخاب میں معاملہ اتنا سیدھا نہیں اور ایم کیو ایم کو گذشتہ چند ماہ کے دوران درپیش مشکلات نے دیگر جماعتوں خصوصا جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کو یہ احساس دلایا ہے کہ وہ یہاں مقابلہ کر سکتے ہیں۔
تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی نے انتخابی مہم کے دوران حلقے میں قابلِ ذکر جلسے کیے ہیں لیکن تجزیہ کار اس انتخاب میں بھی کوئی بڑی تبدیلی آتی نہیں دیکھ رہے۔
تجزیہ نگار پروفیسر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ ’اِس حلقے کے ووٹرز بتاتے ہیں کہ وہ پچھلے 65 سال سے یہاں آباد ہیں اور اب اسے کوئی اسلام آباد سے آ کے فتح کرنے کی بات کرے، تو انھیں یہ بات ناگوار گُزری ہے۔ اس بات کا منفی اثر پڑا اورلوگوں نے اسے ایسے لیا جیسے پنجاب سے کوئی یہاں فتح کے لیے آ رہا ہے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ رینجرز کے ایم کیو ایم کے مرکز پر چھاپے یا صولت مرزا کے پھانسی سے چند گھنٹے پہلے جاری ہونے والے بیان کا بھی اس حلقے میں انتخابات پر کوئی بڑا فرق نہیں پڑےگا۔

تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی نے انتخابی مہم کے دوران حلقے میں قابلِ ذکر جلسے کیے ہیں لیکن تجزیہ کار اس انتخاب میں بھی کوئی بڑی تبدیلی آتی نہیں دیکھ رہے
ڈاکٹر توصیف نے کہا ’اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان سارے اہم واقعات کو رائے عامہ نے محسوس نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ ایم کیو ایم کے مقابلے میں یہاں دوسری جماعتوں کا رابطہ اور تنظیم کا مؤثر نہ ہونا ہے۔‘
ان کے مطابق ایم کیو ایم اور اس کی طلبا تنظیم آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹ آرگنائزیشن اسی علاقے میں بنی تو یہاں ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔
ڈاکٹر توصیف کے بقول ’ابھی پاکستان تحریک انصاف کو کراچی میں تنظیم سازی کی بھی ضرورت ہے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ادریس بختیار کا خیال ہے کہ گیارہ مارچ کو رینجرز کے نائن زیرو پر چھاپے سےشروع ہونے والے واقعات کے بعد جو صورتحال بنی ہے اس میں یہ امکان بہت کم ہے کہ ووٹر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے لیے نکلیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’2013 کے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کو اضافی ووٹ اس لیے پڑے کہ آخری وقت میں جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔‘
کراچی میں ضمنی انتخاب
اِس حلقے کے ووٹرز بتاتے ہیں کہ وہ پچھلے 65 سال سے یہاں آباد ہیں اور اب اسے کوئی اسلام آباد سے آ کے فتح کرنے کی بات کرے، تو انھیں یہ بات ناگوار گُزری ہے۔ اس بات کا منفی اثر پڑا اورلوگوں نے اسے ایسے لیا جیسے پنجاب سے کوئی یہاں فتح کے لیے آ رہا ہے
تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف احمد
مبصرین کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات کہتے ہیں کہ ’یہ حلقہ ایک ایسی جماعت کے قبضے میں رہا ہے جسے ہمیشہ خوف کی بنیاد پر ووٹ ڈالے گئے یا اُس نے جعلی ٹھپے لگائے ۔اسکے باجود پاکستان تحریک انصاف نے پچھلے انتخابات میں وہاں سے بھاری تعداد میں ووٹ لیے تھے ۔
انھوں نے کہا کہ ’بائیکاٹ کے باجود جماعت اسلامی کے امیدوار کو ووٹ ملے تھے اور اب وہاں پی ٹی آئی کو پذیرائی مل رہی ہے اور یہ واضح ہے کہ تحریک انصاف نے اِس حلقے میں ایم کیو ایم کے خوف کا بُت توڑ دیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’حالیہ جوڈیشل کمیشن میں پاکستان کی 21 سیاسی جماعتوں نے کہا ہے کہ اس الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی اور حالیہ حقائق کے بعد ایم کیو ایم کےاصل عزائم اور انکی سرگرمیوں سے واضح طور پر یہ چیز ثابت ہوتی ہے کہ 2013 کے الیکشن میں جعل سازی کے ذریعے ووٹ ڈالے گئے۔‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ حلقہ این اے 246 سے جیت ایم کیو ایم کے لیے اس کی بقاء کا مسئلہ ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے بڑا چیلنج۔
تحریک انصاف کو اپنے آپ کو منوانے کے لیے اس حلقے سے اتنی بڑی تعداد میں ووٹ لینے ہوں گے کہ وہ ایک متبادل جماعت کے طور پر ابھر سکے۔
دیکھنا یہ ہے کہ فتح و شکست سے قطع نظر تحریکِ انصاف کراچی کے اس انتخابی معرکے میں اپنی چھاپ چھوڑنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔