ایسی پیشکش جسے ٹھکرایا نہ جا سکے ...عدنان رندھاوا

چند روز پہلے نیو یارک ٹائمز کے ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں ایک مضمون نے پاکستان کے ساتھ محبت رکھنے والے شہریوں کو دہلا کر رکھ دیا۔ اس مضمون میں ایسے انکشافات کئے گئے ہیں جو ہمارے تباہ حال سیکورٹی و دیگر اہم اداروں کے لئے تو معمول کی بات ہو نگے لیکن ایک عام پاکستانی کیلئے شائد بہت خوفناک ہوں۔ویسے میرے لئے اس میں بیان کئے گئے بہت سے انکشافات کوئی زیادہ حیر انی کا باعث نہیں بنے کیونکہ مجھے تھوڑا بہت اندازہ تھا کہ ہمارے ادارے سی آئی اے کے آگے کس طرح بے بس ہیں۔
اس مضمون کا سب سے دہلا دینے والا انکشاف یہ تھا کہ جس روز ہائی کورٹ نے ریمنڈ ڈیوس کو رہا کیا ، آئی ایس آئی کے چیف جنرل پاشا اس وقت کمرہ عدالت میں موجود تھے اور امریکی سفیر کو گھبراہٹ کی حالت میں ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے اندر کے حالات سے وقفے وقفے سے آگاہ کر رہے تھے،انہیں ڈر تھا کہ کہیں پلان میں کوئی گڑ بڑ نہ ہوجائے۔ اس مضمون کے مطابق سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا، امریکی سفیر پہلے سے ہی ریمنڈ ڈیوس کا لاہور ائیر پورٹ پر سی آئی اے کے دیگر اہلکاروں کے ہمراہ انتظار کر رہے تھے۔ اسکا مطلب ہے کہ انہیں معلوم تھا کہ تھوڑی دیر میں ریمنڈ ڈیوس کو رہا کر دیا جائے گا اور ائیر پورٹ پہنچا دیا جائے گا، ایسا ہی ہوا۔( ویسے اگر کسی وکیل کو یا سائل کو پہلے سے ہی معلوم ہو کہ کیا فیصلہ آنے والا ہے ، تو میں بحیثیت وکیل ایسی عدالت کے لئے ایک بہت ناپسندیدہ اصطلاح استعمال کرتا ہوں)۔ریمنڈ ڈیوس کے استثنیٰ کے معاملے پر عدالت نے چند روز بعد فیصلہ دینا تھا۔ امریکیوں کو خدشہ تھا کہ اگر عدالت نے ریمنڈ ڈیوس جیسے امریکی جاسوس کے استثنیٰ کو ماننے سے انکار کر دیا تو اس سے ایک نظیر قائم ہو جائے گی اور پاکستان میں کام کرنے والے دیگر ہزاروں جاسوسوں کیلئے مستقبل میں خطرات پیدا ہوجائیں گے۔ میر ی محدود معلومات کے مطابق عدالت ِ عالیہ نے اس پر بعد میں کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ اسکا مطلب ہے کہ کل پھر کوئی امریکی جاسوس دو چار پاکستانیوں کو مار دیتا ہے تویہ استثنیٰ والی دلیل پھر سے اٹھائی جا سکے گی۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس روز وزارتِ خارجہ کے چیف آف پروٹوکول غالب اقبال بھی عدالت میں موجود تھے، یقینا وہ بھی اس سارے پلان کا حصہ ہوں گے۔ اخباری حوالوں کے مطابق جب عدالت نے ان سے پوچھا کہ بتائیے ریمنڈ ڈیوس کو استثنیٰ ہے یہ نہیں تو انکا جواب تھا ”وزارتِ خارجہ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے“، یعنی سوال گندم جواب چنا اورپھر یہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ بظاہر عدالت بھی اتنے ” مدلل“ جواب سے مطمئن ہو گئی ۔
جب یہ سارا ڈرامہ رچایا گیا تو بہت سے تجزیہ نگاروں نے ٹیلیویژن اور اخباروں میں شور مچانا شروع کر دیا کہ پاکستان نے اس کے بدلے امریکہ سے یقینا بہت بڑی رعایتیں لی ہونگی۔ اور ایک رعایت جس کا بڑے زور و شور سے چرچا تھا وہ یہ تھی کہ ڈرون حملے بند کر دےئے جائیں گے۔ لیکن ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے چند روز بعد ہی سی آئی اے نے ایک بڑا ڈرون حملہ کر کے یہ بتا دیا کہ وہ ہمارے پلان بنانے والوں کو درحقیقت کیا سمجھتی ہے۔
جب بھی ہم اس طرح کے واقعات پڑھتے ہیں توذہن میں کئی سوالات ابھرتے ہیں۔مثلاً ہمارے اپنے ہم وطن جنہیں اس ملک نے اتنی عزت اور مقام دیا ہے اس طرح کے پلان کیوں بناتے ہیں؟ کیا ان کی حب الوطنی ہم عام پاکستانیوں سے کم ہے جو اس طرح کی باتوں پر سیخ پا ہو جاتے ہیں؟ہمارے ادارے امریکی دباؤ کے آگے ریت کی دیوار کیوں ثابت ہوتے ہیں؟کیا ہمارے جیسے دیگر ممالک بھی اس طرح کے معاملات کو اسی طرح نمٹاتے ہیں؟
سب سے پہلے آخری سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ حال ہی میں بھارت میں اٹلی کے دو سمندری کمانڈوز کے خلاف کیس دائر کیا گیا جنہوں نے دو غریب بھارتی ماہی گیروں کو بحری قزاق سمجھتے ہوئے قتل کر دیا تھا ۔ انہیں گرفتار کیا گیا اوربھارتی عدالتوں نے تمام تر دباؤ کے باوجود ان پر مقدمہ چلایا۔
چند روز پہلے اس مقدمے میں ایک اہم موڑ آیا۔ بھارت میں مقیم اٹلی کے سفیر کی ضمانت پر ان کوووٹ ڈالنے کیلئے اٹلی جانے کی اجازت دی گئی۔ جب وہ اٹلی پہنچ گئے تو اٹلی کی حکومت نے انہیں واپس بھیجنے سے انکار کر دیا ۔ پوری ہندوستانی قوم اور حکومت اس با ت پر بھڑک اٹھی ۔بھاری وزیر اعظم نے اٹلی کو بڑے سخت الفاظ میں تنبیہ کی ،حتی کہ بھارتی عدالت عظمی نے اٹلی کے سفیر کے بغیر اجازت ملک چھوڑنے پر پابندی عائد کر دی۔اٹلیکو بالآخر گھٹنے ٹیکنے پڑے اور وہ دونوں کمانڈوز اب بھارت میں اپنے مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔
ہمارے با اثر لوگ ایسے فیصلے کیو ں کرتے ہیں میرا مختصر جواب ہے، اخلاقی جرات اور حب الوطنی کے جذبے کا فقدان۔مثلاًایک پاکستانی نوجوان جیسے ہی کسی اہم اور بااثر ادارے میں اپنے کیرئیر کا آغاز کرتا ہے اسکی ”تربیت“ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ہمارے اداروں میں جو بھی لوگ اوپر آتے ہیں ان میں زیادہ تر قابلیت اورذہانت بنیادی شرط ہوتی ہے۔ یہ لوگ محنتی اور اولالعزم ہوتے ہیں۔ یہ لوگ جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں ان کو احساس ہوتا ہے کہ اپنے سے اوپر والے کو ”نہ “ کہنا ان کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اپنے کیرئیر میں انہیں بہت سے ایسے مواقع ملتے ہیں جب ایک طرف حق اور دوسری طرف اپنے سینئر کی خواہش کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ یہیں پر ان سے غلطی ہوتی ہے ۔ ان کا ایمان یا آفاقی اخلاقیات پر یقین اتنا مضبوط نہیں ہوتا کہ یہ حق اور سچ کا انتخاب کر کے وقتی نقصان اٹھا سکیں۔ بس جب بار بار یہ اس طرح کا غلط انتخاب کرتے ہیں تو یہ باطل کا ساتھ دینے کو Rationalizeکر لیتے ہیں۔ جب یہ لوگ اچھی طرح ”پالش“ ہو جاتے ہیں تو دراصل یہ ”اخلاقی جرأت “ سے مکمل طور پر محروم ہو جاتے ہیں۔ یہ yes bossقسم کا ایک ربوٹ بن جاتے ہیں۔ انکی یہی خوبی پھر انہیں اوپر سے اوپر لے جاتی رہتی ہے۔ ہمارے با اثر اور کامیاب لوگ قابلیت، ذہانت، محنت ، اولالعزمی اور yes bossکی صفت کا نمونہ ہوتے ہیں۔ جب یہ اپنے شعبوں میں کامیاب شخصیات کی کامیابی کا تجزیہ کرتے ہیں تو انہیں ان میں بھی یہی ساری صفات نظر آتی ہیں ، اس طرح ان کا ایک نا قابلِ اصلاح قسم کا مزاج بن جاتا ہے۔ ان کا ہر فیصلہ اسی مزاج کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ رہی بات حب الوطنی کی تو اس قسم کا جذبہ ہمارے اندر بحثیت قوم کبھی جڑ پکڑ ہی نہیں سکا، اس کی وجوہات جاننے کی کوشش پھر کبھی سہی۔
دوسری طرف امریکی ہمارے بااثر اور کامیاب لوگوں کی ان صفات کو سمجھ جاتے ہیں۔ یہ اہم اداروں کے ذہین اور آگے بڑھنے کا جذبہ رکھنے والے لوگوں کو ان کے کیرےئر کے اوائل میں ہی منتخب کر لیتے ہیں ۔ مختلف اقسام کے اسکالرشپ، ٹریننگ پروگرام، بین اقوامی ایوارڈز، پر کشش بین الاقوامی تعیناتیاں اور ا س جیسے دیگر حربوں سے ان ambitiousلوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور پھران کی اپنے اپنے اداروں کے اہم عہدوں پر تعیناتی یقینی بناتے ہیں۔ انکی کوشش ہوتی ہے کہ یہ ہر ادارے کے چوٹی کے عہدے یا عہدوں پر اپنے ”پسندیدہ“ لوگوں کو تعینات کروائے، جس میں یہ اکثر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔لیکن اگر کبھی کوئی ”نا پسندیدہ “شخص کسی اہم عہدے پر آ بھی جائے تو اس کو نیچے کی سطح پر ”دوستوں“ کے وسیع نیٹ ورک کے ذریعے بے بس بنا دیتے ہیں۔
امریکیوں کی ایک اور خوبی ہے کہ یہ اپنے ”دوستوں “ کا اعتماد کبھی نہیں توڑتے۔ہمیشہ ان کی مدد کرتے ہیں۔ کوئی ریٹائر ہو جائے تو اس کے لئے پر کشش نوکری کا بندوبست کر دیتے ہیں۔ کسی کی شہرت پر حرف آنے لگے ، تو فوری طور پر موثر اقدامات کر کے اس کی نیک نامی بحال کرا دیتے ہیں۔ کسی کی جان کو خطرہ ہو تو اس کی حفاظت کیلئے مناسب بندوبست کر دیتے ہیں۔ اور ہا ں اپنے ” دوستوں “کی اولاد کواچھا کیرےئر بنانے اور امریکی شہریت دلوانے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ غرض امریکی ہمارے اہم ترین اداروں کے با اثر اور کامیاب لوگوں کو مشہور امریکی فلم ”گاڈ فادر “ کے ہیرو وِٹو کارلیون کے بقول ایسی آفر دیتے ہیں جسے وہ ٹھکرا نہیں سکتے ۔ اور بدلے میں وہ ان سے کیا لیتے ہیں ، ہم سب جانتے ہیں۔

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
 

شمشاد

لائبریرین
امریکیوں کی ایک اور خوبی ہے کہ یہ اپنے ”دوستوں “ کا اعتماد کبھی نہیں توڑتے۔ہمیشہ ان کی مدد کرتے ہیں۔ کوئی ریٹائر ہو جائے تو اس کے لئے پر کشش نوکری کا بندوبست کر دیتے ہیں۔ کسی کی شہرت پر حرف آنے لگے ، تو فوری طور پر موثر اقدامات کر کے اس کی نیک نامی بحال کرا دیتے ہیں۔ کسی کی جان کو خطرہ ہو تو اس کی حفاظت کیلئے مناسب بندوبست کر دیتے ہیں۔ اور ہا ں اپنے ” دوستوں “کی اولاد کواچھا کیرےئر بنانے اور امریکی شہریت دلوانے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ غرض امریکی ہمارے اہم ترین اداروں کے با اثر اور کامیاب لوگوں کو مشہور امریکی فلم ”گاڈ فادر “ کے ہیرو وِٹو کارلیون کے بقول ایسی آفر دیتے ہیں جسے وہ ٹھکرا نہیں سکتے ۔ اور بدلے میں وہ ان سے کیا لیتے ہیں ، ہم سب جانتے ہیں۔

مجھے اس اقتباس پر اعتراض ہے۔ امریکی اپنے ہر دوست کو اپنا مطلب نکل جانے کے بعد ٹیشو پیپر بھی نہیں سمجھتے۔
 
ذاتی خیال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی
اس مضمون کا مقصد ہمارا مورال ڈاؤن کرنا ہے
اور جنگ میڈیا گروپ کے کردار سے سب اچھی طرح واقف ہیں
 
Top