ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے میں جرم و سزا / ایسٹ انڈیا کمپنی کی اندرونی چپقلشیں ۔ از تاریخ جرم و سزا-امداد صابری

کمپنی کی خود مختاری کا دور۔

یہ وہ دور تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم اور افسران خود مختار تھے۔معمولی معمولی حیثیت کے لوگ جو چاہتے وہ کرتے تھے۔چنانچہ مسٹر گرے ، مشہور مورخ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمان کی بے ضابطہ اور بد دیانتی کے متعلق لکھتے ہیں ۔
انیسویں صدی کی ابتدا تک یہ قاعدہ تھا کہ لڑائی میں جو لوٹا جاتا تھا اسے کمپنی کے گماشتے ، فوجی افسروں اور مقامی شاخوں کے داروغہ نہایت آسانی کے ساتھ آپس میں تقسیم کر لیا کرتے تھے۔ لندن میں کمپنی بہادر کے ڈائرکٹروں کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوتی تھی۔اس زمانہ میں انگریز بہت خسیس ہواکرتے تھے ۔ معمولی آدمی چند شلنگ سے زیادہ خرچ نہ کرتا تھا۔ وہ اپنے گھروں میں ناجائز طریقوں سے روپیہ بھیجنے کا انتظام کیا کرتے تھے ۔

اس بد نیتی اور خستہ حالی کی میجر پرائس کی ڈائری بھی شاہد ہے۔ جسکی سطور یہ ہیں ۔
جب ہم نے سومبر کے قلعہ کو فتح کرلیا تو بڑی مایوسی ہوئی۔کیونکہ جب ہم اندر داخل ہوئے تودیکھا کہ ایک بہت بڑا خزانہ جو تہ خانہ میں بند تھا پہلے ہی دیسی فوج اپنے ساتھ لے گئی اور ہمارے لئے کچھ نہیں بچا۔ بڑی مشکل سے کوئی چھ ہزار مالیت کا سامان ملا جو ہمارے جیسے افسروں کے لئے یقینا ایک نعمت تھا۔ہم بیچاروں کو صرف روزانہ ملتے تھے ۔

1766 میں کمپنی ڈائرکٹران نے اپنی رپورٹ میں لکھا :-

ہمارے نزدیک اندرون ملک کی تجارت سے جو کثیر دولت حاصل کی گئی ہے وہ انتہائی ظالمانہ اور جابرانہ طریقوں کے استعمال کا نتیجہ ہے اور جس کی نظیر کسی زمانہ اور کسی ملک میں نہ ملے گی۔

لارڈ کلائیو خود کہتا ہے

اس قدر بدعملی ۔ رشوت خواری اور زیادہ ستانی کا منظر بجز بنگال کے کسی ملک میں دیکھا یا سنا نہیں گیا۔

لارڈ میکالے لکھتا ہے۔
اس طریقہ سے بے شمار دولت بہت جلد کلکتہ میں جمع ہو گئی در آنحالیکہ تین کروڑ انسان حد درجہ برباد کر دئیے گئے ۔ بیشک ان لوگوں کو مظالم سہنے کی عادت تھی مگر وہ مظالم اس قسم کے نہ تھے ۔ کمپنی کی انگلی انہیں سراج الدولہ کے پٹھے سے زیادہ محسوس ہوتی تھی۔

1762 میں نواب بنگال نے انگریزی گورنر کو مندرجہ ذیل انگریزوں کی کمائی کے طریقے لکھے تھے :۔

کمپنجی کے ملازمان رعایا اور سوداگروں کا مال چوتھائی قیمت پر لے لیتے ہیں اور اپنے ایک روپے کے سامان کی قیمت کے ان سے پانچ روپے وصول کرتے ہیں

بروکس بھی اپنی قلم سے اس زمانہ کی تصویر کھینچتا ہے۔

یہ مالا مال خزانے کروڑوں آدمیوں کی صدیوں کی کمائی انگریزوں نے ہتھیا کر لندن اسی طرح بھیج دی جس طرح روس نے یونان اور لوئینس والے بھیج دیتے تھے ۔ ہندوستانی خزانے کتنے قیمتی تھے کوئی انسان بھی اس کا اندازہ نہیں کر سکتا ۔لیکن وہ کروڑوں اشرفیاں ہونگی۔ اتنی دولت اس وقت مجموعی یورپین دولت سے بہت زیادہ تھی۔

سرجان نشو 1833 میں لکھتا ہے :-

انگریزوں کا بنیادی اصول یہ رہا ہے کہ ہر صورت میں ہندوستانی قوم کو اپنی اغراض کا غلام بنایا جائے ۔ ان پر محصولات اتنے لگا دئے ہیں کہ اضافہ کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی ۔
 
رشوت ستانی کا زور:-

چنانچہ انگریزوں کی اسی ذہنیت کا نتیجہ تھا کہ اس دور میں بڑے بڑے افسروں پر رشوت ستانی کا الزام عائد ہوا ۔ کلائیو 1765 میں گورنر ہو کر آیا ۔ اس کی ناجائز حرکتوں نے لوگون کے دلوں میں شبہات ڈلوائے اور اس زمانہ میں جب کہ انگریزوں کے خلاف ایک لفظ بھی زبان سے نکالنا جان سے ہاتھ دھونے کے مترادف تھا ۔اس وقت کلائیو پر رشوت ستانی کا الزام لگا۔جس کی خفت میں اس نے پچاس سال کی عمر میں خود کشی کر لی اس کے بعد وارن ہیسٹنگز پہلا گورنر جنرل 1772 میں ہو کر آیا وہ بھی رشوت ستانی کے الزام سے اپنے دامن کو نہ بچا سکا ۔ اس پر بھی سات سال تک مقدمہ چلا۔

عیاشی کا دور دورہ :-

ولیم فریزر نے تو حد ہی کر دی ۔ یہ حضرت 1799 میں کلکتہ آ کر اترے ۔ اور 1805 میں اختر لونی کے معتمد مقرر ہوئے 1811 میں انسن کا معتمد ہو کر کابل گئے 1813 میں امیسٹن کا نائب مقرر ہو کر دہلی آئے ۔ 1815 میں مارٹن ڈیل کی فوج میں پولیٹیکل ایجنٹ ہو کر ہمالیہ کا سفر کیا ۔ 1819 میں گڑھ وال کی دربندی کے جھگڑے کا تصفیہ کرنے پر تعینات ہوئے ۔ 1826 میں شمالی مغربی سرحدی صوبہ می مال گزاری کے کارکن ثانی بنائے گئے ۔اور 1830 میں شاہ جہاں آباد کا ناظم یا صاحب کلاں ہو کر آئے۔ اس کی زندگی پوری کی پوری عیاشانہ اور غنڈہ گردی کی زندگی ہے ۔ اس نے حکمرانیت کی لٹیا خوب ڈبوئی ہے۔ان افعال کا کوئی متنفس تاریخ ہند میں نظر نہیں آتا۔

فریزر کا شرفاء کی حویلی میں گھسنا:-

چنانچہ اس عیاش طبع انگریز کے بارے میں آغا حیدر حسن نبیرہ ہز ہائی نس عالی جاہ پرنس آغا حسن رقم طراز ہیں :-
فریزر پرلے درجے کا ایک چھٹا ہوا تھا ۔ میری دادی حضرت کے ہاں بڑی بوڑھی مغلانیاں ، محمد خانم ، شمسی خانم، شرف النسا وغیرہ کہا کرتی تھیں کہ نواب احمد بخش خاں کی صاحبزادی جہاں آرا بیگم (حور لقا بیگم ) کے حسن کا شہرہ سن کر زنانے کپڑے پہن ڈومنیوں کے ساتھ حویلی میں گھس آیا ۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ۔ صاحب زادی جب طشت چوکی پر گئیں تو آنکھ بچا کر صحت خانہ میں گھس گیا۔وہ ایک اجنبی صورت دیکھ کر ڈر گئیں ۔ چیخ جو ماری تو پہرہ والیاں دوڑ کر اندر گئیں دیکھا کہ ایک عورت لمبی تڑنگی سر انچے کا بانس سر سے پیر تک چارد میں لپٹی کھڑی ہے ۔سب کی سب مل کر گھسیٹتی ہوئی باہر لائیں ۔خوجوں کو بلایا ۔ دکھوایا تو موا مردوا نکلا ۔ خوب جوتی کاری ہوئی ۔

فریزر کا سرون جاٹنی کو بھگانا :-
فریزر اپنی شروع جوانی میں ایک جاٹنی کو جس کا نام سرون (سر وَن ) تھا کو زبردستی اس کے گاؤں جا کر پکڑ لایا تھا ۔ سرون سے پہلے کسی کہارنی کو گھر میں ڈال لیا تھا ۔ اور اس (سرون) کے بعد کسی سنارنی کو پکڑ لایا تھا ۔ اس جاٹنی کی قلمی تصویر میرے ذخیرے میں ہے ۔فریزر کی تصویر لال قلعہ کے عجائب خانے میں ہے ۔ اس کے چہرے سے آوارگی اور بدمعاشی پڑی برستی ہے۔ گالوں میں گڑھے پڑے ہوئے ۔ آنکھوں میں حلقے ۔ہونق چہرہ ، ٹھوڑی پر چھدری ڈاڑھی۔دیدوں کے برے طور ۔جھب تختی ۔بد اطواری کی علامات نمایاں ہیں ۔
فریزر کے یہ سیاہ کارنامے مٹے نہیں ہیں ۔ دہلی کے بسنے والوں میں کون ایسا ہوگا جس نے گلابی جاڑے کی چاندنی راتوں میں قطب صاحب کے قیام یا آس پاس کے جنگلوں کی سیر میں ڈھولک اور سارنگی کے ساتھ لمبی اوپر جانے والی آواز گھڑاک کی کھٹ کھٹ سے ملے ہوئے سروں میں فریزر اور سرون کا حسب ذیل گیت نہ سنا ہوگا۔دہلی والے فریزر کو فرین جن کہتے ہیں ۔

دھر کلکتے سے چلا فرنجن پانچوں پیر منائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ جانے رے پانچوں پیر منائے
پانچ مقام دلی کے نوے چھٹا گوہانہ گاؤں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ جانے رے چھٹا گوہانہ گاؤں
دھولے کنویں پر تنبورے تانے میخیں وی گڑوائے۔۔۔ اللہ جانے رے میخیں وی گڑوائے
پانچ سوار چھٹا فرنجن سرون ڈھونڈن جائے ۔۔۔۔۔۔۔اللہ جانے رے سرون ڈھونڈن جائے
جو کوئی سرون کا بھید بتائے ہاتھی دونگا انعام۔۔۔۔۔۔۔اللہ جانے رے ہاتھی دوں گا انعام
سگے چچا نے بھید بتایو سرون باجرے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ جانے رے سرون باجرے میں
ڈولے ڈولے چلا فرنجن پانچ سوار لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ جانے رے پانچ سوار لئے
پانچ پیڑ باجرے کے کاٹے چھٹا نہ کاٹاجائے۔۔۔۔۔۔۔ہاتھ میں گوپیادونگے درانتی ٹولے بگاتی جائے
اللہ جانے رے ٹولے بگاتی جائے
ہاتھ پکڑا ہاتھی پہ ڈالا سرون روتی جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیرا مریو سرون روتی جائے
امی چند روتا ڈولے سرون میری جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیرا مریو سرون روتی جائے
بھائی بھتیجو سبھی جو کنبہ مل لے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سرون پھر ملن کی نائے
الٹے سلٹے گوندھ دے نائی پھر نہ گندھاون آئے۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ جانے رےپھر نہ گندھاون آئے
آگے لوہار کی پیچھے سنار کی بیچ میں سرون جائے ۔۔۔۔۔۔۔اللہ جانے رے بیچ میں سرون جائے
آدھی رات پہر کا تڑکا تارے گنتی جائے۔۔۔۔۔۔۔اللہ جانے رے تارے گنتی جائے
چھوٹے بگڑ سے بڑے بگڑ میں جائے ۔۔۔۔۔۔۔اللہ جانے رے بڑے بگڑ میں جائے
پیڑی کا بیٹھنا چھوڑ میری سرون کرسی کا بیٹھنا سیکھ۔۔۔۔۔۔۔اللہ جانے رے کرسی کا بیٹھنا سیکھ
ہاتھوں سے کھانا چھوڑ میری سرون چھری کانٹوں سے کھانا سیکھ۔۔۔۔۔۔۔اللہ جانے رے چھری کانٹوں سے کھانا سیکھ
لہنگے کا پہننا چھوڑ میری سرون سائے کا پہننا سیکھ ۔۔۔۔۔۔۔اللہ جانے رے سائے کا پہننا سیکھ​

فریزر سے سینکڑوں لوگ نالاں تھے ۔ جن کی بہو بیٹیاں اڑائی تھیں وہ تو اس کے خون کے پیاسے تھے ۔ اور آئے دن کے جھوٹے جھگڑے ۔ ادھر ادھر کی رنڈیوں کسبیوں کے کوٹھوں اور اڈوں سے خرید لاتا تھا وہ الگ رہے۔شہر کے بیسیوں اوباش ، رنڈی بازوں بدمعاشوں سے اس کی لاگ ڈانٹ تھی۔شریف اور امراء ملنے میں عار سمجھتے تھے ۔فریزر رات بے رات ، وقت بے وقت، اڈوں ، کوٹھوں ، نٹنیوں ، کنجریوں ، خانگیوں میں خراب خستہ پڑا پھرا کرتا تھا۔آخر اسی شہد پن میں جان گنوائی۔
26 مارچ 1835 راجہ کشن گڑھ کے ہاں ناچ گانے کا جلسہ تھا ۔خوب پی اور بدمست ہوا۔آدھی رات کو گھر کی سوجھی (جہاں اس کی ایک داشتہ میباں جس سے اس کے دو اینگلو انڈین بچے بھی تھے ۔رہائش پذیر تھی اور اس وقت وہی اس کی رہائش گاہ المشہور فریزر کی حویلی تھی۔ یہ جگہ رانیا گاؤں اب ہند کے ہریانہ صوبہ میں ہے : - ناقل)کسی نے ختم کر دیا۔کمپنی کو موقع ہاتھ آگیا اور نواب شمس الدین آف لوہارو (لوہارو ریاست جغرافیہ کے لحاظ سے اب موجودہ ضلع فیروز پور میں آتی ہے اور یہ نواب شمس الدین آف لوہارو صاحب ۔ مشہور شاعر داغ دہلوی کے والد بھی ہیں :۔ ناقل) کو فریزر کے قتل کرانے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔

نوٹ :۔ اس سے آگے ایک منظر نامہ ہے جو نواب صاحب شمس الدین آف لوہارو کے پھانسی کے منظر اور ان کی ہمت و عزیمت کی داستان ہے۔ اسے بوجہ عدم مطابقت موضوع شامل نہیں کیا جا رہا۔ناقل
 
آخری تدوین:
طریقہ عدل:-
اس زمانہ میں عدل کا طریقہ کار انتہائی مہمل اور طفلانہ تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہیسٹنگز نے عدالتوں کا بندوبست کیا ۔اور انگریزی عدالتوں کی بنیاد رکھی۔اور اس نے انگریزی کلکٹروں کے ساتھ پنڈت اور مولوی مقرر کئے جو ان کو دھرم شاستر اور فقہ کے اصول سمجھاتے تھے۔اس نے کلکتہ میں اپیل کہ دو عدالتیں بھی قائم کیں جو دیوانی اور فوجداری مقدمات علیحدہ علیحدہ فیصلہ کرتی تھیں۔قانون کی ایک کتاب بنائی گئی تھی تاکہ عوام قانون سے واقف ہو جائیں۔

اختیار:-
یہی وہ دور تھا جب کہ مسلمانوں کے مقدمات کے فیصلے فقہ حنفی کے مطابق ہوتے تھے ۔ اور حکام و متعلقین عدالت زیادہ تر علماء ہوتے تھے۔اس لئے عدالتی ضرورتوں کے لحاظ سے فقہ حنفی کے اصول و قواعد کے مطابق متعدد کتابیں تحریر ہوئیں جن میں یہ کتاب (اختیار) بھی تھی جو 1212ھجری میں لکھی گئی تھی ۔ اس کتاب کے مصنف کا نام مولانا سلامت علی خاں ہے جو حذاقت خاں کے نام سے مشہور اور شہر محمد آباد میں عدالت مرافعہ ثانیہ میں احکام شرعیہ کے لکھنے پر مامور تھے۔انہوں نے اس کتاب میں فقہ حنفی کے ایک حصہ یعنی تعزیرات کے متعلق فقہ کی مستند کتابوں مثلاً قدوری، ہدایہ ،شرح وقایہ، فتاویٰ قاضی خاں،فتاویٰ حمایہ،فصول عمادیہ،فتاویٰ سراجیہ ،فتاویٰ تابعی، جامع الرموز اور اشتباہ والنظائر وغیرہ سے تمام مسائل مختلف ابواب میں نہایت جامعیت کے ساتھ جمع کر دیئے ہیں ۔ اور ان کتابوں کی اصل عبارت نقل کرنے کے بعد فارسی زبان میں ان کا خلاصہ بھی درج کر دیا ہے۔
(عدل و انصاف کے معاملے میں یہ سب کچھ یک جاء کرنے کا خیال 1775 میں آرہا ہے جب ہند کی حکومت عملی طورپر مغلوں کے ہاتھوں سے نکل چکی تھی۔ یہ سوچ کہ عدالتیں بنائی جائیں اور ان کا ایک نظام ہو بھی اس دور میں انگریزوں کو آیا کہ ہم یوں کریں گے۔ تب تک ان کا عمل دخل حکومت میں مستحکم ہونا شروع ہوچکا تھا۔ ناقل فیصل عظیم)
بنگال کے پہلے سپرنٹنڈنٹ کی ڈائری:-
انگریزی قانون پر شروع میں جس طرح عمل درآمد ہوا وہ بہت بھونڈا اور مضحکہ خیز تھا جو شاید کسی بھی حکومت کے دور میں اس بے ڈھنگے طریقے سے شروع نہ کیا گیا ہوگا۔ جب سپریم کورٹ (موجودہ ہائیکورٹ ) قائم ہوا اور اس کی حیثیت یہ تھی کہ چند زیورات تک چوری کے مقدمات ابتدائی سماعت کے لئے وہاں پیش کئے جاتے تھے ۔اور سزائے تازیانہ، تشہیر کرنے اور جوتوں کی سزا دینے اور دریا پار کرنے کا اختیار بطور خود سپرنٹنڈنٹ پولیس کو تھا۔اگر آپ کو وہ مضحکہ خیز منظر دیکھنا ہے تو آئیے کلکتہ کے پہلے سپرنٹنڈنٹ پولیس پلیڈل کی ڈائری کے چند اوراق ملاحظہ کیجئے۔
بھگوڑے ملازم کی سزا:-
4 جون 1775 ، آج میں ناشتہ سے فارغ ہوکر اپنے برآمدہ میں بیٹھا ہوا حقہ پی رہا تھا ۔کہ مسٹر جان نگول کے ملازم نے رپورٹ کی کہ اس کے آقا کا باورچی رنجن کام چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔اور اس کی جگہ جو نیا باورچی رکھا گیا ہے اسے رنجن نے مارا ۔ میں نے رنجن کو بلوا یا۔ معلوم ہوا وہ پرانا مفسد ہے اور ایسی حرکتوں کی بناء پر اس کا کان بھی کاٹا جا چکا ہے۔ میں نے حکم دیا کہ رنجن کو دس بید لگائے جائیں اور اسے ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔
دھوکہ دہی کی سزا:-
کرنل واٹسن نے رپورٹ کی کہ رام سنگھ نے انہیں دھوکہ دیا اور اپنے کو بڑھئی ظاہر کر کے تنخواہ وصول کی حالانکہ وہ حجام ہے اور بڑھئی کے کام سے بالکل واقف نہیں۔ حکم ہوا کہ رام سنگھ کے پندرہ بید لگائے جائیں اور قلی بازار میں کرنل واٹسن کی کوٹھی تک اسے تشہیر کیا جائے۔
مرمت حسب وعدہ نہ کرانے/ لونڈی کے فرار پر سزا:-
کپتان اسکاٹ نے شکایت کی کہ بنارسی نے ان کی گاڑی کی مرمت حسب وعدہ نہیں کی حکم دیا گیا کہ بنارسی کے دس جوتے لگائے جائیں۔
اینڈرسن پگی نے رپورٹ کی کہ ان کی لونڈی بھاگ گئی لیکن اسے چوکیدار نے گرفتار کر لیا ۔ لونڈی کے دس بید لگائے گئے اور اسے مسٹر اینڈرسن کے حوالے کر دیا گیا۔

چوری کی سزا:-
جیکب جوزف نے شکایت کی کہ اس کے باورچی متھول نے چند برتن چرائے میں نے حکم دیا کہ ملازم کو ہرنگ باڑی میں اس وقت تک قید رکھا جائے جب تک وہ برتن واپس نہ کر دے۔ رام ہری نے فریاد کی کہ رام گوپال اس کے بچے کی گردن سے تلسی دانہ اتار کر بھاگ رہا تھا اسے موقعہ پر گرفتار کر لیا گیا۔حکم ہوا کہ مجرم کو پانچ جوتے لگاکر اسے سارے شہر میں تشہیر کیا جائے۔
سرکاری حکم نہ ماننے کی سزا:-
آٹھویں ڈویژن کے سپاہی بائیکس نے ایک لڑکے کے مولیہ کو گرفتار کر کے میرے سامنے پیش کیا۔وہ کئی بار چوری کے الزام میں سزا یاب ہو چکا تھا اور آخری مرتبہ میں نے حکم دیا تھا کہ اسے پندرہ بید لگا کر ہمیشہ کے لئے دریائے ہگلی کے دوسری جانب نکال دیا جائے ۔ لڑکا مفسد ہے میرے حکم کے خلاف دریا کو عبور کیا پھر کلکتہ آیا اور گرفتار کر لیا گیا۔میں نے اسے بیس بیدوں کی سزا دی اور دریا پار کرا دیا۔
راہ گیروں کو چھیڑنے کی سزا:-
مسٹر نوملے نے اپنے حقہ بردار کلو کی رپورٹ کی کہ وہ سڑک پر راہگیروں کو چھیڑتا ہے حکم ہوا پانچ جوتے لگائے جائیں ۔
غلط رپورٹ کرنے کی سزا:-
باقر محمد نے مسماۃ رام رجنی کے خلاف شکایت کی کہ اس نے مستغیث کی بیوی کو مغلط گالیاں دی ۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ باقر محمد کی بیوی بھی مسماۃ رام رجنی سے کم بد مزاج اور جنگجو نہیں ہے۔دونوں عورتیں آپس میں گالی گلوچ کرتی رہتی ہیں ۔چونکہ اس فضول شکایت سے میرا وقت خراب ہوا تھا اس لئے باقر محمد اور رام رجنی دونوں کو پانچ پانچ روپیہ جرمانہ کی سزا دی اور کہہ دیا کہ آئیندہ اس قسم کی شکایت میرے کانوں تک پہنچی تو رام رجنی اور محمد باقر کی بیوی دونوں کو دریا پار کرا دیا جائے گا۔

چور کی تشہیر/ کام چور کو جوتوں کی سزا:-
مسٹر کینڈل نے اپنی مہترانی کے خلاف شکایت کی کہ وہ آبدار خانہ کی بوتلیں چرا کر ایک کالے(یعنی ہندوستانی) دوکاندار بکتا رام کے ہاتھ فروخت کرتی ہے۔ بکتا رام نے اقبال جرم بھی کیا۔ نیٹو (Native) بنیوں کی شرارت کا سدباب کرنے کے لئے حکم دیا گیا کہ بیس بید بکتا رام کے لگائے جائیں ۔اور دس بید مہترانی کے اور دونوں کو پنجرے میں بٹھا کر تشہیر کی جائے۔
کمپنی کے کلرک مسٹر پیسیج نے شکایت کی کہ خدا بخش اور پیاری نے ان سے پیشگی تنخواہ لے لی ہے مگر دونوں کام نہیں کرتے۔ دونوں کو دس دس جوتوں کی سزا دی گئی۔


چاول کے عمل سے ملزم کی گرفتاری:-
مسٹر ولنکسن کے بنگلہ میں چوری ہوئی ، انہوں نے عمل کے ذریعے چور پکڑنے کے لئے ایک ملا کی خدمت حاصل کی۔ ملا نے ان کے ملازموں کو چاول چبانے کے لئے دئے۔ ولنکسن کی دائی گوری کے منہ سے سوکھے چاول نکلے اور اس پر شبہہ ہوا۔ دائی نے ملا کو بطور رشوت دس روپے نقد دئےکہ وہ مسٹر ولنکسن سے اس کی چوری کا ذکر نہ کرے۔ مسٹر ولنکسن کو خبر ہو گئی ۔انہوں نے مجھ سے رپورٹ کی ۔ حکم دیا گیا کہ دائی کو تفتیش کے لئے تیسرے ڈویژن کے تھانہ میں بند رکھا جائے۔

جوتہ لگانا قانونی سزا تھی:-

مسٹر پلیڈل کی ڈائری کے مطالعہ سے ہندوستان میں برطانوی انصاف کی ابتدائی انگریز پرستی کی قلعی کھل جاتی ہے۔کہ وہ کس طرح رعایا پر انگریزوں کا رعب جمانے کے لئے صرف حسب وعدہ مرمت نہ ہونے پر جوتے پڑواتا ہے۔اس ڈائری سے ان باتوں پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ ہندوستانی امراء کس طرح انگریزوں کے جلو میں بھی مشعلچی ہوتے تھے۔اور انگریز حقہ پیتے تھے۔لونڈی غلام رکھنے کا عام رواج تھا۔انگریزوں کے قبضہ میں بھی لونڈیاں تھیں ۔اگر کوئی لونڈی اپنے مالک کے ظلم و ستم سے بھاگتی تو اسے سزائے تازیانہ کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔جوتے لگانا ایک قانونی سزا تھی۔ برطانوی نظم و نسق سے پیشترعادی مجرموں کاایک کان کاٹا جاتا تھا۔
مولویوں کے عملیات کا زور:-
اس زمانہ کے انگریز بھی مولویوں کے عملیات کے قائل تھے۔اور چوری تک کے معاملات میں مولویوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔اور وہ اٹھارہویں صدی میں مشتبہ چوروں کا پتہ چاول چبوا کر لگاتے تھے۔
سزائے تشہیر کا طریقہ :-
مسٹر پلیڈل کی ڈائری میں بعض مجرموں کے لئے جو سزائے تشہیر تجویز کی ہے۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ مجرم کو بڑے سے چوبی پنجرے میں بند کر دیتے تھے ۔اور پنجرا ایک خاص قسم کی بنی ہوئی اونچی گاڑی کے دھرے سے (جس کے پہیئے پندرہ سولہ فٹ بلند ہوتے تھے ) لٹکا دیا جاتا تھا۔پولیس کے سپاہی گاڑی کے ساتھ ہوتے تھے اور ایک شخص ڈھول بجا کر مجرم کے نام ، جرم اورنوعیتِ جرم کی تشہیر کرتا تھا۔
سنیاسی لٹیروں کا خاتمہ:-
سنیاسی جو پتنی پہاڑ کے باشندے مادرزاد ننگے رہتے تھے ۔ ان کے نہ گاؤں تھے اور نہ گھر، جگہ جگہ مارے مارے پھرتے تھے، بچوں کو چرانا ان کا کام تھا۔جس سے وہ اپنی تعداد میں اضافہ کر لیتے تھے۔ان میں سے بہت سے مسافروں کی شکل میں لوٹ مار کیا کرتے تھے ۔ان کو گرفتار کر کے ہیسٹنگز کے دور میں سخت سزائیں دی گئیں ۔تب کہیں جا کر ان کا وجود ختم ہوا اور بنگال میں امن ہوا۔
قطع اعضاء کی سزائیں منسوخ:-
1786 میں لارڈ کارنوالس گورنر جنرل کے عہد میں ناک، کان ، ہاتھ ، پاؤں وغیرہ کاٹنے کی سزائیں بند ہوئیں ۔نذروں، رشوتوں کو ممنوع قرار دیا گیا،عدالتوں کی اصلاح ہوئی،دیوانی اور فوجداری کے محکمے الگ الگ ہوئے۔نائب ناظم سے فوجداری اختیارات چھین لئے گئے ۔مسلمانوں کے مقدمات میں شریعت کی پابندی ڈھیلی پڑ گئی۔اسی طرح شاستر کے اصولوں پر عمل نہ کیا جاتا تھا،لارڈ کارنوالس نے ایک مجموعہ قوانین بھی مرتب کیا جو کارنوالس کوڈ کے نام سے مشہور ہے۔
پنڈاروں کا خاتمہ:-
پنڈارے لوگ جو کسی خاص ذات کے آدمی نہ تھے اور جو پہلے شیوا جی کی فوج میں بھرتی ہوئے تھے، لوٹ مار سے اپنا پیٹ بھرتے تھے۔ان میں کچھ پٹھان بھی تھے۔ مگر رفتہ رفتہ سب قوموں کے بدمعاش ان سے آ ملے۔ انگریزوں کی خاموشی کی وجہ سے ان کا زور بڑھتا چلا گیا۔وہ بڑا سنگدل اور ظالم گروہ تھا ۔وہ کبھی ایک جگہ مقام نہیں کرتے تھے۔جس کسی صوبہ میں جاتے وہاں قتل و غارتگری جرتے اور لوٹ مار مچاتے ۔ ان کے دو دو تین تین ہزار کے گروہ تھے ۔ جو چالیس چالیس پچاس پچاس میل کا دھاوا مارتے تھے ان کے لوٹنے اور ظلم کرنے کے یہ طریقے تھے کہ گرم راکھ کا تھیلا گردن سے لٹکا دیا کرتے تھے ۔اور زور سے سانس لینے پر مجبور کرتے تھے۔ پھیپھڑوں پر اس کا برا اثر ہوتا تھا اور تھوڑی دیر میں انسان مر جاتا تھا۔
مالکم لکھتا ہے کہ پنڈاروں کی مستورات ان کے ساتھ رہتی تھیں اور اپنے گھر والوں کے ظلم و ستم دیکھ کر وہ بھی بہت سنگدل ہو گئی تھیں ۔ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ سانڈنیوں پر سوار ہو کر گھومتی تھیں ۔ اور دیہاتی لوگ ان سے انکے مردوں سے زیادہ خائف رہتے تھے۔
مارکوس آف ہیسٹنگز کے زمانہ میں (1813 سے 1823) میں ان کے تین سردار تھے ۔ امیر خان، واصل محمد، اور چیتو ۔ یہ لوگ سندھیا کی فوجوں کے ساتھ مل کر لوٹ مار کیا کرتے تھے اور دیہاتوں کو تباہ کرتے پھرتے تھے۔1815-1816 میں انہوں نے نظام الملک کے ملک میں لوٹ مار کی اور شمالی اضلاع کو برباد کر دیا۔ لارڈ مذکور نے ایک فوج تیار کی اور پنڈاروں کو محصور کر لیا۔جن میں سے بہتوں کی جانیں تلف ہوئیں ۔1818 تک پنڈارے ختم ہو گئے تھے۔ امیر خان نے ماتحتی قبول کی واصل محمد نے خود کشی کر لی ، چیتو کو چیتا کھا گیا۔ اور سردار امیر خان کے عہد معاونت نے ریاست ٹانک دلوائی۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
فیصل لائبریرین نہ ہو کر بھی دھڑا دھڑ برقی کتابوں کے متون کا اضافہ کر رہے ہیں ماشاء اللہ ۔ انہیں لائبریرین بنادینا چاہیے۔ مقدس کے علاوہ کون فعال ہے منتظمین میں سے؟
 
عاشق کو محبوب کے دربار میں عہدہ مل جائے تو وہ عشق سے جاتا رہتا ہے۔ میں سادہ رہ کر بہتر رہوں گا ۔ لائبریرین بن گیا تو پھر بیٹری ڈاؤن ہو جائے گی
 
Top