ایران کے خلاف اسرائیلی و امریکی جارحیت: اہم قانونی سوالات

الف نظامی

لائبریرین

ڈاکٹر محمد مشتاق​

لا قانونیت، دہشتگردی اور دادا گیری کا ٹریک ریکارڈ برقرار رکھتے ہوئے ناجائز ریاست اسرائیل نے جب ایران پر حملہ کیا تو امریکا کا پہلا ردّعمل یہ تھا کہ یہ حملہ امریکا کی مرضی کے بغیر ہوا ہے، لیکن ساتھ ہی امریکا نے اسرائیل کو تھپکی اور ایران کو دھمکی دی۔ قریباً تمام یورپی ممالک نے اس حملے کے جواز و عدم جواز کے سوال کو نظر انداز کرکے ایران کو تحمل کا درس دیا اور ساتھ ہی اعلان کیاکہ اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل ہے۔ اس صورتحال میں بین الاقوامی قانون کے طالبِ علم کے سامنے کئی سوالات اٹھتے ہیں، ایسے چند اہم سوالات پر یہاں مختصر بحث کی جائے گی۔


پہلا سوال: بین الاقوامی قانون کن حالات میں ریاستوں کو جنگ کی اجازت دیتا ہے؟


کیا جنگ شروع کرنے کےلیے ریاست کو کسی کی اجازت درکار بھی ہوتی ہے، یا اقتدارِ اعلیٰ کے حامل ہونے کی وجہ سے ریاست کسی بھی وقت جنگ شروع کرسکتی ہے؟ بین الاقوامی قانون کے طلبہ جانتے ہیں کہ بیسویں صدی کی ابتدا تک جنگ شروع کرنے کےلیے کسی جواز کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ ریاست جب مناسب سمجھتی، جنگ شروع کرسکتی تھی۔ 1919 میں جب ’مجلسِ اقوام‘ کا وجود عمل میں لایا گیا، تو اس کے منشور میں جنگ شروع کرنے سے پہلے کچھ ’ضابطے کی کارروائی‘ ضروری قرار دی گئی، لیکن جنگ کو ناجائز پھر بھی قرار نہیں دیا۔ 1928 میں امریکا اور فرانس کے درمیان ’معاہدۂ پیرس‘ طے پایا جس میں پہلی بار جنگ کو ناجائز قرار دیا گیا۔ اس معاہدے میں بعد میں دیگر ریاستیں بھی شامل ہوگئیں۔ 1945 میں جب ’تنظیمِ اقوامِ متحدہ‘ بنائی گئی، تو اس کے منشور کی دفعہ 2، ذیلی دفعہ 4، میں نہ صرف جنگ بلکہ ’طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی‘ پر بھی پابندی لگائی گئی۔ البتہ دو صورتوں میں جنگ کی اجازت صریح الفاظ میں دی گئی: ایک جب منشور کی دفعہ 42 کے تحت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کسی ریاست کے خلاف جنگ کا اعلان کرے (اسے ’اجتماعی سلامتی کا نظام‘ کہا جاتا ہے)، اور دوسری جب کسی ریاست پر ’مسلح حملہ‘ ہو اور وہ اپنے دفاع میں طاقت استعمال کرے۔ (منشور میں ایک تیسری صورت بھی ذکر کی گئی تھی، لیکن اس کا تعلق دوسری جنگِ عظیم سے تھا اور بعد میں عملاً وہ صورت غیر مؤثر ہوگئی۔)


ان دونوں صورتوں کی تفصیلات میں کئی پیچیدہ مسائل ہیں، پہلی صورت کو فی الحال نظر انداز کرتے ہوئے دوسری صورت پر بات کرتے ہیں کیونکہ اسرائیل کا دعویٰ حقِ دفاع کا ہے اور امریکا اور اس کے دیگر اتحادی بھی یہی راگ الاپ رہے ہیں۔


دوسرا سوال: کیا حقِ دفاع صرف مسلح حملے کی صورت میں ہی استعمال کیا جاسکتا ہے؟


اقوامِ متحدہ کے وجود میں آنے سے قبل ریاستیں بہت سارے امور میں حقِ دفاع کا دعویٰ کرتی تھیں، تاہم اقوامِ متحدہ کے منشور کی دفعہ 51 میں ریاست کے حقِ دفاع کا ذکر اس کے خلاف ’مسلح حملے‘ کے سیاق میں ہوا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کسی ریاست کے خلاف واقعی مسلح حملہ نہ ہو، تب تک وہ دفاع کا حق استعمال نہیں کرسکتی؟


دو امور کی بنا پر اس سوال کا جواب نفی میں دیا جاتا ہے:


ایک یہ کہ دفعہ 51 دراصل منشور کے بابِ ہفتم کا حصہ ہے اور بابِ ہفتم میں سلامتی کونسل کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ عالمی امن برقرار رکھے گی اور جارح ریاست کو روکے گی، لیکن ساتھ ہی بات ذکر کی گئی کہ جب تک سلامتی کونسل اپنی کارروائی کرے گی، تب تک حملے کی شکار ریاست کو مسلح حملے کے خلاف حقِ دفاع حاصل ہے۔ تاہم چونکہ ’اجتماعی سلامتی کا نظام‘ ناکام ہوچکا ہے اور سلامتی کونسل اپنی ذمہ داری نہیں پوری کررہی، تو ریاستیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی نہیں رہ سکتیں کہ حملہ ہو تو اس کے بعد ہم دفاع کریں، بلکہ دفاع کےلیے بعض اوقات ’پیش بندی کا اقدام‘ (pre-emptive strike)ضروری ہوجاتا ہے۔


دوسری یہ کہ ٹیکنالوجی میں ترقی اور ہلاکت خیز ہتھیاروں کے وجود میں آنے کے بعد ریاستوں کےلیے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ مسلح حملے کا انتظار کریں اور اس کے بعد جوابی کارروائی کریں، بلکہ عموماً وہی ریاست جنگ میں کامیاب رہتی ہے جو اقدام میں پہل کرے۔


تیسرا سوال: پیش بندی کے اقدام اور ’جارحیت‘ میں کیسے فرق کیا جاتا ہے؟


حملے میں پہل کرنے والی ہر ریاست اپنے اقدام کو دفاع اور پیش بندی کا عنوان دیتی ہے، اور ایسے اقدام کی شکار ہر ریاست اسے ’جارحیت‘ قرار دیتی ہے۔ قانوناً پیش بندی کے جائز اقدام اور جارحیت کے ناجائز کام میں فرق کیسے کیا جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب مشہور ’کیرولین‘ واقعے میں ملتا ہے۔ 1837 میں جب برطانیہ نے امریکی جہاز کیرولین کو نیاگرا آبشار پر تباہ کیا اور اپنے لیے حقِ دفاع کا دعویٰ کیا، تو امریکی سیکریٹری خارجہ ویبسٹر نے برطانوی حکومت سے خط کتابت میں لکھا تھا کہ برطانیہ کو ثابت کرنا ہوگا کہ:


1۔ خطرہ بالکل فوری اور سنگین نوعیت کا تھا۔


2۔ طاقت کے استعمال کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا، اور


3۔ طاقت کا استعمال خطرے کے تناسب سے کیا گیا۔


بین الاقوامی قانون میں ان شرائط کو بالعموم حقِ دفاع کے معیارات قرار دیا گیا ہے اور ان میں کسی ایک شرط کی عدم موجودگی بھی ایسے اقدام کو دفاع کی حدود سے نکال کر جارحیت کی حدوو میں داخل کردیتی ہے۔


چوتھا سوال: ایران پر اسرائیل کا حملہ دفاع تھا یا جارحیت؟


ایران سے اسرائیل کو فوری نوعیت کا کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا، نہ ہی یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ اگر ایسا کوئی خطرہ تھا بھی، تو اس سے جنگ کے سوا کسی اور طریقے سے نمٹا نہیں جاسکتا تھا۔ نہ ہی اسرائیل نے طاقت کا استعمال خطرے کے تناسب کو سامنے رکھتے ہوئے کیا۔ اس لیے اسرائیل کا یہ حملہ بین الاقوامی قانون کی رو سے جارحیت تھی اور یہ اقوامِ متحدہ کے منشور کی دفعہ 2، ذیلی دفعہ 4 کی سنگین خلاف ورزی تھی۔


پانچواں سوال: کیا امریکا کے پاس ایران کے ایٹمی مراکز پر حملے کا جواز تھا؟


اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے، بین الاقوامی قانون کے تحت کسی چھوٹی یا بڑی ریاست کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسی کسی کارروائی کےلیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو منشور کے تحت یہ حق حاصل ہے، لیکن امریکا نے ایسے کسی حملے کےلیے سلامتی کونسل سے منظوری نہیں لی۔


یاد کیجیے کہ 1990 میں جب عراق نے کویت پر قبضہ کیا، تو سلامتی کونسل نے اسے جارحیت قرار دے کر اس کے خلاف کارروائی کی اور چونکہ سلامتی کونسل کے پاس اپنی فوج نہیں تھی، تو پھر امریکا اور دیگر ریاستوں نے ایک اتحاد قائم کیا اور اس اتحاد کو سلامتی کونسل نے فوجی کارروائی کا اختیار تفویض کیا۔ نوے کی دہائی میں سلامتی کونسل نے ایسی کئی مزید کارروائیاں بھی کیں۔ تاہم نائن الیون کے بعد امریکا نے کسی کارروائی کےلیے سلامتی کونسل سے منظوری نہیں لی۔ افغانستان پر 2001 میں کی جانے والی چڑھائی ہو، یا عراق پر 2003 میں کیا جانے والا حملہ ہو، کسی کےلیے سلامتی کونسل نے اجازت نہیں دی اور اس وجہ سے بین الاقوامی قانون کی رو سے یہ دونوں حملے جارحیت تھے۔


1998 میں سربیا پر نیٹو کی بمباری بھی قانون کی رو سے اسی طرح کی جارحیت تھی، اگرچہ اس کو انہوں نے ’انسانیت کے نام پر مداخلت‘ (humanitarian intervention) کا خوبصورت عنوان دیا۔ تاہم چونکہ بین الاقوامی قانون میں ایسی کسی مداخلت کا جواز غیر یقینی تھا، اس لیے یہ عذر بھی پیش کیاکہ یہ سربیا کے خلاف سلامتی کونسل کی ’قراردادوں کو نافذ کرنے کی کارروائی‘ ہے۔ ایسا کرتے ہوئے نیٹو نے یہ بات نظر انداز کی کہ سلامتی کونسل نے اپنے فیصلوں کے نفاذ کا اختیار نیٹو کو نہیں دیا اور اس لیے یہ کارروائی ’قانون کو ہاتھ میں لینے‘ اور vigilantism کے سوا کچھ نہیں تھی۔


ایران پر امریکا کا حملہ بھی vigilantism اور جارحیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔


چھٹا سوال: جارحیت کے مرتکب کے خلاف قانون کے تحت کیا کارروائی کی جاسکتی ہے؟


جارحیت کو بین الاقوامی قانون دو مختلف زاویوں سے دیکھتا ہے:


ایک، منشور کی دفعہ 39 کے تحت سلامتی کونسل جب ایک دفعہ یہ متعین کرلے کہ کسی ریاست نے جارحیت کا ارتکاب کیا ہے، تو وہ اس کے خلاف دفعہ 41 کے تحت ’نرم پابندیاں‘ اور دفعہ 42 کے تحت ’سخت پابندیاں‘ لگا سکتی ہے۔ ان سخت پابندیوں میں جارح ریاست کے خلاف اجتماعی طاقت کا استعمال بھی شامل ہے۔ تاہم یہ معلوم حقیقت ہے کہ سلامتی کونسل اسرائیل کے خلاف ایسا کوئی اقدام نہیں کرسکتی کیونکہ ایسے کسی بھی اقدام کو امریکا، برطانیہ اور فرانس ویٹو کریں گے۔


دوسرا یہ کہ جارحیت کےلیے اب صرف کسی ’ریاست‘ کو ہی ذمہ دار نہیں قرار دیا جاتا، بلکہ ’بین الاقوامی فوجداری قانون‘ کی رو سے جارحیت کے مرتکب کسی ’فرد‘، یہاں تک کہ کسی ریاست کے سربراہ کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت میں باقاعدہ مقدمہ دائر کیا جاسکتا ہے۔ ایسا مقدمہ دائر کرنے کےلیے شکایت یا تو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کرسکتی ہے، یا ان ریاستوں میں کوئی ریاست دائر کرسکتی ہے جنہوں نے اس عدالت کے منشور کی توثیق کی ہوئی ہے، یا اس عدالت کے پاس افراد اور اداروں کی جانب سے شکایات اور شواہد کا ایسا انبار جمع ہوجائے جن کی بنیاد پر مقدمہ شروع کیا جاسکتا ہو۔ پہلی صورت تو ممکن ہی نہیں ہے، دوسری صورت میں بھی فی الحال رکاوٹ یہ ہے کہ ایران نے اس عدالت کے منشور پر دستخط تو کیے ہیں، لیکن اس کی ابھی توثیق نہیں کی ہے۔ توثیق کے بعد ایران کےلیے ممکن ہوگا کہ وہ نیتن یاہو سمیت دیگر عہدیداروں اور سول و فوجی افسران کے خلاف اس عدالت میں مقدمات دائر کرے۔ فی الحال یہ کام ایران کا کوئی ایسا دوست ملک بھی کرسکتا ہے جس نے اس منشور کی توثیق کی ہوئی ہو اور تیسرا راستہ بھی کھلا ہے۔


ان دو امور کے علاوہ ایران کے پاس یہ اختیار بھی ہے کہ وہ اس جارحیت کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کی تلافی کےلیے اسرائیل سے مطالبہ کرے اور اس مقصد کےلیے اقوامِ متحدہ کی عدالت بین الاقوامی عدالتِ انصاف سمیت دیگر فورمز پر کوششیں کرے۔ ان کوششوں میں عملاً کس حد تک کامیابی متوقع ہے، یہ الگ بات ہے، یہاں بات صرف قانونی امور کی ہورہی ہے۔


ساتواں سوال: کیا قطر اور دیگر ممالک میں امریکی فوجی اڈوں پر ایران کے حملے جائز تھے؟


بین الاقوامی قانون کا مسلّمہ اصول ہے کہ حملے میں شریک تمام ریاستیں ایک ہی حیثیت رکھتی ہیں اور یہ کہ اگر کسی ریاست نے جارحیت کا ارتکاب کیا، تو اس کی فوجی اتحادی تمام ریاستیں اس جارحیت میں شریک ہیں، بالکل اسی طرح جیسے اس اتحاد میں شامل کسی ایک ریاست پر حملہ اس اتحاد میں شامل تمام ریاستوں پر حملہ متصور ہوتا ہے۔ نیٹو کی تنظیم اسی اصول پر بنائی گئی کہ اس کے ایک رکن پر حملہ تمام ارکان پر حملہ ہوتا ہے اور جوابی کارروائی میں تمام ارکان شامل ہوتے ہیں۔ ان اصولوں کی روشنی میں قطر اور دیگر امریکی فوجی اتحادیوں کے علاقوں میں امریکی فوجی اڈوں پر ایرانی حملوں کو بین الاقوامی قانون کی رو سے قطعی طور پر جواز حاصل تھا، بالخصوص جبکہ یہ حملے اس وقت ہوئے جب ابھی جنگ بندی کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔


یہ سوالات بین الاقوامی قانون کے تحت قانونی پوزیشن کے تعین کےلیے تھے۔ بین الاقوامی سیاست کی رو سے کچھ اور اہم سوالات بھی ہیں، جیسے یہ سوال کہ کیا اسرائیل و امریکا نے ان حملوں سے اپنے اہداف حاصل کیے یا نہیں، یا یہ سوال کہ اس جنگ کے اثرات مشرقِ وسطیٰ پر خصوصاً اور باقی دنیا پر عموماً کیا مرتب ہوں گے، یا یہ سوال کہ قطر کا اس سارے معاملے کیا کردار رہا ہے کہ ایک طرف اس نے امریکا کو فوجی اڈے بھی دیے ہیں اور دوسری طرف وہ امن مذاکرات کےلیے سہولت کاری بھی کرتا ہے، لیکن ان سوالات پر بحث کسی اور وقت کریں گے، ان شااللہ۔
 
Top