ایران، اسرائیل، اور امریکہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
بیٹا عبداللہ غور کرنے کی بات ہے کہ اسرائیل پانچ ہزار لڑاکوں‌سے ہار جاتا ہے جن کے پاس کچھ اینٹی ٹینک میزائیل ہیں؟
نہیں‌یہ بات نہیں۔ حزب اللہ کا وجود اس بات کا شاہد ہے کہ لبنان کی حکومت کمزور ہے۔ ایک پڑوسی جہاں فلسطینی رہتے ہوں اور وہ اسرائیل کے لیے درد سر بنتے ہوں وہاں حزب اللہ کا وجود اسرائیل کے لیے ایک اچھی بات ہے۔ حزب اللہ لبنان کی حکومت کو کمزور کرتی ہے۔ اور اس کی وجہ سے اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے۔ کمزور حکومت جب ہی ہے جب حزب اللہ جیسی تنظیمیں‌موجود ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ ایران درحقیقت امریک اور اسرائیل مفادات کے ساتھ ہے اپ جہاں‌بھی دیکھیں۔
اگراپ حزب اللہ کے مقاصد اور طریقہ کار سے متفق ہیں تو اسی طرح کے مقاصد اور طریقہ کار کی مخالفت صرف اپ کی بدنیتی ہے بیٹا۔
 
ایران اور اسرائیل کے تعاون کے بارے میں‌ ایران کونٹرا اسکینڈل بھی پڑھ لیں
http://en.wikipedia.org/wiki/Iran-Contra_affair
جب اسرائیل اسلحہ ایران جاتا رہا تاکہ عراق کے خلاف استعمال ہو
ایرانی ملا، لبنانی طالبان یعنی حزب اللہ اور اسرائیل کا کیسا گٹھ جوڑ رہا ہے
 
ایرانی ملا کے عزائم کو ایک اور شکست کا سامنا ہے۔ لبنان میں‌ حزب اللہ کے اتحاد کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے

up02.gif

جنگ

عیسائیوں، حزب اللہ اور امل ملیشیا کے اتحاد کو شکست ہوئی۔ یہ وہی امل ملیشیا ہے جس نے عیسائیوں اور یہودیوں‌کے ساتھ ملکر اپنے مخالف اکثریتی مسلمان مسلک کے قتل عام میں‌شرکت کی تھی۔

یہ انتخابات اس بات کو ثبوت ہیں‌کہ حزب اللہ صرف ان انتہاپسندوں‌ میں مقبول ہے جسے ایرانی ملا کی سپورٹ حاصل ہے اور لبنان کے عوام نے اس فتنہ کو پہچان لیاہے۔
 
امل اور حزب اللہ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں امل تو ایک نہایت ہی جنونی اور مفاد پرست ملیشیا ہے اسکا سربراہ نبیہ بری ایک نمبر کا کرپٹ آدمی ہے لبنان میں مختلف اوقات میں ہزاروں افرد کا یہ تنظیم قتل عام کر چکی ہے ان دونوں تنظیمون‌کے ذاتی اغراض اتنی بڑہی ہوئیں ہیں‌کہ حزب اللہ اور امل جو کہ دونوں‌ایک ہی ملسک سے تعلق رکھتی ہیں خود آپس میں بھی شدید لڑائیاں لڑ چکی ہیں۔اور اب ان انتخابات میں مل کر حصۃ لے رہی تھیں چہ خوب۔
 

مہوش علی

لائبریرین
امل اور حزب اللہ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں امل تو ایک نہایت ہی جنونی اور مفاد پرست ملیشیا ہے اسکا سربراہ نبیہ بری ایک نمبر کا کرپٹ آدمی ہے لبنان میں مختلف اوقات میں ہزاروں افرد کا یہ تنظیم قتل عام کر چکی ہے ان دونوں تنظیمون‌کے ذاتی اغراض اتنی بڑہی ہوئیں ہیں‌کہ حزب اللہ اور امل جو کہ دونوں‌ایک ہی ملسک سے تعلق رکھتی ہیں خود آپس میں بھی شدید لڑائیاں لڑ چکی ہیں۔اور اب ان انتخابات میں مل کر حصۃ لے رہی تھیں چہ خوب۔

نفرت اور کینہ کی کوئی انتہا نہیں ہوتی جس میں انسان مکمل اندھے پن کا شکار ہوتا ہے۔ اور اس پر وہ بات صادق آتی ہے کہ انہیں دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو نظر آتا ہے مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔

صرف امل ملیشیا نہیں، رفیق حریری گروپ بھی خانہ جنگی میں دوسروں کا قتل عام کر رہا تھا؟
حزب اللہ بننے سے قبل لبنان مکمل طور پر خانہ جنگی کا شکار تھا۔ اس میں صرف امل ملیشیا ہی نہیں ملوث تھی، بلکہ حریری گروپ اور انکے حلیف عیسائی اور دروز سب ایک دوسرے کا قتل عام کر رہے تھے۔ مگر اگر ابن حسن صرف امل ملیشیا کا رونا رونے کی بجائے اصل صورتحال بتا دیتے تو انکے فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کے مقاصد کیسے پورے ہوتے۔

پھر ایران میں انقلاب آیا۔ اور اسکی برکت سے لبنان میں حزب اللہ کا قیام عمل میں آیا جس نے امل ملیشیا سے مکمل اختلاف کیا اور وحدت المسلمین پر زور دیا۔ اسی بنا پر امل ملیشیا سب سے پہلے حزب اللہ کے خلاف ہو گئی اور اسکے خلاف بھی لڑائی شروع کر دی۔
مگر آخر میں اللہ تعالی نے حزب اللہ کو اس اندرونی محاذ پر کامیابی دی اور لبنان کی اہل تشیع آبادی کا بہت بڑا حصہ امل ملیشیا کو چھوڑ کر حزب اللہ کے ساتھ جا ملا۔

حزب اللہ کے آس پاس کے علاقوں کے اہلسنت اور حماس اور اسلامی جہاد سے بہترین تعلقات قائم ہوئے اور اسی وجہ سے وہ اہلسنت جو کہ اسرائیل کے خلاف جہاد کے حامی ہیں، وہ امریکہ و اسرائیل و سعودیہ کے ٹٹو سعد حریری گروہ میں نہیں ہیں، بلکہ وہ حزب اللہ کے ممبر ہیں اور اس جنگ میں حزب اللہ کے ساتھ ہیں۔
امل ملیشیا عملا شیعہ علاقوں میں اپنا کنٹرول کھو چکی ہے اور بے اثر ہے۔ خانہ جنگی کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اور اب امل ملیشیا اور حزب اللہ کے مشترکہ مقاصد میں اسرائیل سے جنگ کرنا شامل ہے۔
کیا اسلامی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی گروہ کا اگر کسی ایک معاملے میں فتنہ ختم ہو چکا ہو اور دیگر مسائل حل کرنے کے لیے ان کے تعاون اور صفوں میں اتحاد قائم رکھنے کی ضرورت ہوں تو ان کے ساتھ معاہدہ کر لیا جائے؟


Chrittian Forces کے ساتھ رفیق حریری گروہ کا اتحاد اور صابرہ اور شتیلا کیمپوں کے قتل عام کی یاد
یہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی سازش ہے جنہوں نے سعد حریری گروپ کو "سنی گروپ" بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا ہے، ورنہ یہ امیر تجارتی گروہ اور امریکہ و اسرائیل کا ٹٹو گروپ ہے۔
اور وہ لبنان کے اہلسنت کا ایک گروہ بذات خود رفیق حریری اور اسرائیل کے خلاف ہے اور حزب اللہ کے ساتھ اس جہاد میں شامل ہے۔

ابن حسن صاحب نے حزب اللہ پر امل ملیشیا سے اتحاد کرنے پر تو زبان طعن کھول دی، مگر یہ نہیں بتایا کہ بذات خود رفیق حریری گروپ کا سب سے بڑا اتحادی ان الیکشنز میں Christian Forces گروپ ہے۔

کیا آپ کو کو صابرہ اور شتیلا کیمپ یاد ہیں؟
جی ہاں یہ وہی کیمپ ہیں جہاں سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے ایک ہزار کے قریب معصوم فلسطینیوں کا قتل عام کروایا تھا۔ اور جی ہاں اس قتل عام میں یہی Christian Forces شامل تھیں جنہون نے یہ کام ایریل شیرون کے ساتھ مل کر کیا تھا۔

یہ ہے سعویہ اور رفیق حریری گروپ کا اصل مکروہ چہرہ، اور اُن لوگوں کا بھی جو انکی فتح پر آج جشن منا رہے ہیں۔
مگر اللہ کا فضل ہے کہ فلسطینی اہلسنت کیمپوں کے لوگ، اور لبنان کے اصل ایمان والے اہلسنت کے لوگ اور حماس اور اسلامی جہاد اور بقیہ پوری دنیا کے اصل ایمان والے لبنان میں موجود اس مکروہ چہروں کو جانتے ہیں اور حزب اللہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان فرقہ وارانہ طاقتوں کو کہ جن کہ پشت پر امریکہ کھڑا ہے، انہیں شکست دے رہے ہیں۔

لبنان کی صورتحال
1۔ لبان کی آفیشل شیعہ آبادی 36 فیصد [جبکہ غیر سرکاری طور پر 45 فیصد کے قریب ہے] ۔

لیکن جب فرانس اپنی اس کالونی [لبنان] کو چھوڑ کر جا رہا تھا تو اس نے ایسا نظام انتخابات کے لیے چنا کہ جس سے پورا ملک فرقہ وارانہ بنیادوں پر منقسم ہو کر رہ گیا۔

صورتحال یہ ہے کہ:

1۔ لبنان اسمبلی میں کل 128 سیٹیں ہیں۔

2۔ مگر آفیشل طور پر اہل تشیع صرف 28 نشستیں حاصل کر سکتے ہیں [اگرچہ کہ آفیشیلی انکی تعداد 36 فیصد کے قریب ہے اور اس تناسب سے اسمبلی میں انکی سیٹوں کی تعداد 28 نہیں بلکہ 51 ہونی چاہیے ہے]

3۔ اور اگرچہ کہ عیسائی صرف 30 فیصد کے قریب ہیں، لیکن اسمبلی کی آدھی سیٹوں پر ان کا حصہ ہے۔ اور چونکہ عیسائیوں کا بڑا حصہ امریکہ اور اسرائیل کا ساتھی ہے، اسی وجہ سے وہ سعد حریری کے ساتھ مل کر ہمیشہ حکومت بناتا ہے۔

جب حزب اللہ اس پر احتجاج کرتی ہے اور اپنا حق مانگنا چاہتی ہے تو سعودیہ اور الجزیرہ ٹی وی سی این این کے ساتھ مل کر فورا اسے فرقہ وارانہ مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ اور یاد رکھئیے وہ اپنی سازش میں بہت کامیاب بھی ہیں اور انہیں القاعدہ جیسے تنگ نظر نفرت رکھنے والی قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔

الیکشن کے یہ نتائج ہمیشہ سے ایسے ہی نکلتے آ رہے ہیں۔ سعد حریری ہی نہیں، اسکے باپ رفیق حریری کا بھی یہی حال تھا۔
امریکہ و یورپ نے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر حزب اللہ کا اتحاد کامیاب ہوتا ہے تو لبنان کو بائیکاٹ کر دیں گے۔ پھر بلینز آف ڈالرز کی ایڈ دے کر امریکہ سے ہزاروں لبنانی اس الیکشنز میں ووٹ ڈالنے آئے ہیں۔

*************

امل ملیشیا اس وقت حزب اللہ کی حامی ہے۔
مگر یاد رکھئیے کہ یہ اتحاد دائمی نہیں ہے۔ امل ملیشیا میں موجود اہل تشیع اب حزب اللہ پر پھر فرقہ پرستی کے حوالے سے زور دے رہے ہیں کہ تمہیں اہلسنت کے ساتھ اتحاد کر کے اور فلسطینیوں کی مدد کر کے کیا مل رہا ہے؟ اور تم ہر طرف سے مارے جا رہے ہو، امریکہ و یورپ و اسرائیل تو تمہیں مارتے ہیں ہیں، مگر یہ اپنوں کے لبادے میں لپٹے ہوئے سعودیہ و القاعدہ والے بھی تمہیں مارتے ہیں۔

یاد رکھئیے انتہا پسند اور باطل سوچوں والے لوگ ہر قوم ہر گروہ میں ہوتے ہیں۔ ان باطل قوتوں کو مضبوط نہ ہونے دیں۔ اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں اور ان نفرت پھیلانے والوں کو کامیاب نہ ہونے دیں۔

میں آپ کو پھر بتلا رہی ہوں کہ اہل تشیع میں اب ایک گروہ ایسا مضبوط ہوتا جا رہا ہے جو کہ القاعدہ و طالبان و سعودیہ کے ان حرکتوں کا فائدہ اٹھا کر اکسا رہا ہے کہ اہلسنت مسلمان بھائیوں سے تعلق توڑو اور امریکہ کے حلیف بن جاؤ، ورنہ موجودہ صورتحال میں تو دونوں طرف سے مارے جا رہے ہو۔
 
مگر اگر ابن حسن صرف امل ملیشیا کا رونا رونے کی بجائے اصل صورتحال بتا دیتے تو انکے فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کے مقاصد کیسے پورے ہوتے۔
فرقہ وارانہ زہر کس میں کتنا بھرا ہے اس سے میں اچھی طرح واقف ہوں۔ تقیہ کا پردہ منہ پر ڈال لینے سے تبرائی گروپ کبھی چھپ نہیں سکتا ہے۔ گالیاں دینا اخلاقیات سے گری ہوئی حرکتیں کرنا جن کا نہ صرف شوہ ہو بلکہ مذہب کا حصہ ہو وہ کس منہ سے دوسروں کو طعنہ دے سکتے ہیں۔؟؟ تعصب سے اندھے پن کا اس بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ خود بعض جماعتوں کی محبت میں‌ مشرف اور ایم کیو ایم جیسی قاتل افراد وگروپ کی پشت پناہی کی جاتی تہی ہے اور غیرجانداری کا بھونپو منہ سے لگا کر بلند راگ الاپے جارہے۔یہ باتیں ان کے منہ سے اچھی لگتی ہیں‌جن کے دامن داغ دار نہ ہوں۔

میری اوپر کی پوسٹ ایک مختصر تبصرہ تھی ہمت علی کے پوسٹ کے اوپر یہاں‌میں بیٹھ کر لبنان کی پوری صورت حال کا جائزہ نہیں لے رہا تھا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو کچھ میں نے امل کے بارے میں کہا کیا غلط کہا ؟؟؟؟ March 14 Alliance جس کو حالیہ انتخابات میں کامیابی ملی ہے اس کے کرتوتوں سے بھی اچھی طرح میں‌ باعلم ہوں حزب اللہ ہو یا امل یا دروز یا March 14 Alliance یہی تو وہ بگڑی ہو ئی جماعتیں ہیں جنھون‌نے لبنان کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے ان میں کوئی بھی پاک باز نہیں ہے۔ یہ تو بتا دیا گیا کہ صابرہ و شتیلا 1982 کے واقعہ میں Lebanese Forces ملوث تھیں لیکن 1985 سے1987 تک جو صابرہ کیمپ پر حملے کیے گئے ان میں امل ملوث تھی جو آج حزب اللہ کی ساتھی ہے ۔ اور خود حزب اللہ کا کردار لبنان میں کیا رہا ہے لبنان کو کھنڈر بنانے میں حزب اللہ کا ایک
بنیادی ہاتھ رہا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حزب اللہ ہی رفیق حریری کے قتل میں بھی ملوث ہے۔
اور یہ شیعہ سنی کے زیادہ قصے یہاں‌نہ سنائیں جائیں تو بہتر ہو تاریخ اسلام میں جو کچھ شیعہ حضرات اہل سنت کے ساتھ کرتے رہے ہیں ان کی جھلک بھی یہاں‌میں پیش کردوں تو مزا آجائے۔ اور ایران کے اسلامی انقلاب کی برکات تو بے انتہا ہیں ایک بڑی برکت تو یہی ہے کہ تہران میں اہل سنت کو اپنی مسجد بنانے کی اجازت نہیں یہی ہے وہ شیعہ سنی بھائی کا نعرہ کو لگایا جاتا ہے ایرانی انقلاب جو درحقیقت شیعی انقلاب کی بگڑی ہوئی شکل یعنی خمینی انقلاب تھا کے بارے میں شاید اب وہ وقت آگیا ہہے کہ یہان‌حقائق بتائے جائیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ابن حسن وہ شخص ہے جو بار بار "تقیہ" اور "تبرا" کے نام پر فرقہ واریت کو ہوا دیتا ہے اور محفل کے اصولوں کے مطابق میں اسے جواب نہیں دیتی۔ یہ وہ بحثیں ہیں جو صدیوں سے ہوتی چلی آ رہی ہیں اور جواب میں غصہ میں آ کر فریق مخالف کے بڑوں کا تقیہ اور ایک دوسرے پر تبرا دکھایا جاتا ہے اور اس سب چیزوں کا آخری فائدہ انہی انتہا پسندوں اور فرقہ واریت کے ان زہریلے سانپوں کو ہوتا ہے اور وہ قوتیں کمزور ہوتی ہیں جو ان مسائل کو نظر انداز کر کے امت کے مجموعی بھلے کا سوچ رہی ہوتی ہیں۔

اور اس شخص کے زہریلے دماغ کو جانیے کہ مشرف اور متحدہ کو سپورٹ کرنا میرا "ذاتی" فیصلہ ہے اور اسکا فرقہ واریت سے کیا تعلق؟ کراچی کے لاکھوں اہلسنت متحدہ کو سپورٹ کرتے ہیں اور اسی طرح ملک کے کڑوڑوں لوگ مشرف کو پسند کرتے ہیں۔ اختلاف رائے ہر کسی کو ہو سکتا ہے اور بہت سے اہل تشیع مشرف اور متحدہ سے نفرت کرتے ہیں۔ مگر اس شخص کو ہر ہر بات میں بس فرقہ واریت دکھائی دیتی ہے۔

**************

اور اس شخص نے جو امل کے متعلق کہا وہ بھی اصل حقائق سے بہت دور ہے۔
امل کے جنگ لبنان کے اہلسنت سے نہیں تھی، بلکہ فلسطینی کمیپوں میں موجود "غیر اسلامی" مارکسٹ یاسر عرفات کی فتح سے ہوئی تھی۔
بہتر ہے کہ میں ریفرنس کے ساتھ کچھ تفصیل پیش کر دوں تاکہ یہ شخص جھوٹی باتیں بنا کر اور حقائق کو توڑ مڑوڑ کر اپنی نفرت کے جالے نہ بن سکے۔

ذیل کا مضمون "لبنان کی خانہ جنگی" نامی آرٹیکل سے لیا گیا ہے جو کہ وکیپیڈیا پر موجود ہے۔ لنک یہ ہے۔ اس صفحہ پر آپ کو بہت سے External Links بھی مل جائیں گے جہاں آپ ہر سائیڈ کو موقف پڑھ سکتے ہیں۔

Shi'a militias


The Shi'a militias were slow to form and join in the fighting. Initially, many Shi'a had sympathy for the Palestinians and a few had been drawn to the Lebanese Communist Party, but after 1970's Black September, there was a sudden influx of armed Palestinians to the Shi'a areas. South Lebanon's population is mainly Shi'a and the Palestinians soon set up base there for their attacks against the Israelis. The Palestinian movement quickly squandered its influence with the Shi'ite, as radical factions ruled by the gun in much of Shi'ite-inhabited southern Lebanon, where the refugee camps happened to be concentrated, and the mainstream PLO proved either unwilling or unable to rein them in.

Flag of Hezbollah

The Palestinian radicals' secularism and behaviour had alienated the traditionalist Shi'ite community, the Shi'a didn't want to pay the price for the PLO's rocket attacks from Southern Lebanon. The PLO created a State within a State in South Lebanon and this instigated a fury among Lebanon's Shi'a who feared a retaliation from the Israelis to their native land in the South. Initially the Shi'a had been sympathetic towards the Palestinians, but when the PLO created chaos in South Lebanon these feelings were reversed. The Shiʿa predominated in the area of southern Lebanon that in the 1960s became an arena for Israel-Palestinian conflict. The state of Lebanon, which always avoided provoking Israel, simply abandoned southern Lebanon. Many of the people there migrated to the suburbs of Beirut which are known as "poverty belts." The young Shi'a migrants, who had not participated in the prosperity of prewar Beirut, joined many Lebanese and some Palestinian organizations. After many years without their own independent political organizations, there suddenly arose Musa Sadr's Amal Movement in 1974-75. The Amal movement was created to expel foreign forces from Lebanese land, solely the PLO at the time. Its moderate Islamist ideology immediately attracted the unrepresented people, and Amal's armed ranks grew rapidly. Amal fought against the PLO in the early days. Later, in the early 1980s, Amal proved to be a strong militia in the face of the Israelis. Amal fighters had delivered the first attack against their Israeli occupiers and succeeded. The Lebanese Shi'a soon proved that the Israelis were not as invincible as everyone thought. Later a hard line faction would break away to join with Shi'a groups fighting Israel to form Hezbollah also known as the National Resistance, who to this day remain the most powerful militia of Lebanon. Hezbollah was created to fight against Israel. There was a time in the war when the South was occupied by Israel, if anyone wanted to pass out of South Lebanon they had to have their passports stamped by the Israelis with an Israeli stamp. After a 20 year occupation the Lebanese resistance had succeeded in liberating South Lebanon from the Israelis.
اہم نکات یہ ہیں:

1۔ اسرائیل کے وجود کے آنے کے بعد یاسر عرفات کی فتح نامی تنظیم کے اسرائیل کے خلاف مزاحمت شروع کی اور اپنی اڈے لبنان کے جنوب میں بنائے جہاں فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد کیمپوں میں موجود تھی۔

2۔ جنوبی لبنان کی آبادی اہل تشیع پر مشتمل ہے اور روایتی طور پر مذہبی ہے۔

3۔ آغاز میں جنوبی لبنان کی شیعہ آبادی نے اپنے فلسطینی بھائیوں کی بہت مدد کی۔ حتی کہ ایک وقت وہ آیا جب الفتح ان کیمپوں میں بہت مضبوط ہو گئی اور چونکہ یہ مسلح جدوجہد اسرائیل کے خلاف کر رہے تھے، اس لیے ان کے پاس کیمپوں میں بہت اسلحہ آ گیا [عرب حکومتیں ان کی مدد کر رہی تھیں، خصوصا صدام حسین اور یاسر عرفات کے تعلقات بہت گہرے تھے]

4۔ مگر الفتح چونکہ غیر مذہبی جماعت تھی اور کمیونسٹ رجحان رکھتی تھی، ان لوگوں نے لبنانی اہل تشیع کی آبادی پر مافیا صورت اختیار کرنا شروع کر دی۔
میں بذات خود ادھر لبنانی کمیونٹی سے واقف ہوں اور وہ بتاتے ہیں کہ کیسے الفتح کے یہ لوگ اسلحہ لے کر آتے تھے اور لبنانی خواتین [جو کہ علاقے میں بہت خوبصورت جانی جاتی ہیں] کو راہ چلتے تنگ کرتے تھے۔
انہی اوباش حرکتوں کی وجہ سے تنازع شروع ہوا جو کہ بنیادی طور پر شیعہ سنی تنازعہ نہیں تھا بلکہ الفتح کے کارکنوں اور مقامی آبادی کے مابین تھا۔

5 سن 1975 میں جنوبی لبنان میں امل ملیشیا قیام میں آئی اور اس نے الفتح کی مافیا کو علاقے میں چیلنج کیا اور انکے مابین جھڑپیں ہوئیں۔

6۔ پھر 1982 میں حزب اللہ قیام میں آ گئی اور اس نے فلسطینی کیمپوں میں موجود اس وقت کے اسلامی جہاد اور بعد میں حماس کے ساتھ بہترین تعلقات بنائے اور یہ الفتح کے برعکس یہ لوگ ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہو کر اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرتے رہے۔

یہ وہ مختصر تاریخ ہے جس کا پتا ہونا ضروری ہے ورنہ ابن حسن جیسے لوگ اسے توڑ مڑوڑ کے اپنے زہر کے رنگ اس میں بھرتے رہیں گے۔


از ابن حسن:

میری اوپر کی پوسٹ ایک مختصر تبصرہ تھی ہمت علی کے پوسٹ کے اوپر یہاں‌میں بیٹھ کر لبنان کی پوری صورت حال کا جائزہ نہیں لے رہا تھا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو کچھ میں نے امل کے بارے میں کہا کیا غلط کہا ؟؟؟؟ March 14 Alliance جس کو حالیہ انتخابات میں کامیابی ملی ہے اس کے کرتوتوں سے بھی اچھی طرح میں‌ باعلم ہوں حزب اللہ ہو یا امل یا دروز یا March 14 Alliance یہی تو وہ بگڑی ہو ئی جماعتیں ہیں جنھون‌نے لبنان کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے ان میں کوئی بھی پاک باز نہیں ہے۔ یہ تو بتا دیا گیا کہ صابرہ و شتیلا 1982 کے واقعہ میں Lebanese Forces ملوث تھیں لیکن 1985 سے1987 تک جو صابرہ کیمپ پر حملے کیے گئے ان میں امل ملوث تھی جو آج حزب اللہ کی ساتھی ہے ۔

یہ شخص پھر آدھی بات کہہ کر بھاگ رہا ہے۔
دروز اور Christian Forces اور سعد حریری [جسے سعودی میڈیا "مظلوم سنی" گروپ بنا کر پیش کر رہا ہے] یہ سب مارچ 14 الائنس کے نام سے جیتے ہیں۔ ان سب کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل اور سعودیہ کھل کر موجود ہیں۔
کرسچین فورسز کے علاوہ وہ عیسائی بھی شامل ہیں جن کو اسرائیل نے سرحدوں کی رکھوالی کے لیے بھرتی کیا تھا اور جب حزب اللہ نے لبنانی علاقے اسرائیل سے چھینے تو یہ عیسائی بھی بھاگ کر اسرائیل چلے گئے تھے۔
آج سعودیہ اور اسکے مفتی حضرات کھل کر فتوے دے رہے ہیں کہ لبنان میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنا حرام ہے کیونکہ اس مزاحمت کی قیادت حزب اللہ کر رہی ہے۔
مجال ہے جو آپ اس شخص کے منہ سے اس سعودی منافقت کے خلاف بھی ایک لفظ سن سکیں، حالانکہ سعودی کرادر کتنا کھل کر سب کے سامنے ہے۔ آج جب ہمت علی صاحب کھل کر ان امریکی اسرائیلی سعودی پٹھوؤں کی فتح پر جشن منا رہا ہے تو اس کو تو کچھ کہتا نہیں ہے، مگر حزب اللہ کی مزاحمت کے خلاف زبان طعن موجود ہے۔

ْ اور اس شخص کو اگر اپنی نفرت میں کوئی گناہ نظر آتا ہے تو فقط یہ کہ حزب اللہ نے امل کے ساتھ امن معاہدہ کیوں کر لیا۔ مگر یہ شخص آپ کو یہ نہیں بتائے گا کہ امل ملیشیا کا اگرچہ کہ الفتح سے تو اختلاف تھا، مگر اسکے باوجود یہ فلسطینی برادران کے حقوق کی بات کرتی تھی اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں باقاعدہ طور پر شامل رہی ہے۔

جب خانہ جنگی ختم ہو گئی اور صلح ہو گئیِ تو پھر اب امل ملیشیا سے امن معاہدہ کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟
کیوں یہ شخص چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے یہ دو گروہ ایک دوسرے کے ساتھ صلح اور امن معاہدہ نہ کریں اور اسرائیل جو انکا مشترکہ دشمن ہے اور انکے علاقوں پر قابض ہے، اسکے خلاف مل کر مزاحمت نہ کریں؟
کہ دو مسلمان گروہوں میں یہ تاریخ کی پہلی جنگ ہے؟
اس شخص کو ان باتوں کا خوب علم ہے، مگر یہ اسکی فرقہ وارانہ نفرت ہے اور یہ مجھ پر مسلسل تقیہ کا فتوی لگاتا ہے مگر اندر سے یہ یہ پکا لشکر جھنگوی کا یار ہے اور میں وہ وقت ہرگز بھولی نہیں ہوں کہ یہ کیسے طالبان کی ظلم و بربریت پر پردے ڈالا کرتا تھا، اور آج سعودی کردار پر پردے ڈال رہا ہے۔

*******************

از ابن حسن:
اور خود حزب اللہ کا کردار لبنان میں کیا رہا ہے لبنان کو کھنڈر بنانے میں حزب اللہ کا ایک
بنیادی ہاتھ رہا ہے۔

منافقت سامنے آئے گی۔
یہ وہی شخص ہے جسے آج تک افغانستان کے طالبان کا افغانستان کو کھنڈر بنانا نظر نہیں آیا، اور وہ بھی اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خون کی ندیاں بہاتے ہوئے۔ مگر اسرائیل نے جو شہری آبادی پر وحشیانہ بمباری کی، اسے سے آنے والی تباہی کو حزب اللہ کے نام کر رہا ہے۔
اسے چاہیے کہ حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف مزاحمت پر ایسے گندے الزامات لگانے سے قبل ایک مرتبہ اپنے گریبان میں تو جھانک کر دیکھے تو اسے طالبان کی وہ تباہیاں اور بربادیاں نظر آئیں گی جس سے یہ آج تک منہ پھیرے بیٹھا ہے۔
از ابن حسن:
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حزب اللہ ہی رفیق حریری کے قتل میں بھی ملوث ہے۔

ایک مرتبہ بھر اس کی زہریلی نفرت بھرے الزام کی حقیقت سامنے آنے والی ہے اور پتا چلے گا کہ کیسے اس جیسے لوگ اپنی نفرتوں کا شکار ہو کر امریکی و اسرائیلی مفادات کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ الزام لگایا ہے یہودی زیر اثر Der Spiegel نے کہ حزب اللہ ہی رفیق حریری کے قتل میں ملوث ہے۔ اور یہ الزام لگایا گیا ہے عین انتخابات کے وقت، اور پھر اسے مغربی اور سعودی میڈیا نے پروپیگنڈا کے زور پر ہر طرف پھیلا دیا۔

مگر اللہ کی نصرت ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور باطل کو آخر کار مٹ ہی جانا ہے۔

Der Spiegel نے اپنے ان الزامات کے سورس کے طور پر جس تحقیقاتی ٹریبیونل کا نام لیا تھا، اں کے طرف سے فورا Der Spiegelکے الزام کی مکمل تردید ہو گئی اور انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں پتا کہ Der Spiegelنے یہ الزام لگاتے وقت انکا نام کیوں لیا ہے کیونکہ تحقیقات میں انکے سامنے ایسے کوئی شواہد نہیں آئے ہیں۔

Bellemar Spokeswoman: Where Did Der Spiegel Get This Story From?
Mohamad Shmaysani

24/05/2009
The spokeswoman for the Special Tribunal for Lebanon Radiya Ashouri that “we don’t know where did the Der Spiegel magazine get this information from and we don’t know where did they bring this story from.” Ashouri stressed general prosecutor Daniel Bellemar “does not issue any comment on issues that are related to the Hariri investigation operational aspects.

Speaking to the Lebanese Al-Intiqad website, Ashouri refuted claims that “anyone in the general prosecutor’s office had spoken to the German magazine about anything.” She added that if there had been something to speak about, “Mr. Bellemar would have directly addressed it without resorting to the media. We have a clear policy of not leaking any information about the tribunal through media outlets, and we have stressing this since the beginning.”

Bellemar’s spokeswoman also denied allegations that any member of the tribunal’s panel had spoken to Der Spiegel. “When Der Spiegel spoke about Bellemar’s spokesperson, they meant me. They emailed me and asked a few questions. My answer was that the tribunal does not deal with investion files through the media and adopts the policy of direct announcement by the part of Mr. Bellemar..If we had something to say, we would have said it directly, not through media outlets.”

Der Spiegel’s Erich Follath claimed that the international committee investigating the assassination of former Prime Minister martyr Rafik Hariri “has reached surprising new conclusions -- and it is keeping them secret – pointing to Hezbollah. After making a long sentimental introduction and gave an affective background about martyr Hariri and the parties and states that “hated secular Hariri”, Follath said: ”Intensive investigations in Lebanon are all pointing to a new conclusion: that it was not the Syrians, but instead special forces of the Lebanese Shiite organization Hezbollah ("Party of God") that planned and executed the diabolical attack. “ Follath also stated names in what he called “the circle of hell” and claimed that “according to the Lebanese security forces, all of the numbers involved apparently belong to the "operational arm" of Hezbollah.”

According to observers, Follath’s baseless allegations are part of a coordinated campaign to put Hezbollah and Lebanese security forces at loggerheads, at a time coordination between the two sides has so far led to the dismantling of some ten Israeli spy networks in Lebanon. Der Spiegel’s report was published amid Israeli official silence and calls for the UN Security Council to take a decisive position as to this grave and most serious violation of UNSCR1701. Follath’s report also comes at a time of extremely serious US-Israeli concern about the outcome of the upcoming elections in Lebanon on June 7, in which the Lebanese National Opposition, of which Hezbollah is a key constituent, are likely to score the majority in parliament and form the next Lebanese government.

Hezbollah dismissed Follath’s report that was also broadcast on Al-Arabiya channel as fabricated police stories cooked in the same black room that has been keen on fabricating such stories for over four years regarding the Syrians and the four Lebanese officers and others.”​
اس سٹوری کی پوری کوریج اس لنک پر دیکھیں۔

اور قرآن کہتا ہے کہ جب کوئی فاسق و فاجر کوئی خبر لے کر آئیں تو اس پر یقین کرنے سے پہلے اس خبر کی تصدیق کر لو۔

افسوس کہ اس تہمت کی پول کھل گئی، مگر دشمن اپنے مقصد میں کامیاب پھر بھی ہے۔ دشمن نے اس خبر کو اتنے بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ کے ذریعے پھیلایا کہ اس کا فوری اثر انتخابات پر پڑا۔ اگرچہ کہ اسکی بروقت تردید کرنے کی بہت کوشش کی گئی، مگر پھر بھی نقصان سے بچا نہ جا سکا۔

بہرحال، پھر بھی یہودیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے یہ کچھ "اپنے" پہنچانے گئے۔ امریکہ اور اسرائیل کا پہنچایا ہو نقصان اتنا خطرناک نہیں جتنا کہ ان اپنوں کا پیٹھ پر کیا گیا وار ہے۔

میں تو بس یہی دعا کرتی ہوں کہ دونوں طرف کے یہ انتہا پسند ایک دوسرے کا سہارا لیتے ہوئے کمیونٹیز میں مضبوط نہ ہونے پائیں، ورنہ بطور امت ہمیں اور بہت خسارہ اٹھانا پڑے گا۔
 
ابن حسن وہ شخص ہے جو بار بار "تقیہ" اور "تبرا" کے نام پر فرقہ واریت کو ہوا دیتا ہے اور محفل کے اصولوں کے مطابق میں اسے جواب نہیں دیتی۔ یہ وہ بحثیں ہیں جو صدیوں سے ہوتی چلی آ رہی ہیں اور جواب میں غصہ میں آ کر فریق مخالف کے بڑوں کا تقیہ اور ایک دوسرے پر تبرا دکھایا جاتا ہے اور اس سب چیزوں کا آخری فائدہ انہی انتہا پسندوں اور فرقہ واریت کے ان زہریلے سانپوں کو ہوتا ہے اور وہ قوتیں کمزور ہوتی ہیں جو ان مسائل کو نظر انداز کر کے امت کے مجموعی بھلے کا سوچ رہی ہوتی ہیں۔

اور اس شخص کے زہریلے دماغ کو جانیے کہ مشرف اور متحدہ کو سپورٹ کرنا میرا "ذاتی" فیصلہ ہے اور اسکا فرقہ واریت سے کیا تعلق؟ کراچی کے لاکھوں اہلسنت متحدہ کو سپورٹ کرتے ہیں اور اسی طرح ملک کے کڑوڑوں لوگ مشرف کو پسند کرتے ہیں۔ اختلاف رائے ہر کسی کو ہو سکتا ہے اور بہت سے اہل تشیع مشرف اور متحدہ سے نفرت کرتے ہیں۔ مگر اس شخص کو ہر ہر بات میں بس فرقہ واریت دکھائی دیتی ہے۔

بعض افراد کے چہروں پر صرف ایک پردہ ہی نہیں ہوتا بلکہ پردے اندر پردے ہوتے ہیں اس کی بہترین مثال مہوش علی نامی ایک خاتون ہیں جنھوں نے اپنے چہرے پر ناجانے کتنے پردے ڈال رکھے ہیں تاہم ایک پردہ تو ان کے چہرے اور اخلاقیات دونوں سے اٹھ چکا ہے وہ اٹھا ہے ان کی انتہا ئی مہذبانہ طریق گفتگو سے۔ وہ جو کہتے ہیں نا کوثر سے دھلی گفتگو شاید ان کی ہی گفتگو کو دیکھ کر کہتے ہیں ۔ بنیادی طور پر اب ان سے زیادہ بات چیت کرنے سے اسی لیے میں پرہیز کرتا ہوں ان کے اندر نفرت و کینے کے بھانبڑ جل رہے ہیں کسی نے گفتگو کی نہیں اور پنجے جھاڑ کر پڑ گئیں اس کے پیچھے۔
اوپر کی میری پوسٹ ہمت علی کی پوسٹ پر ایک مختصر تبصرہ تھی ہمت نے خود اپنی پوسٹ میں‌یہ بات کہی تھی
یہ وہی امل ملیشیا ہے جس نے عیسائیوں اور یہودیوں‌کے ساتھ ملکر اپنے مخالف اکثریتی مسلمان مسلک کے قتل عام میں‌شرکت کی تھی۔
اسی بات پر میں نے ایک تبصرہ کیا تھا ۔ اب مزے کی بات یہ ہے کہ ہمت کی بات تو ان کو نظر آئی نہیں یا جان بوجھ کر انہوں نے نظر انداز کر دی اور پیچھے پڑ گئیں میرے کیونکہ کینہ رکھنا تو ان کی پرانی عادت ہے اور حسب سابق بجائے اس کے بات کریں تو دلائل کے ساتھ کریں نرمی کے ساتھ کریں حسب عادت مجھ پر نفرت ، کینہ اور فرقہ واریت پھیلانے کے الزامات عائد کر دئیے۔ جس کے جواب میں نے ان کی پوسٹ میں استعمال کیے ہوئے چند وہی الفاظ مثلا نفر کینہ فرقہ وانہ زہر ان کے خلاف لکھ دیئے تو اب یہ آپے سے باکل باہر ہو رہی ہیں ، حالانکہ اگر یہ سابقہ پوسٹ پر نظر دوڑائیں تو یہ الفاظ ان کو نظر آجائیں گئے۔یہ تو صرف ایک ٹیسٹ تھا کہ جب کسی اخلاقیات سے عاری شخص کو آئینہ دکھایا جائے تو اس کا کیا حال ہوتا ہے۔خیر وہ اپنا یہ طرز جاری رکھیں ان کو ان کے ہی طرز میں جواب نہیں دیا جائے گا بلکہ اس سلسلے میں قرآنی روش یہ ہے
وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًاo
نوٹ: انکی بقیہ پوسٹ کا میں کچھ دیر میں جواب دیتا ہوں
 

مہوش علی

لائبریرین
از ابن حسن:
اور یہ شیعہ سنی کے زیادہ قصے یہاں‌نہ سنائیں جائیں تو بہتر ہو تاریخ اسلام میں جو کچھ شیعہ حضرات اہل سنت کے ساتھ کرتے رہے ہیں ان کی جھلک بھی یہاں‌میں پیش کردوں تو مزا آجائے۔ اور ایران کے اسلامی انقلاب کی برکات تو بے انتہا ہیں ایک بڑی برکت تو یہی ہے کہ تہران میں اہل سنت کو اپنی مسجد بنانے کی اجازت نہیں یہی ہے وہ شیعہ سنی بھائی کا نعرہ کو لگایا جاتا ہے ایرانی انقلاب جو درحقیقت شیعی انقلاب کی بگڑی ہوئی شکل یعنی خمینی انقلاب تھا کے بارے میں شاید اب وہ وقت آگیا ہہے کہ یہان‌حقائق بتائے جائیں۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت رہی ہے کہ دونوں فریقین کے مابین اختلافات تھے اور شکایات ہیں [یہ شکوے شکایات یکطرفہ نہیں جیسا کہ ابن حسن پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے]۔
میری مسلسل کوشش ہے کہ ماضی کے ان شکوے شکایات کو نظر انداز کرتے ہوئے امت میں اتحاد پیدا ہو، مگر ابن حسن کی پوری کوشش ہے کہ کبھی شیعی انقلاب، کبھی تقیہ، کبھی تبرا جیسے ناموں کو استعمال کرتے ہوئے ان اختلافات کو ابھارا جائے اور نفرتیں پیدا کی جائیں۔

ابن حسن کے نفرتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے میں صرف ایک مثبت بات کرنا چاہتی ہوں، جو کہ بذات خود ان انتہا پسندوں کے لیے کاری وار ہے۔


تہران میں اہلسنت مسجد نہ ہونے کا مسلسل الزام
میں بہت مرتبہ اس بات کو تفصیل سے لکھ چکی ہوں کہ ایران میں حکومت کہتی ہے کہ کوئی مسجد شیعہ ہے اور نہ سنی، بلکہ یہ اللہ کا گھر ہے اور ہر کسی کو اللہ کے اس گھر میں اسی طرح جا کر نماز ادا کرنی چاہیے جیسے کہ خانہ کعبہ میں کی جاتی ہے۔ اور طریقہ کار یہ ہے جس فرقے کی بھی اس علاقے میں اکثریت ہے وہیں کا امام جماعت کروا دے [جیسا کہ خانہ کعبہ میں سلفی امام کے پیچھے سب نماز ادا کرتے ہیں]

اس لیے وہ علاقے جہاں اہلسنت کی اکثریت ہے، وہاں پر تمام شیعہ اہلسنت امام کے پیچھے جا کر نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ دو چار جگہ اس اصول کی علاقائی طور پر خلاف ورزی ہوئی ہو، مگر بہرحال یہ اصول مجموعی طور پر پورے ملک میں نافذ ہے۔

کیا یہ کمال کی بات نہیں کہ ابن حسن جیسے انتہا پسند تہران میں اہلسنت مسجد نہ ہونے کا مسلسل زہریلا پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں، مگر انہیں آج تک یہ نظر نہیں آیا کہ مکہ و مدینہ میں بھی کوئی شیعہ مسجد نہیں۔ کیا یہ کھلی ہوئی منافقت نہیں؟ کیا سعودیہ میں کسی علاقے میں سعودی حکومت اپنے سلفی شہریوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ جا کر شیعہ امام کے پیچھے نماز پڑھے؟ تو کیوں اس شخص کو یہ نظر نہیں آتا؟ جی ہاں، اسکی واحد وجہ اسکے دل میں دھڑکتا ہوا وہ دل ہے جو کہ نفرت کی آگ میں اندھا ہو چکا ہے اور انصاف کرنے کے قابل نہیں۔


تہران میں اہلسنت فقہوں کی یونیورسٹی میں تعلیم [ مزید براں جامعہ الازھر کا اپنی ایک شاخ کا تہران میں کھولنا]

یہ نفرتیں پھیلانے والے عناصر آپ کو تہران میں اہلستن مسجد کے نہ ہونے کی دہائی دیتے تو مسلسل نظر آئیں گے، مگر یہ کبھی نہیں بتائیں کہ ایرانی قانون میں تمام اہلسنت فقہوں کو باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور اسی تہران میں اہلسنت فقہوں پر یونیورسٹیوں میں باقاعدہ پورے سیکشن موجود ہیں جہاں ان میں ہر قسم کی ڈگری حاصل کی جا سکتی ہے۔

ایران کا مصر کی جامعہ الازہر کو تہران میں اپنی شاخ کھولنے کی باقاعدہ درخواست

ایران اور جامعہ الازہر میں انقلاب کے وقت سے ہی بہترین روابط قائم ہیں۔ اب ایران نے باقاعدہ طور پر جامعۃ الازہر سے درخواست کی ہے کہ ہے کہ وہ تہران میں اپنی شاخ کھولے تاکہ ایرانی اہلسنت طلبا کو فقہ کی شاخ میں ڈگری حاصل کرنا آسان ہو۔


link
iran invites egypt al-azhar university

tehran (fna)- iran has made an unprecedented request for cairo's al-azhar university, sunni islam's highest seat of learning, to open a branch in tehran.

"we have asked officially, but so far we have had no response," karim azizi, spokesman at the iranian interests section in cairo, said.

There is no iranian embassy in the egyptian capital since diplomatic relations were cut almost 30 years ago.

Azizi told afp the request to al-azhar - founded in 975 ad - was aimed at "reinforcing iranian-egyptian relations and bringing closer together the different islamic confessions, especially sunnis and shiites."

iran has distanced itself from a tv film "assassination of a pharaoh" whose broadcast followed by egyptian reaction summoning iran's envoy in cairo and shutdown of iranian satellite tv channel.

Iran said the tv film does not represent tehran's position, hailing relations between the two middle east heavyweights as "based on friendship and brotherhood."

diplomatic ties were severed in 1980 a year after iran's islamic revolution in protest at egypt's recognizing the israeli regime, hosting the deposed shah and supporting baghdad during the 1980-1988 iran-iraq war.

Relations warmed recently, with both states signaling a willingness to restore ties. In january, president hosni mubarak met iran's parliament speaker gholam ali haddad adel, the first such high-level talks in almost three decades.

Mohammed sayed said, editor of the independent al-badil newspaper, described the iranian initiative as "a very smart move".

"the general feeling at the moment is that we (muslims) are the target of destruction, so we should do whatever is necessary to restore unity
."​
آپ دیکھیں گے کہ یہ نفرتیں پھیلانے والے عناصر صرف اور صرف بیک گراؤنڈ بتائے بغیر مسجد نہ ہونے کا پروپیگنڈہ کر رہے ہوں گے۔ اور جب اہلسنت کا تہران یونیورسٹی میں باقاعدہ سیکشن اور جامعہ الازہر کی شاخ کے کھلنے جیسی خبریں سامنے آئیں گی تو یہ لوگ اسے بھرپور طریقے سے چنھپانے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔
قوم کو چاہیے کہ ان عناصر کر وہ اچھی طرح پہچانے۔
یہ انتہا پسند ہیں اور کسی کے دوست نہیں۔
آج یہ میرے خلاف ہیں، لیکن کل یہ آپ کے اور ہر اُس اُس شخص کے خلاف ہوں گے جو انکے عقائد کو نہیں مان رہا ہو گا، اور اسی بات پر یہ میرے بعد آپ کا خاتمہ کرنے پر تلے بیٹھے ہوں گے۔
 

ظفری

لائبریرین
ہمارا اصل مسئلہ یہی ہے کہ دوسری صدی کے بعد ہم قرآن کو پسِ پشت ڈال کر روایتوں اور شخصیات کو اپنے عقائد اور ایمان کا حصہ بنا لیا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ " ایمان " بنا لیا ہے ۔ یعنی رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں جن تعلیمات سے روشناس کرایا ۔ جس قرآن کو اللہ نے اپنی رسی قرار دیا اس کا ہماری زندگی میں کہیں بھی عملی نمونہ نہیں ملتا ۔ آج کل شخصیت پرستی اور مسلک پرستی کا دور دورہ ہے ۔ بحثوں کا سارا زور روایتوں پر ہوتا ہے ۔ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی زندگی تک کا اسلام دیکھئے اور آج کے اسلام سے موازانہ کجیئے ۔ جن عقائد پر آج مسلک پرستی اور شخصیت پرستی کا رحجان ملتا ہے ۔ یہ کہاں رسول اللہ کی زندگی یا ان کی تعلیمات میں موجود تھا ۔ جس طرح پہلے کی امتیں اپنے تکبر ، گھمنڈ اور جاہلیت کی وجہ سے مسلکوں ، فرقوں اور گروہو‌ں میں بٹ کر اللہ کے بتائے ہو راستوں سے ہٹ چکیں تھیں ۔ اسی طرح آج رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی امت شعیہ ، سنی ، بریلوی ، دیو بندی ، صوفی وغیرہ جیسے گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے ۔ کوئی بھی اللہ کی کتاب ہاتھ میں پکڑ کر بات نہیں کرتا جس میں سادہ اور سہل بات موجود ہے مگر مولویوں ، اماموں اور سیکنڑوں بے تکی روایتوں پر اندھا اعتقاد ہونے کی وجہ سے ہر شخص کا اپنا ایک خالص نکتہ نظر ہے اور اس کے نزدیک بس یہی اسلام ہے ، یہی ایمان ہے ۔ لہذا اس طرح کی بحث اور اس پر اخلاقیات کا جنازہ اسی طرح نکلنا ہے جس طر‌ح اب تک نکلتا آیا ہے ۔
 

arifkarim

معطل
ہمارا اصل مسئلہ یہی ہے کہ دوسری صدی کے بعد ہم قرآن کو پسِ پشت ڈال کر روایتوں اور شخصیات کو اپنے عقائد اور ایمان کا حصہ بنا لیا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ " ایمان " بنا لیا ہے ۔ یعنی رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں جن تعلیمات سے روشناس کرایا ۔ جس قرآن کو اللہ نے اپنی رسی قرار دیا اس کا ہماری زندگی میں کہیں بھی عملی نمونہ نہیں ملتا ۔ آج کل شخصیت پرستی اور مسلک پرستی کا دور دورہ ہے ۔ بحثوں کا سارا زور روایتوں پر ہوتا ہے ۔ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی زندگی تک کا اسلام دیکھئے اور آج کے اسلام سے موازانہ کجیئے ۔ جن عقائد پر آج مسلک پرستی اور شخصیت پرستی کا رحجان ملتا ہے ۔ یہ کہاں رسول اللہ کی زندگی یا ان کی تعلیمات میں موجود تھا ۔ جس طرح پہلے کی امتیں اپنے تکبر ، گھمنڈ اور جاہلیت کی وجہ سے مسلکوں ، فرقوں اور گروہو‌ں میں بٹ کر اللہ کے بتائے ہو راستوں سے ہٹ چکیں تھیں ۔ اسی طرح آج رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی امت شعیہ ، سنی ، بریلوی ، دیو بندی ، صوفی وغیرہ جیسے گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے ۔ کوئی بھی اللہ کی کتاب ہاتھ میں پکڑ کر بات نہیں کرتا جس میں سادہ اور سہل بات موجود ہے مگر مولویوں ، اماموں اور سیکنڑوں بے تکی روایتوں پر اندھا اعتقاد ہونے کی وجہ سے ہر شخص کا اپنا ایک خالص نکتہ نظر ہے اور اس کے نزدیک بس یہی اسلام ہے ، یہی ایمان ہے ۔ لہذا اس طرح کی بحث اور اس پر اخلاقیات کا جنازہ اسی طرح نکلنا ہے جس طر‌ح اب تک نکلتا آیا ہے ۔

یہ سب تو پتا ہے۔ ان مسائل کا کوئی حل پیش کرو تو بات بنے گی!
 
اور اس شخص کے زہریلے دماغ کو جانیے کہ مشرف اور متحدہ کو سپورٹ کرنا میرا "ذاتی" فیصلہ ہے اور اسکا فرقہ واریت سے کیا تعلق؟ کراچی کے لاکھوں اہلسنت متحدہ کو سپورٹ کرتے ہیں اور اسی طرح ملک کے کڑوڑوں لوگ مشرف کو پسند کرتے ہیں۔ اختلاف رائے ہر کسی کو ہو سکتا ہے اور بہت سے اہل تشیع مشرف اور متحدہ سے نفرت کرتے ہیں۔ مگر اس شخص کو ہر ہر بات میں بس فرقہ واریت دکھائی دیتی ہے۔

جنون میں بک رہا ہوں کیا کیا کچھ
میں صرف غالب کا یہی مصرعہ لکھ سکتا ہوں اور کیا کہوں۔ میرا نکتہ نظر یہ تھا کہ جس طرح آپ متحدہ اور مشرف کے سیاہ کارناموں کو سپورٹ کرتی ہیں یہ چیز غیر جانداری کے خلاف ہے اور تعصب کے ذیل میں آتی ہے کہ اوروں کی ہر بات پر تنقید اور اپنوں کے ہر جرم کا دفاع میں نے کہاں اس سلسلے میں فرقہ واریت کا لفظ استعما کیا تھا ذرا نشاندہی کیجئے تو۔میں نے یہ کہا تھا۔
تعصب سے اندھے پن کا اس بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ خود بعض جماعتوں کی محبت میں‌ مشرف اور ایم کیو ایم جیسی قاتل افراد وگروپ کی پشت پناہی کی جاتی تہی ہے اور غیرجانداری کا بھونپو منہ سے لگا کر بلند راگ الاپے جارہے۔یہ باتیں ان کے منہ سے اچھی لگتی ہیں‌جن کے دامن داغ دار نہ ہوں۔

2۔ ؛لبنان کی سول وار جو 1975 سے لے کر 1990 تک جاری رہہی تھی اس کے دوران امل نے کیمپ کا محاصرہ کرلیا تھا یہ محاصرہ تاریخ میں War of camps کہلاتا ہے۔ اس محاصرہ کی اہم وجہ وکی پیڈیا کے مطابق یہ تھی
Unfortunately for Assad, Arafat's Fatah forces crept back into Lebanon over the next two years, ensconcing themselves in the many refugee camps in the South. As more Palestinians regrouped in the South, Assad's anxiety grew, as he didn't want to give Israel the pretext for another invasion. This time, Assad recruited the more powerful Amal militia to dislodge Arafat's loyalists.
The benefit for Hafez al-Assad of this alliance was more complete control of Lebanon through his indigenous Lebanese allies. The benefit for Amal was revenge for decades of Palestinian arrogance and further control of Lebanon.
By 1985 Amal was also in conflict with the Druze PSP militia in the Chouf region. The Palestinians were allied to the Druze
اس کے بعد امل کیمپ پر حملہ کر دیتی ہے اور اسکا محاصرہ کر لیتی ہے اس حملے میں وکی پیڈیا کے مطابق
May 1985: Amal attacks Shatilla refugee camp in Beirut, sparking the so-called "War of the Camps" which lasted until 1987 and claims an estimated 2,500 lives.[5]

یہ وہ حقیقت ہے جس کا گزر کہیں آپ کو مہوش کی پوسٹ میں نظر نہیں آئے گا ۔
دروز اور Christian Forces اور سعد حریری [جسے سعودی میڈیا "مظلوم سنی" گروپ بنا کر پیش کر رہا ہے] یہ سب مارچ 14 الائنس کے نام سے جیتے ہیں۔ ان سب کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل اور سعودیہ کھل کر موجود ہیں۔
کرسچین فورسز کے علاوہ وہ عیسائی بھی شامل ہیں جن کو اسرائیل نے سرحدوں کی رکھوالی کے لیے بھرتی کیا تھا اور جب حزب اللہ نے لبنانی علاقے اسرائیل سے چھینے تو یہ عیسائی بھی بھاگ کر اسرائیل چلے گئے تھے۔
آج سعودیہ اور اسکے مفتی حضرات کھل کر فتوے دے رہے ہیں کہ لبنان میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنا حرام ہے کیونکہ اس مزاحمت کی قیادت حزب اللہ کر رہی ہے۔
مجال ہے جو آپ اس شخص کے منہ سے اس سعودی منافقت کے خلاف بھی ایک لفظ سن سکیں، حالانکہ سعودی کرادر کتنا کھل کر سب کے سامنے ہے۔ آج جب ہمت علی صاحب کھل کر ان امریکی اسرائیلی سعودی پٹھوؤں کی فتح پر جشن منا رہا ہے تو اس کو تو کچھ کہتا نہیں ہے، مگر حزب اللہ کی مزاحمت کے خلاف زبان طعن موجود ہے۔

اس ٹکرے کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے اوپر میں یہ کہ چکا ہوں کہ میں سعد حریری یا س کی جماعت کا طرفدار نہیں‌ہون لیکن یہاں سعد حریری کا نام یوں استعما ل کیا جارہا ہے جیسے میں اس کا حامی ہوں ؟ غالبا آپ پر اب جنونی کیفیت طاری ہو چلی ہے۔
اور اس شخص کو اگر اپنی نفرت میں کوئی گناہ نظر آتا ہے تو فقط یہ کہ حزب اللہ نے امل کے ساتھ امن معاہدہ کیوں کر لیا۔ مگر یہ شخص آپ کو یہ نہیں بتائے گا کہ امل ملیشیا کا اگرچہ کہ الفتح سے تو اختلاف تھا، مگر اسکے باوجود یہ فلسطینی برادران کے حقوق کی بات کرتی تھی اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں باقاعدہ طور پر شامل رہی ہے۔

جب خانہ جنگی ختم ہو گئی اور صلح ہو گئیِ تو پھر اب امل ملیشیا سے امن معاہدہ کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟
کیوں یہ شخص چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے یہ دو گروہ ایک دوسرے کے ساتھ صلح اور امن معاہدہ نہ کریں اور اسرائیل جو انکا مشترکہ دشمن ہے اور انکے علاقوں پر قابض ہے، اسکے خلاف مل کر مزاحمت نہ کریں؟
کہ دو مسلمان گروہوں میں یہ تاریخ کی پہلی جنگ ہے؟

کیا خوب لبنان سول وار کے دوران یہ دونوں گروپ آپس میںلڑتے رہے ہیں لبنان پر قبضہ کے لیے فلسطینی برادران کے حقوق کی بات امل و حزب اللہ کیا کریں گئے جب یہ ایک دوسرے کو ہی برداشت نہ کر پاتے ہوں‌ 1989 میں طوفا ،جنوبی لبنان میں سیکڑوں کے قریب امل کے کارکنوں کو حزب اللہ نے قتل کردیا اور یہاں تک کہ حزب اللہ کے بعض مذہبی رہنماوں کو یہ فتوی جاری کرنا پڑا کہ امل کے کارکنوں کی لاشوں کی بے ہرمتی نہ کی جائے۔ یہ دونوں گروہ صرف زیادتی مفادات کے لیے یکجا ہوئے ہیں امل کے نبیہ بری ابھی کرپشن کے علاوہ کر کیا رہا ہے لبنان میں۔؟؟

نافقت سامنے آئے گی۔
یہ وہی شخص ہے جسے آج تک افغانستان کے طالبان کا افغانستان کو کھنڈر بنانا نظر نہیں آیا، اور وہ بھی اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خون کی ندیاں بہاتے ہوئے۔ مگر اسرائیل نے جو شہری آبادی پر وحشیانہ بمباری کی، اسے سے آنے والی تباہی کو حزب اللہ کے نام کر رہا ہے۔
اسے چاہیے کہ حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف مزاحمت پر ایسے گندے الزامات لگانے سے قبل ایک مرتبہ اپنے گریبان میں تو جھانک کر دیکھے تو اسے طالبان کی وہ تباہیاں اور بربادیاں نظر آئیں گی جس سے یہ آج تک منہ پھیرے بیٹھا ہے
۔

اگر یہ منافقت ہے تو اس کا شکار آپ بھی ہیں کبھی گریبان میں جھانک کر دیکھ لیجئے۔ ایران کی کے ہر جرائم پر تاویلات،حزب اللہ کے ہر جرم پر دلائل اور پھر غیر جانداری کا دعوہ چہ خوب است۔ غیر جانداری کی بات ان کے منہ سے اچھی لگتی ہے جو خوب غیر جانداری برتیں ۔ اپنے فرقہ جماعت ، محبوب اشخاص کے ہر جرم کی تاویل انسان کو غیر جاندار نہیں ثابت کرتی بلکہ متعصب ثابت کرتی ہے۔
6۔ا
یک مرتبہ بھر اس کی زہریلی نفرت بھرے الزام کی حقیقت سامنے آنے والی ہے اور پتا چلے گا کہ کیسے اس جیسے لوگ اپنی نفرتوں کا شکار ہو کر امریکی و اسرائیلی مفادات کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ الزام لگایا ہے یہودی زیر اثر Der Spiegel نے کہ حزب اللہ ہی رفیق حریری کے قتل میں ملوث ہے۔ اور یہ الزام لگایا گیا ہے عین انتخابات کے وقت، اور پھر اسے مغربی اور سعودی میڈیا نے پروپیگنڈا کے زور پر ہر طرف پھیلا دیا۔

حریری قتل کیس کی تفتیش جاری ہے اس سلسلے میں Der Spiegel نے اپنی ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں حزب اللہ کو رفیق حریری قتل کا ملزم بتایا گیا تھا اسی رپورٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حزب اللہ ہی رفیق حریری کے قتل میں بھی ملوث ہے
۔
اب ظاہر بات ہے کہ اطلاعات ذرائع ابلاغ میں گشت کر رہیں ہیں تو یہ بات کہی گئی ہے یہ بات گڑھ کر تو پیش کی نہیں جارہی رفیق حریری قتل تفتیش جاری ہے اور صحیح علم تو اس رپورٹ کے آنے کے بعد ہی ہو گا کہ کون ملزم ہے۔اور ویسے رفیق حریری کے قتل میں ملوث، اب تک کی اطلاعات کے مطابق یا تو شام ہے جیسا کہ کہا جاتا رہا ہے یا حزب اللہ ۔ شام امل کو سپورٹ کرتا رہا ہے تو اگر یہ قتل حزب اللہ نے نہین‌کیا تو شام نے اپنے کارندے امل سے کروایا ہو گا۔

میں بہت مرتبہ اس بات کو تفصیل سے لکھ چکی ہوں کہ ایران میں حکومت کہتی ہے کہ کوئی مسجد شیعہ ہے اور نہ سنی، بلکہ یہ اللہ کا گھر ہے اور ہر کسی کو اللہ کے اس گھر میں اسی طرح جا کر نماز ادا کرنی چاہیے جیسے کہ خانہ کعبہ میں کی جاتی ہے۔ اور طریقہ کار یہ ہے جس فرقے کی بھی اس علاقے میں اکثریت ہے وہیں کا امام جماعت کروا دے [جیسا کہ خانہ کعبہ میں سلفی امام کے پیچھے سب نماز ادا کرتے ہیں]

اس لیے وہ علاقے جہاں اہلسنت کی اکثریت ہے، وہاں پر تمام شیعہ اہلسنت امام کے پیچھے جا کر نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ دو چار جگہ اس اصول کی علاقائی طور پر خلاف ورزی ہوئی ہو، مگر بہرحال یہ اصول مجموعی طور پر پورے ملک میں نافذ ہے۔
یہی وہ آپ کی دہری پالیسی ہے جو ان جگہوں پر عیاں ہو جاتی ہے۔ آئیے ذرا اس مسئلے کو تفصیل سے دیکھتے ہیں۔
ایران کا مرکزی شہر تہران ہے جس میں کم و بیش 10 لاکھ سنی آباد ہیں گو ایرانی قانون‌میں مختلف فرقوں کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ملی ہوئی ہے تاہم عملی زندگی میں اس کے باکل برخلاف مظاہرہ ہوتا ہے ۔ مہوش کا کہنا ہے کہ ایران میں کوئی مسجد شیعہ ہے نہ سنی بلکہ جہاں جس کی اکثریت ہو وہہں کا امام امامت کرواتا ہے لہذا ا آصول کے مطابق شیعہ بھی اہلسنت کے پیچھے سنی امامت میں نماز پڑھتے ہیں درحقیقیت یہ ایک بہت بڑا جھوٹ اور افترا ہے میں مہوش کو چلنج کرتا ہوں کہ یہ بات ثابت کر کے دکھائیں حقیقت اس کے کلی بر عکس ہے درحقیقت ایران میں اایک کلی مذہبی آمریت قائم ہے ولایت فقیہ کے نظریہ کے مطابق ہر کام و چیز سپریم لیڈر کے حکم کے مطابق ہوتی ہے ایران کا پہلا سپریم لیڈرا خمینی تھا اور اب خامنہ ای ہے اور دونوں ہی انتہائی ظالم اور متشدد لوگ گزرے ہیں لوگ یہاں‌طالابن کی تو بات کر تے ہیں لیکن خمینی کے ان مظالم کی کوئی روداد بیان نہیں کرتا جب انقلاب کے بعد اس نے بے دردری سے ہزاروں افراد کا قتل عام کر دیا تھا۔ بہر کیف ایران میں مکمل طور پر شیعہ اور سنی کی تفریق موجود ہے سنی اقلیت میں ہیں لہذا ایرانی مظالم سہنے پر مجبور ہیں ایران کے دیگر علاقوں میں سنی مساجد موجود ہیں اور ساتھ ہی شیعہ مساجد بالکل ایک جداگانۃ حیثیت میں موجود ہیں‌۔ تاہہم تہران میں کوئی ایک بھی سنی مسجد موجود نہیں ہے بی بی سی کی ایک رپورٹ میں ایران کے 18 پارلیمنٹ کے ممبران نے ایک خط سپریم لیڈر کو لکھا تھا کہ تہران میں اہل سنت کو اپنی مسجد بنانے کی اجازت دی جائے کیونکہ وہ مسجد نہ ہونے کی وجہ سے باجماعت نماز پڑھنے کے لیے غیرملکی ایمبسی کا رخ کرنے پر مجبور ہیں
http://news.bbc.co.uk/2/hi/middle_east/3084821.stm
خود ایران کے سابق صدر خاتمی اپنی الیکشن کمپین میں اس بات کا وعدہ کرچکے تھے کہ وہ تہران میں سنی مسجد بنائیں گئے تاہم الیکشن جتنے کے بعد انہوں نے کہا کہ سپریم لیڈر اس بات سے متفق نہیں ہیں ۔
http://www.atimes.com/atimes/Middle_East/DL17Ak03.html

یہی نہیں بلکہ ایران کے آئین کے مطابق کوئی سنی ایران کا صدر نہیں بن سکتا ہے اور نہ ہی سپریم لیڈر کیونکہ وہ تو ہوتا ہی شیعہ عالم ہے۔
جہاں تک بات مکہ و مدینہ میں شیعہ مسجد نہ ہونے کی ہے تو ظاہر ہے جب آُپ حضرات بم لے کر ان مسجدہ حرام کو نعوذ باللہ تباہ کرنے آئیں گئے تو کیسے سعودی آپ کو یہاں مسجد بنانے کی اجازت دیں گئے۔ بقیہ جہاں تک سنی تعلیم کی بات ہے تو ظاہر ہے حکومتی کنڑول میں تعلیم دینے میں ہرج ہی کیا ہے پڑہنا تو بیچارے اہل سنت کو وہی پڑے گا جو ایرانی چاہیں‌گئے۔اور پھر سعودی عرب تو یاد آگیا کبھی پاکستان کی بھی بات کر لیں جہاں‌کلمہ ، ازاں و ذکوہ ہر چیز پر اپنا حق جتایا جاتا ہے کبھی میٹرک کی بک میں اپنا کلمہ درج کرانے پر کبھی زکات کے مسئلے پر اسلام آباد میں دنگا فساد کیا جاتا ہے ۔ ہر چند کلمیٹر کے بعد امام باڑہ ہے اور اس پر لگا پنجہ ہے یہاں کیوں نہیں اہل سنت کے پیچے نماز پڑھی جاتی؟؟ اور یہ شیعہ اور سنی حضرات کا ایک دوسرے کے پیچے نماز پڑہنا بھی خوب ہے یعنی اگر میں بریلوی ہوں تو دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہوں یو دیوبندی ہوں تو بریلوی یا اہل حدیث کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہوں کیونکہ ان فرقوں کی نماز میں بڑا معملولی فرق ہے اور بریلوی اور دیوبندی حضرات کی طریقہ ادائیگی میں تو بالکل نہیں لیکن اہل تشیع کے پیچھے نماز صرف وہی پڑھ سکتا ہے جسکو یہ نماز پڑھنا آتی ہو۔ کیونکہ ان نمازوں کی طریق ادائیگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے کتنے سنی ایسے ہیں جن کو شیعہ نماز اور کتنے شیعہ ایسے ہوں گئے جن کو سنی نماز پڑھنی آتی ہے شاید آٹے میں نمک برابر بھی نہ ہوں۔ایسے میں یہ کہنا ہی لغو ہے کہ ایران میں یہ دونوں ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔
 
اچھے بھلے ٹن موڈ میں تھا کہ اس دھاگے پر نظر پڑ گئی یا دو مہینے سے ایک دھاگے کی خلاصی نہیں کر سکے ۔ اب پھر سے ایک شاٹ بنانی پڑے گی وہ بھی سٹیٹ صرف برف ڈال کر ۔ اچھا بھلا سونے لگا تھا ۔
 

arifkarim

معطل
اچھے بھلے ٹن موڈ میں تھا کہ اس دھاگے پر نظر پڑ گئی یا دو مہینے سے ایک دھاگے کی خلاصی نہیں کر سکے ۔ اب پھر سے ایک شاٹ بنانی پڑے گی وہ بھی سٹیٹ صرف برف ڈال کر ۔ اچھا بھلا سونے لگا تھا ۔

آپکو کس حکیم نے کہا ہے کہ اس فارم کی "مباحث" کو اتنا سیریس لیں کہ اپنی نیندیں حرام کر لیں؟!
 
آپکو کس حکیم نے کہا ہے کہ اس فارم کی "مباحث" کو اتنا سیریس لیں کہ اپنی نیندیں حرام کر لیں؟!

ماہر نباض ۔ حکیم العمت ۔ صاحب افکار متروکہ جناب عالی شان ۔ حضرت ۔ عارف کریم اللہ یرحمہ نے ۔۔۔:grin:



حکیم صاحب ایک جام آپ کے لیئے بھی بناؤں ۔۔۔؟
 

مہوش علی

لائبریرین
فیصل قریشی اور ظفری اور دیگر احباب سے معذرت کے ساتھ کہ انہیں اس تھریڈ سے یقینا کوفت ہوئی ہو گی۔

میں جب تک اہلسنت کمیونٹی میں ہوتی ہوں، کبھی یہ فرقہ وارانہ مسائل پیش ہی نہیں آتے اور شیعہ سنی کا نام تک نہیں آتا۔
مگر ابن حسن صاحب جیسے حضرات وہ ہیں کہ جن کے محفل پر ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں کہ فرقہ واریت کا زہر نہ پھیلے۔ ان کی مثال وہی ہے کہ نو سو چوہے کھا کر بلی کو حج کو چلی ، اور اب یہ معصوم بننا چاہ رہے ہیں کہ انہوں نے تو فرقہ واریت کی بات ہی نہیں کی۔
کوئی بھی شخص مکمل نہیں ہوتا اور صحیح غلط کام سب کی جھولی میں ہوتے ہیں۔ میں نے آج تک متحدہ کے غلط کاموں کا دفاع نہیں کیا ہے۔ بقیہ اختلاف رائے میرا حق ہے مگر یہ تنگ نظر تنگ دل لوگ اس چیز پر "جانبداری" کا فتوی لگا کر ہر ہر بحث میں اس کو کھینچتے ہیں۔ ان کے لیے بہتر ہے کہ بات موضوع پر موجود دلائل سے کیا کریں ایسی رذیل حربے استعمال کرتے ہوئے نہیں۔


قرآن کہتا ہے کہ بحث و مباحثہ کرو اچھے طریقے سے، مگر اُن سے نہیں جو ظالم ہیں۔
کم از کم میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں سے بات نہ کی جائے،۔۔۔۔۔ مگر مشکل یہ ہے کہ انہیں الزامات لگانے اور جھوٹے پروپیگنڈے کرنے کے لیے کھلا بھی نہیں چھوڑا جا سکتا اور اصل حقائق بیان کرنے بھی لازمی ہو جاتے ہیں۔ اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے آپ مجھے ان تھریڈز میں دیکھتے ہیں۔

اور وہ جو کہتے ہیں کہ جاہلوں اور ظالموں سے بحث نہ کرو، کیونکہ پہلے وہ تمہیں گھسیٹ کر اپنی گھٹیا سطح پر لے آئیں گے، اور پھر جہالت و ظلم میں اپنے تجربے سے تمہیں شکست دے دیں گے۔

اس لیے اگر آپ ان تھریڈ میں مجھے اپنی سطح سے نیچے دیکھتے ہیں تو اسکی وجہ یہی مجبوری ہے، ورنہ میں بھی چاہتی ہوں کہ ہر طرف امن امان رہے اور لڑائی جھگڑے میری طبیعت میں نہیں ہیں۔
میں بھی چاہتی ہوں کہ آپ لوگوں کی ہی طرح نیوٹرل رہوں، مگر افسوس یہ ممکن نہیں ہوتا کیونکہ ان بحثوں میں براہ راست مجھے فریق بنایا جا رہا ہوتا ہے، اور ایک فریق نیوٹرل لوگوں کی صف میں نہیں ہوتا چاہے وہ صحیح بات ہی کیوں نہ کہہ رہا ہو۔

میری گذارش صرف یہ ہے کہ آپ میری ان مجبوریون کو نظر میں رکھیں۔
آپ کو خود اندازہ ہو گاکہ جن تھریڈ میں آپ کو فریق بنایا جاتا ہے وہاں آپ غیر جانبدار نہیں ہوتے بلکہ آپ کو بحث میں مجبورا حصہ لیتے ہوئے غلط الزامات کا دفاع کرنا پڑتا ہے۔ قران و حدیث والے تھریڈ مثال ہے ظفری کی، اور عارف کے اوپر تو بہت سے تھریڈ کھلے ہیں جہاں انہیں بطور فریق بحث کرنا پڑی ہے۔

چنانچہ نیوٹرل چیز بہت اچھی ہے، مگر جب دو گروہوں میں بحث ہو جائے تو کبھی کبھار اس نیوٹرل چیز سے نکل کر انسان کو دونوں کے درمیان انصاف کرنا پڑ جاتا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کمیونسٹ الفتح اور اسکی حامی دروز ملیشیا اور امل کے درمیان جو جھڑپیں ہوئیں، وہ افسوسناک تھیں اور اس طرح اسرائیل کے خلاف مزاحمت کمزور ہوئی۔
مگر اس چیز کا فائدہ یہ انتہا پسند عناصر اٹھا کر فرقہ پرستی کی زہر کو فروغ دینا چاہتے ہیں جو کہ اس سے بھی بڑا فتنہ ہے۔

ابن حسن صاحب الفتح اور امل کے مابین ہونے والی لڑائی کو اسرائیلی ایریل شیرون اور کرسچئن فورسز کے صابرہ اور شتیلا کے massacre سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ حالانکہ مسلح جتھوں کی آپس میں جنگ اور معصوم عورتوں بچوں پر قابو پا لینے کے بعد ان کا یکطرفہ قتل عام شروع کر دینا بالکل الگ الگ چیزیں ہیں۔
پہلی صورت میں دونوں مسلح جتھے اس جرم میں برابر کے شریک کار ہیں۔
جبکہ دوسری صورت میں یہ massacre کرنے والی سرکاری قوت واحد مجرم ہے اور اسکا جرم ناقابل معافی ہے۔
یہ ایک بالکل واضح فرق ہے، مگر فرقہ واریت کو ہوا دینے والے انتہا پسندوں کو بھلا یہ فرق کہاں نظر آنے لگا۔ انہیں تو بس اپنی نفرتیں پھیلانے سے غرض ہے۔

یاد رکھئیے کہ میں نے امل ملیشیا کے غلط کام کو ہمیشہ غلط کہا ہے، مگر ہر چیز میں انصاف قائم رکھنا چاہیے۔
۔ یہ نفرت پھیلانے والے عناصر اس بات کو بالکل نہیں بتلاتے کہ امل اور فتح کی ان جنگوں میں جو 2500 بندے مارے گئے، یہ دو طرفہ نقصان تھا، اور کمیونسٹ الفتح اس لڑائی میں کوئی معصوم فرشتہ نہیں تھی۔
۔ اور یہ نفرت پھیلانے والے عناصر اس پر بھی مسلسل مٹی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ الفتح اور فلسطینی مہاجرین بالکل ایک چیز نہیں۔
اور جب شروع میں یہ فلسطینی مہاجرین آئے تو جنوبی لبنان کی شیعہ کمیونٹی نے انہیں اپنا بھائی سمجھتے ہوئے ان کو پرجوش خوش آمدید کہا، اور اسرائیل کے خلاف انکی مزاحمت میں شامل رہے۔
چونکہ یہ بات انکی نفرت پھیلانے کے مشن کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اس لیے سب سے زیادہ مٹی بھی یہ اس پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

۔ اگرچہ کہ دو مسلمان گروہوں میں اختلاف پیدا ہو جانا بہت افسوسناک بات ہے، مگر یہ صرف یاسر عرفات کی الفتح اور امل ملیشیا تک محدود نہیں۔
بلکہ یہی لڑائیاں اور جنگ و جدل الفتح اور اسلام جہاد اور پھر حماس کے ساتھ ہو چکی ہیں۔ مگر ابن حسن صاحب کو یہ بھی نظر نہیں آتیں اور سارا زور صرف الفتح اور امل کی لڑائی کو شیعہ سنی لڑائی بنا کر پیش کرنے پر ہے۔

میں آپ کو یقین سے کہتی ہوں کہ یہ صاحب ابن حسن طالبان کے پکے حمایتی ہیں، اور اگر میں جوابی طور پر ان سے طالبان کی لڑائیوں اور بربریت کا حساب لینا شروع کر دوں تو انکے چہرے پر پڑے سارے پردے ہْٹتے چلے جائیں گے۔ کیا انکی اتنی چھوٹی سی بات سمجھ نہیں آتی کہ دوسروں پر الزامات لگانے سے قبل اپنے گریبان میں جھانک لیں؟


بہرحال فی الحال میری کوشش یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے انکو نظر انداز کیا جائے اور صرف اہم باتوں کا دلائل سے جواب دے دیا جائے تاکہ عام قارئین جھوٹ اور سچ کا فرق یاد رکھ سکیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
Der Spiegel کا معاملہ صاف ہو چکا ہے اور مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ قرآن بہت صاف ہے کہ جب کوئی فاسق و فاجر کوئی خبر لائے تو اس کو پھیلانے سے قبل اس کی تحقیق کر لیا کرو۔

جہاں تک نماز کا تعلق ہے تو ہر کوئی ہر فرقے کے امام کے پیچھے اپنے اپنے طریقے سے نماز ادا کر سکتا ہے۔ اہلسنت کے بنیادی طور پر صرف 4 فقہ ہی نہیں، بلکہ بے تحاشہ مجتہدین تھے۔ امام مالک ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے ہیں تو کیا مالکی امام کے پیچھے ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا حرام ہے؟ یہ باتیں وہی لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میں نفرتوں کے الاؤ جل رہے ہیں۔ اہل تشیع پہلی صدی سے لیکر آج تک خانہ کعبہ میں اہلسنت امام کے پیچھے ہاتھ کھول کر اپنے طریقے سے نماز پڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ ایران میں ہی جہاں اہلسنت کی مساجد ہیں، وہاں کی مقامی شیعہ آبادی پر واجب ہے کہ وہ وہاں جا کر اہلسنت امام کے پیچھے ہی نماز ادا کریں۔ جہاں چاہ وہاں راہ۔
جب ان نفرت پھیلانے والے عناصر کو دکھایا جاتا ہے کہ اہل تشیع آبادی بھی ایران میں اہلسنت امام کے پیچھے جا کر نماز پڑھتی ہے تو بالکل ابن حسن صاحب کی طرح وہ بھی پاکستان کی بحث بیچ میں لے آتے ہیں۔

بات یہ ہے کہ اگر پاکستان میں کوئی کام غلط ہو رہا ہے اور یہاں مساجد اللہ کا گھر نہیں بلکہ مختلف فرقوں کا گھر ہیں، تو اس پر ایران پر الزام کیوں؟ بہتر نہیں کہ پاکستان کو سدھارا جائے اور پاکستان میں صرف یہ اہل تشیع ہی نہیں بلکہ ہر ہر فرقے نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا رکھی ہے۔
ہر ہر سڑک پر آپ کو بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث اور شیعہ مسجد الگ الگ نظر آ جائیں گی۔ تو اگر بریلوی اور دیوبندی نماز میں فرق نہیں تو پھر یہ الگ الگ اللہ کے گھر کیوں ہیں؟

اور یاد رکھئے شیعہ سنی اختلافات کا زیادہ تر تعلق خلافت پر اور تاریخ پر ہے، نہ کہ فقہی احکامات پر۔

جب فقہ کی بات آتی ہے تو یہ چھوٹے چھوٹے مسائل میں ہے اور شیعہ فقہ کے احکام آپ کو اہلسنت کے مجتہدین کے فقہوں میں بھی کہیں نہ کہیں مل جائیں گے [یاد رہے کہ اہلسنت صرف 4 فقہوں پر مشتمل نہیں تھا بلکہ اول صدیوں میں اور بھی مجتہدین تھے جو کہ ان چار آئمہ کے ہم پلہ ہیں۔
مثلا نماز میں ہاتھ کھول کر نماز پڑھنا مالکی اور شیعہ فقہ میں ایک جیسا ہے۔
جبکہ بقیہ فقہوں میں ایک کے لیے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہے، دوسرے کے نزدیک ناف کے اوپر، جبکہ تیسرے کے نزدیک ہاتھ باندھ کر تقریبا سینے کے قریب رکھنا۔

نماز وہ فعل ہے جو رسول اللہ ص نے اپنی پوری زندگی کیا اور ہر ہر صحابی کے کئی کئ بار دیکھا، اور ان صحابہ سے امام ابو حنیفہ اور امام مالک نے براہ راست نقل کیا۔ مگر اس کے باوجود امام مالک ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے ہیں اور امام ابو حنیفہ ہاتھ باندھ کر۔ تو بتلائیے کہ اس سے فرق کیا پڑا؟

نماز کا اصل قرآن کی سورتیں ہیں جس میں اللہ کی بڑائی بیان کی گئی ہے، نہ کہ ہاتھ کھول کر یا باندھ کر پڑھنا۔ یہ وہ پیغام ہے جو کہ ہمیں اپنی نئی نسلوں کو دینا ہے بجائے انکو ان نفرت پھیلانے والے عناصر کے ہاتھوں شکار ہو جانے کے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top