آٹھویں سالگرہ اہلیانِ لاہور کی نذر: پائے اور انارکلی

یہ سفرنامہِ لاہور سے ایک مضمون آپ سب لاہوریوں کی خدمت میں! افسوس اس بات کا رہا کہ جب لاہور آیا تھا تو محفلین سے ملاقات نہ ہو سکی۔ اب تک اپنے آپ کو کوسنے دے رہا ہوں!

پائے اور انارکلی!
تو میاں! ہمارے مزاج میں بھی عجیب سی کجی (ٹیڑھا پن) ہے، لاہور میں رہتے ہیں تو 'پیزا' اور 'برگر' سے اور کراچی میں رہتے ہیں تو پائے سے شوق فرماتے ہیں۔
یہ بات بھی ٹھہری دسمبر کی آخری تاریخوں کی جب ہم شہرِ قائد سے روگردان ہو کر، دھند اور لاہور سے یک جا ملنے کی تجربہ (بلکہ بقول یوسفیؔ نا تجربہ) کاری میں مصروف تھے۔
انہیں شاموں کا ذکر ہے کہ ایک ٹھنڈی اور دھند زدہ شام کو ہمارے یارِ دیرینہ ”میر راجن علی سید“ ہمارے حجرے کے خارجی شیشے میں دھندلے نمودار ہوئے۔ کہنے لگے، میاں تم کیا ہیٹر کی گرمی میں سارا سارا دن خاکم بدہن کتوں کی طرح انگڑاتے رہتے ہو۔ پتلون پہنو اور چلو۔ کچھ کھا کر آتے ہیں۔ ویسے بھی کھانے سے سردی کا دف مرتا ہے۔ ہمیں میر کی بات میں ذرا معقولیت کی جھلک نظر آئی تو غنیمت جانا۔ فوراً تیار ہو کر میر کے ساتھ ہو لیے۔ جب قلفی جمانے والی سردی میں ”کینٹ“ (لاہور) کی خالی سڑکوں پہ چلتے کوئی آدھ گھنٹہ بیت گیا تو ہم میر سے کہہ بیٹھے کہ بھائی میرے، مجھے تو یہاں کے راستوں کا نہیں پتا، تم کہاں لے جانا چاہتے ہو؟ بلا جھجھک بولے: 'میں گھر سے نقشہ دیکھ آیا ہوں، قریب ہی انارکلی (مارکٹ) ہے۔ ابھی ہم بس پہنچتے ہی ہوں گے۔ ' البتہ اس بات کا ذکر یہاں میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس زمانے میں مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ کینٹ اور انارکلی کے پیدل راستے میں کتنی راتیں صبح ہوتی ہیں اور یہ بھی کہ میر راجن علی کو نقشہ پڑھنا نہیں آتا!
خلاصہ یہ کہ چلتے چلتے دو سے ڈھائی گھنٹے بعد ہم ایسی جگہ پہنچے جہاں ایک چائنیز ہوٹل بند ہو رہا تھا۔ سردی اور بھوک سے حالت زار (گئی گزری) تھی۔ میر کے کوٹ کی جیب میں مونگ پھلیاں بھی تو ختم ہو گئی تھیں! پھر کیا تھا، ہوٹل میں گس گئے۔ بیرے سے کہہ کر میر نے ”چاؤمن“ منگوایا، جسے کھاتے کھاتے ہم نے صبح کر دی۔ جن حضرات نے یہ ظالم ڈش کھائی ہے انہیں علم ہوگا کہ 'نوڈلز' اور گریوی کے بیچ جن جھینگوں کے حدِ معمول سے چھوٹے لیکن ڈھیر سارے موتی اس میں پائے جاتے ہیں انہیں چن کر کھانے کی لالچ میں مجھ سا پھوہڑ اور کم بین (کم دیکھنے والا) کتنی مزید راتیں صبح کر سکتا تھا۔ وہ تو خدا بھلا کرے بیرے کا کہ ۔۔۔ چھوڑیے اس زیادتی کو میں یہاں بیان نہیں کروں گا۔
ہوٹل سے نکلے بلکہ نکالے گئے تو سورج ابھی افق سے نمودار نہیں ہوا تھا۔ بس ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ اب انارکلی جانے کا ارادہ تو میر نے ترک کر دیا تھا لیکن اب معمہ گھر پہنچنے کا تھا۔ دماغ پر بہتیرا زور ڈالا لیکن راستہ سمجھ نہ آیا۔ وہیں سڑک کے کنارے بیٹھ گئے اور صبح کاذب کو صبح صادق میں تبدیل کیا۔پہلے پہر کے سات بجے ہوں گے۔ کوئی بدنصیب رکشے والا وہاں آ نکلا تو ہم نے ہاتھ دکھایا۔ پہلے اسے لاہور کے جدید ہوائی اڈے پر لے گئے اور وہاں سے پھر اس کی رہبری کرتے ہوئے منزلِ مقصود تک پہنچایا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم لاہور آنے کے بعد پہلی دفعہ ہوائی اڈے سے" کینٹ کے عابدمجید روڈ " میں واقع مکان تک پہنچے تھے جو کہ ہمارے عزیز کا تھا اور خالی تھا۔ (ہوائی اڈے سے گھر تک پہنچنے کا 'گرافیکل' طریقہ ہم اسی عزیز سے کراچی سے ہی سیکھ آئے تھے)۔​

بہر کیف، گھر پہنچ کر سکون ملا۔ لیکن میر نے نہ خود سکوں کا سانس لیا نہ ہمیں لینے دیا۔ فون کر کے اسی شام ۴ بجے اڑنے والے جہاز کی سیٹ بک کرائی اور ہم دونوں اسی شام دوبارہ کراچی پہنچے۔ اچانک گھر پہنچے تو رات ہو چکی تھی۔ دیکھا کہ امی جان نے میز پر کھانا چن رکھا ہے۔ جو نہا دھو کر کھانے بیٹھے تو معلوم ہوا کہ پائے ہیں۔ بس پھر کیا کرنا تھا، بڑے شوق سے کھائے کہ لاہور میں تو پائے کھانے کی حسرت اور 'برگر و پیزا' سے پیٹ بھرا تھا۔​
واہ کیا سرگزشت ،دل ہے کہ اُمڈا چلا آتا ہے اور کمبخت آنسو ہیں کے تھمتے نہیں :crying3:
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 
بہت خوب :)
لطف آیا پڑھ کر
آپ کے میر صاحب کا وہ ہی حساب ہے
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
عابد مجید روڈ سے انارکلی کا فاصلہ اتنا ہے کہ بلاشبہ ایک میراتھن ریس کا انقعاد کیا جا سکتا ہے
ویسے لاہور کے پائے کھانے سے محروم رہنے پر آپ سے دلی ہمدردی ہے
بہت خوب لکھا
اللہ کرے زور قلم زیادہ
 
بہت خوب :)
لطف آیا پڑھ کر
آپ کے میر صاحب کا وہ ہی حساب ہے
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
عابد مجید روڈ سے انارکلی کا فاصلہ اتنا ہے کہ بلاشبہ ایک میراتھن ریس کا انقعاد کیا جا سکتا ہے
ویسے لاہور کے پائے کھانے سے محروم رہنے پر آپ سے دلی ہمدردی ہے
بہت خوب لکھا
اللہ کرے زور قلم زیادہ
یہ آج دیکھ رہا ہوں! :)
بہت شکریہ جناب!
 
Top