اگلے جنم موہے، بٹیا نہ کیجیو۔۔۔۔میری ڈائری سے ایک صفحہ

ماہی احمد

لائبریرین
"دونوں کے ہاتھوں نے ایک ساتھ کبوتروں کو ہوا کے سُپرد کیا۔ لال دستار والے نے فخر سے آُونچی اُڑانیں بھرتے اپنے کبوتر کو دیکھا۔ دونوں ہی کی عمر قریب قریب ساٹھ ستر برس تھی، دوسرے شخص نے لال دستار والے سے پوچھا "کتنے پیسے" اور تب اُس لال دستار والے کے ذہن میں آیا کے میری جیب تو خالی ہے، اُس نے مسلہ دوست کے سامنے رکھا تو وہ بولا "چلو ایسا کرو اگر تم ہار گئے تو تم اپنی بیٹی مجھے دے دینا"، لال دستار والے نے لمحہ بھی نہ لگایا اور ہامی بھر لی، اِدھر اُس نے ہامی بھری اُدھر کبوتر نے اپنا راستہ چھوڑ دیا۔ دوسرا شخص بہت خوش ہوا "واہ بھئی! چلو چل کے شادی کی خریداری کریں" اور ایک مکروہ مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیل گئی"
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
یہ کوئی فرضی داستان نہ ہے، میری خالہ جان ایک سکول میں درس و تدریس سے منسلک ہیں، یہ بچی اُن کی طالبہ ہے، چھٹی یا ساتویں جماعت کی۔ کیا عمر ہے اُس کی؟ زیادہ سے زیادہ 14 یا 15 سال، بس؟ آج سے ٹھیک دو دن بعد اُس بچی کا اُس بوڑھے شخص کے ساتھ نکاح ہے۔ ہائے! کیسا دل بیٹھا جاتا ہو گا اُس کا، کیسے کیسے خیال اُس ننھے سے دماغ میں سماتے ہوں گے؟ کیا عمر ہوتی ہے 14، 15 سال؟ میری اپنی دو بہنیں اس عمر کو ہیں۔ ہر وقت ہنستی کھیلتی، ایک لڑے میں تو باربی کی مووی دیکھوں گی، دوسری بولے نہیں سنڈریلا اچھی ہے، ایک کہے مجھے تو ایسے کپڑے بنوا کہ دیں دوسری کہے مجھے ایسے چاہیئں، امی پہ جو پیار آئے تو دوڑ کے گلے لگ جائیں، بڑی بہنوں سے اٹکھیلیاں سوجھیں تو کبھی گال کھینچ رہی ہیں کبھی بال، گھر بھر کی دُلاری، گڑیا کی فکروں میں لگی ہوئیں، اس کا ایسا جوڑا ہو گا اس کا ویسا، وہ بھی تو ایسی ہی ہو گی نا! اماں مجھے نیا جوڑا دلواؤ، بھیا مجھے بازار سے یہ لا کر دو،ابا تم تھک گئے ہو گے لاؤ ٹانگیں دبا دوں، گھر بھر کی چہکار آنگن کی مہکار۔ سہیلیوں سے کہتی ہو گی "اماں نے گڑیا کا لال جوڑا سی کر دیا ہے، کل چپکے سے بستے میں ڈال لاؤں گی" اِس بات سے بے خبر کہ اُس کے اپنے باپ نے اُسے ہی خوں رنگ لباس پہنانے کا فیصلہ کر لیا ہے، کیسا اُس کی ماں کا دل خون کے آنسو روتا ہو گا، کہتی ہو گی کہ "اگر میں جانتی ہوتی میری دُلاری کے نصیب ایسے ہوں گے تو جنم دیتے ہی کہیں چھپا دیتی تجھ کو، اس ظالم دنیا اور اس ظالم شخص کی نظروں سے، جسے میں کچھ کہ بھی نہ سکتی ہوں، بالکل ایسے ہی چھپاتی جیسے پُرانے وقتوں میں لوگ سونا چاندی چھپاتے تھے، آنگن کے کسی کونے میں مٹی کھود کر تجھے وہاں ڈال دیتی، یا کسی قبرستان میں، جہاں تجھے کوئی نہ دیکھ پاتا"
میں سوچتی ہوں زمانہ جاہلیت ہی اچھا تھا، بیٹی دفنا دیتے تھے جنم کے فورا بعد، اچھا کرتے تھے، اذیت سے بچا لیتے تھے، کاش کہ ایسے پھول خدا اپنے باغ میں ہی رکھ لیا کرے، کاش کہ ایسے نصیب والیاں اس زہر آلود فضا میں پہلا سانس لیتے ہی اس دنیا سے اُٹھا لی جائیں۔ میں ایک لڑکی ہوں، شادی شدہ، دیکھ سکتی ہوں آنے والا وقت دقت کے در وا کیئے کھڑا ہے اُس کے لئیے، ارے وہ معصوم سی جان اور ایسا ظلم؟؟؟؟؟؟؟؟ وہ بھی کوئی اور نہیں اُس کے اپنے باپ کے ہاتھوں؟ اس سے تو لاکھ درجے بہتر ہے وہ شخص اُس کا گلا اپنے ہاتھوں گھونٹ دے۔۔۔ ۔۔

یہ گل ہی آنگن مہکے ہے، ماٹی کی گڑیا چہکے ہے
گھر کی عزت تو بیٹی ہے، کوئی پگڑی یا دستار نہیں​
 
ویسے میں انگریزی جملوں کے استعمال کا عادی نہیں لیکن اس وقت اس جملے کے سوا لکھنے کو کچھ نہیں:
"left with no words"
طرز تحریر اچھا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
کسی بھی ریٹنگ سے بالاتر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظ لفظ پتھر بن کر سوئے ضمیر جگانے کا فرض ادا کر رہا ہے ۔۔۔
ایسے باپ کو تو سرعام پھانسی دے کر چیل کوؤں کو دعوت عام دے دینی چاہیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
ویسے میں انگریزی جملوں کے استعمال کا عادی نہیں لیکن اس وقت اس جملے کے سوا لکھنے کو کچھ نہیں:
"left with no words"
طرز تحریر اچھا ہے۔
یہ حقیقت ہے میرا خیال نہیں جو میں داد کی مستحق ٹہرائی جاؤں۔ میں نے تو صرف یہاں لکھ دیا۔ جن دلوں پر بیت رہی ہے اُن کا کیا؟
 
یہ حقیقت ہے میرا خیال نہیں جو میں داد کی مستحق ٹہرائی جاؤں۔ میں نے تو صرف یہاں لکھ دیا۔ جن دلوں پر بیت رہی ہے اُن کا کیا؟
جی مجھے علم ہے لیکن حقیقت کو قلم کے پرکار سے الفاظ کے دائرے میں اتارنا خود قابل ستائش ہنر ہے۔
دلوں کا کیا ہے۔ رفتہ رفتہ دل بھی پتھر کے ہو جاتے ہیں گو پہلے کتنے ہی لطیف کیوں نہ رہے ہوں!
 

نایاب

لائبریرین
بلا شبہ
بیٹیاں ہر دور میں ایسی قربان گاہ چڑھائی جاتی رہی ہیں ۔ اور جانے کب تک چڑھائی جاتی رہیں گی ۔۔۔۔؟
کبھی بچپن میں ایسے واقعے سنتے تھے کہ " جواری جوئے میں بیوی بیٹی " ہار گیا ۔۔۔۔
اسلام نے بیٹی کو عزت دی ۔ لیکن آج بھی کہیں کہیں " بیٹی " قربان ہو رہی ہے ۔۔۔
جانے کب " بیٹیوں کی قربانی " کی رسم ختم ہو گی ۔ ؟
 
دلوں کو جھنجھوڑ دینے والی تحریر
کیا اکیسویں صدی میں بھی ایسا ہوتا ہے وہ بھی ایک اسلامی معاشرے میں
خدایا یہ کیا ہورہا ہے ----اس کے بعد لوگ رونا روتے ہیں اور کہتے ہیں ساری مصیبتیں مسلمانوں ہی پر کیوں
ارے کم بختو یہ تو تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔
ایک باپ اس حد تک رذالت میں جا سکتا ہے ،
اور ایک مسلم بوڑھا اپنی پوتی کی عمر سے شادی کر لے عدالت کیا کر رہی ۔
کیوں نہیں اس بے ضمیر کو پولس کے حوالہ کیا گیا ،کیا کر رہی ہے دنیا ؟ مر گئے سارے لوگ؟
آسمان کیوں نہیں پھٹ جاتا؟
زمین کیوں نہیں شق ہو جاتی؟
 
قانون میں کفو بھی ایک مسئلہ ہے کوئی بڈھا کیسے 14 سال کی لڑکی سے شادی کر سکتا ہے ،ہمارے یہاں کی تو عدالت اجازت نہیں دیتی بھائی میرے خیال میں شریعت بھی یہ نہیں کہتا خدا را شریعت کا حوالہ نہ دیجئے
خود تو بدلتے نہیں قراں کو بدل دیتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
18 سال سے کم عمر بچی کا نکاح قانوناً جرم ہے۔ اور وہ بھی شرط لگا کر؟
ہمارے یہاں بھی قانونا شادی کی عمر لڑکی کی عمر کم سے کم 18 اور لڑکے کی 21 ہے۔اس سے کم عمر میں اگر کوئی کرتا ہے تو اس پر قانونی چارہ جوئی ہو سکتی ہے ۔
 

نایاب

لائبریرین
جناب من جذبات اپنی جگہ لیکن نکاح ایک شرعی فعل ہے۔ اسے روکنا نہ قانون کے بس میں ہے نہ خدایان دین کے۔
18 سال سے کم عمر بچی کا نکاح قانوناً جرم ہے۔ اور وہ بھی شرط لگا کر؟
اک نگاہ ادھر بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر نکاح کی عمر کی بات چھیڑیئے گا ۔۔۔۔۔۔۔
90 سالہ دولہا 15 سالہ دلہن
 
Top