اگر ہے مرد سورج تو۔۔۔

نوید اکرم

محفلین
اگر ہے مرد سورج تو تمازت ایک عورت ہے
سبھی پُر نور آنکھوں کی بصارت ایک عورت ہے

اسی کے دم سے ہیں قائم جہاں میں رونقیں ساری
کثافت در کثافت میں لطافت ایک عورت ہے

عنایت کی ہیں اللہ نے بہت سی نعمتیں ہم کو
ہے ان سب میں سے افضل جو ، وہ نعمت ایک عورت ہے

ہیں چرچے ماں کی الفت کے زماں میں بھی مکاں میں بھی
ملی ہم کو جو دنیا میں وہ جنت ایک عورت ہے

پسر دختر سے برتر ہے، تجھے ہے یہ گماں لیکن
جو جنت کی بشارت ہے وہ رحمت ایک عورت ہے

اسی کے دم سے ہیں زندہ سبھی رشتے سبھی ناتے
ہر اک بندھن میں جذبوں کی حرارت ایک عورت ہے

نوید انثٰی کے ہاتھوں میں ہی نسلوں کا ہے مستقبل
تری اولاد کے کل کی ضمانت ایک عورت ہے
 

الف عین

لائبریرین
وہ کون مخصوص ایک عورت ہے؟ اس کا نام بتانے کی زحمت کرو گے!!!!
مذاق چھوڑ کر کہوں کہ یہاں ایک عورت کی ردیف سے یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ کوئی خاص عورت ہے۔ اسے ’صرف عورت ہے‘ سے بدل دو تو بہتر ہے۔ باقی غزل میں ردیف کی بات نہیں کروں گا۔
مطلع ٹھیک ہے۔ دوسرے شعر میں:
کثافت در کثافت میں لطافت
یہ ترکیب عجیب لگ رہی ہے۔ ’میں‘ کی وجہ سے۔

عنایت کی ہیں اللہ نے بہت سی نعمتیں ہم کو
ہے ان سب میں سے افضل جو ، وہ نعمت ایک عورت ہے
÷÷اللہ ایسا لفظ ہے جس کا کوئی حرف گرانا تعظیم سے پرے ہے۔ اسے مکمل ’ال لاہ‘، بر وزن مفعول ہی باندھا جانا چاہئے۔ اسمِ خاص کو چھوڑ کر کوئی بھی لفظ استعمال کرو تو جائز ہے۔
عطا کی ہیں بہت سی نعمتیں اللہ نے ہم کو
جو ان سب میں سے افضل ہے۔۔
رواں صورت ہو سکتی ہے۔ دوسری صورتیں بھی ممکن ہیں۔

زماں میں بھی مکاں میں بھی
یہاں درست نہیں لگ رہا۔زمین وآسماں میں ہیں‘ کہا جائے ، مصرع درست کر کے

اگلا شعر قابل قبول ہے۔
اسی کے دم سے ہیں زندہ سبھی رشتے سبھی ناتے
ہر اک بندھن میں جذبوں کی حرارت ایک عورت ہے
÷÷÷’سبھی رشتے سبھی ناتے‘ بدل دو تو بہتر ہو۔ سبھی رشتوں میں بات مکمل ہو جاتی ہے۔ اوزان کسی اور طرح پورے کرو تو بہتر ہو۔

نوید انثٰی کے ہاتھوں میں ہی نسلوں کا ہے مستقبل
تری اولاد کے کل کی ضمانت ایک عورت ہے
÷÷÷انثیٰ؟؟ عربی مت بولو اردو غزل میں!!
خطاب کس سے ہے، اگر صرف نوید سے، تو کیا عورت صرف نوید کی اولاد کے کل کی ضمانت ہے؟
 

نوید اکرم

محفلین
نایت کی ہیں اللہ نے بہت سی نعمتیں ہم کو
ہے ان سب میں سے افضل جو ، وہ نعمت ایک عورت ہے
÷÷اللہ ایسا لفظ ہے جس کا کوئی حرف گرانا تعظیم سے پرے ہے۔ اسے مکمل ’ال لاہ‘، بر وزن مفعول ہی باندھا جانا چاہئے۔ اسمِ خاص کو چھوڑ کر کوئی بھی لفظ استعمال کرو تو جائز ہے۔
عطا کی ہیں بہت سی نعمتیں اللہ نے ہم کو
جو ان سب میں سے افضل ہے۔۔
رواں صورت ہو سکتی ہے۔ دوسری صورتیں بھی ممکن ہیں۔
پہلے میں نے "اللہ" کو مفعول ہی باندھا تھا لیکن پھر مصرع بدل دیا کہ شاید مفعول باندھنا مستحسن نہیں ہو گا۔ لیکن یہ تو الٹ ہی ہو گیا ۔ اور مزے کی بات کہ دوسرا مصرع میں بھی "جو ان سب میں سے افضل ہے" ہی لکھا تھا ، لیکن پھر یہ سوچ کر "جو" اور "ہے" کی جگہ بدل دی کہ اس طرح یہ نثر لگنے لگ جاتا ہے، جبکہ "جو" کو بعد میں کرنے سے اس کی پہلے مصرعے کے آخر میں آنے والے "کو" سے بھی ہم آہنگی ہو جاتی ہے-
دوسری جگہوں پر بھی مجھے اسی قسم کی مشکل پیش آ رہی ہے ۔ مثلا
اسی کے دم سے قائم ہیں جہاں میں رونقیں ساری
اسی کے دم سے ہیں قائم جہاں میں رونقیں ساری
جو ان سب میں سے افضل ہے وہ نعمت ایک عورت ہے
ہے ان سب میں سے افضل جو وہ نعمت ایک عورت ہے
اسی کے دم سے زندہ ہیں سبھی رشتے سبھی ناتے
اسی کے دم سے ہیں زندہ سبھی رشتے سبھی ناتے

ان تمام مصرعوں میں کبھی نیلی ترتیب اچھی لگتی ہے اور کبھی سرخ۔ نیلی ترتیب میں کبھی کبھی لگتا ہے کہ مصرع شعر کی بجائے نثر کےزیاد ہ قریب ہو رہا ہے ۔ اور سرخ ترتیب میں کبھی کبھی لگتا ہے کہ مصرع اتنا رواں نہیں جتنا کہ نیلی ترتیب سے ہوتا ہے۔ کبھی ایک ترتیب میں لگتا ہے کہ درست الفاظ پر زور پڑ رہا ہے تو کبھی دوسری ترتیب میں ۔ مختصر یہ کہ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کونسی ترتیب رکھی جائے۔ براہ مہربانی اس معاملے میں رہنمائی فرمائیے گا۔ نیز روانی اور چستی کو کیسے جانچتے ہیں ، اس پر بھی روشنی ڈال دیں تو مہربانی ہو گی
 
آخری تدوین:

نوید اکرم

محفلین
اسی کے دم سے ہیں زندہ سبھی رشتے سبھی ناتے
ہر اک بندھن میں جذبوں کی حرارت ایک عورت ہے
÷÷÷’سبھی رشتے سبھی ناتے‘ بدل دو تو بہتر ہو۔ سبھی رشتوں میں بات مکمل ہو جاتی ہے۔ اوزان کسی اور طرح پورے کرو تو بہتر ہو۔
اس طرح کیسا رہے گا؟
ہیں اس کے دم سے ہی زندہ قرابت داریاں ساری
سبھی رشتوں کی ناتوں کی حرارت ایک عورت ہے
نوید انثٰی کے ہاتھوں میں ہی نسلوں کا ہے مستقبل
تری اولاد کے کل کی ضمانت ایک عورت ہے
÷÷÷انثیٰ؟؟ عربی مت بولو اردو غزل میں!!
خطاب کس سے ہے، اگر صرف نوید سے، تو کیا عورت صرف نوید کی اولاد کے کل کی ضمانت ہے؟
اردو لغت میں لفظ " انثیٰ" موجود تھا، اس لئے لکھ دیا۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ ذہن میں ہی نہیں آیا۔
نوید کی اولاد کی ضمانت بھی عورت ہی ہے کیونکہ سب لوگوں کی نسلوں کا مستقبل عورت کے ہاتھوں میں ہی ہوتا ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
رشتوں کی حرارت سے بہتر جذبوں کی حرارت ہے۔ پچھلا روپ ہی بہتر ہے۔ یا یوں کہو
اسی کے دم سے ہیں زندہ محبت کے سبھی رشتے
یا اس سے بھی بہتر
اسی کے دم سے روشن ہیں محبت۔۔۔

انثیٰ کی جگہ محض ’اسُ سے کام چلایا جا سکتا ہے جیسے
اسی کے ہاتھ میں آئندہ نسلوں کا ہے مستقبل
ہمارے آج کے کل کی۔۔۔۔۔
یا مقطع ہی بنانا ہے تو کچھ اور سوچو۔ یہ شعر تو فوری ذہن میں آ گیا
 
Top