اگر گوگل نہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔ از س ن مخمور

loneliness4ever

محفلین

اگر گوگل نہ ہوتا
س ن مخمور
انسان اپنے اختتام کی جانب کا سفربہت سبک رفتاری سے طے کر رہا ہے، منزل بہ منزل ترقی کا سفر زندگی کے قدرتی حسن کو ماند کرچکا ہے، محنت و مشقت جیسے با ثمر اعمال بہت تیزی سے صرف کتاب کے اوراق تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں. سائنس کی ایجادات اور دور ِحاضر کی ترقی پر نالاں اور خائف اذہان بھی گوگل کے سحر سے محفوظ نہیں رہے ہیں اور کسی حد تک وہ بھی اس طلسمی کھوجی کے علمی حصار اور عالمی پہنچ کی گرفت میں آ چکے ہیں.

ہم جیسا نالائق اور کاہل وجود انسان بھی آج اگر اپنی کامیابیوں پر نظر ڈالتا ہے تو اس میں قدم بہ قدم گوگل کا ہاتھ شامل نظر آتا ہے. یونی ورسٹی میں استاد کی طرف سے کسی مضمون پر تحقیق ہو یا کسی لیب میں کئے گئے تجربے کے نتائج کی تلاش ہو، ہمارا مددگار ہمیشہ گوگل رہا. یوں اپنے احباب اور ہم جماعتوں مِیں ہم کو ہمیشہ ہی ایک نمایاں حیثیت حاصل رہی، اور گوگل کی مدد سے ہم منزل منزل مارتے ہوئے تمام تعلیمی مراحلے طے کرگئے اور پھر فکر ِمعاش نے آ گھیرا۔ نوکری کی تلاش جیسے کٹھن مرحلے میں بھی گوگل ہمارا معاون رہا اور اس عالمی سراغ رساں نے لمحوں میں ہمارے سامنے مطلوبہ نوکریوں کی کھوج مکمل کر لی. اور آخر کار ہم ایک جگہ کامیاب انٹرویو دیکر نوکری کے لئے منتخب ہوگئے.اور ہمارے انتخاب اور انٹرویو کے پیچھے بھی گوگل صاحب کا ہی ہاتھ رہا. جنھوں نے اپنے علمی خزانے سےانٹرویو میں عموما پوچھے جانے والے سوالات و جوابات کا انبار لگا کر ہمیں عہد ِحاضر کے کاروباری قصایوں کے آگے سرفروش کیا.

زندگی یوں ہی گزرتی رہی یہ ہماری خوش قسمتی کہ ادارے کے آئی ٹی یونٹ سے ہماری دوستی ایسی ہوئی کہ انھوں نے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر اور افسران کو لاعلم رکھ کرہمارے کمپیوٹر پر نیٹ کی سہولت عنایت کر دی اور یوں نوکری کے مختلف معاملات کو سنبھالنے کے لئے بھی گوگل ہمارے ساتھ ہمیشہ رہے، اور ہم یہاں بھی مقبول ہوگئے. احباب ہم کو علمی زنبیل سمجھنے لگے، گوگل کی عطا کردہ معلومات جب ہم بیان کرتے تو لوگ ہمارے علم پر رشک کرتے، اور یہ سلسلہ چل پڑا کہ کسی کو کوئی درخواست لکھوانی ہو یا کچھ لکھت پڑھت کا کام ہو یا کسی لفظ کے معنی دریافت کرنے ہوں احباب ہمارے پاس آنے لگے اور ہم کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے سائل کو تھوڑی دیر بعد آنے کا کہہ کر چپکے سے گوگل سے مدد لیتے اور پھر وہی ہوتا یعنی اندھوں میں کانے راجہ بن جاتے.

یوں طالب علمی سے نوکری تک ہر عہد میں گوگل کی بدولت ہم اپنی جھوٹی علمی شان بڑھتے رہے، دوسری جانب ہماری علمی اور ذہنی قابلیت گوگل کے بے دریغ استعمال سے زنگ آلود ہو کر رہ گئی اور رفتہ رفتہ گوگل کا بے تحاشہ استعمال ہماری قابلیت کو دیمک کی طرح چاٹ گیا. ہم اس پر بھی باز نہ آئے اور نوکری ملنے کے بعد جب گھر کے آنگن میں ہماری شادی کی سازشیں ہونے لگیں تو بھی گوگل ہماری مدد کو آئے اور ہم شادی خانہ آبادی کی مشہور ویب سائٹ تک جا پہنچے یوں ہمیں گوگل سے ایک عدد بیگم بھی نصیب ہوئی ہیں.

اور اب ہم گوگل کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کے اس کے بغیر جیون کو بیساکھیوں پر تصور کرتے ہیں. دو روز گوگل سے دوری برداشت نہیں ہوتی جینا محال ہو جاتا ہے، بارہا چاہا اور عہد کیا کہ اپنا ذہن استعمال کریں گے، اور کاروباری خط و کتابت سے لیکر اکاوئنٹنگ کے تمام اصولوں کو دوبارہ ذہن میں تازہ کر لیں گے مگر طبیعت ہے کہ اس جانب مائل نہیں ہوتی اور گوگل کوہم اپنے آپ سے جدا کرنے پر راضی ہی نہیں ہو پاتے. غرض زندگی کے ہر معاملات کے لئے گوگل کے آگے ہماری حاضری معمول بن چکی ہے، اور اگر کوئی ہم سے ازرائے مذاق بھی یہ کہہ دیتا ہے کہ حکومت نے یوٹیوب کی طرح گوگل تک رسائی پر پابندی لگا دی ہے تو اس پل ہم کو ایسا لگتا ہے کہ جان لبوں پر آگئی ہو، اپنی جھوٹی علمی قابلیت اپنے آپ گلے میں پھندا نظر آنے لگتی ہے، جیون کی سبک رفتار کار ایک دم پنکچر ہو جاتی ہے، اور زندگی بیساکھیوں پر آجاتی ہے، اور یہ دعا ہی اس غیر شائستہ مذاق پر لبوں پہ آ جاتی ہے کہ کچھ ہو جائے گوگل سے ہمارا ساتھ نہ چھوٹے، کبھی ہمارے چھوٹے اگرہم یہ سوال کر لیتا ہیں تو یقین جانیں دل میں لگتا ہے کسی نے نشتر چبھو دیا ہم ایسی قہر آلود نگاہوں سے سوالی کو دیکھتے ہیں کہ وہ ہماری نگاہوں کے سامنے سے دور ہو جانے ہی میں اکتفا سمجھتا ہے اور اس کے نظروں کے سامنے سے گم ہو جانے کے بعد ہم بھیگی آنکھوں سے اپنے رب سے پھر دعا کرتے ہیں کہ کوئی ہم سے کبھی ایسا سوال بھی نہ کرے کہ گوگل نہ ہوتا تو کیا ہوتا، کیوں کہ اس کے جواب کے لئے بھی ہمیں گوگل کی خدمات درکار ہیں. دعا ہے مالک ہمیشہ پردہ رکھے اور ہمارے اور گوگل کے ساتھ کو بد نظری سے محفوظ رکھے۔

س ن مخمور
 

محمد وارث

لائبریرین
ہماری علمی اور ذہنی قابلیت گوگل کے بے دریغ استعمال سے زنگ آلود ہو کر رہ گئی اور رفتہ رفتہ گوگل کا بے تحاشہ استعمال ہماری قابلیت کو دیمک کی طرح چاٹ گیا.

اپنا ذہن استعمال کریں گے، اور کاروباری خط و کتابت سے لیکر اکاوئنٹنگ کے تمام اصولوں کو دوبارہ ذہن میں تازہ کر لیں گے

س ن مخمور

کیسے مخمور صاحب؟ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ جو معلومات آپ کو علمی یاد درسی کتابوں یا پروفیسروں کے لیکچروں سے ملتی ہیں ان سے تو آپ کی ذہنی قابلیت بڑھتی ہے لیکن وہی معلومات زیادہ تفاصیل میں جب گوگل سے ملتی ہیں تو وہ آپ کی ذہنی قابلیت کو کند کر دیتی ہیں اور قابلیت زنگ آلود ہو جاتی ہے؟ :)
 

loneliness4ever

محفلین
کیسے مخمور صاحب؟ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ جو معلومات آپ کو علمی یاد درسی کتابوں یا پروفیسروں کے لیکچروں سے ملتی ہیں ان سے تو آپ کی ذہنی قابلیت بڑھتی ہے لیکن وہی معلومات زیادہ تفاصیل میں جب گوگل سے ملتی ہیں تو وہ آپ کی ذہنی قابلیت کو کند کر دیتی ہیں اور قابلیت زنگ آلود ہو جاتی ہے؟ :)

وارث صاحب آداب،

آپکی بات سولہ آنے درست ہے، مگر چونکہ آفس وغیرہ میں جو دیکھا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے
لکھا ہے، مثال دیتا ہوں اپنی آنکھوں دیکھا حال اور یقینا آپ کی نظر میں بھی ایسے حضرات ہونگے

آفس میں کچھ ایسے حضرات ہیں جو انگریزی لکھنا جانتے ہوئے بھی کوئی بھی لیٹر خود سے نہیں لکھتے اور
اگر سر پر پڑ جائے تو گوگل سے مدد لیتے ہیں اور پورا کا پورا کاپی کر دیتے ہیں، عموما ایسا ہی ہوتاہے
لوگ خود سے لکھتے ہیں تو کچھ وقت لگتا ہے اور گوگل چند ساعتوں میں آپ کا کام کر دیتا ہے۔ بار بار
اس طرح کرنے سے ذہن میں جو کچھ ہوتا ہے اس پر زنگ لگ جاتا ہے، احباب اپنے علم پر اعتماد کرنے
کے بجائے گوگل پر انحصار کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔

اگر کبھی پڑھانے کا آج کے بچوں کو اتفاق ہو تو آپ دیکھیں گے وہ سولہ جمع سات کے لئے بھی کیلکولٹر کے
محتاج ہوتے ہیں، کیلکولٹر ایک سہولت تھی مگر اس کے بےجا استعمال نے اچھے اچھے اکاونٹنٹ کو اپنا محتاج بنا
لیا ہے۔

اس ہی طرح گوگل کا بے جا استعمال بھی انسان کی علمی قابلیت کو کھا جاتا ہے، بالا تحریر میں ایسے ہی صاحب کا تو
ذکر ہے کہ گوگل کے بے دریغ استعمال سے وہ اکاونٹنگ کے بنیادی اصول تک کو بھول چکے ہیں اور ہر کام کے لئے اب گوگل کے محتاج ہیں۔

امید ہے خاکسار اپنی بات واضح کر پایا ہو گا۔

اور اچھا ہی ہے آپ نے گفتگو کا آغاز کیا
بندہ تو جناب اور دیگر احباب سے سیکھنے آیا ہے

آپ تمام اہل ِ علم ہیں، خاکسار پر نظر رکھیں، جہاں غلطی ہو وہاں فوراَ پکڑ لیں
اللہ آباد و بے مثال رکھے آپکو ۔۔۔۔۔ آمین
 
آخری تدوین:
آپ نے گوگل کے سائیڈ افیکٹس کی اچھی نشاندہی کی ہے۔
مگر یہ ہمارے استعمال پر ہے کہ ہم اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں؟ محض کاپی پیسٹ کے لئے یا علم سکھنے کے لئے؟
گوگل کو اگر ایک ٹول کے طور پر استعمال کریں تو یہ آپ کی صلاحیتوں کو نکھارے گا۔
 

سلمان حمید

محفلین
سو فیصد درست بات ہے۔ گوگل نے ذہن کو زنگ لگا دیا ہے۔ اب تو میں نے کبھی راستہ بھی یاد نہیں کیا اور نہ ہی پبلک ٹرانسپورٹ کے اوقات۔ جب نکلنا ہوتا ہے تو گوگل زندہ باد۔
 

arifkarim

معطل
نوٹ: گوگل کی ایجاد کے پیچھے بھی دو یہودیوں کا ہاتھ ہے۔ اہل علم گوگل کے استعمال سے اجتناب کریں۔
 

loneliness4ever

محفلین
آپ نے گوگل کے سائیڈ افیکٹس کی اچھی نشاندہی کی ہے۔
مگر یہ ہمارے استعمال پر ہے کہ ہم اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں؟ محض کاپی پیسٹ کے لئے یا علم سکھنے کے لئے؟
گوگل کو اگر ایک ٹول کے طور پر استعمال کریں تو یہ آپ کی صلاحیتوں کو نکھارے گا۔


آداب لئیق صاحب

لکھنے اور شئیر کے اعتبار سے آپ میراتھن سمجھ رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ خاکسار کا قلم خاموش ہو چلا ہے اور مرحومین میں شمار کیا جانے لگا ہے، خاکسار خاموشی کے اندھیروں میں ہے، یہ جتنا بھی محفل پر شئیر
کیا گیا ہے وہ سب پرانا لکھا ہوا ہے

آپکی آمد ہمیشہ خاکسار کے لئے اہمیت کا حامل ہوتی ہے
اللہ آباد و کامران رکھے آپ کو ۔۔۔۔ آمین
 

loneliness4ever

محفلین
سو فیصد درست بات ہے۔ گوگل نے ذہن کو زنگ لگا دیا ہے۔ اب تو میں نے کبھی راستہ بھی یاد نہیں کیا اور نہ ہی پبلک ٹرانسپورٹ کے اوقات۔ جب نکلنا ہوتا ہے تو گوگل زندہ باد۔


سلمان بھائی آپکی آمد پر بندہ ممنون و مسرور ہے
اللہ پاک آپ کو ہمیشہ خوشحال رکھے ۔۔۔۔ آمین
 
Top