اگر چہ دو ہی قدم پر کھڑا سویرا ہے

حنیف خالد

محفلین
اگر چہ دو ہی قدم پر کھڑا سویرا ہے
نہ آ سکیں گے ہمیں ظلمتوں نے گھیرا ہے

جو آ رہے ہو زمیں چیر کے لحد اندر
چراغ ساتھ لے آؤ بڑا اندھیرا ہے

درو دیوار سے چیخوں کی صدا آتی ہے
ہمارے گھر کسی آسیب کا بسیرا ہے

ہمیں یقیں ہے کہ ناکام ہم نہیں ہونگے
کہ سر پہ ماں نے دعا دے کے ہاتھ پھیرا ہے

جو ایک بار گیا لوٹ کر نہیں آیا
قدم سنبھال کے رکھنا یہ ایک پھیرا ہے
 

الف عین

لائبریرین
باقی تن اشعار تو درست ہیں، لیکن یہ
جو آ رہے ہو زمیں چیر کے لحد اندر
چراغ ساتھ لے آؤ بڑا اندھیرا ہے
۔۔لحد اندر‘ اچھا نہیں لگ رہا۔ دوسرے مصرع میں ’لے آؤ‘ کا ’لیاؤ‘ تقطیع ہونا بھی غلط ہے۔

درو دیوار سے چیخوں کی صدا آتی ہے
ہمارے گھر کسی آسیب کا بسیرا ہے

۔۔پہلا مصرع بحر میں تو ہے لیکن ایک دوسری بحر میں، فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن، جب کہ اس غزل کی بحر مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن مقرر کی گئی ہے۔ اس مصرع کو بدل د یں۔
 
Top