اگر مجرم تمہارا ہوں، سزا پھر کیوں نہیں دیتے---برائے اصلاح

الف عین
خلیل الرحمن
عظیم
فلسفی
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
------------
اگر مجرم تمہارا ہوں، سزا پھر کیوں نہیں دیتے
مجھے تختہ زمیں سے ہی ، مٹا پھر کیوں نہیں دیتے
------------------
تمہاری بات مانی ہے، یقیں کامل نہیں لیکن
جو پردہ درمیاں میں ہے اُٹھا پھر کیوں نہیں دیتے
--------------یا
یہ چہرے پر جو پردہ ہے اُٹھا پھر کیوں نہیں دیتے
------------
نکل جائے مرے دل سے ،طلب دیدار کی حسرت
مجھے بھی اک تجلّی سے جلا پھر کیوں نہیں دیتے
-------------
تمہاری بات سچی ہو محبّت کا تقاضا ہے
وہ باتیں جو چھپاتے ہو ، بتا پھر کیوں نہیں دیتے
-----------------
بُجھی یہ زہر میں باتیں مجھے جینے نہیں دیتیں
مجھے تم زہر ہی لا کر ، پِلا پھر کیوں نہیں دیتے
----------------
نظر آتی نہیں سچائی ،باتوں میں تمہاری تو
حقیقت پر جو پردہ ہے ، اُٹھا پھر کیوں نہیں دیتے
--------------
محبّت ہے اگر دل میں تکلّف پھر یہ کیسا ہے
یہ دونوں میں جو دوری ہے ، مٹا پھر کیوں نہیں دیتے
-------------------
یہاں بیمار ہے ارشد تمہاری ہی جدائی میں
مرے تم پاس آ کر یہ شفا پھر کیوں نہیں دیتے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ اب بہت بہتری آ رہی ہے، شاید اس غزل پر کچھ خود ہی محنت کی جا چکی ہے!
اگر مجرم تمہارا ہوں، سزا پھر کیوں نہیں دیتے
مجھے تختہ زمیں سے ہی ، مٹا پھر کیوں نہیں دیتے
------------------ تختہ زمیں کی ترکیب سمجھ نہیں سکا، ت‍ختۂ زمین درست ترکیب ہوتی ہے جو وزن میں نہیں آتی۔ یہ مصرع بدل دو، میرا مشورہ
جو اک حرفِ مکرر ہوں، مٹا.......

تمہاری بات مانی ہے، یقیں کامل نہیں لیکن
جو پردہ درمیاں میں ہے اُٹھا پھر کیوں نہیں دیتے
-------------- مطلب نہیں سمجھا، تکنیکی طور پر درست ہے

نکل جائے مرے دل سے ،طلب دیدار کی حسرت
مجھے بھی اک تجلّی سے جلا پھر کیوں نہیں دیتے
------------- طلب دیدار؟ تمہارے دید کی حسرت کیا جا سکتا ہے

تمہاری بات سچی ہو محبّت کا تقاضا ہے
وہ باتیں جو چھپاتے ہو ، بتا پھر کیوں نہیں دیتے
----------------- پہلے مصرعے کا ربط نہیں ہو رہا

بُجھی یہ زہر میں باتیں مجھے جینے نہیں دیتیں
مجھے تم زہر ہی لا کر ، پِلا پھر کیوں نہیں دیتے
---------------- درست اگرچہ زہر کا لفظ دونوں مصرعوں میں دہرایا گیا ہے

نظر آتی نہیں سچائی ،باتوں میں تمہاری تو
حقیقت پر جو پردہ ہے ، اُٹھا پھر کیوں نہیں دیتے
-------------- تو کا طویل کھنچنا اچھا نہیں لگتا، الفاظ بدل دیں پہلے مصرعے میں

محبّت ہے اگر دل میں تکلّف پھر یہ کیسا ہے
یہ دونوں میں جو دوری ہے ، مٹا پھر کیوں نہیں دیتے
------------------- درست،
جو یہ دوری ہے دونوں میں.... بہتر لگتا ہے نا!

یہاں بیمار ہے ارشد تمہاری ہی جدائی میں
مرے تم پاس آ کر یہ شفا پھر کیوں نہیں دیتے
... مرے تم پاس؟ یہ شفا میں یہ بھی بھرتی کا ہے.، ایک مشورہ
مرے نزدیک آ کر تم شفا......
 
الف عین
-----------
تبدیلیوں کے بعد دوبارا
-----------
اگر مجرم تمہارا ہوں، سزا پھر کیوں نہیں دیتے
جو اک حرفِ مکرر ہوں، مٹا پھر کیوں نہیں دیتے
----------------
ادھوری ہے تمہاری بات شک پیدا جو کرتی ہے
جو پردہ درمیاں میں ہے اُٹھا پھر کیوں نہیں دیتے
-----------
نکل جائے مرے دل سے ، تمہارے دید کی حسرت
مجھے بھی اک تجلّی سے جلا پھر کیوں نہیں دیتے
--------------
چھپانا پیار میں باتیں کبھی اچھا نہیں ہوتا
وہ باتیں جو چھپاتے ہو ، بتا پھر کیوں نہیں دیتے
--------------
تُرش باتیں تمہاری تو مجھے جینے نہیں دیتیں
مجھے تم زہر ہی لا کر ، پِلا پھر کیوں نہیں دیتے
------------------
ہمیشہ بات سچی ہو ، محبّت کا تقاضا ہے ( کریں باتیں جو جھوٹی ہوں محبّت کے منافی ہے )
حقیقت پر جو پردہ ہے ، اُٹھا پھر کیوں نہیں دیتے
--------------
محبّت ہے اگر دل میں تکلّف پھر یہ کیسا ہے
جو یہ دوری ہے دونوں میں ، مٹا پھر کیوں نہیں دیتے
------------
یہاں بیمار ہے ارشد تمہاری ہی جدائی میں
مرے نزدیک آ کر تم شفا پھر کیوں نہیں دیتے
... -----------
 

الف عین

لائبریرین
باقی تو میرے مشوروں پر عمل کیا گیا ہے
تُرش باتیں تمہاری تو مجھے جینے نہیں دیتیں
مجھے تم زہر ہی لا کر ، پِلا پھر کیوں نہیں دیتے
------------------ تُرُش تلفظ غلط ہے، را پر جزم ہے
تمہاری ترش باتیں....
'تو' کو بدل کر 'بھی' کر دیں تو شاید بہتر ہو کہ بھرتی کا یہ لفط کم نا گوار ہے بہ نسبت طویل تو کے
 

الف عین

لائبریرین
اوہو یہ بھی تو ہے
ہمیشہ بات سچی ہو ، محبّت کا تقاضا ہے ( کریں باتیں جو جھوٹی ہوں محبّت کے منافی ہے )
حقیقت پر جو پردہ ہے ، اُٹھا پھر کیوں نہیں دیتے
-------------- پہلی صورت بہتر ہے لیکن 'یہ' بھی ضروری لگتا ہے
سدا ہو بات سچی، یہ محبت....
 
Top