اگر تم یونہی ملنے کا وعدہ کرو - (آج دہائیوں بعد کچھ لکھا ہے)

السلام علیکم!
آج میں نے مدتوں یا شاید دہائیوں بعد کوئی خواب دیکھا، جو روح تک اُتر گیا۔
آج خواب میں اسے دیکھا شاید ہی پہلے دیکھا ہو خواب میں یا خواب میں دیکھنا یاد ہو۔
سب کچھ پھر سے کھو جانے کے خدشے سے، گہرے دھندلکے میں سب گم ہو جانے کے ڈر سے پورے خواب میں ایک ہی جستجو رہی کہ کسی طرح اس کا موبائل نمبر لے لوں۔
اس نے بھی طرح طرح سے موبائل نمبر دینے یا کمیونیکیٹ کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار یا نمبر مٹ گیا، یا بھیگ گیا یا کھو گیا۔ اسی جستجو میں آنکھ کھل گئی اور میں پھر سو گیا اوریہ سلسلہ جاری رہا، لیکن نمبر کے آخری چار حرف یاد نہیں رہے۔ ایک بار فون نمبر کی تصویر لینے کے لیے جیب سے موبائل نکالا تو موبائل کے بجائے پیجر نکلا جس میں کیمرہ تو تھا ہی نہیں تو بے بسی پر بہت افسوس بھی ہوا کہ میں کیوں یہ نہیں کر پا رہا۔ میں کیوں اسے پھر سے اپنے ہی ہاتھوں کھو رہا ہوں۔
آج پھر میں نے دہائیوں کے بعد ایک نظم کہی ہے یا لکھی ہے ۔ میں جانتا ہوں کہ میں شاعری نہیں کر سکتا خاص طور پر پابندِ بحر اور اوزان کے مطابق لیکن میں ہر بار اپنے جذبات اور احساسات لکھنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں جائے استاد لوگ اسے شاعری سمجھیں یا نہیں۔



اگر تم یونہی ملنے کا وعدہ کرو
------------------------

اگر تم یونہی ملنے کا وعدہ کرو
تو میں ہر شب یہ خواب بُنوں
کہ موسم ہو ہلکی بارش کا
درختوں کے پتے بھیگے ہوئے
زمیں پہ پھیلی ہوئی نمی ہو
ہوا میں مہک ہو سوندھی سی

تم آؤ، یونہی دبے پاؤں پھر سے
تمہارا آنا ہو جیسے نومبر کی سرد ہوا
اور میں لرزوں، مگر خوشبو میں مہک جاؤں

کہیں دور ہمارے اسکول کے میدان میں
ہم اُسی محبت کے سائے میں کھڑے ہوں
اور میں پوچھوں
"تم کیسی ہو؟ کہاں تھیں اب تک؟
کیسے بیتے یہ برس؟ کیا تمہیں سب یاد ہے؟"

اور تم ہنس کر کہو، "سب یاد ہے"
لیکن پھر سب کچھ کھو دینے کے ڈر سے
میں تم سے تمہارا فون نمبر لینا چاہوں
مگر نمبر، ہر بار مٹ جائے، کہیں کھو جائے
میں خواب میں اُلجھتا رہوں
اور تم مسکراتی رہو

یہ وعدہ کرو
تو میں ہر رات خوابوں کی کتاب کھولوں
تمہارے آنے کا قصہ لکھوں
تمہاری خوشبو کا ذکر کروں
تمہاری مسکراہٹ کو جھیل کا کنارہ کہوں

اگر تم یوں ہی ملنے کا وعدہ کرو
تو میں ہر روز خواب دیکھا کروں۔


؎ امجد میانداد
20 نومبر 2024
 

اربش علی

محفلین
السلام علیکم!
آج میں نے مدتوں یا شاید دہائیوں بعد کوئی خواب دیکھا، جو روح تک اُتر گیا۔
آج خواب میں اسے دیکھا شاید ہی پہلے دیکھا ہو خواب میں یا خواب میں دیکھنا یاد ہو۔
سب کچھ پھر سے کھو جانے کے خدشے سے، گہرے دھندلکے میں سب گم ہو جانے کے ڈر سے پورے خواب میں ایک ہی جستجو رہی کہ کسی طرح اس کا موبائل نمبر لے لوں۔
اس نے بھی طرح طرح سے موبائل نمبر دینے یا کمیونیکیٹ کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار یا نمبر مٹ گیا، یا بھیگ گیا یا کھو گیا۔ اسی جستجو میں آنکھ کھل گئی اور میں پھر سو گیا اوریہ سلسلہ جاری رہا، لیکن نمبر کے آخری چار حرف یاد نہیں رہے۔ ایک بار فون نمبر کی تصویر لینے کے لیے جیب سے موبائل نکالا تو موبائل کے بجائے پیجر نکلا جس میں کیمرہ تو تھا ہی نہیں تو بے بسی پر بہت افسوس بھی ہوا کہ میں کیوں یہ نہیں کر پا رہا۔ میں کیوں اسے پھر سے اپنے ہی ہاتھوں کھو رہا ہوں۔
آج پھر میں نے دہائیوں کے بعد ایک نظم کہی ہے یا لکھی ہے ۔ میں جانتا ہوں کہ میں شاعری نہیں کر سکتا خاص طور پر پابندِ بحر اور اوزان کے مطابق لیکن میں ہر بار اپنے جذبات اور احساسات لکھنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں جائے استاد لوگ اسے شاعری سمجھیں یا نہیں۔



اگر تم یونہی ملنے کا وعدہ کرو
------------------------

اگر تم یونہی ملنے کا وعدہ کرو
تو میں ہر شب یہ خواب بُنوں
کہ موسم ہو ہلکی بارش کا
درختوں کے پتے بھیگے ہوئے
زمیں پہ پھیلی ہوئی نمی ہو
ہوا میں مہک ہو سوندھی سی

تم آؤ، یونہی دبے پاؤں پھر سے
تمہارا آنا ہو جیسے نومبر کی سرد ہوا
اور میں لرزوں، مگر خوشبو میں مہک جاؤں

کہیں دور ہمارے اسکول کے میدان میں
ہم اُسی محبت کے سائے میں کھڑے ہوں
اور میں پوچھوں
"تم کیسی ہو؟ کہاں تھیں اب تک؟
کیسے بیتے یہ برس؟ کیا تمہیں سب یاد ہے؟"

اور تم ہنس کر کہو، "سب یاد ہے"
لیکن پھر سب کچھ کھو دینے کے ڈر سے
میں تم سے تمہارا فون نمبر لینا چاہوں
مگر نمبر، ہر بار مٹ جائے، کہیں کھو جائے
میں خواب میں اُلجھتا رہوں
اور تم مسکراتی رہو

یہ وعدہ کرو
تو میں ہر رات خوابوں کی کتاب کھولوں
تمہارے آنے کا قصہ لکھوں
تمہاری خوشبو کا ذکر کروں
تمہاری مسکراہٹ کو جھیل کا کنارہ کہوں

اگر تم یوں ہی ملنے کا وعدہ کرو
تو میں ہر روز خواب دیکھا کروں۔


؎ امجد میانداد
20 نومبر 2024
واہ، زبردست۔
تمھیں دیکھیں نہ دیکھیں، ایک عادت ہے کہ ہر شب کو
تمھارے خواب کی سونے سے پہلے آرزو کرنا
 
Top