اگر اردو کو تعلیمی زبان قرار دے دیا جائے تو محنت آدھی

میں آپ کے الفاظ آپ ہی کو لوٹاتا ہوں اس اضافے کے ساتھ کہ نام نہاد محب وطنی اور رومانیت پسندی سے باہر حقیقت پسندی اور تجزیہ بھی کوئی چیز ہے۔
میں ادھر ہائر ایجوکیشن کمیشن کی رپورٹ اور قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر پرویز ہود بھائی کے لنک لگانا چا رہا تھاتاہم آپ کا استدلال اب افراد کی رینکنگ تک پہنچ گیا ہے۔ کہ فلاں بندہ فلاں جگہ سے وہاں تک پہنچ گیا تو بس وہ مقام اعلیٰ ہے۔
آپ کے ساتھ تبادلہ خیال کا لطف آیا۔ تاہم اب شائد یہ اپنے اختتام کو ہے۔
اجازت دیجیے۔ :)


پروفیسر ہود بھائی نے کبھی پاکستان کے حق میں بات کی ہے ؟ اس شخص کو ساری برائیاں ہی نظر آتی ہیں، کچھ باتیں صحیح ہو سکتی ہیں مگر ہر پہلو کا تاریک پہلو ہی سنا ہے اس آدمی سے میں نے۔

میں نے مزید لنک فراہم کیا ہے عالمی رینکنگ کا اور افراد کی ایک مثال تھی کہ اگر تعلیم ادارہ اتنا کمزور ہو تو اس سے پڑھ کر کوئی شخص عالمی معیار کی اور دنیا کی بہترین کمپنیوںمیں کام نہیں کر سکتا۔
 
آپ پہلے فیصلہ کر لیجیے کہ آپ محض بال کی کھال اتارنا چاہتے ہیں یا بات آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ میں لسانیات کی بابت بتا چکا ہوں۔ آپ پہلے اس سے کلی لاعلم دیکھائی دیتے تھے ، اب اقسام پر اتر آئے۔
آپ خود کہہ چکے ہیں کہ ایک اچھا تخلیقی ذہن زبان دانی پر قادر ہے۔ اگلے ہی جملے میں آپ اپنی ہی بات کی نفی کررہے ہیں۔ نیز میں آپ کو مثال دے چکا ہوں کہ دنیا بھر میں سائنس کے طلبہ باآسانی سائنس اور غیر ملکی زبانیں پڑھ لیتے ہیں۔ ایسے میں تکرار کیسی ؟

پاکستان بھر میں اردو لکھی ، پڑھی ، بولی اور سنی جاتی ہے۔ میڈیا ، نصاب اور عام بول چال کا ایک اچھا خاصہ حصہ اسی زبان میں ہے۔ اب بھی اگر اردو کی بجائے انگریزی ہی "رائج" ہے تو پھر آپ کو اردو پہ فاتحہ پڑھ ہی لینی چاہیے۔

اردو لغت میں شامل الفاظ اور تراکیب کا موازنہ انگریزی لغت میں شامل الفاظ اور تراکیب بشمول سائنسی اصطلاحات سے کر لیجیے۔ کس کا حجم کیا ہے ، معلوم ہو جائے گا۔ یہ میری فکر نہیں بلکہ Empirical Fact ہے۔

میں مذہبی حلقوں کی نہیں ، عام لوگوں کی بات کررہا ہوں۔ تمام قوم مدرسہ یافتہ نہیں۔


آپ نے اس بحث کو بال کی کھال اتارنے کے برابر قرار دیا ہے۔ حالانکہ ہمارا مقصد سیکھنا اور نئی معلومات آپ جیسے لوگوں کی زبان سے اگلوانا ہوتا ہے۔ تاہم مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ آپ مزید طول نہیں دینا چاہتے ۔
اب مرا خیال ہے اس بحث کو سمیٹ ہی لینا چاہئے۔
 

رابطہ

محفلین
میں ایک سائنس ٹیچر ہوں اور میرا تجربہ یہ ہے کہ ہمیں انگلش میں لکھی ہوئی سائنس کی کتاب پڑھاتے وقت لازمی طور پر اردو میں ترجمہ کرنا پڑتا ہے اور موضوع کی وضاحت اردو ہی میں کرنا پڑتی ہے۔ بصورت دیگراگر خالصتا انگریزی میں لیکچر دیا جائے تو طلبا کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔
اور پھر اس کے بعد وہ بچے نفس مضمون کو لازما رٹا لگاتے ہیں۔ کیوں کہ سب کی انگریزی اتنی اچھی نہیں ہوتی کہ وہ از خود نفس مضمون انگریزی میں بیان کر سکیں۔ یہ دو زبانی کا المیہ ہے۔ اگر نفس مضمون اردو میں ہو تو طالب علم اپنے الفاظ میں بات زیادہ آسانی سے کر سکتا ہے اورانگریزی کی وجہ سے رٹا لگانے پر مجبور نہیں ہوگا۔
اورایک استاد اور شاعر نےانگریزی کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ
ع فیل ہونے کے لیے بھی ایک مضمون ہونا چاہئے
 

رابطہ

محفلین
کیا کوئی یہ معلومات دے سکتا ہے کہ وہ اقوام جو اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرتی ہیں انہوں نے انگریزی میں موجود سائنسی اصطلاحات کے مسئلے کا کیا حل نکالا؟
 

انتہا

محفلین
بہتر ہو گا کہ اس وقت جو قومیں ترقی یافتہ ہیں ان کے نظام تعلیم کو بھی زیر بحث لایا جائے کہ وہ کیسے اس عروج وترقی کو پہنچیں؟
 

ساجد

محفلین
بہتر ہو گا کہ اس وقت جو قومیں ترقی یافتہ ہیں ان کے نظام تعلیم کو بھی زیر بحث لایا جائے کہ وہ کیسے اس عروج وترقی کو پہنچیں؟
سائنسی ترقی کے حوالے سے یہ کہوں گا کہ 'بہتر سے بہترین کی جستجو میں' وہ قومیں آگے نکلیں۔ انہوں نے تقلید کی بجائے اختراع کے نئے گوشوں تک رسائی کی کوشش جاری رکھی۔ ہماری طرح زبان وبیان کے چکر میں پڑنے کی بجائے دستیاب علوم و فنون میں اس قدر دستِ رس حاصل کیا کہ ایجادات کی بدولت اسماء و اصطلاحات خود بخود ان کی زبان میں ڈھل گئیں۔
 

انتہا

محفلین
سائنسی ترقی کے حوالے سے یہ کہوں گا کہ 'بہتر سے بہترین کی جستجو میں' وہ قومیں آگے نکلیں۔ انہوں نے تقلید کی بجائے اختراع کے نئے گوشوں تک رسائی کی کوشش جاری رکھی۔ ہماری طرح زبان وبیان کے چکر میں پڑنے کی بجائے دستیاب علوم و فنون میں اس قدر دستِ رس حاصل کیا کہ ایجادات کی بدولت اسماء و اصطلاحات خود بخود ان کی زبان میں ڈھل گئیں۔
میرا مقصد ان کے ذریعہ تعلیم کو اور اس میں انگریزی نٍفوذ پذیری کو معلوم کرنا تھا کہ آیا یہ قومیں بھی انگریزی ہی کو ذریعہ تعلیم بنا کر وقت کو دوڑ میں آگے نکلیں یا انھوں نے علوم کو اپنی زبانوں میں منتقل کر کے ان سے فائدہ اٹھایا۔
آپ نے جس طرف توجہ دلائی اگر اس کی کچھ مثالیں بھی مل جائیں کہ اس اس قوم نے ذریعہ تعلیم کے چکر میں پڑے بغیر ترقی یافتہ قوموں کی صف میں جگہ بنا لی۔
 

ساجد

محفلین
میرا مقصد ان کے ذریعہ تعلیم کو اور اس میں انگریزی نٍفوذ پذیری کو معلوم کرنا تھا کہ آیا یہ قومیں بھی انگریزی ہی کو ذریعہ تعلیم بنا کر وقت کو دوڑ میں آگے نکلیں یا انھوں نے علوم کو اپنی زبانوں میں منتقل کر کے ان سے فائدہ اٹھایا۔
آپ نے جس طرف توجہ دلائی اگر اس کی کچھ مثالیں بھی مل جائیں کہ اس اس قوم نے ذریعہ تعلیم کے چکر میں پڑے بغیر ترقی یافتہ قوموں کی صف میں جگہ بنا لی۔
میں نے صرف سائنسی علوم کے حوالے سے بات کہی تھی۔ زبان و بیان کے چکر میں نہ پڑنے کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے بدیسی زبانوں کو اپنا لیا بلکہ اس طرح سے زبان کو مسئلہ نہیں بنایا جیسا کہ ہمارے ہاں اسے بنا لیا گیا ہے بلکہ انہوں نے دستیاب علوم کو اپنی زبانوں میں بھی ڈھالا لیکن یہ تب ہی ممکن ہوا جب انہوں نے اپنی نسل کو اپنی زبان سے جوڑے رکھا اور اس کی ترقی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ یہ ایک لمبی بحث ہے کہ انہوں نے کیسے اپنی زبان کو بین الاقوامی علوم سے جوڑا اور اس کے لئے اپنا تعلیمی بجٹ کتنا رکھا۔ جبکہ ہمارے ہاں انگریزی بولنا اور سمجھنا عام طور پر فخر خیال کیا جاتاہے وہاں ہم سائنسی علوم کو اردو میں پڑھنے پڑھانے کا کیوں کر سوچتے ہیں؟۔اگر یہ کام کرنا ہے تو ہمیں پہلے اس سوچ کو بدلنا ہو گا جو انگریزی زبان کے حوالے سے ہمارا المیہ بن گئی ہے کہ انگریزی پڑھے گا تو باؤ بنے گا ورنہ نہیں۔
یہیں سے میری اگلی بات کو سمجھیں کہ اگر ہم سائنس میں مہارت پیدا کر کے ایجادات و اختراعات کی طرف اپنا رخ موڑیں تو اصطلاحات و رموز خود بخود ہماری زبان میں ڈھلنا شروع ہو جائیں گے۔ کیوں کہ ہم جتنی بھی زبانیں پڑھ لیں لیکن سوچیں گے اپنی زبان ہی میں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جب تک اپنی زبان پر عبور نہیں رکھیں گے تب تک کوئی دوسری زبان بھی ڈھنگ سے نہیں سیکھ سکیں گے۔
سائنس کسی جامد علم کا نام نہیں۔ یہ تجربات اور مشاہدات پر مبنی ایک نظام ہے جس میں تجربات کی بنیاد پر تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ ہم سائنسی مشاہدات و تجربات میں خود کو مشغول کریں تو دیکھیں گے کہ تبدیلیاں خود ہماری زبان کا خیر مقدم کریں گی۔
 
میں ایک سائنس ٹیچر ہوں اور میرا تجربہ یہ ہے کہ ہمیں انگلش میں لکھی ہوئی سائنس کی کتاب پڑھاتے وقت لازمی طور پر اردو میں ترجمہ کرنا پڑتا ہے اور موضوع کی وضاحت اردو ہی میں کرنا پڑتی ہے۔ بصورت دیگراگر خالصتا انگریزی میں لیکچر دیا جائے تو طلبا کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔
اور پھر اس کے بعد وہ بچے نفس مضمون کو لازما رٹا لگاتے ہیں۔ کیوں کہ سب کی انگریزی اتنی اچھی نہیں ہوتی کہ وہ از خود نفس مضمون انگریزی میں بیان کر سکیں۔ یہ دو زبانی کا المیہ ہے۔ اگر نفس مضمون اردو میں ہو تو طالب علم اپنے الفاظ میں بات زیادہ آسانی سے کر سکتا ہے اورانگریزی کی وجہ سے رٹا لگانے پر مجبور نہیں ہوگا۔
اورایک استاد اور شاعر نےانگریزی کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ
ع فیل ہونے کے لیے بھی ایک مضمون ہونا چاہئے

ایک تو بطور سائنس ٹیچر آپ کی رائے خصوصی اہمیت کی حامل ہے اور دوم آپ نے مسئلہ کی جڑ کو پکڑ کر حل پیش کیا ہے۔ اصطلاحات ایک طرف ، طالب علم کو اگر تشریح اور لیکچر اس زبان میں دیا جائے جسے وہ باآسانی اور جلدی سمجھ سکتا ہے تو وہ وہ نفس مضمون کو بہت آسانی اور عمدگی سے سمجھ لیتا ہے۔

جسے انگریزی میں Medium of Instruction کہا جاتا ہے اس سے سب سےزیادہ فرق پڑتا ہے تعلیم حاصل کرنے میں۔

اگر ہدایات اور تفصیلات کی زبان مادری و قومی ہو تو تمام قوم ترقی کر سکتی ہے ورنہ اگر زبان مراعت یافتہ یا بہتر سہولیات والے طبقہ کی ہوگی تو صرف وہی طبقہ سمجھ سکے گا اور ترقی کر سکے گا جیسا کہ اس وقت ہو رہا ہے۔
 

ساجد

محفلین
کیا کوئی یہ معلومات دے سکتا ہے کہ وہ اقوام جو اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرتی ہیں انہوں نے انگریزی میں موجود سائنسی اصطلاحات کے مسئلے کا کیا حل نکالا؟
آپ نے سوچ کا ایک در کھول دیا ہے۔ اس پر غور کرنا چاہئے۔ انشا ء اللہ کچھ تحقیق کرنے بعد اس پر بات ہو گی۔
 

انتہا

محفلین
میں نے صرف سائنسی علوم کے حوالے سے بات کہی تھی۔ زبان و بیان کے چکر میں نہ پڑنے کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے بدیسی زبانوں کو اپنا لیا بلکہ اس طرح سے زبان کو مسئلہ نہیں بنایا جیسا کہ ہمارے ہاں اسے بنا لیا گیا ہے بلکہ انہوں نے دستیاب علوم کو اپنی زبانوں میں بھی ڈھالا لیکن یہ تب ہی ممکن ہوا جب انہوں نے اپنی نسل کو اپنی زبان سے جوڑے رکھا اور اس کی ترقی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ یہ ایک لمبی بحث ہے کہ انہوں نے کیسے اپنی زبان کو بین الاقوامی علوم سے جوڑا اور اس کے لئے اپنا تعلیمی بجٹ کتنا رکھا۔ جبکہ ہمارے ہاں انگریزی بولنا اور سمجھنا عام طور پر فخر خیال کیا جاتاہے وہاں ہم سائنسی علوم کو اردو میں پڑھنے پڑھانے کا کیوں کر سوچتے ہیں؟۔اگر یہ کام کرنا ہے تو ہمیں پہلے اس سوچ کو بدلنا ہو گا جو انگریزی زبان کے حوالے سے ہمارا المیہ بن گئی ہے کہ انگریزی پڑھے گا تو باؤ بنے گا ورنہ نہیں۔
یہیں سے میری اگلی بات کو سمجھیں کہ اگر ہم سائنس میں مہارت پیدا کر کے ایجادات و اختراعات کی طرف اپنا رخ موڑیں تو اصطلاحات و رموز خود بخود ہماری زبان میں ڈھلنا شروع ہو جائیں گے۔ کیوں کہ ہم جتنی بھی زبانیں پڑھ لیں لیکن سوچیں گے اپنی زبان ہی میں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جب تک اپنی زبان پر عبور نہیں رکھیں گے تب تک کوئی دوسری زبان بھی ڈھنگ سے نہیں سیکھ سکیں گے۔
سائنس کسی جامد علم کا نام نہیں۔ یہ تجربات اور مشاہدات پر مبنی ایک نظام ہے جس میں تجربات کی بنیاد پر تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ ہم سائنسی مشاہدات و تجربات میں خود کو مشغول کریں تو دیکھیں گے کہ تبدیلیاں خود ہماری زبان کا خیر مقدم کریں گی۔
موجودہ کن ترقی یافتہ قوموں نے اس فن کو استعمال کیا کسی قوم کی مثال پیش کریں(بشمول حوالہ جات) تو اس حوالے سے مزید حوصلہ افزائی کا باعث ہو گا۔
 
میں نے صرف سائنسی علوم کے حوالے سے بات کہی تھی۔ زبان و بیان کے چکر میں نہ پڑنے کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے بدیسی زبانوں کو اپنا لیا بلکہ اس طرح سے زبان کو مسئلہ نہیں بنایا جیسا کہ ہمارے ہاں اسے بنا لیا گیا ہے بلکہ انہوں نے دستیاب علوم کو اپنی زبانوں میں بھی ڈھالا لیکن یہ تب ہی ممکن ہوا جب انہوں نے اپنی نسل کو اپنی زبان سے جوڑے رکھا اور اس کی ترقی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ یہ ایک لمبی بحث ہے کہ انہوں نے کیسے اپنی زبان کو بین الاقوامی علوم سے جوڑا اور اس کے لئے اپنا تعلیمی بجٹ کتنا رکھا۔ جبکہ ہمارے ہاں انگریزی بولنا اور سمجھنا عام طور پر فخر خیال کیا جاتاہے وہاں ہم سائنسی علوم کو اردو میں پڑھنے پڑھانے کا کیوں کر سوچتے ہیں؟۔اگر یہ کام کرنا ہے تو ہمیں پہلے اس سوچ کو بدلنا ہو گا جو انگریزی زبان کے حوالے سے ہمارا المیہ بن گئی ہے کہ انگریزی پڑھے گا تو باؤ بنے گا ورنہ نہیں۔
یہیں سے میری اگلی بات کو سمجھیں کہ اگر ہم سائنس میں مہارت پیدا کر کے ایجادات و اختراعات کی طرف اپنا رخ موڑیں تو اصطلاحات و رموز خود بخود ہماری زبان میں ڈھلنا شروع ہو جائیں گے۔ کیوں کہ ہم جتنی بھی زبانیں پڑھ لیں لیکن سوچیں گے اپنی زبان ہی میں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جب تک اپنی زبان پر عبور نہیں رکھیں گے تب تک کوئی دوسری زبان بھی ڈھنگ سے نہیں سیکھ سکیں گے۔
سائنس کسی جامد علم کا نام نہیں۔ یہ تجربات اور مشاہدات پر مبنی ایک نظام ہے جس میں تجربات کی بنیاد پر تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ ہم سائنسی مشاہدات و تجربات میں خود کو مشغول کریں تو دیکھیں گے کہ تبدیلیاں خود ہماری زبان کا خیر مقدم کریں گی۔

بالکل صحیح کہہ رہےہیں ساجد، انگریزی کو ان گنت طالب علم کے لیے المیہ بنا دیا گیا ہے۔ انگریزی کو علم کا معیار بنا لیا گیا ہے اور عالم اور انگریزی لازم و ملزوم قرار دے دیے گئے ہیں۔ ایک شخص جس کی انگریزی اچھی ہے اسے بلا تحقیق عالم مان لیا جاتا ہے چاہے وہ صرف انگریزی اچھی بولنے پر ہی قادر ہو اور علمی طور پر تہی دامن ہو۔ اس کے مقابلے میں کسی بھی علم میں حقیقی عالم اگر انگریزی میں کمزور ہے تو اسے جاہل تصور کر لیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ حکمران طبقہ کی زبان چونکہ انگریزی ہے تو انہیں قومی یا علاقائی زبانوں کی اہمیت کا بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا اور وہ صرف اپنے حوالے سے سوچتے ہیں نہ کہ تمام طبقات کی مشکلات کو پیش نظر۔

ساجد ، آپ کی اس بات سے کلی طور پر متفق ہوں جب تک اپنی زبان صحیح طور نہیں سیکھیں گے کوئی غیر زبان بھی اچھے طریقے سے نہیں سیکھ سکیں گے۔
 

ساجد

محفلین
بالکل صحیح کہہ رہےہیں ساجد، انگریزی کو ان گنت طالب علم کے لیے المیہ بنا دیا گیا ہے۔ انگریزی کو علم کا معیار بنا لیا گیا ہے اور عالم اور انگریزی لازم و ملزوم قرار دے دیے گئے ہیں۔ ایک شخص جس کی انگریزی اچھی ہے اسے بلا تحقیق عالم مان لیا جاتا ہے چاہے وہ صرف انگریزی اچھی بولنے پر ہی قادر ہو اور علمی طور پر تہی دامن ہو۔ اس کے مقابلے میں کسی بھی علم میں حقیقی عالم اگر انگریزی میں کمزور ہے تو اسے جاہل تصور کر لیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ حکمران طبقہ کی زبان چونکہ انگریزی ہے تو انہیں قومی یا علاقائی زبانوں کی اہمیت کا بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا اور وہ صرف اپنے حوالے سے سوچتے ہیں نہ کہ تمام طبقات کی مشکلات کو پیش نظر۔

ساجد ، آپ کی اس بات سے کلی طور پر متفق ہوں جب تک اپنی زبان صحیح طور نہیں سیکھیں گے کوئی غیر زبان بھی اچھے طریقے سے نہیں سیکھ سکیں گے۔
محب علوی ، اس بات کو تھوڑا وسیع پیمانے پر دیکھیں تو ہم نے علوم کو زبانوں سے نتھی کر کے خود کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اچھی انگریزی بولتا ہے تو اچھا مہندس اور اچھی عربی بولتا ہے تو اچھا عالم۔ حالانکہ مہارتوں کا تعلق فی نفسہ ان کے قواعد و ضوابط کو سمجھنے سے ہوتا ہے۔ یہی فکر ہمیں تعلیمی میدان میں پیچھے رکھ رہی ہے۔
 
میرے خیال میں جدید علوم کو اردو میں بھی پڑھایا جاسکتا ہے لیکن تکنیکی اصطلاحات کو مشرّف بہ اردو کئے بغیر۔۔۔اور اردو اس بات پر قطاّ برا نہیں منائے گی کیونکہ یہ تو ہے ہی زبانوں کا ایک لشکر۔۔لشکری زبان ہے چنانچہ اس میں انگلش اصطلاحات کی کھپت بھی بآسانی ہوسکتی ہے۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
بالکل صحیح کہہ رہے ہیں ساجد بھائی دو سو فیصد متفق۔ مگر اردو کو سائنس و ٹیکنولوجی کی زبان بنانے کا فائدہ کسی کو بھی نہیں ہے۔ تعلیم تو اردو میں ہی ہوتی ہے 90 فیصدی۔ اصطلاحات کا ترجمہ ظاہر ہے آپکی 99 فیصد نوجوان آبادی کو سمجھ ہی نہیں آئے گا تو پڑھائیں گے کسے؟

اور سائنسی فرہنگ پر پاکستان میں بہت کام ہوچکا۔ اردو سائنس بورڈ نمک کے برابر اپنا حصہ تو ڈالتا ہی رہا ہے۔ مگر بات وہی ہے۔ "کاربن ڈائی آکسائڈ" کا کیا ترجمہ بنے گا؟ اور محب بھائی نے ویری ایبل کا ترجمہ متغیر بتایا۔ صنعتوں میں ایک Variable Speed Drive ہوتی ہے، اسے متغیر رفتارڈرائیو کہیں گے تو کون سمجھے گا اور بولے گا بھی کون؟ ظاہر ہے اس ڈیوائس کے اوپر جب VFD درج ہے۔۔۔ یا تو آپ اپنے ملک میں مینوفیکچر کریں indigenously پھر آپ اسے کوئی بھی نام دیں وہ مقبول ضرور ہوگا۔۔۔

بنیادی نکتہ میرا یہی ہے۔ آپ کی زبان تب ہی رائج ہوسکے گی جب تحقیق آپ کی خانہ زاد ہوگی۔

جناب! کوئی بھی لفظ تبھی رائج ہو گا جب ہم اسے رواج دیں گے ۔۔۔ اگر ہم یہی سوچتے رہے کہ یہ لفظ مشکل اور نامانوس ہے ۔۔۔ کیسے چلے گا؟ تو یہ انتہائی غلط سوچ ہے ۔۔۔ انتہائی معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ کوئی بھی لفظ "نامانوس" نہیں ہوتا ہے ۔۔۔ وقت کے ساتھ ننانوے فیصد الفاظ رائج ہو ہی جاتے ہیں ۔۔۔ متبادل الفاظ اصل اصطلاحات کے ساتھ دیے جائیں اور ایک عرصہ تک یہ مشق کی جائے تو یقین جانیے کہ یہ لفظ رواج پا جائیں گے ۔۔۔ اور ایسا ہی ہوتا آیا ہے ۔۔۔ علوم و فنون کی منتقلی اسی طرح ہوتی ہے ۔۔۔ دوسری زبانوں میں ۔۔۔ تحقیق ایک دن میں تو "خانہ زاد" ہونے سے رہی پیارے بھیا! وقت تو لگتا ہے ناں!
 
اگر متبادل لفظ نامانوس ہو جیسا کہ آپ نے ابھی کہا ہے، تو پھر اس سے ثابت ہوا کہ وہ آپکی اپنی زبان کا نہیں۔۔۔تو عربی فارسی یا ہندی کا نامانوس لفظ لانے سے بہتر ہوگا کہ انگریزی کا ہی استعمال کرلیں۔۔۔یعنی قرع انبیق اور ضربِ چلیپائی جیسے الفاظ ایجاد کرنے کی بجائے اصل اصطلاح جوں کی توں ہی استعمال کرلیں تو اردو کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔۔۔البتہ پڑھنے والوں کو دہری مشقّت سے بچایا جاسکتا ہے
 
Top