اک لمحہ سفینے میں تو اک لمحہ لہر میں

آنے سے ترے ہے یہ اجالا مرے گھر میں
ورنہ تھا نہ کوئی بھی فرق شام و سحر میں

اے حسرتِ عافیتِ ساحل تو کہاں ہے
پھر ذوقِ طلاطم مجھے کھینچے ہے بھنور میں

منزل کی طلب ہے نہ خبر راہ گزر کی
یہ وحشتِ دل ہی سدا رکھتی ہے سفر میں

قابل ہی یہاں کون ہے اس تیرِ ستم کے
یا تیری نظر میں جچے یا میرے جگر میں

یوں نوکِ قلم کاتبِ قسمت سے چلی ہے
اک لمحہ سفینے میں تو اک لمحہ لہر میں

پھر آج نظر آئے سجے تختہ داراں
کچھ اہلِ وفا لگتا ہے باقی تھے شہر میں
 
Top