ابن انشا اک ذرا چاند تک،،،ابن انشا

علی فاروقی

محفلین
یہ امریکہ والے چاند پر کیا پہنچے ،ان کا دماغ ہی آسمان پر پہنچ گیا ہے،کوئ پوچھے کہ بھئ یہ کون سا کمال کیا تم نے جو اتنا اترا رہے ہو۔اتنے دور کی کوڑی لا رہے ہو۔یہ راکٹ اور قمری گاڑی کاکیا کھڑاگ ہے۔ان میں بیٹھ کر تو کوئ بھی چاند پر پہنچ سکتا ہے۔بات تب تھی کہ پیدل پاوں جاتے، پیدل نہ سہی،بیل گاڑی ، تانگے یا رتھ میں پہنچتے جیسے کہ پرانے زمانے کے بھارتی پہنچتے ہوں گے۔بھارتیوں کے آسمان میں تھگلی لگانے اور چاند پر جانے کا انکشاف بھارتی پروفیسر گوندانی نے کیا ہے۔کچھ ایسا ہی بھلا سا نام ہے ان کا۔ثبوت انہوں نے یہ دیا ہے کہ پرانوں اور شاستروں میں چندرلوک کا نام آیا ہے۔امریکی نالائق کہتے ہیں وہاں پر آبادی نہیں ہے۔حالانکہ وہاں کے باشندوں کا بھارت کے ہاں آنا جانا تھا ۔بنج بیوپار بھی ہوتا تھا ۔بنج بیوپار کی تفصیل پروفیسر گوندانی نے نہیں دی۔لیکن قیاس کہتا ہے کہ بھارت سے گائے کے گوبر کے اُپلے وہاں بھیجے جاتے ہوں گے۔کیونکہ اور کوئ قابلِ ذکر چیز ان دنوں بھارت میں پیدا نہیں ہوتی تھی۔وہاں سے اس کے بدلے کیا آتاہوگا، اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اب وہاں کچھ بھی نہیں رہا۔ریت اور پتھر ہیں۔تجارتی تعلقات کچھ دن اور رہتے تو یہ بھی باقی نہ رہے ہوتے،بھارت کی سڑکوں پر بچھے نظر آتے۔
موجودہ زمانے میں چاند کے سلسلے میں ریسرچ کا سہر امریکہ یا روس کے سر نہیں ہے۔اس سلسلے میں پاکستان فخر کے ساتھ یہ دعوی کر سکتا ہےکہ سب سے پہلے ریسرچ کا ادارہ "رویتِ حلال کمیٹی " یہاں بنی،اور چاند کی طرف اُڑان کا آغاز یہاں سے ہوا۔اس کمیٹی کے اراکین ضروری سمجھتے تو چاند پر اتر بھی سکتے تھے۔کیونکہ کوئ بیس ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ ہی گئے تھے۔آگے فقط دو ڈھائ لاکھ میل کی مسافت رہ جاتی ہے۔ لیکن پیچ یہ آن پڑا کہ یہ لوگ افطاری کا سامان ساتھ لے کر نہ گئے تھے،واپس آکر روزہ بھی کھولناتھا۔ہم لوگ اس قسم کی ریسرچ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے جس میں جاں جوکھوں میں پڑتی ہو۔ اس لیے جیسا کہ ایٹمی کمیشن والے ڈاکٹر عثمانی صاحب نے حوالہ دیا ہے۔کوکاکولا پر ریسرچ کرنا یا مصنوعی سنگِ مر مر بنانا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔یہاں ہم عثمانی صاحب سےاختلاف کریں گے۔ہمارے لوگ سائنس اور ایجادات کے میدان میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔افسوس یہ ہے کہ ان کی حوصلہ افزائ نہیں ہوتی ۔ ابھی کل ہی ہم مفید عالم جنتری کا مطالعہ کر رہے تھے۔معلوم ہوا کہ بیسویں صدی کی سب سے حیرت انگیز ایجاد کا سہر بھی ایک پاکستانی مردِ درویش کے سر ہے۔ یہ ایک طلسمی انگوٹھی ہے۔جسے آپ ساڑھے تین روپے{مع محصول ڈ اک خرچ} میں میاں عامل شاہ جلالی نزد ڈینسوہال کراچی سے طلب فرما سکتے ہیں۔اس کی خوبیاں کیا رقم کریں۔اشتہار میں لکھا ہے کہ اس کو پہنتے ہی " آپ کی غریبی دور ہو جائے گی۔دولت آپ کے قدم چومے گی۔محبوبہ آپ کے قدموں میں آن گرے گی۔آپ کے ہاں{آپ چاہیں یا نہ چاہیں}اولادِ نرینہ ہوگی،دنیا آپ کی عزت کرے گی،طالبعلموں کو امتحان میں کامیابی ہوگی،آپ مقدمہ جیت جائیں گے،چوری کی ہوئ چیز واپس مل جائے گی۔وغیرہ، اب ہمیں دکھا دیجیے، روس اور امریکہ کی کوئ ایسی ایجاد جو ان سب کرامتوں پر حاوی ہو۔اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس پر قوم کو ہزاروں ملین ڈالر خرچ نہیں کرنا پڑے۔میا ں عامل شاہ جلالی نے خود ہی تیا ر کر لی ہے۔ساڑھے تین روپے{مع محصول ڈاک} میں منگا کر پہنیے اور چاند کو اشارہ کیجیے وہ خود اُڑا آئے گا۔آپ کو اس کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ، پھر جی بھر کے ریسرچ کر لیجیے اس پر۔
بہت دنوں سے لوگوں نے چاند پر جانے کے لیے ابھی سے سیٹیں بُک کرالی ہیں۔مشکل یہ ہے کہ وہاں ابھی تک ہوٹل نہیں بنے ہیں۔جانے والوں کو قیام وطعام کا انتظام خود کرنا ہوگا اور بستر ہمراہ لے جانا ہوگا۔آل چاند ٹورسٹ بیورو رفتہ رفتہ سارے انتظامات خود کر دے گا۔فی الحال تو اس نے یہ اشتہار دیا ہے کہ "چاند" پر آئیے اور اس کے گڑھوں میں لوٹ لگائیے۔عوام کی ضروریا ت کا خیال رکھتے ہوئے اٹلی کے شہر پادیا کی مونسپلٹی کو وہاں کے ایک کنجڑے نے درخواست دی تھی کہ مجھے چاند پر سبزی کی دکان کھولنے کا لائسنس دیا جائے۔اس شخص نے ایک مقامی اخبار میں اشتہار بھی دیا تھا "خوشخبری خوشخبری، چاند پر رہنے والوں کو مژدہ ہو کہ ہم نے چاند پر تازہ سبزیوں کا انتظام کر دیا ہے۔بھنڈی، کریلا،شلجم، ٹنڈے،شکر قندی جس چیز کی ضرورت ہو، یاد فرمائیں۔دام مناسب دھنیا مفت، ادھار قطعی بند ہے۔
اس اشتہارسے بڑی غلط فہمی پھیلی تھی۔لوگ سمجھے کہ چاند پادیا شہر کی میونسپلٹی کی حدود میں آتا ہے۔یہ تک سنا تھا کہ جب روس کا پہلا راکٹ چاند کی حدود میں داخل ہواا توپادیا کے محرر چنگی نے روک کر تلاشی لی کہ اس میں گھی کا ٹین یا شکرکا بور ا تو چھپا ہوا نہیں ہے۔اس کے بعد آگے جانے دیا۔یہی وجہ اس راکٹ کے نشانہ خطا ہونے کی بھی بتائی گئ ہے۔بعد ازاں معلوم ہو کہ خبر مبالغے سے خالی نہیں ہے۔
آمد ورفت کُھلے گی تو دوسرے اہلِ حرفہ بھی ادھر توجہ دیں گے۔کراچی کے کنجڑے ، کباب مرچنٹ،مرغ چھولے والے، عامل کامل، ناگفتہ بہ بیماریوں کا علاج کرنے والے۔ پنجاب کے گھی فروش، شادی دفتروں والے، ہومیو پیتھ، انجن ساز وغیرہ اُدھر کا رُخ کریں گے۔ اسلام سلمانی صاحب وہاں بھی پہلی باربر شاپ کا افتتاح کریں گے۔رفتہ رفتہ باٹا کی دکان، منشی فاضل کی تعلیمات کا اسکول، چھ مہینے میں گارنٹی سے پاس کروانے والے کالج،خوجہ جماعت خانہ اور بانٹوا مسلم ایسوی ایشن کی طرف سے یتیم خانہ کھلنے کی خبریں بھی آئیں گی۔ ایمپریس مارکیٹ سے بسیں چلا کریں گی۔چلو بھائی چاند کی سواریاں۔ کراچی ٹرام وے نے ٹرام بند کرنے کا فیصلہ ملتوی کردی ہے۔ان کا منصوبہ ہے کہ سولجر بازار سے آگے پٹڑی ڈال کر چاند تک ملا دیا جائے۔ٹکٹ وہی آٹھ پیسے رہے گا۔چاند پر آدمی جائیں گے تو کتے بھی جائیں گے۔ ان کی آسانی کے کیے جا بہ جا کھمبے بھی کھڑے کرنے پڑیں گے تاکہ انہیں اپنے حوائج میں تکلیف نہ ہو، کھمبے گاڑنے کے بہانے کراچی الیکٹرک سٹی سپلائی کارپوریشن بھی پہنچ جائے گی، وہ گئے تو کے-ڈی-اے اور سوئ گیس والوں کو بھی بلائیں گے کہ یارو چاند عجب سپاٹ ہموار میدان ہے۔خط کو تا ر سمجھو اور اپنے بیلداروں کو لے کر پہنچو۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ جب ہم چاند پر جانے کا ارادہ کریں گےتو وہاں بورڈ لگا ہوگا۔ "واپس جائیے، سڑک برائے مرمت بند ہے"

 
Top