اک تواتر سے دل پہ غم گزرے -- برائے اصلاح

اساتذہء کِرام
محترم جناب الف عین صاحب
محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب

دیگر اسا تذہ اور احباب محفل :

ایک غزل اصلاح کی درخواست کے ساتھ پیش ہے

اک تواتر سے دل پہ غم گزرے
فاعلاتن مفاعلن فعلن
بحر مسدس سالم مخبون محذوف‎


===============
اک تواتر سے دل پہ غم گزرے
اشک، مژگاں کو کرتے نم گزرے

دل کو نسبت تھی تیرے دل سے یوں
رنج تجھ کو تھا دکھ سے ہم گزرے

مبتلا، شوقِ راہِ منزل، ہم
دشتِ ویراں سے ہر قدم گزرے

کچھ، مسافر کے بھیس میں، رہزن
دور بس دل سے دو قدم گزرے

مجھ کو آتے تھے سب جواب مگر
کچھ سوالات پر الم گزرے

حاشیہ پر جو داستاں تھی اسے
کاٹ کر ہم بہ یک قلم گزرے

ظلمتِ شب کو چیرتے کاشف
جھلملاتے ہوئے نجم گزرے
=================
ممنون فرمائیں ۔۔
 

فرحان عباس

محفلین
اﮎ ﺗﻮﺍﺗﺮ ﺳﮯ ﺩﻝ ﭘﮧ ﻏﻢ ﮔﺰﺭﮮ
ﺍﺷﮏ، ﻣﮋﮔﺎﮞ ﮐﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﻧﻢ
ﮔﺰﺭﮮ
(اشک تو مژگاں کو تر کرتے ہی ہیں اس میں بتانے کی کیا بات؟)

ﺩﻝ ﮐﻮ ﻧﺴﺒﺖ ﺗﮭﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺩﻝ
ﺳﮯ ﯾﻮﮞ
ﺭﻧﺞ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺗﮭﺎ ﺩﮐﮫ ﺳﮯ ﮨﻢ
ﮔﺰﺭﮮ(اچھا شعر ہے)

ﻣﺒﺘﻼ، ﺷﻮﻕِ ﺭﺍﮦِ ﻣﻨﺰﻝ، ﮨﻢ
ﺩﺷﺖِ ﻭﯾﺮﺍﮞ ﺳﮯ ﮨﺮ ﻗﺪﻡ ﮔﺰﺭﮮ(شعر اچھا ہے مگر ایک دم سمجھ نہیں آتا)

ﮐﭽﮫ، ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮐﮯ ﺑﮭﯿﺲ ﻣﯿﮟ،
ﺭﮨﺰﻥ
ﺩﻭﺭ ﺑﺲ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺩﻭ ﻗﺪﻡ
ﮔﺰﺭﮮ(مضمون سمجھ نہیں آیا کہ شاعر کہنا کیا چاہ رہا ہے)
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺳﺐ ﺟﻮﺍﺏ
ﻣﮕﺮ
ﮐﭽﮫ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﭘﺮ ﺍﻟﻢ ﮔﺰﺭﮮ(خوبصورت شعر نہایت صاف اور آسان الفاظ)
 

الف عین

لائبریرین
لیکن میں تو کہوں گا۔۔۔۔۔۔۔
مبتلا، شوقِ راہِ منزل، ہم
دشتِ ویراں سے ہر قدم گزرے
۔۔واضح نہیں

کچھ، مسافر کے بھیس میں، رہزن
دور بس دل سے دو قدم گزرے
÷رواں نہیں، اسلئے بھی کہ ’دور‘اور ’قدم‘ کے درمیان زیادہ فصل ہو گیا ہے۔

ظلمتِ شب کو چیرتے کاشف
جھلملاتے ہوئے نجم گزرے
÷÷نجم کا تلفظ؟؟
 
لیکن میں تو کہوں گا۔۔۔۔۔۔۔
مبتلا، شوقِ راہِ منزل، ہم
دشتِ ویراں سے ہر قدم گزرے

۔۔واضح نہیں

کچھ، مسافر کے بھیس میں، رہزن
دور بس دل سے دو قدم گزرے

÷رواں نہیں، اسلئے بھی کہ ’دور‘اور ’قدم‘ کے درمیان زیادہ فصل ہو گیا ہے۔

ظلمتِ شب کو چیرتے کاشف
جھلملاتے ہوئے نجم گزرے

÷÷نجم کا تلفظ؟؟

جزاک اللہ سر ۔۔
میں دوبارہ کوشش کرتا ہوں ۔۔ انشا اللہ اصلاح کے بعد جلد حاضر ہوتا ہوں۔۔
 
استاد محترم ۔۔
مجھ کو جن کی تلاش تھی وہ بھی
پاس بس دل سے دو قدم گزرے

شوق سے ہم، رواں رہِ منزل
دشتِ ویراں سے ہر قدم گزرے

ظلمتِ شب کو چیرتے کاشف
نجمِ ثاقب کی طرح ہم گزرے


اب کچھ بہتر ہوا ۔۔ سر ؟
 

الف عین

لائبریرین
باقی دونوں اشعار تو بہتر ہو گئے ہیں، لیکن دو قدم والا اب بھی نہیں جم رہا۔ یہاں پاس نہیں دور ہونا چاہئے، لیکن تب بھی ’بس‘ گڑبڑ کرتا ہے۔ (ابھی دوبارہ دیکھا تو تم نے محض دور کو پاس میں بدل دیا ہے۔ یوں دیکھو تو
دور وہ دل سے دو قدم گذرے
 
مجھ کو جن کی تلاش تھی وہ بھی
پاس بس دل سے دو قدم گزرے
اس شعر کا مطمع کیا ہے؟ دل سے گزرنا یا دل کے پاس سے گزرنا، اس کا تلاش سے کیا تعلق ہے۔ بات دل کی ہو تو تلاش کا مطمع وصل ہوتا ہے۔ اور جس کی تلاش ہوتی ہے وہ تو دل میں تو پہلے سے بسا ہوتا ہے۔ یہ گزرنا کیا ہوا؟
ہاں ایک کیفیت ہوتی ہے جو دل پر گزرتی ہے، وہ اس شعر کا مطمع ہے ہی نہیں، سو خارج از بحث ٹھہری۔
 
شوق سے ہم، رواں رہِ منزل
دشتِ ویراں سے ہر قدم گزرے

رہِ منزل دشتِ ویراں سے گزرتی ہے یا ہم گزر رہے ہیں؟ اس نکتے پر اشکال ہوتا ہے۔ مضمون کو کوئی رُخ دینا ہو گا؛ مثال کے طور پر:
ہم شوق کی قوت سے منزل میں آنے والے ہر دشت سے گزر گئے۔ وغیرہ
دشت تو ہوتا ہی ویران ہے، دشتِ ویراں کیا تکلفِ محض نہیں؟ اس کی کوئی اور خاصیت بیان کیجئے، پرخار ہے؟ جل رہا ہے؟ پاؤں کو کاٹتا ہے؟ ۔۔ ۔۔ ۔۔
پہلے مصرعے میں الفاظ کی نشست و برخاست مسئلہ پیدا کر رہی ہے۔

بارے پھر یاد دلا دوں کہ لفظ کے بدلے لفظ لانا ضروری نہیں کہ شعر کو بہتر کر دے، کبھی ترتیب بدلتے ہیں، کبھی مصرع ہی بدل دیتے ہیں اور کبھی شعر ہی جاتا رہتا ہے یا کلی طور پر بدل جاتا ہے۔
 
اک تواتر سے دل پہ غم گزرے
اشک، مژگاں کو کرتے نم گزرے


دل کو نسبت تھی تیرے دل سے یوں
رنج تجھ کو تھا دکھ سے ہم گزرے

1۔ وہ کیفیت والی بات جو میں نے کہی تھی وہ مطلع میں ہے، یہ الگ بات کہ کمزور ہے۔ "اک تواتر سے" یہ تو ہوان بیانِ محض! اگر یہاں "اس تواتر سے" ہو تو انشائیہ بنتا ہے اور وہ تقاضا کرے گا کہ دوسرے مصرعے میں صرف پلکوں کا بھیگنا کافی نہیں۔ آنکھوں کے ساتھ سوچیں بھی بھیگ جائیں تو "اس تواتر سے" کا حق ادا ہو سکتا ہے۔ شعر میں ایک احساس منتقل کرنا ہوتا ہے، محض خبر دینا مقصود نہیں ہوتا۔
ایک مثال عام بیانیہ سے لیجئے کہ "ایک عورت فوت ہو گئی" یہ خبر ہے، اور اگر اسی کو کہیں "ایک ماں مر گئی!" تو یہ انشائیہ ہے۔ کچھ ایسا ہی فرق شعر اور خبر میں ہونا چاہئے۔
 
دل کو نسبت تھی تیرے دل سے یوں
رنج تجھ کو تھا دکھ سے ہم گزرے

یہ مضمون یہاں کئی طرح سے متاثر ہو رہا ہے۔ نسبت تھی؟ اب نہیں رہی؟ دوسرا مصرع بھی کم از کم میری تشفی نہیں کر رہا۔ یا تو کچھ ایسا ہو نا، کسی کا مصرع ہے:
کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے
تب مزہ ہو نا، نسبت کا!
 
بیچ میں کچھ شعروں پر جناب الف عین بات کر چکے۔ اس شعر کو دیکھتے ہیں:

مجھ کو آتے تھے سب جواب مگر
کچھ سوالات پر الم گزرے
یہاں میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا ہے کہ مذکورہ سوالات پُر الم تھے یا الم انگیز تھے۔ شاعر کے ذہن میں شاید الم انگیز ہی رہا ہو، مگر قافیے نے ساتھ نہیں دیا۔ واللہ اعلم!
کچھ سوال ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا پوچھ لیا جانا ہی جواب دینے والے کو کیفیت الم میں لے جاتا ہے۔
 
حاشیہ پر جو داستاں تھی اسے
کاٹ کر ہم بہ یک قلم گزرے

حاشیہ اور نفسِ مضمون یا اصلی متن۔ حاشیہ تو ہوتا ہی وہ ہے جو داستان کا حصہ نہیں ہوتا، اس پر کوئی توضیحات دینا مقصود ہوتا ہے جسے حاشیے میں لکھتے ہیں اور کہتے بھی حاشیہ ہیں۔
(جمع: حواشی)
حاشیے کو کاٹ دیا تو عملاً کچھ بھی نہیں کاٹا۔ لفظیات کی صحت دیکھ لیجئے گا؛ بہ یک جنبشِ قلم معروف ہے، بہ یک قلم میرے علم میں نہیں۔
 
اتنی کڑی تنقید! ہے نا ۔۔ جی، بالکل ہے! اور وہ اس لئے کہ ۔۔
شعر اور کلامِ منظوم دو الگ الگ چیزیں ہیں، یہ بات پہلے بھی بہت بار بیان ہو چکی۔ رہی بات معیار فنیات اور چابک دستی کی تو غنی کاشمیری کا یہ شعر دیکھئے:
غنی! روزِ سیاہِ پیرِ کنعان را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را
غنی (تخلص)
 
غنی! روزِ سیاہِ پیرِ کنعان را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را
(غنی کاشمیری)
اس کی فنیات، معانی آفرینی اور تلمیحات کے علاوہ اس میں شاعر نے کتنے ہی حربے استعمال کر ڈالے۔ رعایات یا مراعات النظیر (آپ جو نام بھی دینا چاہیں، فی زمانہ علامات بھی کہہ دیتے ہیں) بہت قابلِ توجہ ہیں۔
روزِ سیاہ (کالا دِن) حرماں نصیبی، شدید دکھ کا عالم
تماشا ۔۔ یہ دیکھنا سے مختلف عمل ہے
پیرِ کنعان (کنعان کا بوڑھا) تلمیح ہے حضرت یعقوب علیہ السلام کی طرف۔
گریہء یعقوب بہت معروف علامت ہے۔ آپ اپنے بیٹے کے غم میں اتنا روئے اتنا روئے کہ آنکھیں جاتی رہیں۔ ایک بینا شخص کے لئے تو رات اندھیری ہوتی ہے نابینا کے لئے تو دن بھی ویسا ہوتا ہے بلکہ رات بھی تاریک تر ہوتی ہے۔ روزِ سیاہ کی لفظی رعایت دوسرے مصرعے میں جا کر کھلتی ہے۔ معانی تو ہو گئے: حرمان نصیبی
نورِ چشم بہت معروف ترکیب ہے (شادی کارڈوں میں بہت مقبول) آنکھوں کا نور؛ یہی نورِ دیدہ اش ہے (اس کی آنکھوں کا نور) مراد ہے بیٹا: حضرت یوسف علیہ السلام
آنکھین روشن کرنا (محبوب ہونا، خوشی کا باعث ہونا، سرور و سرخوشی دینا) چشمِ زلیخا را روشن کند: زلیخا کی آنکھوں کو روشن کرتا ہے ۔ یہاں روزِ سیاہ کی لفظی رعایت دیکھنے کی ہے۔

 
اس شعر میں محاورے کا استعمال، تلمیح، ایک لفظ نور کے مختلف پہلو، لفظ تماشا کی اہمیت اور ان پر طرہ ہے شاعر کے تخلص (یا نام کی نشست) اور اس کی معنوی رعایت:
غنی (بے پروا)۔

ایسے شعروں کی مثال دینے کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ مجھے یا آپ کو لازماً ان سے آگے نکلنا ہے۔ ہمیں ایسے اشعار کو نمونہ یا کہہ لیجئے قطبی ستارہ بنانا ہے اور ان کو دیکھ دیکھ کر اپنے شعری سفر کے لئے راستے کا تعین کرنا ہے۔ مقصود سیکھنا ہے اور سیکھنے کا عمدہ طریقہ میرے نزدیک یہ ہے کہ ایک عمدہ شعر سامنے رکھ کر اس کا اپنی استطاعت کے مطابق ہمہ جہتی مطالعہ کیا جائے۔

خوش رہئے گا۔ اور ہاں ننھے بچوں کی باتوں کا برا نہیں مانتے! آپ سمجھ رہے ہیں نا؟ ۔۔ :bee:
:rose: :clock: :coffeecup:
 
Top