اک بیل ہے جو لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ - ایک خاکہ

اک بیل ہے جو لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ



کچھ رشتے بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ ایسے موڑ پر استوار ہوتے ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ ایسی ہی ایک یاد میرے دل میں قائم دائم ہے کہ مجھے ابھی تک یقین نہیں آتا کہ میں اپنے تایا ابو کے اتنے قریب آجاؤں گا کہ اتنی قربت تو میرے والد کو بھی حاصل نہیں تھی۔ بہت عرصہ ہوا جب دل میں یہ خیال آیا کہ ان یادوں اور باتوں کو ایک تحریر کی شکل دے دوں مگر کچھ عشق کیا کچھ کام کیا۔ تو ذکر تھا ایک ایسے عجیب رشتے کا جو ابھی تک میرے ذہن میں اک ایسی شکل کی صورت میں موجود ہے جس میں ایک محنت مزدوری کرنے والا شخص، اپنے بچوں کے حال اور مستقبل کے لیئے متردد باپ، اپنی والدہ کے لیئے پریشان بیٹا، اپنے بھائی کے لئے سراپا شفقت بھائی اور میرے لیئے ایک عہد کی داستان اور جدوجہد سے معمور زندگی۔

میرے تایا ابو چوہدری محمد حسین، ۱۹۴۱ء میں ضلع ہوشیار پور مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ بھائیوں میں ان کا نمبر دوسرا تھا۔ نہایت کم عمری میں اپنے والدین کے ساتھ پاکستان ہجرت کی۔ میرے دادا مرحوم ٹھیکے داری کیا کرتے تھے۔ گھر کے حالات بھی بس ایسے ویسے ہی تھے۔ میرے دادا کے پانچ بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں۔ اپنے والدین کا سہارا بننے کے لیئے تایا محمد حسین نے اپنی عمر دو سال زیادہ لکھوائی اور ٹیلیفون کے محکمے میں ایک ہیلپر کے طور پر ملازمت کرلی۔ اسی محکمے سے بحیثیت لائن سپر ٹنڈنٹ ۱۹۹۹ء میں ریٹائر ہوئے۔ ساری عمر انہوں نے نہایت دیانت داری ، خوش خلقی اور محنت سے نیک نامی کمائی۔

ہمارے معاشرے میں ایک عام آدمی کتنی مشکل سے زندگی بسر کرتا ہے اس کو سوچ کر ہی جھرجھری آجاتی ہے۔ سب سے پہلے تو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال کریں ، ان کی دیکھ بھال کریں، پھر اپنی شادی ہوجائے تو بیوی بچے اور والدین۔ یہ سطور لکھنی جتنی آسان ہیں ان مراحل سے گزرنا اتنا ہی مشکل ہے۔ بقول شاعر

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

آج اپنے بہن بھائیوں کی شادی کرنی ہے تو کبھی گھر کے کرائے اور بجلی کے بل۔ پھر بچوں کی فیسیں اور کوئی اور خرچہ۔ یہ مقامات آہ و فغاں گزر جائیں تو پھر اپنے گھر کے لیئے کوشش۔ ان تمام چیزوں میں صرف ایک اپنی ذات ہی نظر انداز ہو جاتی ہے ۔ ایسی ہی صورت حال کے بارے میں جمال احسانی فرماتے ہیں

بہت دوسروں کو بہم آیا میں
مگر اپنے حصے میں کم آیا میں

تو میرے تایا ابو کی زندگی بھی اسی جہد سے عبارت ہے۔ ساری عمر پہلے اپنے والدین کا سہارا بنے اور پھر اپنے بہن بھائیوں کی ذمہ داری اٹھائی اور پھر اپنے بیوی بچوں میں مصروف۔ بچے بڑے ہوئے تو ان کی ملازمت اور پھر شادیوں کے لیئے متردد رہتے۔ اللہ تبارک تعالٰی نے انہیں تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کی نعمت سے سرفراز کیا۔ ان کی ایک بیٹی نوجوانی میں ہی انتقال کر گئیں۔ آج ان کی دو بیٹیاں اور بیٹا اپنے اپنے گھر میں خوش باش زندگی گزار رہے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان پر خوشیاں نچھاور کریں اور میرے تایا ابو کی نشانیوں کو قائم دائم رکھے۔

تایا محمد حسین نے نہایت کم عمری میں والدین کا ہاتھ بٹانا شروع کیا۔ اپنی بہنوں اور بھائیوں کی تعلیم اور شادیوں میں مقدور بھر ہاتھ بٹایا۔ پھر اپنی شادی ہوگئی اور اس کے بعد وہی سب کچھ جو ایک آدمی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ انہوں نے بساط بھر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور انہیں ہر ممکن آسائش پہنچائی۔ اللہ کے فضل سے انہوں نے ملتان کے مضافات میں اپنا گھر بھی بنالیا۔ ہر جدید سہولت سے آراستہ یہ گھر آج بھی ان کی ان تھک محنت ، اپنے بیوی بچوں کے لیئے ان کی محبت اور ان کی مضبوط شخصیت کی علامت ہے۔ مگر ان کے بغیر یہ گھر سونا اور ویران دکھائی دیتا ہے۔ میں مہینے میں ایک بار اس گھر میں قیام کرتا تھا۔ اپنے سے عمر میں کافی بڑے بھائی سے میری بہت دوستی ہے۔ ہم پہلے کسی اچھے سے ریستوران میں کھانا کھاتے، کتابوں پر بحث کرتے اور کوئی اچھی سی فلم دیکھتے۔ میرا یہ معمول میری شادی کے بعد بھی جاری رہا۔ گو اب میں اپنی ملازمت کی وجہ سے کافی عرصے سے شہر سے باہر ہوں مگر

دل کی مٹھی میں ہے اس لمحے کا جگنو آج بھی

تایا ابو ایک بہت ہی محنتی انسان تھے۔ ان کی ساری عمر مشقت اور محنت کی ایک انوکھی داستان تھی۔ اپنی واحد نرینہ اولاد کو انہوں نے بالکل نئے ماڈل کی موٹر سائیکل لے کر دی مگر خود ساری عمر سائیکل کی سواری کی۔ ہمارے گھر سے ان کے گھر کا فاصلہ کم وبیش ۳۰ کلومیٹر ہو گا۔ گرمیاں ہوں یا سردیاں وہ ہمارے گھر اپنی سائیکل پر ہی آیا کرتے تھے۔ میرے والد ان کے سب سے چھوٹے بھائی تھے ۔ لہذا ان کے ساتھ ان کا رویہ اپنی اولاد جیسا ہی تھا۔ ہمارے خاندان میں انہیں ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ پورے خاندان کے بزرگ کی حیثیت سے تمام خاندان ان کے مشورے کو مقدم جانتا تھا۔ میرے والدین ان کا اتنا احترام کرتے تھے کہ میرے رشتے کے بارے میں خاندان والوں کو میرے والد نے نہیں بلکہ میرے تایا ابو نے بتایا۔ جب تک وہ حیات تھے ان کی شخصیت کا جادو ہر بچے کے لیئے ایک مثال تھا۔ وہ بھی خاندان کے سبھی بچوں پر جان چھڑکتے تھے۔

پاکستان میں اوسطا ہر شخص بلند افشار خون یا زیابیطس کا مریض ہے۔ موخر الذکر بیماری صرف میٹھا زیادہ کھانے سے نہیں ہوتے بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ ذہنی تناؤ المعروف TENSION ہے۔ ایک عام آدمی جس چکی سے گزرتا ہے اس کے بعد اس کے مقدر میں یہی بیماریاں ہی رہ جاتی ہیں۔ میرے تایا ابو بلند فشار خون اور پھر زیابیطس کے مریض بن گئے۔ زیابیطس ایسی بیماری انسانی جسم کو گھن کی طرح کھا جاتی ہے۔ خاموشی سے کبھی گردے کھا گئی یا سیدھا دل پہ وار کیا۔ تا یا ابو ۱۹۹۹ء میں ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنی ایک بیٹی کی شادی کردی۔ ابھی ان کی دوسری بیٹی اور اکلوتے بیٹے کی شادی ہونا باقی تھی کہ ۲۰۰۱ء کے اواخر میں انہیں ہسپتال داخل کر دیا گیا۔ وجہ، زیابیطس کی وجہ سے ان کو دل کا مرض بھی لاحق ہو گیا تھا۔ زیابیطس کی وجہ سے انہیں دل میں تکلیف تو کچھ خاص محسوس نہیں ہوتی تھی مگر سانس لینے میں دشواری ہوتی تھی۔ میرے تایا زاد بھائی خود بھی ناسازی طبع کی وجہ سے ان کے ساتھ نہیں رہ سکتے تھے۔ تائی امی اور تایا زاد بہن کا ہسپتال میں رہنا ویسے ہی نا مناسب تھا۔ لہذا یہ ذمہ داری میرے کندھوں پر آن پڑی اور میں مغرب کے بعد ہسپتال میں ان کے ساتھ بحیثیت تیمار دار رات بسر کرتا۔ ان کی اس بیماری نے ہمارے درمیان ایک ایسا رشتہ قائم کیا جیسے ہم دونوں ایک ہی عمر کے ہوں۔ انہوں نے اپنے بچپن کی ، میرے ابو کے بچپن کی اور اپنے بچوں کے بچپن کی ایسی باتیں میرے ساتھ کیں جو شاید مجھے کبھی پتہ ہی نہ چلتیں۔ اس تیمار داری سے پہلے اگرچہ وہ میرے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتے تھے مگر ان راتوں میں جن میں ہم دونوں دیر تک باتیں کرتے گویا ہماری دوستی کروادی۔

ایک ۶۲ سالہ بوڑھا اور ایک ۲۱ برس کا نوجوان۔ دونوں میں عمروں کا اتنا تفاوت مگر میرے تایا ابو گویا اسی انتظار میں تھے کہ وہ میرے ساتھ وہ سب باتیں کر سکیں جو شاید وہ ایک عرصہ تک کسی سے نہ کر سکے تھے۔ انہیں سے مجھے پتہ چلا کہ انہوں نے اپنی ملازمت ایک ہیلپر کے طور پر شروع کی، ان کا کام کھمبے پر چڑھے اہلکار کو بانس یا اوزار وغیرہ دینا ہوتا تھا۔ قریبا تین برس بعد وہ لائن مین بن گئے ۔ اسی طرح آہستہ آہستہ وہ سپروائزر بن گئے۔ ملازمت کے دوران سب کا رویہ ان کے ساتھ بہت اچھا تھا اور وہ انتہائی سکون کے ساتھ اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ اپنے بچپن کی اک اہم یاد جو انہوں نے مجھے بتلائی وہ میرے ابو کے ساتھ ان کی محبت تھی۔ میرے والد جب بہت چھوٹے تھے تو سب سے زیادہ انہیں میرے تایا ابو اٹھایا کرتے تھے۔ نہ صرف اٹھانا بلکہ باہر کی سیر بھی کروانا۔ کبھی کبھار وہ ان کو اٹھا کر چھت پر لے جاتے وہاں وہ میرے والد کو لٹا کر خود پتنگ اڑانے میں مصروف ہو جاتے۔ جب میرے والد نے رونا تو انہیں پتنگ اڑاتے اڑاتے ہی چپ کروانے کی کوشش ۔ اس طرح اپنے بچوں کا بچپن۔ کتنی ہی یادیں تھیں جو ان راتوں میں تازہ ہوتی تھیں۔ میں درمیان میں کوئی سوال کر دیتا تو اس کا جواب دیتے اور پھر اپنی دھیمی اور شفیق آواز میں پھر کوئی یاد تازہ کردیتے۔ کیسے انہیں اپنے بچوں کے سکول کے واقعات یاد تھے ۔ میرے خیال میں تو یہ باتیں تو شاید ان کے بچوں کو بھی نہیں پتہ تھیں۔

مجھے وہ رات آج بھی یاد ہے جس رات ان کی طبیعت اتنی زیادہ خراب ہوئی کہ اگلی دوپہر وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اس شام کو پہلے میں اپنے والد کے ساتھ ان سے ملنے آیا تو انہوں نے وہی بات دوبارہ دہرائی کہ لیاقت تو میرا پتر ہے۔ تائی اماں بھی موجود تھیں۔ میں اپنے والد کو گھر چھوڑ کر دوبارہ ہسپتال پہنچ گیا۔ اس رات میری ایک پھپھو بھی ملنے آئیں۔ اس رات وہ اپنے بچوں کے لیئے بہت متردد تھے خاص طور پر اپنے بیٹے کی بیماری کی وجہ سے۔ وہ یہ بات بار بار دہراتے تھے کہ اس کی بیماری مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ باپ ہوں نا۔ میرے دل کو کچھ ہوتا ہے۔ میں انہیں کہتا کہ آپ زیادہ نہ سوچا کریں وہ جواب دیتے یار فیصل اس چیز پر میرا بس نہیں۔ اس رات وہ آئی سی یو میں تھے ۔ رات دوبجے انہیں پیشاب کی حاجت ہوئی۔ وہ بستر کے ایک طرف سے اٹھنے لگے تو اس طرف گر گئے۔ میں فورا ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کو بلا لایا ۔ انہوں نے اپنی کارروائی شروع کر دی۔ صبح تقریبا چھ بجے ان کی حالت تھوڑی بہتر ہوئی ۔ میں ان کے پاس آیا تو وہ بولے یار فیصل میں گیا۔ میں نے کہا نہیں تایا ابو انشاء اللہ آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔ بس یہ آخری بات تھی جو میں نے ان سے کی۔ اس کے بعد ان کی طبیعت ایک بار پھر بگڑ گئی۔ صبح صبح باقی رشتہ دار بھی اکٹھے ہو گئے اور تقریبا دوپہر دو بجے ان کا انتقال ہو گیا۔ انااللہ و انا الیہ راجعون۔

ان کی وفا ت جہاں خاندان کے دیگر افراد بشمول میرے والد کے ایک بہت بڑا صدمہ تھا وہیں میرے لیئے تو ایک ایساواقعہ تھا کہ جس میں میں ہل کر رہ گیا۔ انہوں نے میری آنکھوں کے سامنے دم توڑ دیا۔ میرے تایا ابو، میرے دوست، اب کون مجھ سے اپنے بچپن اور میرے والد کے بچپن کی باتیں کرے گا۔ کون مجھے میرے تایازاد بھائی کے بچپن کی بات بتائے گا۔ کیسے ایک عام شخص کن حالات سے گزر کر اس دنیا سے کیسے حالات میں رخصت ہوا۔ ساری زندگی کس طرح مشقت سے بسر کی اور آخر میں اپنے بچوں کے لئے مشوش اس دنیا سے چلے گئے۔ان کو گئے تیرہ برس ہو گئے مگر آج بھی اکثر راتوں کو ان کا شفیق اور پر وقار چہرہ آنکھوں میں آتا ہے اور ان کی دھیمی آواز اور آہستہ آہستہ بولنے کا انداز ۔ ان کی وہ تمام باتیں ذہن میں اس طرح گھومتی ہیں کہ

اک یاد ہے کو دامن دل چھوڑتی نہیں
اک بیل ہے جو لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ

اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے درجات مزید بلند فرمائے۔ آمین
 
Top