طارق شاہ
محفلین
غزل
اکثر اپنے درپئے آزار ہو جاتے ہیں ہم
سوچتے ہیں اِس قدر ، بِیمار ہوجاتے ہیں ہم
مُضْطَرِب ٹھہْرے ، سو شب میں دَیر سے آتی ہے نِینْد!
صُْبْح سے پہلے مگر ، بیدار ہو جاتے ہیں ہم
نام کی خواہش، ہَمَیں کرتی ہے سرگرْمِ عَمَل
اِس عَمَل سے بھی مگر، بیزار ہوجاتے ہیں ہم
جُھوٹا وعدہ بھی اگر ، کرتی ہے مِلنے کا خوشی
وقْت سے پہلے بہُت، تیّّار ہوجاتے ہیں ہم
بُھول کر ، وہ بخْش دے گر رَوشنی کی اِک کِرَن
دائمی شُہرت کے دعویدار ہو جاتے ہیں ہم
مُطمئن ہونا بھی، اپنے بے خَبر ہونے سے ہے
بے سُکوں ہوتے ہیں، جب ہُشیار ہوجاتے ہیں ہم
اِک ذرا سی بات، اور پھر اشک تھمتے ہی نہیں
لہْر سی اِک دِل میں، اور سرشار ہوجاتے ہیں ہم
پروفیسر شبنم شکیل
اکثر اپنے درپئے آزار ہو جاتے ہیں ہم
سوچتے ہیں اِس قدر ، بِیمار ہوجاتے ہیں ہم
مُضْطَرِب ٹھہْرے ، سو شب میں دَیر سے آتی ہے نِینْد!
صُْبْح سے پہلے مگر ، بیدار ہو جاتے ہیں ہم
نام کی خواہش، ہَمَیں کرتی ہے سرگرْمِ عَمَل
اِس عَمَل سے بھی مگر، بیزار ہوجاتے ہیں ہم
جُھوٹا وعدہ بھی اگر ، کرتی ہے مِلنے کا خوشی
وقْت سے پہلے بہُت، تیّّار ہوجاتے ہیں ہم
بُھول کر ، وہ بخْش دے گر رَوشنی کی اِک کِرَن
دائمی شُہرت کے دعویدار ہو جاتے ہیں ہم
مُطمئن ہونا بھی، اپنے بے خَبر ہونے سے ہے
بے سُکوں ہوتے ہیں، جب ہُشیار ہوجاتے ہیں ہم
اِک ذرا سی بات، اور پھر اشک تھمتے ہی نہیں
لہْر سی اِک دِل میں، اور سرشار ہوجاتے ہیں ہم
پروفیسر شبنم شکیل