فیض اکتوبر انقلابِ روس کی سالگرہ

محمد بلال اعظم

لائبریرین
فیض احمد فیض کی ایک نظم جو انکے کسی بھی مجموعۂ کلام میں نہیں ہے:

اکتوبر انقلابِ روس کی سالگرہ
مرغِ بسمل کی مانند شب تلملائی​
افق تا افق​
صبح کی پہلی کرن جگمگائی​
تو تاریک آنکھوں سے بوسیدہ پردے ہٹائے گئے​
دل جلائے گئے​
طبق در طبق​
آسمانوں کے در​
یوں کھلے ہفت افلاک آئینہ سا ہو گئے​
شرق تا غرب سب قید خانوں کے در​
آج وا ہو گئے​
قصرِ جمہور کی طرحِ نَو کے لئے آج نقشِ کہن​
سب مٹائے گئے​
سینۂِ وقت سے سارے خونیں کفن​
آج کے دن سلامت اٹھائے گئے​
آج پائے غلاماں میں زنجیرِ پا​
ایسے چھنکی کہ بانگِ درا بن گئی​
دستِ مظلوم ہتھکڑی کی کڑی​
ایسے چمکی کہ تیغِ فضا بن گئی​
(ماسکو۔ 5 نومبر 1967)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ویسے یہ نظم میں نے ہی ارسال کی تھی لیکن چونکہ میں اس وقت نیا نیا تھا بلاگنگ اور اردو انٹرنیٹ کی دنیا میں۔
لہٰذا میں نے حوالہ نہیں لکھا تھا اور اب مجھے حوالے کی اشد ضرورت ہے۔
کیا کوئی مدد کر سکتا ہے؟
محمد وارث صاحب
فرخ منظور صاحب
محمد یعقوب آسی صاحب
فاتح بھائی
مزمل شیخ بسمل بھائی
شاہد شاہنواز بھائی
مغزل بھائی
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
فیض کی شاعری میں نہیں پڑھتا، خصوصا اس وقت سے جب کسی ٹی وی پروگرام پر سنا تھا یا شاید کہیں پڑھ لیا کہ فیض بڑا شاعر ہے اور کوئی اس کو پڑھ لے تو اس کو ’’لاحق‘‘ ہوجایا کرتا ہے ، یعنی آپ اس کی رو میں بہنے لگ جاتے ہیں ۔۔۔ حالانکہ اس کے بعد کتنے ہی شاعروں کو پڑھا ہے اور وہ بڑے بڑے بھی ہیں ، سو معلوم نہیں کس کس کا اثر ہوا ہے ۔۔۔ میں اچھا خاصا ’’ملغوبہ‘‘ بن چکا ہوں ، اس لیے فیض کو نہ پڑھنا اور بھی ضروری دکھائی دے رہا ہے۔ ۔۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
فیض کی شاعری میں نہیں پڑھتا، خصوصا اس وقت سے جب کسی ٹی وی پروگرام پر سنا تھا یا شاید کہیں پڑھ لیا کہ فیض بڑا شاعر ہے اور کوئی اس کو پڑھ لے تو اس کو ’’لاحق‘‘ ہوجایا کرتا ہے ، یعنی آپ اس کی رو میں بہنے لگ جاتے ہیں ۔۔۔ حالانکہ اس کے بعد کتنے ہی شاعروں کو پڑھا ہے اور وہ بڑے بڑے بھی ہیں ، سو معلوم نہیں کس کس کا اثر ہوا ہے ۔۔۔ میں اچھا خاصا ’’ملغوبہ‘‘ بن چکا ہوں ، اس لیے فیض کو نہ پڑھنا اور بھی ضروری دکھائی دے رہا ہے۔ ۔۔۔

ہا ہا ہا ۔ کیا توجیہ ہے۔ حماقت کی انتہا ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ہا ہا ہا ۔ کیا توجیہ ہے۔ حماقت کی انتہا ہے۔
بالکل ہے ۔۔۔ لیکن اس حماقت کی اب ضرورت نہیں رہی۔۔۔ حال ہی میں لکھنا وقت نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے۔۔۔ اب صرف پڑھنے کا وقت ملتا ہے اور کوئی بھی ملتا ہے تو پڑھتا ہوں۔۔۔ حال ہی میں فیض سے بھی واسطہ پڑا:

ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

فیض کو اپنے دور میں انقلابی حالات و واقعات دیکھنے پڑے۔۔۔ اس وجہ سے بھی ان کے کلام میں بے انتہا تنوع اور گہرائی ہے۔۔۔

حبیب جالب اور دامن کو بھی پڑھنا چاہئے کہ وہ بھی اسی دور کے شاعر ہیں اور اچھا لکھنے والے ہیں ۔۔حبیب جالب کی کلیات انٹرنیٹ سے ملی ہے۔۔ ان کی غزل بھی نظم کی طرح دلکش ہے۔اچھے اور زندہ شعر کہتے ہیں:

ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی نیا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

ان کی ایک نظم تو ہر کسی کو یاد ہوگی:
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
ایسے دستور کو
صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا
میں نہیں مانتا۔۔۔۔

جدید دور کے مسائل اور عام زندگی یعنی بقول فیض: "اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔۔۔ یہ حالات کی عکاسی حبیب جالب نے بھی خوب کی ہے۔۔۔۔
تاہم کام کی بات اس تھریڈ کے حوالے سے یہ ہے کہ جو نظم آپ نے اوپر لکھی ہے، اس کا حوالہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ کہاں ہے۔۔۔سو اوپر جو کچھ لکھا ہے ، اس کا دگنا بھی لکھا جائے تو آپ کے کام کا نہیں۔۔ اس لیے اس پوسٹ کو یہیں ختم کرتا ہوں۔۔۔
 
Top