اڑن سانپوں کی پرواز کا راز معلوم ہو گیا

سائنس دانوں نے اڑن سانپوں کی پرواز کا راز معلوم کر لیا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے جنگلات میں پائے جانے والا یہ نایاب سانپ درختوں سے اچھل کر کچھ دیر تک گلائیڈ کر سکتے ہیں، یعنی ہوا میں تیر سکتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ سانپ اپنی جسم کی شکل تبدیل کر لیتے ہیں تاکہ وہ ایروڈائنیمک قوتیں پیدا ہو سکیں جن کے ذریعے یہ ہوا میں تیرتے ہیں۔
یہ تحقیق جریدے جرنل آف ایکسپیریمینٹل بائیولوجی میں شائع کی گئی ہے۔
اس تحقیق پر کام کرنے والے امریکی یونیورسٹی ورجینیا ٹیک کے پروفیسر جیک سوچا نے کہا ہے کہ ’یہ سانپ قدرتی طور پر ہوا میں تیرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ جب آپ اس کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس چیز کو گلائیڈ نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ مگر جب وہ درخت کی کسی شاخ سے چھلانگ لگاتا ہے تو اپنی جسامت تبدیل کر لیتا ہے جس کی وجہ سے ہوا میں تیرتا جاتا ہے۔‘
اڑنے والے سانپوں کی پانچ اقسام ہیں جن سب کا تعلق کرائیسوپیلی فیملی سے ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اب انھیں معلوم ہو گیا ہے کہ یہ سانپ جنگل کی زمین پر گرنے کی بجائے کیسے ایک درخت سے دوسرے تک اڑ کر پہنچ جاتے ہیں۔
پروفیسر سوچا کا کہنا تھا: ’جب یہ چھلانگ لگاتا ہے تو یہ اپنے سر اور دم کے درمیان کے حصے کو چپٹا کر لیتا ہے۔ یہ اصل میں اپنی پسلیوں کو اپنے سر کی جانب گھما لیتا ہے جس سے وہ بالکل چپٹا اور کافی چوڑا ہو جاتا ہے۔ اس کی چوڑائی تقریباً دوگنی ہو جاتی ہے اور اس کے جسم کی شکل بہت مختلف ہو جاتی ہے۔‘
محققین نے پھر ان ایروڈائنیمک قوتوں کا جائزہ لیا جو یہ تبدیل شدہ جسمانی شکل پیدا کرتی ہیں۔ اس کام کے لیے سائنس دانوں نے ایک پلاسٹک کا چپٹا سانپ بنا کر اسے پانی کے ٹینک میں رکھا۔
ہوا میں رقص
"یہ اپنا سر ایک طرف سے دوسری طرف ہلاتا ہے۔ یہ لہریں اس کے جسم کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک جاتی ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ یہ ہوا میں تیر رہا ہے۔"
پروفیسر سوچا
پروفیسر سوچا بتاتے ہیں کہ ’اس کے اوپر سے بہنے والے پانی کی مدد سے ہم نے اس پر اثرانداز ہونے والی قوتوں کو ناپا۔ اس کے علاوہ ہم نے پانی کے بہاؤ کو لیزر اور انتہائی تیز کیمروں کی مدد سے دیکھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ یہ سانپ جہاز کے ایک انتہائی چھوٹے پر جتنی ایروڈائنیمک قوت پیدا کرتا ہے۔ ٹیم کا خیال ہے کہ یہ سانپ انھی قوتوں اور ہوا میں لہرانے کی وجہ سے جنگل میں اڑتا چلا جاتا ہے:
’یہ اپنا سر ایک طرف سے دوسری طرف ہلاتا ہے۔ یہ لہریں اس کے جسم کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک جاتی ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ یہ ہوا میں تیر رہا ہے۔‘
ٹیم کو امید ہے کہ ان کی اس تحقیق سے متاثر ہو کر سائنس دان ایسے روبوٹ بنا سکیں گے جو ہوا میں آسانی سے تیر سکیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2014/01/140130_flying_snake_explained_sa.shtml
 
Top