اچھے دوست کے انتخاب کا معیار

اکمل زیدی

محفلین
اچھے دوست کے انتخاب کا معیار
تحریر: عون باقر جعفری

انسان فطری طور پر معاشرتی زندگی گزارنے کا خوگر ہے، باہمی میل جول، تعلقات و روابط اور دوست و احباب کی تلاش میں رہتا ہے تاکہ اِس معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ امیرِ کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’غریب وہ شخص ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔‘‘[1] دوست انسان کی شخصیت سازی میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے چونکہ دوست کی صحبت اور ہمنشینی انسان پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے ناکارہ اور کم عقل دوستوں نے ان کو ایسی خسارت میں مبتلا کیا جس کا اِزالہ کرنا بھی ناممکن ہوتا ہے اور بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اچھے ہمنشین اور صدیق دوست ہونے کی وجہ سے انحراف اور فساد سے نجات پائی۔
اچھا دوست دنیا و آخرت میں یاور و مددگار ثابت ہوتا ہے جیساکہ قرآن مجید میں ہے کہ اہلِ جہنّم اچھا دوست نہ ہونے کی وجہ سے پکار پکار کر کہیں گے: ’’(اس وقت)ہمارے لیے نہ تو کوئی شفاعت کرنے والا ہے اور نہ ہی کوئی ہمارا مخلص و سچا دوست ہے۔‘‘[2] اچھا دوست انسان کی پہچان اور شناخت ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے: ہر انسان کی پہچان اس کے دوستوں سے ہوتی ہے اگر اس کے دوست اچھے تو وہ بھی اچھا اور اگر دوست بُرے تو وہ بھی بُرا۔
آئیں دیکھتے ہیں کہ آیات و روایات میں دوست کے انتخاب کے لیے کیا معیار اور پیمانہ بیان کیا گیا ہے:

۱۔ ایمان و پارسائی
قرآن مجید کے مطابق دوستی کا پہلا معیار ایمان اور پارسائی ہے کیونکہ وہ انسان جس نے دل و جان سے دین کو قبول کیا ہو، جنّت و جہنّم پر اعتقاد رکھتا ہو اور دنیا کے زوال اور آخرت کی بقاء پر یقین رکھتا ہو، وہ جانتا ہے کہ دنیا اور آخرت میں سعادت و کمال فقط بندگی اور عبودیتِ خدا میں مضمر ہے۔ قرآن مجید میں ارشادِ رب العزّت ہے: ’’اہلِ ایمان مومنین کو چھوڑ کر ہرگز کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے...۔‘‘[3] درحقیقت یہاں پر قرآن تمام مسلمانوں کو ایک سیاسی اور اجتماعی پیغام دے رہا ہے کہ کبھی بھی بیگانوں کو اپنا دوست اور حامی نہ بنائیں؛ کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ دشمن نے ہمیشہ دوستی کے لباس میں ظاہر ہو کر نقصان پہنچایا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایمان ایک باطنی صفت ہے، کیسے پہچانیں کہ یہ شخص باایمان ہے یا نہیں؟ ایمان انسان کے ظاہری رفتار و کردار پر گہرا اثر ڈالتا ہے اگر انسان واقعاً ایماندار ہو تو وہ سچا، امانتدار، باوفا، اچھے اخلاق کا مالک، واجبات کا ادا کرنے والا، محرّمات سے بچنے والا بھی ہو گا، کیونکہ یہ سب ایمانی صفات ہیں جن کے ذریعے انسان کو پہچانا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے ایمان کو سات حصّوں میں تقسیم کیاہے: ۱۔ نیکی؛ ۲۔ سچائی؛ ۳۔ یقین؛ ۴۔ رضا؛ ۵۔ وفا؛ ۶۔ علم؛ ۷۔ بردباری، پھر انہیں لوگوں کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔‘‘[4] اس بناء پر ایمان کی نشانیاں اور صفات ہیں جن کے ذریعے انسان دوسروں کو پہچان سکتا ہے کہ وہ ایمان کی کس منزلت پر فائز ہیں۔

۲۔ عقل
دوستی کا دوسرا معیار عقل ہے۔ عقل انسان کے پاس وہ طاقت ہے جس سے حقائق ِ عالم کو درک کر سکتا ہے، عقل انسان کے لیے روشن چراغ ہے جس سے استفادہ کرتے ہوئے انسان سعادت کی زندگی گزار سکتا ہے۔ دین مبینِ اسلام کے نزدیک دوستی اور رفاقت کی شرائط میں سے ایک شر ط عقل و خرد ہے، تاکید کی گئی ہے کہ صاحبانِ عقل کے ساتھ ہمنشینی اور معاشرت اختیار کرو۔
امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’کوشش کرو کہ عقلمند انسان کے ساتھ دوستی رکھو اگر اس کے کرم و بخشش سے استفادہ نہیں کر سکتے تو کم از کم اس کی عقل سے بہرہ مند ہو سکو۔‘‘[5] اسی سلسلے میں امیرِ کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’عقلمند دوست کی ہمنشینی روح کے زندہ ہونے کا سبب بنتی ہے۔‘‘[6] اس کے برعکس احمق انسان کے ساتھ دوستی کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ احمق انسان اگر تمہیں فائدہ بھی پہنچانا چاہے گا تو تمہیں نقصان میں مبتلا کر دے گا۔

۳۔ دنیا کاحریص نہ ہو
بعض لوگ اِس کج فکری میں مبتلا ہیں کہ دنیا ایک مذموم اور ناپسندیدہ شئی ہے، پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ دنیا سے مراد کیا ہے اور اس کا کونسا حصّہ مذموم اور ناپسندیدہ ہے اور کیوں؟ حققیت یہ ہے کہ اگر دنیا سے مراد یہ مادی جہان اور عالمِ طبیعت ہے تو یہ دنیا مذموم نہیں بلکہ رسولِ خداﷺ فرماتے ہیں: ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔‘‘[7] دنیا کمال و سعادت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔
لیکن وہ دنیا جس میں انسان بےہدف اور بےمقصد ہو یا پھر انسان اسی دنیا کو مقصد بنا لے اور آخرت کو بھول جائے تو یہ دنیا مذموم اور ناپسندیدہ ہے۔ جیساکہ مقدمہ میں بیان کیا جا چکا ہے کہ دوستی فقط دنیا تک محدود نہیں رہتی، بلکہ آخرت میں بھی انسان اس کا نیازمند ہوتا ہے لہٰذا ایسا دوست تلاش کرنا چاہیے جو دنیا کا حریص نہ ہو۔ یہ بات واضح ہے کہ جو شخص دنیا کا حریص ہو گا اس کا مقصد فقط دنیاوی اُمور تک محدود رہے گا اور جہاں بھی اسے اپنے دنیاوی اُمور میں رکاوٹ محسوس ہو گی، دوستی و رفاقت سے دست بردار ہو جائے گا؛ کیونکہ اس کا مقصد دنیا تھا اور دنیا سے انسان کبھی سیر نہیں ہوتا۔ لہٰذا اپنا دوست ایسے افراد کو بنائیں جن کا مقصد فقط یہی دنیا نہ ہو۔

۴۔ اعتدال اور میانہ روی
ہمیں دوستی اور رفاقت میں اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیا گیا ہے؛ یعنی ایسا بھی نہ ہو کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بیگانوں والا رویّہ اختیار کریں اور خود کو دوستی کے آداب اور حقوق سے بےاعتنا قرار دیں اور ایسا بھی نہ ہو کہ ہم اپنے اور اپنے خاندان کے تمام اسرار دوسرے کے سامنے پیش کر دیں، بلکہ ہمیں دوستی میں افراط و تفریط سے پرہیز کرنا چاہیے اور اعتدال و میانہ روی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے؛ جیسا کہ رسول اکرمﷺ فرماتےہیں: ’’اپنی دوستی کو حدّ اعتدال پر رکھو کیونکہ ممکن ہے ایک دن وہ تمہارا دشمن بن جائے اور اپنی دشمنی کو بھی حدّ اعتدال پر رکھو کیونکہ ممکن ہے ایک دن وہ تمہارا دوست بن جائے۔‘‘[8]
حضرت علی علیہ السلام کا دوست
اِن معیاروں کو دیکھتے ہوئے یہاں پر ہم امیرِ کائنات حضرت علی علیہ السلام کے ایک دوست کا تذکرہ کرتے ہیں کہ حضرتؑ نے کس بناء پر اُس سے دوستی کی تھی۔ امامؑ فرماتے ہیں: ’’میرا ایک دوست تھا اور ہماری دوستی کا رنگ، الہٰی تھا۔ دنیا اس کی نگاہوں میں حقیر تھی، اپنے شکم کا غلام نہیں تھا، جو چیز نہ مل سکے اس کی خواہش نہیں کرتا تھا، جو مل جائے اسے زیادہ استعمال نہیں کرتا تھا، سکوت کی چٹان تھا لیکن جب بولتا تھا تو بولنے والوں کی بولیاں بند ہو جاتی تھیں اور سائلوں کی پیاس بجھا دیتا تھا، وہ جسمانی لحاظ سے کمزور تھا لیکن میدانِ جنگ میں بہادر شیر کی مانند حملہ آور ہوتا تھا ... جو کرتا تھا وہی کہتا تھا اور جو نہیں کر سکتا تھا کہتا بھی نہیں تھا، اگر بولنے میں کوئی اس پر غالب آجاتا تو خاموشی میں کوئی اس سے سبقت نہیں لے سکتا تھا، اسے بولنے سے زیادہ سننے کی خواہش رہتی تھی، جب اس کے سامنے دو قسم کی چیزیں آتیں تو جو خواہش کے قریب تر ہوتی، ا س کی مخالفت کرتا تھا۔ (پھر امام علیہ السلام نے ہماری طرف توجہ کرتےہوئے فرمایا لہٰذا تم سب بھی انہیں صفات کو اختیار کرو، اگر یہ سب نہیں کر سکتے تو سب کو ترک کرنے سے بہتر ہے بعض کو اختیار کرو۔‘‘[9]
دوستی کے اِن تمام معیاروں کو دیکھنے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں بہترین دوست وہ ہے جو معنوی لحاظ سے کامل ہو، لہٰذا جو شخص معنوی کمالات میں اعلیٰ مقام پر فائز ہوگا اس سے دوستی اور اُلفت و محبت کی شدّت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
 
Top