مکتوب اچھی عینی آپی کے نام

ماہی احمد

لائبریرین
15 مئی 2014
جمعرات

اچھی عینی آپی!
السلام علیکم :)
آپ کا خط ملا ۔ پا کر بے تحاشا خوشی ہوئی۔ آپ سوچ رہی ہوں گی کہ یہ لڑکی بھی عجیب ہے، خود تو اتنا دباؤ ڈالا جواب کے لئیے، اور اب چپ کئیے بیٹھی ہے۔ نہ کوئی اتا نہ پتا۔ بات دراصل یہ ے اپیا جی کہ اتنا خوبصورت آپ لکھتی ہیں اس کا جواب کیا ہو یہ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا۔ اپنے آپ میں ایک مکمل تحریر تھی آپ کا خط۔ خط کے متعلق آپ نے جو کچھ کہا میں اس سے بالکل اتفاق کرتی ہوں بلکہ آپ کی وہ باتیں پڑھ میرے ذہن میں نئیرہ نور کی آواز گونجنے لگی

۔۔۔پرندوں کے پروں پر
نظم لکھ کر
دور کی جھیلوں میں
بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے
جو ہم سے دور تھے لیکن
ہمارے پاس رہتے تھے۔۔۔
مجھے لگتا ہے یہ خط بھی کچھ ایسے ہی الفاظ ہیں جو ہم ان پرندوں کے پروں پر لکھ ڈالتے ہیں، اور پھر چاہے دوسرا شخص کتنا ہی دور کیوں نہ ہو، وہ پاس ہوتا ہے، ساتھ رہتا ہے۔ :) میں نے کبھی بہت دور دور کے رہنے والوں و تو خط نہیں لکھے بس مجھے یاد ہے میں اور میری بہت اچھی سہیلی ہم دونوں ایک دوسرے کو خط لکھتے تھے۔ اب آپ سوچیں گی کہ وہ بھی تو دور ہی رہتی ہو گی نا ۔ بالکل نہیں جناب :) ہم دونوں ایک ساتھ پڑھتے رہے ہیں سیکنڈ ایئر تک۔ایک ہی کلاس، ایک ہی سکول ،سارا دن ایک ساتھ گزرتا تھا۔ پھر بھی ہم ایک دوسرے کو خط لکھتے تھے۔ آپ کو پتا تو ہے لڑکیوں کی باتیں کہاں ختم ہوتی ہیں، بس ہمارا بھی کچھ ایسا ہی حساب تھا۔ روزانہ خط پڑھنا، اس کا جواب لکھنا اور پھر اگلے سکول جا کر چُپکے سے دوسرے کے بیگ میں وہ خط ڈال دینا۔ اب یہ چُپکے سے ڈالنے والا بھی بڑا مسئلہ ہوا کرتا تھا۔ اس کو پتا تو بالکل نہیں چلنا چاہئیے نا۔ اور اگر پتا چل گیا تو یہ ایک بہت بڑا فیلیئر ہو گیا، اگلی بار احتیاط کرو۔ گھر جا کر بیگ میں ڈھونڈنا کہ خط کہاں ہے، پھر اسے نکال کر پڑھنا، کئی بار پڑھنا، تو خوب مزہ آتا تھا۔ پڑھائی وغیرہ سے فارغ ہو کر پھر اس خط کا جواب لکھنا۔ لیکن ہمارے خط کبھی بھی اتنے فارمل ہوئے ہی نہیں۔ رنگ برنگے قلم، سیاہی، پینسلز استعمال کرنا ہمارا معمول تھا، چاہے دوسرے کو سمجھ بھی نہ آئے کہ لکھا کیا ہے، کیونکہ یہ ہمارا درد سر نہیں۔ بیٹھ کر نہیں لکھا جا رہا چلو لیٹ کر لکھو۔ اب آپ سوچ سکتی ہیں لکھائی کیسی ہوتی ہو گی:p۔ اکثر تو لکھتے لکھتے پن ختم ہوتا تھا تو اس ہلکی ہوتی سیاہی کو نظر انداز کر کے کسی اور رنگ سے آگے لکھنا شروع کر دیا۔ ہاں خط کے متن میں کہیں نا کہیں ان باتوں کا ذکر ضرور ہوتا تھا کہ ابھی کیا وقت ہوا ہے، میں کیا کر رہی تھی، آج گھر کے حالات (امی کا موڈ) کیسے رہے ، کبھی کبھار یہ بھی کہ آج کیا پکا تھا وغیرہ۔ ان کے بغیر تو خط نامکمل ہے نا ۔یہ سب کافی دیر چلتا رہا مگر پھر ہمارے مضامین مختلف ہو گئے، کوشش کر کے چند ایک خطوط کا تبادلہ پھر بھی کیامگر اب تو کافی عرصہ ہو گیا بات بھی نہیں ہو سکی۔ خیر یہ زندگی ہے، سب کچھ چلتا ہے۔ ہم آگے نکل آتے ہیں یا پیچھے رہ جاتے ہیں، راستہ الگ ہو جاتا ہے، ساتھ نہیں چل پاتے بس۔ :)

اوہو بھئی سینٹی نہیں ہونا میں نے تو اتنے مزے کی بات بتائی آپ کو کہ ہم کتنا مزہ کرتے تھے :)۔ ابھی تو میں چلتی ہوں۔ جواب میں تاخیر سے کام بے شک لیجئیے گا کیونکہ اتنے خوبصورت الفاظ کو اکھٹے کرنے میں بھی تو وقت لگتا ہو گا نا ۔ اپنی اور گھر والوں کی خیریت سے آگاہ کیجئیے گا۔

فقط
ماہی
:)
 
آخری تدوین:
Top