اپنے ہمراہ سفر پر وہ اگر جانے دے غزل نمبر 185 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
محمد ریحان قریشی بھائی (استاد محترم) کی غزل "زندگی جیسے گزرتی ہے، گزر جانے دے" کی زمین میں اک غزل کہنے کی کوشش کی ہے ۔@محمد عبدالرؤف بھائی نے بھی جس پر ایک غزل لکھی ہے۔ برائے کرم اصلاح فرمائیے۔
اپنے ہمراہ سفر پر وہ اگر جانے دے
کیسے پھر ہاتھ سے ہم ایسا سفر جانے دے

عقل! جذبات پہ اتنی بھی نہ پابندی لگا
دِل اگر عشق بھی کرتا ہے تو کر جانے دے

باز آ جائے اگر عِشق سے دِل اچھا ہے
عقل! دل کو تُو کسی بات پہ ڈر جانے دے

منتیں کر کے بلایا ہے اجل کو میں نے
زِندگی اب تو مُجھے چین سے مر جانے دے
یا
زِندگی اب تو سُکوں سے مُجھے مر جانے دے

طعنہ ناکام محبت کا جہاں دیتا ہے
میری رُسوائی کی اُن تک بھی خبر جانے دے

جو بھی قِسمت میں لکھا ہے وہ رہے گا ہوکر
" زِندگی جیسے گُزرتی ہے گُزر جانے دے"

ڈال دے اپنی انا کو بھی پسِ پُشت کبھی
بات اچھی لگے تو دِل میں اُتر جانے دے

ایک دِن سب کا حِساب ہونا ہے اللہ کے حُضور
کِس نے پہنچایا یہاں کِس کو ضرر جانے دے

بحث و تکرار سے کچھ بھی نہیں ہوتا حاصل
شعلہ بن جائے نہ اِک پل میں شرر جانے دے

یہ زمیں خُوب و طبیعت بھی رواں ہے
شارؔق
اِک غزل اور بھی میں کہہ دوں مگر جانے دے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مجھے تہِ ٹیگ کرنے کا شکریہ

اپنے ہمراہ سفر پر وہ اگر جانے دے
کیسے پھر ہاتھ سے ہم ایسا سفر جانے دے
شارق خان صاحب ، میں تو مطلع پر ہی رک گیا ۔ پشاور میں تو چل جائے گا لیکن یہ میرے حلق سے تو نہیں اترتا ۔ :)
مزاح برطرف ، مجھے ایسا لگتا ہے کہ اردو آپ کی بنیادی زبان نہیں ۔ ایک سو پچاسیویں غزل میں بھی وہی بنیادی گرامر کے مسئلے ہیں جن کی نشاندہی پہلے بھی کی جاتی رہی ہے ۔ اس مسئلے کا کوئی مستقل حل سوچیے ۔
 

الف عین

لائبریرین
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
محمد ریحان قریشی بھائی (استاد محترم) کی غزل "زندگی جیسے گزرتی ہے، گزر جانے دے" کی زمین میں اک غزل کہنے کی کوشش کی ہے ۔@محمد عبدالرؤف بھائی نے بھی جس پر ایک غزل لکھی ہے۔ برائے کرم اصلاح فرمائیے۔
اپنے ہمراہ سفر پر وہ اگر جانے دے
کیسے پھر ہاتھ سے ہم ایسا سفر جانے دے
ظہیر میاں کی بات سمجھ میں نہ آئی ہو تو بتا دوں کہ شتر گربہ ہے، ہم کے ساتھ "جانے دیں" ہونا تھا
عقل! جذبات پہ اتنی بھی نہ پابندی لگا
دِل اگر عشق بھی کرتا ہے تو کر جانے دے
ردیف یہاں بھی درست نہیں، محض کرنے دے درست ہوتا

باز آ جائے اگر عِشق سے دِل اچھا ہے
عقل! دل کو تُو کسی بات پہ ڈر جانے دے
واضح بیانیہ نہیں، مگر چل سکتا ہے

منتیں کر کے بلایا ہے اجل کو میں نے
زِندگی اب تو مُجھے چین سے مر جانے دے
یا
زِندگی اب تو سُکوں سے مُجھے مر جانے دے
پہلا متبادل ہی بہتر ہے

طعنہ ناکام محبت کا جہاں دیتا ہے
میری رُسوائی کی اُن تک بھی خبر جانے دے
کس سے خطاب ہے؟

جو بھی قِسمت میں لکھا ہے وہ رہے گا ہوکر
" زِندگی جیسے گُزرتی ہے گُزر جانے دے"
ٹھیک

ڈال دے اپنی انا کو بھی پسِ پُشت کبھی
بات اچھی لگے تو دِل میں اُتر جانے دے
روانی متاثر ہے دوسرے مصرعے کی، واضح بھی نہیں

ایک دِن سب کا حِساب ہونا ہے اللہ کے حُضور
کِس نے پہنچایا یہاں کِس کو ضرر جانے دے
ٹھیک

بحث و تکرار سے کچھ بھی نہیں ہوتا حاصل
شعلہ بن جائے نہ اِک پل میں شرر جانے دے
دو لخت ہے

یہ زمیں خُوب و طبیعت بھی رواں ہے شارؔق
اِک غزل اور بھی میں کہہ دوں مگر جانے دے
اگر کچھ وقت دیتے تو یہ شعر بہتر ہو سکتا تھا
یہ زمیں خوب ہے، اور طبع رواں بھی شارق
کیسا رہے گا؟
 

امین شارق

محفلین
الف عین سر بہت نوازش ہے آپ کی توجہ اور رہنمائی کے لئے۔ جہاں جہاں آپ نے اغلاط کی نشاندہی کی ہے وہ صحیح کرنے کی سعی کی ہے۔۔
کیا مطلع اب درست ہوگیا ہے دوسرا مصرعہ تبدیل کیا ہے۔ ٰیہ زمیں خوب ہے، اور طبع رواں بھی شارق آپ کا تجویز کردہ یہ مصرعہ خوب ہے اچھا لگا۔
اپنے ہمراہ سفر پر وہ اگر جانے دے
جامِ اُمید ہے خالی اسے بھر جانے دے
یا
جامِ اُمید جو بھرتا ہے تو بھر جانے دے

عقل! جذبات پہ اتنی بھی نہ پابندی لگا
دِل محبت کے بھی کچھ زیر اثر جانے دے

باز آ جائے اگر عِشق سے دِل اچھا ہے
عقل! دل کو تُو کسی بات پہ ڈر جانے دے

منتیں کر کے بلایا ہے اجل کو میں نے
زِندگی اب تو مُجھے چین سے مر جانے دے

طعنہ ناکام محبت کا جہاں دیتا ہے
اے مرے نامہ بر! اُن تک یہ خبر جانے دے

جو بھی قِسمت میں لکھا ہے وہ رہے گا ہوکر
" زِندگی جیسے گُزرتی ہے گُزر جانے دے"

ڈال دے اپنی انا کو بھی پسِ پُشت کبھی
بات گر اچھی لگے دِل میں اُتر جانے دے

ایک دِن سب کا حِساب ہونا ہے اللہ کے حُضور
کِس نے پہنچایا یہاں کِس کو ضرر جانے دے

باتیں تقصیر کی دہرانا تو ہے لا حاصل
شعلہ بن جائے گا اِک پل میں شرر جانے دے

یہ زمیں خوب ہے، اور طبع رواں بھی
شارؔق
اِک غزل اور بھی میں کہہ دوں مگر جانے دے
 
Top