اپنے دیوار و در نہیں بھولے ۔۔۔ بغرض اصلاح

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اپنے دیوار و در نہیں بھولے
ہم ابھی اپنا گھر نہیں بھولے

سنگ جتنے تھے ہم سفر اپنے
زندگی بھر سفر نہیں بھولے

ہوش تو کھو چکے جہاں بھر کا
چوٹ کھا کر نظر نہیں بھولے

اس نے پل میں بھلا دیا ہم کو
ہم جسےعمر بھر نہیں بھولے

تیری قاتل نگاہ کا عالم
تیرے آشفتہ سر نہیں بھولے

اے ہمیں راہ دکھانے والے
ہم تری رہ گزر نہیں بھولے

میں نے سب کچھ بھلا دیا شاہد
لوگ میرا ہنر نہیں بھولے

بغرض اصلاح پیش ہے۔۔۔ بخدمت اساتذہ

الف عین صاحب
محمد یعقوب آسی صاحب

غزل میں معنوی اور تکنیکی (عروضی یا وزن کے)مسائل موجود ہیں تو ان کی اصلاح کی درخواست ہے۔۔۔
 
بلا تکلف، بلا تمہید ۔۔۔


اپنے دیوار و در نہیں بھولے​
ہم ابھی اپنا گھر نہیں بھولے​


مختصر بحر میں کہی گئی یہ غزل ایک عمدہ کوشش ہے۔ مضامین بھی سادہ سے ہیں، اور مشقِ سخن کے لئے اچھا ماحول بناتے ہیں۔ غزل میں کوئی نمایاں خامی نہیں، ماسوائے اس کے کہ ایک مصرعے کے اوزان کچھ بدل گئے ہیں:

اے ہمیں راہ دکھانے والے​
ہم تری رہ گزر نہیں بھولے​

مزید پھر سہی۔

شاہد شاہنواز اور جناب الف عین
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، آسی بھائی نے جس غلطی کی نشان دہی کی ہے، اوزان میں تو اس کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ البتہ معنوی اعتبار سے مجھے یہ دونوں اشعار پسند نہیں آئے، مطلب سے عاری محسوس ہوتے ہیں۔
سنگ جتنے تھے ہم سفر اپنے​
زندگی بھر سفر نہیں بھولے​
(یہاں ’ساتھ‘ کی بجائے ’سنگ‘ استعمال کرنے کی وجہ؟؟؟)
ہوش تو کھو چکے جہاں بھر کا​
چوٹ کھا کر نظر نہیں بھولے​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
سنگ استعمال کرنے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے، صرف ذہن میں آگیا تو لکھ دیا۔۔۔ ساتھ بہتر ہے۔۔
ہوش کھونے والے شعر میں فاعل نہیں ہے، اس لیے بھی یہ بہت ’’ہلکا ‘‘محسوس ہوتا ہے۔۔۔
خیر۔۔۔ باقی غزل تو آپ نے پاس کردی، سو اسی پر قناعت کرلیتے ہیں۔۔۔بے حد شکریہ۔۔
 
Top