اپنی پسند دا پنجابی زبان دا اک شعر

مغزل

محفلین

مغزل

محفلین
تھاہ لے کے ای واپس مڑیا جدّھر دا رخ کیتا میں
زہر سی یا اوہ امرت سی سب انت تے جاکے پیتا میں
میں کمال / بام /عروج پر جا کے ہی واپس پلٹتا ہوں جس طرف کا رخ کر لوں​
چاہے وہ زہر تھا یا امرت تھا مگر میں نے کمال سیرابی کی حد پر جا کر پیا​
مینوں جیہڑی دھن لگ جاندی فیر نہ اوس توں ہٹدا میں
راتاں وچ وی سفر اے مینوں دن وی ٹردیاں کٹدا میں
مجھ پر جو دھن سوار ہوجاتی ہے تو میں اس سے کسی طور پر (ہٹ) انحراف نہیں کرتا​
راتوں میں مجھے (زیست / کیفیت ) سفر لاحق رہتا ہے اور دن بھی چلتے چلتے کٹتا ہے۔۔​
(حاشیہ : یہاں سفر سے مراد کیفیاتی طور پر انگریزی کا Suffer لیا جا ئے تو معنویت آشکار ہوگی)​
کدے نہ رک کے کنڈے کڈّھے زخم کدے نہ سیتا میں
کدے نہ پچھّے مڑ کے تکیا کوچ جدوں وی کیتا میں
(منیر نیازی)
کبھی میں رک کر میں نے (پیروں سے) کانٹے نکالے اور نہ ہی کبھی زخموں کو سیا ہے
کبھی بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا جب (کبھی) کہیں کے کوُچ (سفر اختیار) کیا۔

لیجیے محمدعلم اللہ اصلاحی بھائی ۔۔:)
بیگم صاحبہ کے حکم کے مطابق ترجمہ حاضرہے ، یہ محض لفظی ترجمہ ہے وگرنہ شعر کا اصل مزہ شعر کی اصل زبان میں آتا ہے۔:)
 

باباجی

محفلین
اُجیاں لمیاں لال کھجوراں تے پتر جنہاں دے ساوے
جس دم نال سانجھ ہے اساں کوں او دم نظر نہ آوے
گلیاں سنجیاں اُجاڑ دسن میں کو ،ویڑا کھاون آوے
غلام فریدا اُوتھے کی وسنا جتھے یار نظرنہ آوے
 

اوشو

لائبریرین
د ۔ دَس کھاں شہر لہور اندر ، کنِے بُوہے تے کنِیاں بارِیاں نیں؟
نالے دَس کھاں اوتھوں دِیاں اِٹاں ، کنِیاں ٹٹُیاں تے کنِیاں سارِیاں نیں؟
د۔ دَس کھاں شہر لہور اندر کھُوہیاں کنِیاں مٹِھیاں تے کنِیاں کھارِیاں نیں؟
ذرا سوچ کے دیویں جواب مینوں ، اوتھے کنِیاں ویاہیاں تے کنِیاں کنواریاں نیں؟

د ۔ دَساں میں شہر لہور اندر ، لکھاں بُوہے تے لکھاں ای بارِیاں نیں!
جنِہاں اِٹاں تے دھر گئے پیر عاشق ، اوہی او ٹٹُیاں تے باقی سارِیاں نیں!
جنہاں کھُوہیاں توں بھرن معشوق پانی ، اوہی او مٹِھیاں تے باقی کھارِیاں نیں!
تے جیہڑیاں بہندیاں اپنے نال سجناں دے ، اوہی او ویاہیاں تے باقی کنواریاں نیں !
 

حسان خان

لائبریرین
ایمان سلامت ہر کوئی منگے اتے عشق سلامت کوئی ہُو
منگن ایمان شرماون عشقوں میرے دل نوں غیرت ہوئی ہُو
جس منزل نوں عشق پہنچاوے ایمان نوں خبر نہ کوئی ہُو
میرا عشق سلامت رکھیں باہو ایمان نوں دیواں دھروئی ہُو
(حضرت سلطان باہو)

ترجمہ: ہر شخص ایمان کی سلامتی چاہتا ہےلیکن عشق کی سلامتی کوئی شخص طلب نہیں کرتا۔ مجھے لوگوں کے اس ناچیز اور ناکارہ سوال پر غیرت آتی ہے کہ وہ ایمان تو طلب کرتے ہیں لیکن عشق مانگنے سے شرماتے ہیں۔ کیونکہ جس مقام پر عشق پہنچاتا ہے، ایمان کو اُس کی خبر بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ میرا عشق سلامت رکھے، ایمان کو دور سے سلام ہے۔
 
میں کمال / بام /عروج پر جا کے ہی واپس پلٹتا ہوں جس طرف کا رخ کر لوں​
چاہے وہ زہر تھا یا امرت تھا مگر میں نے کمال سیرابی کی حد پر جا کر پیا​

مجھ پر جو دھن سوار ہوجاتی ہے تو میں اس سے کسی طور پر (ہٹ) انحراف نہیں کرتا​
راتوں میں مجھے (زیست / کیفیت ) سفر لاحق رہتا ہے اور دن بھی چلتے چلتے کٹتا ہے۔۔​
(حاشیہ : یہاں سفر سے مراد کیفیاتی طور پر انگریزی کا Suffer لیا جا ئے تو معنویت آشکار ہوگی)​

کبھی میں رک کر میں نے (پیروں سے) کانٹے نکالے اور نہ ہی کبھی زخموں کو سیا ہے
کبھی بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا جب (کبھی) کہیں کے کوُچ (سفر اختیار) کیا۔

لیجیے محمدعلم اللہ اصلاحی بھائی ۔۔:)
بیگم صاحبہ کے حکم کے مطابق ترجمہ حاضرہے ، یہ محض لفظی ترجمہ ہے وگرنہ شعر کا اصل مزہ شعر کی اصل زبان میں آتا ہے۔:)


آہ اہاہاہ
کیا خوب کلام ہے
مجھے یہ
کبھی میں رک کر میں نے (پیروں سے) کانٹے نکالے اور نہ ہی کبھی زخموں کو سیا ہے
کبھی بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا جب (کبھی) کہیں کے کوُچ (سفر اختیار) کیا۔
زیادہ اچھا لگا
بہت شکریہ
 

غدیر زھرا

لائبریرین
عاشِق سوئی حقیقی جیہڑا قتل مشُوق دے منّے ہُو
عشق نہ چھوڑے ، مُکھ نہ موڑے سَے تلواروں کھّنے ہُو
جِت ول ویکھے راز ماہی دا لگّے اوسے بنّے ہُو
سچا عِشق حسینِ علی (ع) ، سِر دیوے راز نہ بھّنے ہُو

(سلطان باہو )
 

اشفاق احمد

محفلین
ناں ونج روحا راہ انہاں لوکاں دے
نئیں فکر جنہاں نوں تیرے دم دی
آپ تاں سمدے نال خوشی دے
تیری رات دکھاں وچ دھمدی
 
بندہ نکھڑےنہ کدی سجڑاں توں شالا کوئی مجبورنہ تھیوے، '''''''''''''''''''''''
سداراہوے سامنڑے اکھیاں دے اکھیاں توں دورنہ تھیوے، ''''''''''''''''''
ہجردے ڈاڈھے ذخماں توں شالا کوئی وی چور نہ تھیوے '''''''''''''،
کے فائدہ.اختر.اس زندگی دا جیہڑاسجنڑ توں نکھڑکے جیوے. '''''''''''''
 

نایاب

لائبریرین

چھوٹے بھیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاشق لوک سودائی ۔۔۔۔ دیوانے پگلے

عاشِق سوئی حقیقی جیہڑا قتل مشُوق دے منّے ہُو
سچا عاشق وہی ہوتا ہے جو معشوق کے ہاتھوں قتل ہوتے شکایت نہ کرے ۔۔۔۔۔
عشق نہ چھوڑے ، مُکھ نہ موڑے سَے تلواروں کھّنے ہُو
نہ عشق سے دستبردار ہو نہ ہی معشوق سے نگاہ پھیرے چاہے تلواریں برس رہی ہوں ۔۔۔۔
جِت ول ویکھے راز ماہی دا لگّے اوسے بنّے ہُو
عاشق کو جدھر سے معشوق کی مہک آئے ادھر ہی تن و من سے متوجہ ہو بیٹھے ۔۔۔۔۔
سچا عِشق حسینِ علی (ع) ، سِر دیوے راز نہ بھّنے ہُو
سچے عشق میں بے چون و چرا جان دینے کی مثال جناب حسین ابن علی علیہ السلام ہیں ۔ جنہوں نے سر تو کٹوا لیا مگر اپنے اختیار کو استعمال نہ کیا ۔
(سلطان باہو )
ناں ونج روحا راہ انہاں لوکاں دے
اے میری روح تو ان لوگوں کی راہ پر نہ چل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئیں فکر جنہاں نوں تیرے دم دی
جنہیں تیری بالکل فکر نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ تاں سمدے نال خوشی دے
جو خود تو آرام کی نیند سوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری رات دکھاں وچ دھمدی
اور تیری رات دکھ میں کروٹیں بدلتے گزرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس دِیاں دو اکھِیاں وِچ ڈُب مریا
اس کی دو آنکھوں میں ڈوب گیا ۔۔۔۔۔۔۔
بندہ تارُو پنج دریاواں دا
وہ انسان جو پانچ گہرے دریا تیر کر پار کرنے میں ماہر تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
بندہ نکھڑےنہ کدی سجڑاں توں شالا کوئی مجبورنہ تھیوے، '''''''''''''''''''''''
کبھی کوئی اپنے محبوب سے جدا نہ ہو خدا کرے کبھی کوئی مجبور نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سداراہوے سامنڑے اکھیاں دے اکھیاں توں دورنہ تھیوے، ''''''''''''''''''
محبوب سدا آنکھوں کے سامنے رہے کبھی آنکھوں سے دور نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہجردے ڈاڈھے ذخماں توں شالا کوئی وی چور نہ تھیوے '''''''''''''،
ہجر کے گہرے درد بھرے زخموں سے خدا کرے کبھی کوئی مجروح نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کے فائدہ.اختر.اس زندگی دا جیہڑاسجنڑ توں نکھڑکے جیوے. '''''''''''''
"اختر " اس زندگی کا کیا فائدہ جو محبوب سے جدا رہتے گزری ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
جنہاں دکھاں تے دلبر راضی اہنا توں سکھ وارے
دکھ قبول محمد بخشا تے راضی رہن پیارے
(میاں محمد بخش)
 
Top