اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

kosar_kamaal

محفلین
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے ! از : بنت الہدیٰ
عورت صنف نازک ہے جسے آپ چاہے تو حوا کی بیٹی کہہ کر بلا سکتے ہیں ۔ لیکن آج کی اس اکیسویں صدی میں ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ یہ صنف نازک آج ایک کٹھ پتلی کی حیثیت اختیار کر چکی ہے ۔ اس کی نادیدہ ڈوریں جن ہاتھوں میں ہے وہ طاقتور اور مضبوط ہاتھ میڈیا کے ہیں۔ آج اسلام کے خلاف ثقافتی یلغار میں میڈیا جس طرح مغرب کا ساتھ دے رہا ہے اسے دیکھ کر بقول شاعر کہا جاسکتا ہے کہ "یہ مسلمان ہے کہ جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود!!"
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ہمارا میڈیا بے پردگی کو عام کرنے کے لئے کس قدر بے تاب ہے اور اس مہم میں استعمار کا ہم پیالہ وہم نوالہ ہے۔ میڈیا اپنے اس پروپیگنڈے میں اس قدر کامیاب ثابت ہورہا ہے کہ آج خواتین چاہتے ناچاہتے ہوئے بھی خود کو میڈیا کے حکم پر اس طرح چلا رہی ہے جس طرح میڈیا پسند کرتا ہے۔ جیسے جیسے میڈیا کے انداز بدلتے گئے ویسے ہی خواتین کے بھی خیالات بدلتے گئے ہیں لیکن افسوس اس طرح اس صنف نسواں کی تقدیر نہیں بدل سکتی ! میڈیا کی اس یلغار نے خواتین کے دل و دماغ پر اسلامی تصور کائنات اور دینی تعلیمات کے بجائے فرنگی خیالات کی دھاک بٹھا دی ہے نوجوانوں کے بدن سے روح اسلام اور عقل سے کائنات کے الہٰی تصور کو نکال دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری نوجوان نسل میں لادینی اور ماڈر نزم عروج پر ہے۔ تعلیم یافتہ اور ماڈرن خواتین اس بات سے بے خبر کہ وہ میڈیا کے ہاتھوں کٹھ تلی بن چکی ہے۔ اپنی اس بے پردگی پر خوش اور پر افتخار نظر آتی ہے کہ آخر انہیں حجاب جیسی "عمر قید" سے نجات ملی۔ اسی میڈیا کی بدولت آج مردوں کی غیرت بھی دفن ہو چکی ہے۔ میڈیا نے خواتین سے پردہ کا تقدس چھین کر اسے مردوں کی عقل پر لاددیا ہے ۔ جیسا کہ شاعر فرماتاہے ۔
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر غیرت قومی سے مٹی میں گڑ گیا
پوچھا یہ ان سے آپ کا پردہ کدھر گیا؟
کہنے لگی کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا!
صد افسوس! اس صنف نسواں پر کہ جو خود میڈیا کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر اس قدر مجبور ہو چکی ہے کہ وہ یہ تصور بھی نہیں کر سکتی کہ اپنی مرضی سے کوئی حرکت کریں ۔
آخر اس کٹھ پتلی کے تماشے میں قصور وار کون ہے؟ کیا اس کو نچانے والے ہاتھ(میڈیا) قصور وار ہیں؟
ہمارے خیال میں اس میں سارا قصور صرف و صرف کٹھ پتلی کا ہے۔ کیونکہ جب تک ناچنے والے پیر موجود ہیں نچانے والے ہاتھ بھی موجود رہیں گے۔ لیکن جس دن یہ پیر ناچنے سے انکار کردیں اس دن ان نچانے والے ہاتھوں کی قوت خود ختم ہو جائے گی۔ اگر خواتین میں خود کو بدلنے کے ساتھ دوسروں کے خیالات و افکارات کو بدلنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو اسے ماں کا عظیم رتبہ کیوں دیا جاتا؟ مگر افسوس آج کی خواتین کے لئے تو خیالات کا بدلنا دور کی بات بلکہ آج خواتین نے عقل و شعور سے سوچنا ہی چھوڑ دیا اور نتیجتاً میڈیا کی اندھی تقلید میں گرفتار ہے۔ کیا آپ خواتین نے کبھی سوچا کہ آج اکیسویں صدی کے اس پل آپ کہاں کھڑی ہیں؟ کیا خواتین کو صرف عشویں ، غمزے ، ادائیں اور شوخیاں دکھانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے؟ یقینا ہمیں اس کام کے لئے نہیں بھیجا گیا۔ یہ نام نہاد آزادی ایک آگ ہے۔ کیا ہم خواتین اتنی نادان ہیں جو مسلمان ہوتے ہوئے بھی اس آگ کو لعل سمجھ کر اس کی جانب لپک رہی ہیں ۔ جبکہ ہمارا مذہب ہمیں ان کاموں سے منع کرتا ہے جن سے نامحرموں کی نگاہوں کو ہماری جانب اٹھنے کی بے باکانہ ترغیب ملے۔ اور جہاں تک رہی مومن حقیقی بننے اور حجاب کی بات تو حجاب نہ تو تعلیم سے دوری ہے اور نہ ہی جہالت، بلکہ اگر حجاب نہیں تو امانت نہیں، امانت نہیں تو اعتماد نہیں اگر اعتماد نہیں تو سکون نہیں، اگر سکون نہیں تو تکامل نہیں اور تکامل نہیں تو تہذیب و تمدن نہیں ۔ اور دوسری جانب ماڈرنزم ، فحاشی و نیم عریانیت درحقیقت عصر بھر کی علامت اور جنگل و غاروں کی زندگی ہے۔ بقول شاعر:۔
عزت ہے محبت کی قائم اے قیس حجاب محمل سے!
محمل جو گیا عزت بھی گئی، غیرت بھی گئی، لیلیٰ بھی گئی
ضرورت ہے تو صرف اس امر کی کہ آج عورت دوسروں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننے کے بجائے شور و آگہی کے ذریعے علم کے ذریعے اپنے اندر قوت پیدا کرے اور اپنی اصل طاقت کو پہچان کر اپنی سوچ و فکر کو میڈیا کی زنجیروں سے آزاد کریں جہاد کا یہ محاذ بنت حوا کو خود ہی فتح کرنا ہوگا!
 
Top