مصطفیٰ زیدی اپسراؤں کا گیت

غزل قاضی

محفلین
اپسراؤں کا گیت
( ایک ریویو )

(۱)

آج کی رات بھی کٹ گئی
جھومتی مسکراتی ہوئی
اب کی برسات بھی کَٹ گئی

زخم دھونے کی فرصت ملے
کاش وہ فصل بھی آسکے
جس میں رونے کی فرصت ملے

(۲)

ہم نے جو کچھ کہا، ہو گیا
وقت قدموں سے لپٹا رہا
فاصلہ راہ میں سو گَیا

رنگ و رَم سے بھی الجھے کوئی
کوئی پتھر ، کوئی خارِ غم
کاش ہم سے بھی الجھے کوئی

(۳)

ہم کہ خوابوں کی شہزادیاں
ہم کے نغموں کی روح ِ رواں
ہم کے پندار کی دیویاں

کاش دنیا خَجِل دیکھ لے
دیویوں کی قبا اُدھر
کوئی عورت کا دل دیکھ لے

( مصطفیٰ زیدی از مَوج مِری صدف صدف )
۔
" ریویو سطحی اور وقتی دلچسپی کے لئے پیش کئے جانے والے طربیے کو کہتے ہیں ۔اس طربیے کے پیچھے کبھی کبھی ایک حُزن اَور ایک آس نظر آسکتی ہے جَیسا کہ اس گیت میں ہَے ۔ یہ گیت لندن کے قدیم " ونڈمِل تھیٹر" کے ایک ریویو کا تاثر ہے ۔
 
Top