اٹھو میرے بھائی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
عباس کے لاشے پہ یہ شبیر پکارے
اٹھو میرے بھائی، اٹھو میرے بھائی

پیری کا ساتھ چھن گیا، ہم ہو گئے بے آس، کوئی نہ رہا پاس
آجاؤ تمھی اے میری پیری کے سہارے
اٹھو میرے بھائی، اٹھو میرے بھائی

کیا یہ بھی کوئی عشق و محبت کا ہے انداز ، اے عاشق جانباز
دریا پہ تو جا کے تم کوثر کو سدھارے
اٹھو میرے بھائی، اٹھو میرے بھائی

تم بالی سکینہ کے لیے لائے نہ پانی، وہ روتی ہے جانی
بچی کی زباں پہ تو اصغر کے اشارے
اٹھو میرے بھائی، اٹھو میرے بھائی

چھینیں گے ردا زینب و کلثوم کی اشرار، اے غازی جرار
ہم چھوڑ کے اب جائیں انہیں کس کے سہارے
اٹھو میرے بھائی، اٹھو میرے بھائی
 
Top