آپ ﷺ کی شان میں اشعار

سیما علی

لائبریرین
ابن وتلمیذ جوشؔ ملسیانی نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎


حاصلِ جلوئہ ازل ، پیکرِ نورِ ذات تو ﷺ
شانِ پیمبری سے ہے سرورِ کائنات تو ﷺ
 

سیما علی

لائبریرین
کرشن بہار ی نورؔ نے خود کو آپ ﷺ کے قدموں میں ڈال دیا اور اس عمل کو اپنی معراج قرار دیا ، اس طرح انہوں نے اپنے تخلص نورؔ کا گویا حق ادا کیا۔ ان کا قطعہ۔ ؎

دَیر سے نورؔ چلا اور حرم تک پہنچا
سلسلہ میرے گناہوں کا کرم تک پہنچا
تیری معراج محمد ﷺ تو خدا ہی جانے
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا
 

سیما علی

لائبریرین
جناب بابو برج گوپی ناتھ صاحب بیکل ؔ امرتسری نے کس عمدگی سے اپنے جذبات کا اظہار نظم مسدس میں کیا ہے ، ملاحظہ فرمائیں۔ ؎

اے رسول پاک، اے پیغمبر عالی وقار
چشم باطن بیں نے دیکھی تجھ میں شانِ کردگار

تیرے دم سے گل نظر آئے رہ عرفاں کے خار
خوبیوں کا ہو تری کیونکر بھلا ہم سے شمار

نور سے تیرے اندھیرے میں درخشانی ہوئی
تیرے آگے آبرو کفّار کی پانی ہوئی

اک جہالت کی گھٹا تھی چار سو چھائی ہوئی
ہر طرف خلقِ خدا پھرتی تھی گھبرائی ہوئی

شاخ دیدار کی بھی بے طرح مرجھائی ہوئی
لہلہا اٹھی تری جب جلوہ آرائی ہوئی
 

سیما علی

لائبریرین
بابو رو شن لعل صاحب نعیم ؔڈیرہ غازی خاں نے اپنے جذبات وتصورات کو اشعار کے قالب میں ڈھال کر اس طرح پیش کیا ہے:

للہ بلا لیجئے سرکارِ مدینہ
مرجائے نہ یہ ہند میں بیمار ِمدینہ

حسرت ہے کہ دم نکلے درِ شاہِ ﷺ عرب پر
مدفن ہو تہہِ سایۂ دیوارِ مدینہ

اے شیخ تجھی کو رہِ فردوس مبارک
کافی ہے مجھے گوشۂ گلزارِ مدینہ

مرجائے نعیمؔ الفتِ سرور ﷺ میں الٰہی
تعویذِ لحد ہو در دربارِ مدینہ
 

سیما علی

لائبریرین
ایکناتھؔ کے چند شعر ملاحظہ ہوں۔

خیال کیا ،مچھلی والے و لیکن
دریا وڈھونڈے گوؤند محمد ﷺ

کھیل کھلانے آیا محمد ﷺ
دشرتھ ، رام رانا و لیکن

دیو چھراوے بند محمد ﷺ
کھیل کھلانے آیا محمد ﷺ
 

سیما علی

لائبریرین
مہارانہ کلیان سنگھ

یہ لکھتے ہیں نعتِ رسولِ ﷺ خدا
مغیث الورا ﷺ خواجۂ دوسرا

محمد ﷺ ہیں محبوبِ پروردگار
محمد ﷺ ہیں مطلوبِ پروردگار
 

سیما علی

لائبریرین
ساحرؔدہلوی پنڈت امرناتھ مون
مرا قلب مطلعِ نور ہے کہ حرم میں جلوئہ یار ہے
دل ودیدہ محوِ نظارہ ہیں کہ نہ گرد ہے نہ غبار ہے

بے سایہ نور باعث ایجاد ومغفرت
جس کے وجودِ جود سے رحمت نہال ہے

امت کااپنی شافعِ روز جزا بنا
اب پرسشِ جواب نہ روئے سوال ہے
 

سیما علی

لائبریرین
مہاراجہ کشن پرشاد ولد راجہ ہری کشن پرشاد
شادؔ صاحب کے کلام سے یہ اندازہ لگانا دشوار ہے کہ یہ ایک غیر مسلم کا کلام ہے۔ وہ نعت گوئی کی توفیق پر خدائے تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے کہتے ہیں۔ ؎

مشغلہ نعتِ نبی ﷺ کا ہے مجھے شکرِ خدا
بعد مدت کے یہ ہاتھ آیا ہے مقصد مجھ کو
 

سیما علی

لائبریرین
شادؔ کی وارفتگی اور جذبات کی فراوانی کا عالم دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ رب تعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا خوانی کس کس زبان وکس کس قلم سے کروارہا ہے اورکن کن زاویوںسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی ہورہی ہے۔ مہاراجہ شادؔ کے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے۔ ؎

کافر عشق محمد ﷺ خلق کہتی ہے مجھے
سب مسلماں قدر کرتے ہیں مرے زنّار کی

کافر ہوں کہ مؤمن ہوں، خدا جانے میں کیا ہوں
پر بندہ ہوں ان کا جو ہیں سلطانِ مدینہ ﷺ

ہم خیالِ رخِ پُر نور میں حیراں ہوں گے
یاد آئیں گے جو گیسو تو پریشاں ہوں گے

لے گیا بخت اگر روضۂ اقدس کی طرف
جان ودل سے کبھی صدقے کبھی قرباں ہوں گے

ہم کو تو گلشنِ طیبہ میں اڑا کر لے جا
ہم ترے باد صبا ، بندئہ احساں ہوں گے

جب سے وحدت کا ہوا دل میں خیال
تھا جو بیگانہ، یگانہ ہوگیا

کفر چھوڑا پی کے مئے توحید کی
رنگ شادؔ اب عاشقانہ ہوگیا
 

سیما علی

لائبریرین
رتبے کو مصطفیٰ ﷺکے ملائک سے پوچھیے
سجدے کا حکم پہلے ملا ہے ظہور سے

بیخودؔ کو جام بادۂ کوثر ہو وہ عطا
جنت میں جھومتا رہے جس کے سرور سے
بیخودؔ دہلوی
 

سیما علی

لائبریرین
محسن کاکوروی نے اسی بحر میں مثنوی کے پھول کھلائے اور فن کو کمال تک پہنچادیا۔
آنکھوں کو تلاشِ جلوۂ رب
کانوں میں صدا ئے نَحْنُ اَقْرَبْ
آیا سوئے بزمِ لِیْ مَعَ اللہ
آئینے میں جیسے پرتوِ ماہ
نزدیکِ خدا حضور پہنچے
اللہ اللہ دور پہنچے
تھی اوج پہ شانِ مصطفائی
دکھلاتی تھی بندگی خدائی
 

سیما علی

لائبریرین
حافظ مظہرالدین نے بھی سفر نامۂ حجاز منظوم کرنے میں تحیر اور سرخوشی کے عناصر سے وجد آفریں ماحول پیدا کیا ہے۔ انھوںنے بڑی سرشاری کی کیفیت میں یہ سفر نامہ نظم کیا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
میں اپنی ہی دھن میں گارہا تھا
کونین کو وجد آرہا تھا
نغمات تھے لب پہ عاشقانہ
جبریلؑ کی لَے تھا ہر ترانہ
ویرانۂ قاف و کوہِ الوند
تھی زیست کی راہ جس جگہ بند
ڈرتا نہیں آدمی بلا سے
دے ان کا کرم اگر دلاسے
رحمت ہو حضور کی جو یاور
ہوتا ہے سفر ،حضر سے بہتر
صدقے میں رسولِ دوسرا کے
دیکھے ہیں مزار انبیا کے
دیکھی ہے وہ مسجدِ امیہ
یحییٰؑ کا ہے جس میں پاک روضہ
منزل کے قریب تھا مسافر
با حالِ عجیب تھا مسافر
دنیا تھی خیال میں نرالی
روضے کا جمال، شہ کی جالی
چھوٹے رہِ شوق کے مشاغل
تھا سامنے میرے حُسْنِ منزل٭ل
 

سیما علی

لائبریرین
حافظ مظہرالدین کی فنی ریاضت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
ایک شعر معراج کے حوالے سے بھی ملاحظہ فرما لیجیے:
ورائے عرش بلانے میں راز یہ بھی تھا
کہ اس جہاں کی بھی مخلوق دلربا سے ملے
اس شعر میں معراج کے حوالے سے ایک اہم نکتہ بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے عیسیٰ علیہ السلام تک ہر نبی سے اپنی وحدانیت کا اعلان کروایا لیکن کسی کو براہِ راست اپنا جلوہ نہیں دکھایا۔ آخری پیغام کی ترسیل جنابِ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے ذریعے ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول(ﷺ) کو اپنا دیدار کروادیا ۔مقصد یہ تھا کہ مخلوق تک جو خبراب تک وحیِ ربانی کے توسط سے پہنچ رہی تھی اور پہنچائی جارہی تھی، اسے نبیٔ آخرالزمان(ﷺ) اپنے مشاہدے کی بنیاد پر عام کریں۔ اب اس تناظر میں اس شعر پر غور کرتے ہیں تو پرت پرت معانی کھلتے جاتے ہیں۔مثلاً
٭اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی علیہ السلام کو معراج پر اس لیے بلوایا کہ عالمِ بالا کی مخلوق بھی ان سے ملے یا ان کا مرتبہ پہچان لے۔
اگر ’’اس جہاں‘‘ کا اطلاق ’’دنیا‘‘ پر کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ حضورِ اکرمﷺ جو اپنی دنیاوی زندگی میں اسی جہان کی مخلوق کے طور پر پہچانے جارہے تھے، وہ ، اس دنیا میں رہتے ہوئے پہلے اور آخری ’’انسان‘‘ کی حیثیت سے ’’دلربا‘‘ (اللہ تعالیٰ) سے مل لیں۔
٭معراج میں حاصل ہوجانے والی رفعتوں کے طفیل دنیاوی مخلوق (اس جہاں کی مخلوق) رسولِ اکرمﷺ کے اس ارشاد کو اچھی طرح سمجھ سکے ’’من رآنی فقد را الحق‘‘ (جس نے مجھے دیکھا اس نے حق دیکھا)۔یعنی معراج کے بعد حضورِ اکرمﷺ سے ملنے والے لوگ، نبی کی دل رُبائی (محبوبیت) سے بھی واقف ہوجائیں۔
اس طرح غوروفکر سے اس شعر میں معانی کا ایک جہان آباد نظر آئے گا۔بڑی شاعری کی ایک جہت یہ بھی ہوتی ہے کہ مفہوم کے تعین میں صرف یک رُخی تفہیم کو دخل نہ ہو۔ اس اعتبار سے حافظ مظہرالدین کی شاعری میں بڑی شاعری کاجوہر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
حافظ مظہرالدین کہتے ہیں:
سخن وروں نے بہت زاویے کیے ایجاد
نہ ہوسکی ترے حُسن و جمال کی تفسیر
 

سیما علی

لائبریرین
حافظ مظہرالدین نے خانوادۂ رسولﷺ کی محبت کا پیغام بھی دیا ہے کہ نبی سے ان کی قرابت کا یہی تقاضا ہے ۔پھر ان ہستیوں نے دین کی تنفیذ اور عملی مظاہرے میں خلافتِ راشدہ کی مکمل حمایت کرکے آنے والے زمانوں کے لیے دین کے ڈھانچے کو اصل صورت میں برقرار رکھنے میں مدد دی ہے۔شعر ملاحظہ ہو:
حیدر و فاطمہ ہیں باغِ محمد کی بہار
ہیں حسین اور حسن سنبل و ریحانِ جمال
 

سیما علی

لائبریرین
کھلے جب آنکھ میری سوتے سوتے صبح محشر کو
مرے لب پر پس نامِ خدا ہو یا رسول اللہ

فقیر بے نوا ثروتؔ بھی طالب ہے غلامی کا
کہ تم عزت دہِ شاہ وگدا ہو یارسول اللہ
ثروت رام پوری
 

سیما علی

لائبریرین
شریک ہوتا ہوں ماتم میں با وضو ہو کر
یہ جسم سارے کا سارا نماز پڑھتا ہے

ہماری آنکھ میں فیصل فُرات بہتا ہے
جہاں شہید کا لاشہ نماز پڑھتا ہے

فیصل ہاشمی
 
Top