آشنائے غم پایا‘ رازدانِ دل پایا

میم الف

محفلین
ایک پرانی غزل 2013 کی فاتحؔ تخلص کے ساتھ 2022 میں پیش کر رہا ہوں۔
جو غزلیں 2022 میں لکھوں گا، ان شاء اللہ العزیز انھیں 2031 میں پیش کروں گا۔
(نہیں جی، مذاق کر رہے ہیں، اب زمانہ تیز ہے، تیزی کا متقاضی ہے، ہم بھی اپنی رفتار بڑھائیں گے۔)
ایک بات اور کہ فاتح تخلص اب استعمال نہیں کرتا۔
آپ میں سے کسی کو یہ تخلص چاہیے تو لے سکتے ہیں، شکریہ!
اب غزل:

آشنائے غم پایا‘ رازدانِ دل پایا
آج پھر محبت کو پاسبانِ دل پایا

شوخ رنگ چہروں کو ساکنانِ دل پایا
چشم ہائے روشن کو قاتلانِ دل پایا

اہتمامِ ہستی کو امتحانِ دل پایا
اور سخت مشکل میں کاروانِ دل پایا

تیری انجمن کے بعد اپنی خلوتیں دیکھیں
اور پھر خموشی کو قدردانِ دل پایا

مل گیا جوابِ خط‘ غم سے دوستی پائی
تیری سرد مہری کو میہمانِ دل پایا

بس کہ برملا کہیے اہلِ حسنِ ظاہر کو
آج تک اگر فاتحؔ صاحبانِ دل پایا​
 
آخری تدوین:

میم الف

محفلین
کہاں غائب ہو جاتے ہیں بھائیَ؟؟؟؟
غزل اچھی لگی ۔۔۔ بس مقطع پر کچھ اٹکا ۔۔۔ صاحبانِ دل پایا کچھ سمجھ نہیں آیا۔ مقطع کی تھوڑی وضاحت تو کیجیے۔
بہت شکریہ راحل بھائی
اس مقطع کی وضاحت ہم 2013 میں ہی کر سکتے تھے
جب اسے لکھا تھا
اب تو ہمیں خود بھی سمجھنا پڑے
 
Top