افتخار عارف "اِنہیں میں جیتے اِنہی بستیوں میں مر رہتے" غزلِ افتخارعارف

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
افتخارعارف

اِنہیں میں جیتے اِنہی بستیوں میں مر رہتے
یہ چاہتے تھے مگر کِس کے نام پر رہتے

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے، کہ اپنے گھررہتے

پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنا
پر اپنے ہم شجروں سے تو باخبر رہتے

بس ایک خاک کا احسان ہے، کہ خیر سے ہیں
وگرنہ صورتِ خاشاک در بدر رہتے

مِرے کریم
! جو تیری رضا، مگر اِس بار
برس گزر گئے، شاخوں کو بے ثمر رہتے
افتخارعارف

 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب شراکت ہے اور عمدہ غزل ہے۔

اس غزل کا ایک شعر کسی زمانے میں تصویر کرنے کی کوشش کی تھی۔ آپ بھی دیکھیے۔

hijratsj8.jpg
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے، کہ اپنے گھررہتے


واہ
کیا خوبصورت شعر ہے۔
سبحان اللہ

آج ایک پرانے مشاعرہ کی ویڈیو دیکھتے ہوئے یہ غزل بھی سنی لیکن جب شئیر کرنے سے پہلے تلاش کیا تو محفل پہ موجود تھی۔
 
Top