اِدھر ادھر!!!

اگر ایک گھنٹہ مسلسل ڈاکٹر شاہد مسعود کو سن لیں تو اس بات کا پختہ یقین ہونے لگے گا کہ اگلے چار گھنٹے بعد قیامت آنے والی ہے۔

آدھا گھنٹہ اگر مسلسل زید حامد کو سن لیں (خدا نخواستہ) تو ایسا محسوس ہونے لگے گا کہ آج رات ہی ہماری فوج دہلی پر پاکستانی پرچم ٹھوک ڈالے گی۔

کسی ٹاک شو میں حسن نثار کو پندرہ منٹ تک سننے کے بعد ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ابھی یہ ٹی وی سکرین سے نکل کر گریبان پکڑ کر ادھار مانگ لے گا۔

اگر ایک گھنٹہ مبشر لقمان کے انکشافات سن لیں تو آپ کو پختہ یقین ہو جائے گا کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ بھی نون لیگ نے کرایا۔

آدھا گھنٹا ارشاد بھٹی کو جھیلنے کی کوشش کے بعد آپ کو لگے گا کہ بھٹی کی جیب میں گھر کے سودے کی چار پانچ پرچیاں ہر وقت ہوتی ہیں جن کو وہ ٹی وی پر آ کر سبق کی طرح سناتا رہتا ہے۔

منصور علی خان سے تیس منٹ میں لفظ "میرے کپتان" تین ہزار چار سو دس بار سنائی دینے کی وجہ کانوں میں تان، تان، تان کی گونج اگلے دو ہفتے آتی رہے گی۔

رؤف کلاسرا کو صرف پانچ منٹ سن لیں تو ایسے لگتا ہے جیسے پوری دنیا کی کرپشن ہمارے ملک کی حکمران پارٹی ہی نے کی ہے۔

اگر ایک گھنٹہ حامد میر کو سن لیں تو ایسے لگتا ہے کہ اس کو بھی ابھی نامعلوم ایجنسیاں اسی طرح لاپتہ کرنے والی ہیں جس طرح باقی مسنگ پرسن کو کیا ہے۔

اگر دس منٹ ارشد شریف کو سن لیں تو ایسے محسوس ہونے لگے گا کہ اٹھارویں ترمیم کو فوری ختم کرنا کرونا ختم کرنے سے بھی زیادہ ضروری ہے، ورنہ اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہے۔

بندہ اگر اوریا مقبول بے جان کو چند منٹ سن لے تو اسے لگے گا کہ پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ فحاشی والا ملک ہے جس کی خواتین (اپنے مختصر غیر مناسب لباس کی وجہ سے) یہاں آنے والے ہر عذاب کی ذمہ دار ہیں اور ان کو کوڑے لگنے چاہیئں۔ جبکہ سب سے اچھا ہے کہ ملک میں فی الفور سپہ سالار کی قیادت میں اسلامی صدارتی نظام نافذ کر دیا جائے۔

صرف جاوید چودھری کو دس منٹ سن لیں تو اس کو ایسا محسوس ہوگا جیسے ابن رازی، توتن خامن، گوتم بدھ اور خلیل جبران سارے اس کے کلاس فیلو تھے اور یہ ان سب کا مانیٹر تھا.
(COPIED)
 
ماسٹر اسکول سے تھک کر گھر واپس آئے اور کھانا کھانے بیٹھ گیے
کھاتے کھاتے اپنی بیوی کو بتایا کہ "کھانا اچھا نہیں ہے ، کوئی ذائقہ نہیں آرہا ہے"

بیوی اپنی برائی کا بدلہ لینے کے لئے اٹھی اور کوویڈ ہیلپ لائن کو فون کیا اور ایمبولنس کو بلالیا اور کہا.. "ان کو کھانے کا ذائقہ نہیں آ رہا ہے .."

ایمبولنس ماسٹر کو کوویڈ ہسپتال لے گئی اور انہیں قرنطین کردیا۔ اس طرح بیوی نے اس کا بدلہ لیا۔
دوسری طرف ، ماسٹر صاحب سے یہ پوچھا گیا کہ "آپ کے ساتھ کس کس کا رابطہ ہوا؟"
ماسٹر نے بالکل سکون سے کہا ..
- میری بیوی
- میرے سسر
- میری ساس
- میرے دو سالے
- میری تین سالیاں
- میرے تین ساڑھو
٭٭ اور " خالہ مشاطہ جنہوں نے میرا رشتہ کروایا "
اب یہ سارے لوگ بھی کوویڈ ہسپتال کے بستر پر بیٹھے ہوئے ماسٹر صاحب کو گھوررہے ہیں اور ان کی اہلیہ سوچ رہی ہیں کہ کاش میں نے انہیں اچار دے دیا ہوتا۔
Respect and Regards
ماسٹر تو ماسٹر ہوتا ہے۔
(COPIED)
 
آجکل گھر کی موجودہ صورتحال کچھ یوں ہے۔۔۔

مما بھوک لگی ہے۔۔
مما یہ مار رہا ہے۔۔
مما اس نے میری پینسل گم کر دی..
مما فرائز بنا دیں..
مما میرے ساتھ کرکٹ کھیلیں..
مما اس نے مجھ پہ پانی پھینک دیا..
مما موبائیل دیں نا تھوڑی دیر کے لیے۔۔
مما ایک نیو گیم ڈاؤن لوڈ کرنے دیں۔۔
مما خالہ کی کال ہے۔۔۔۔
مما چیز لینی ہے۔
مما بھائی ریموٹ نہیں دے رہا..
مما کھلینے جائیں؟؟؟
مما آج چھٹی کرا دیں ٹیوشن سے
مما پرامس تنگ نہیں کریں گے
مما چائییز رائس بنا دیں
مما پیزا بنا کے دیں آج
مما پارک چلیں؟؟؟؟
مما میٹھا کھانے کو دل کر رہا ہم کیک بنائیں؟؟

مما۔۔۔۔۔مما۔۔۔۔۔۔مما۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(COPIED)
 
زیرک... شکریہ
حادثے کے بعد مراثی نے بیان دیتے ہوئے بتایا کہ؛ "میں گاڑی چلا رہا تھا کہ بریک فیل ہو گئے، سڑک پر ایک طرف دو آدمی تھے، دوسری طرف بارات جا رہی تھی، بتائیں میں کس طرف گاڑی موڑتا؟"۔
پولیس محرر: "ظاہر ہے دو آدمیوں کی طرف"
مراثی: "بادشاہو! میں نے بھی یہی کیا تھا لیکن وہ بھاگ کر بارات میں گھسنے لگے تو گاڑی ادھر موڑ دی"۔
مؤرخ لکھے گا کہ سیانے خان صاحب نے بھی دو افراد کے چکر میں پوری قوم پر گڈی چڑھا دی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اشتہار برائے ضرورت رشتہ

ایک نو عمر سید زادہ، سینہ کشادہ، نیک چلن سیدھا سادہ، لمبا کم اور پست زیادہ، حسن کا دلدادہ، شادی پر آمادہ، خوبصورت جوان، اعلٰی خاندان، عرصہ سے پریشان، کے لیے ایک حسینہ مثل حور، نشہ شباب میں چُور، چشم مخمور، چہرہ پُرنور، باتمیز باشعور، باہنر سلیقہ مند، صوم و صلاۃ کی پابند، با ادب با حیا، نہ شائق سرخی و کریم، معمولی تعلیم، مہ جبیں، بے حد حسیں، پردہ نشیں، بقید حد پستہ قد، آہستہ خرام، شائستہ کلام، پیارا سا نام، عجوبہ کائنات، رفیقہ حیات درکار ہے، ورنہ زندگی بیکار ہے۔

مسہری یا چارپائی، روئی بھری رضائی، چند زیور طلائی، کچھ کرسیاں اور میز، بس اس قدر جہیز، لڑکا گو اناڑی ہے مگر کاروباری ہے۔ ایک چھوٹی سی دکان اور منہ میں زبان رکھتا ہے۔

مزید بات چیت کے لیے بالمشافہ یا بذریعہ لفافہ
خط و کتابت پابندی سے صیغہ راز میں رکھی جائے گی۔
مکان نمبر ۴۲۰، گلی نمبر ۹۲۱۱، حیران چوک، پریشان منزل
 

شمشاد

لائبریرین
جواب ضرورت رشتہ

پسند آیا آپ کا اشتہار، کہیں یہی تو نہیں آپ کا کاروبار، ہیں بکاؤ میرے سرکار جو چلے آئے ہیں سر بازار لیکر خود اپنی پکار اور ہو رہے ہیں ذلیل و خوار۔

سید زادہ نو عمر جھوٹی لگتی ہے یہ خبر، ہیں پستہ قد تو ہو گی موٹی بھی آپ کی کمر، ہیں آپ جوان از اعلٰی خاندان، ہوتا یہ سچ تو مانگتے جہیز میں پاندان، اگالدان۔

اسی مانگ کے سبب ہیں آپ کنوارے مجہول، کوئی بات نہیں کر لیجیے مجھے قبول، آزردہ دل ہوں اور دھول کا پھول، ہوں صورت سے حور مگر قسمت سے مجبور، شوق ہے سرخی کا نہ میک اپ پسند، ماں باپ نے رکھا ہے گھر میں نظر بند، دینی تعلیم سے ہوں مالا مال، گو چاندی کی جھلک رکھتے ہیں کچھ بال، غریبی نے نکھار دیئے ہیں قد و خال، جوانی تو ہے مثل حباب، مال کے علاوہ سب کچھ ہے مجھ میں جناب، آپ کاروباری ہوں یا کہ اناڑی، چھوٹی سی ہو دکان یا مکان، کاش بن جائیں آپ مومن، قبول کر لیں یہ کمسن، بیوپاری سے بن جائیں محسن، اپنی بیوی بنا لیں مجھے، اپنے سینے سے لگا لیں مجھے۔ غلط نظروں سے بچا لیں مجھے، رقعہ میں حاضر ہے تصویر، گر ہو پسند کر دیجیئے تحریر ورنہ بیکار ہے سب تقریر، سمجھوں گی یہی ہے تقدیر۔

مکان نمبر ۴۲۰ سے کر لیجیئے انتقال، گلی ۹۲۱۱ میں جو ہے ایک ہسپتال، حیران چوک سے کچھ آگے ہے اپنی بھی چھال، پریشان منزل سے آگے آئیں گے تو وہیں مرقد میں ہمیں پائیں گے۔ اگر جلد چلے آئیں گے تو والدین کو میرے بقید حیات پائیں گے۔ وہیں قریب ہے میرے بھائی کا آفس، نہیں ہوں پسند تو بس خدا حافظ۔
 

شمشاد

لائبریرین
نیوز کاسٹر کا اپنے محبوب کے نام خط

السلام علیکم

سب سے پہلے خاص خاص باتیں۔

چچی کے خط سے خبر موصول ہوئی ہے کہ تم شادی کے لیے شور مچا رہے ہو۔

خط ملتے ہی اماں کا شادی کے لیے فرنیچرلاہور سے منگوانے کا ارادہ مگر ابا کا اصرار کہ فرنیچر سیالکوٹ سے ہی خریدا جائے۔

تفصیلی باتیں ۔۔۔۔ دوپہر کا کھانا بنانے کے بعد لکھوں گی۔

اب دوپہر کا کھانا بنانے کے بعد خبروں کی تفصیل کے ساتھ حاضر ہوں۔

پیارے محبوب! تم نے شادی کے لیے اتنا شور مچایا کہ ہمارے گھر بھر میں تھرتھلی مچ گئی ہے۔ چچی کے خط سے خبر ملی کہ وہ اگلے ہفتے دن مقرر کرنے کے لیے آ رہی ہیں۔ مجھے یہ خبر موصول ہوئی ہے، میرے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے ہیں۔

پیارے محبوب، گھر والے شادی کی تیاری زور و شور سے کر رہے ہیں۔ اماں چاہتی ہیں کہ فرنیچر لاہور سے منگوایا جائے جبکہ ابا نے یہ کہہ کر ٹانگ اڑا دی کہ سیالکوٹ میں بھی اعلٰی قسم کا فرنیچر دستیاب ہے۔

اماں ابا کی سرد جنگ شروع ہونے ہی والی تھی کہ اسلام آباد سے بھائی صاحب عین موقع پر پہنچ گئے۔ انہوں نے آتے ہی بیچ بچاؤ کرا دیا۔

اب موسم ۔۔۔۔ گھر بھر میں موسم کی صورتحال کچھ یوں ہے کہ اماں کی گرج دار آواز ہر طرف سنائی دے رہی ہے، اس صورتحال کو دیکھ کر گھر کا ہر فرد ابا سمیت شادی کی تیاریوں میں مصروف ہے۔

پیارے ساجن، گھر میں شور و غل دیکھ کر مجھے تو ہر طرف دھنگ رنگ محسوس ہو رہے ہیں۔ اپنی خوشی اور گھر کی آب و ہوا تم تک پہنچانے کے لیے خط لکھ رہی ہوں، اس سے پہلے کہ اماں کی گرج دار آواز کے ساتھ مجھ دو مکے پڑ جائیں، اب خط لکھنا بند کرتی ہوں۔

ان شاء اللہ ملاقات نزدیک ہے، تب تک کے لیے اجازت۔

تمہاری شانو
 

شمشاد

لائبریرین
پرائیویٹ اسکول

صرف ان بچوں کے والدین رجوع کریں جو اپنے بچوں کا مستقبل روشن کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا مستقبل بھی تابناک کریں اور ہمارے اسکول کے لیے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کا باعث بنیں۔ ایسے افراد زحمت نہ کریں جو ہمارے فیس ادا کرنے کی سکت نہ رکھتے ہوں۔

میرٹ کی کوئی قید نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
چینل ۳

آج مس فتنہ کا مقابلہ ہے۔ دوسری لڑکیوں کے ساتھ، لیجیے مار کٹائی کا مقابلہ شروع ہوا۔ مس فتنہ شروع سے ہی آگے اور آگے ۔۔۔ لیجیے من فتنہ نے لڑائی مارکٹائی میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ۔۔۔ مس فتنہ پھر نمبر ۱

جیت گئی مس فتنہ کی سینڈل
ہار گئی دوسری لڑکیوں کی چپل
 

شمشاد

لائبریرین
ماڈرن ہیر کا دقیانوسی رانجھے کے نام خط

ہیلو سنی بوائے،

میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم سناؤ کیسے ہو؟ اب تم شکوہ نہ کرنا کہ ہیر مجھ سے رابطہ نہیں رکھتی۔ دراصل میں نے تم سے انٹرنیٹ اور فون پر بات کرنے کا سوچا بھی تھا لیکن تم تو پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہو۔ بھلا تمہارے پاس کمپیوٹر اور موبائل فون کہاں؟ اب ناراض ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ میں تمہیں خط لکھ رہی ہوں۔ پہلے تو مجھے خط لکھنے کی فرصت ہی نہیں تھی، دراصل ہر وقت پارٹیز اور فنکشنز ہوتے رہتے ہیں اور ظاہر ہے مجھے تو آٹینڈ کرنے ہوتے ہیں اور ہاں، تمہیں شرم آنی چاہیے کہ تم دوبارہ میٹرک کے امتحان میں فیل ہو گئے ہو۔ اور قصوروار تم نے مجھے ٹھہرایا ہے کہ ہیر ہر وقت میرے خیالوں میں سمائی رہتی ہے۔ اسی وجہ سے میری فرینڈز ہر وقت میرا مذاق اڑاتی رہتی ہیں۔ تم اب یہ بانسری وانسری بجانا چھوڑ دو اور کوئی پاپ میوزیکل بینڈ جائن کر لو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو پھر وعدہ رہا کہ میں تمہارے کنسرٹ میں ضرور آؤں گی۔ دیکھو سنی بوائے، اب تم میرے مشوروں پر غور ہی نہ کرتے رہ جانا، عمل بھی کرنا ورنہ میرے کالج کے سامنے بہت سے لڑکے کھڑے رہتے ہیں، پھر یہ نہ کہنا کہ ہیر بے وفا نکلی۔

اچھا اب بائے بائے، میں نے اپنے فرینڈ میرا مطلب ہے کہ اپنی فرینڈ کی برتھ دے پر جانا ہے اور میک اپ جسے تم بیک ورڈ لوگ لیپا پوتی کہتے ہو وہ بھی کرنا ہے۔

اچھا بس ۔۔۔ بائے بائے
ہمیشہ کی طرح حسین و جمیل دلربا و دلنشین ہیر۔
 
ضلع جلہم کے شہر پنڈ دادنخان میں ایک کھنڈر واقع ہے۔ یہ کوئی عام کھنڈر نہیں یہ دسویں صدی کے مشہور سائینسدان ابوریحان البیرونی کی لیبارٹری ہے۔ جس میں انھوں نے ان پہاڑوں کی چوٹیوں کا استعمال کر کے زمین کی کل پیمائش کا صحیح اندازہ لگایا۔ البیرونی کے مطابق زمین کا قطر 3928.77 تھا جبکہ موجودہ ناسا کی جدید کیلکولیشن کے مطابق 3847.80 ھے یعنی محض 81 کلومیٹر کا فرق۔ البیرونی نے ڈھائی سو سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ وہ محمود غزنوی کے دربار سے منسلک تھے۔ افغان لشکر کے ساتھ کلرکہار آئے۔ افغانوں نے البیرونی کے ڈیزائن پر انکو یہ لیبارٹی بنا کر دی۔ البیرونی وہ واحد سائنسدان ہیں جہنوں نے کتاب الہند لکھی اور بتایا کہ ہندو صرف بتوں کو پوجنے کا نام نہیں بلکہ یہ بہترین ثقافت ہے۔ بلکہ ہندو فلاسفر کسی صورت بھی یونانی فلاسفروں سے کم نہیں۔ ان کے پیچھے رہ جانے کی وجہ صرف ان کی زبان سنسکرت ہے جس کی وجہ سے ہندو اپنے خیالات کا اظہار اچھے سے نہیں کرپاتے۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے ورثہ کی کیسے قدر کرتے ہیں۔ اس میں ماسوائے چند بکریاں چرانے والوں کے علاوہ کوئی نہیں جاتا۔ حکومت کو چاہیئے کہ دوبارہ سے ٹھیک کرے اور تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ Study Tours ایسے تاریخی مقامات پر کروایا کریں۔
نوٹ۔ 1974 میں سوویت یونین نے ابو ریحان محمد بن البیرونی پر ایک فلم بھی بنائی ھے جس کا نام ھے ابو ریحان البیرونی۔ حکومت پاکستان سے گزارش ھے اس فلم کی اردو مین ڈبنگ کرکے چلوائیں۔
البیرونی کی وفات 1050 میں غزنی افغانستان میں ہوئی اور وہیں آسودہ خاک ہیں۔
(کاپی)
 
حاجی صاحب مالش کرنے والے سے مالش کروا رہے تھے کہ اتنے میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا:
" کیا حال ہے حاجی صاحب... آپ نظر نہیں آتے آج کل؟ "
حاجی صاحب نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی. وہ بندہ کہنے لگا:
" حاجی صاحب... میں آپ کی سائیکل لے کے جا رہا ہوں"
وہ سائیکل مالشی کی تھی. کافی دیر ہو گئی تو مالشی کہنے لگا:
" حاجی صاحب... آپ کا دوست آیا نہیں ابھی تک واپس میری سائیکل لے کر؟ "
حاجی صاحب بولے :
" وہ میرا دوست نہیں تھا"
مالشی بولا:
" مگر وہ تو آپ سے باتیں کر رہا تھا"
حاجی صاحب بولے:
" میں تو اس کو جانتا ہی نہیں ہوں.
میں تو سمجھا تھا کہ وہ تمہارا دوست ہے"
مالشی بولا:
" حاجی صاحب... میں غریب آدمی ہوں. میں تو لٹ گیا"
حاجی صاحب بولے:
" اچھا تو رو مت. میں تجھے نئی سائیکل لے دیتا ہوں. تم سائیکل والی دوکان پر جا کے پسند کر لو.
مالشی نے ایک سائیکل پسند کی
اور چکر لگا کے دیکھا. واپسی پر آکر کہنے لگا کہ حاجی صاحب یہ سائیکل ذرا ٹیڑھی چل رہی ہے
حاجی نے کہا:
"یار نئی سائیکل ہے. یہ ٹھیک ہے. دکھاٶ میں چیک کرتا ہوں"
حاجی صاحب سائیکل پر چکر لگانے گئے اور واپس آئے ہی نہیں.
مالشی کو اس سائیکل کے پیسے بھی دینے پڑ گئے----
آج ایسا ہی حال پاکستانی قوم کے ساتھ ہو رہا ہے. ہر نیا آنے والا حاجی کی طرح کررہا ہے. قوم مالشئیے کی طرح بھگت رہی ہے.

(کاپی)
 

شمشاد

لائبریرین
جوتے

جوتے خواہ کسی بھی قسم کے ہوں، ان کا کام پاؤں کی حفاظت کرنا ہے۔ عموماً یہ پہننے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی ان کے بہت سے کام ہیں۔ موچی جوتوں کی مرمت کرتے ہیں اورجوتے بگڑتے ہوئے لوگوں کی۔ جن لوگوں کی مرمت جوتے ایک بار کر دیتے ہیں وہ شاذ و نادر ہی بگڑتےہیں۔ جوتے نامکمل انسانوں کو انسان بنانے کے کام آتے ہیں اور جو انسان بن جاتے ہیں، وہ جوتے بناتے نہیں چلاتے ہیں۔ جب جوتے چلتے ہیں تو انسان بھی چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ بگڑتے ہوئے انسانوں کو بہت جوتے پڑتے ہیں۔ جوتے اگر پاؤں میں پڑے ہوں تو فوراً استعمال کر لیتے ہیں اور ان کے سامنے پڑے ہوں تو کوشش کرتے ہیں کہ بچ جائیں۔ جوتے خواہ سونے کے ہوں، ان کی جگہ پاؤں ہے، لیکن اگر سونے کے جوتے بنا دیئے جائیں تو اٹھا کر سر پر رکھ لیا جاتا ہے۔

شادیوں میں جوتا چھپائی کی رسم ہوتی ہے اور یہ کام دولہا میاں کی سالیاں کرتی ہیں، یعنی پہلے دن سے ہی ڈینٹنگ کا سامان جمع کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ لیکن دولہا میاں کو بھی چین کہاں، وہی جوتا مہنگے داموں واپس لے لیتے ہیں۔یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ مستقبل قریب میں اسی جوتے سے ان کی پیچ و خم درست ہو سکتے ہیں۔ سالیوں سے تو کبھی کبھار ملاقات ہو گی لیکن جو مستقل مصیبت گلے لگا لی ہے، جوتے وہی استعمال کریں گی۔
 
سائیکل معیشت کی دشمن ہے۔
ایک ملٹی نیشنل بینک کے سی ای او نے معاشی ماہرین کو اس وقت سوچ میں ڈال دیا جب اس نے کہا کہ: سائیکل ملکی معیشت کیلئے تباہی کا باعث ہے - اس لئے کہ سائیکل چلانے والا کار نہیں خریدتا، وہ کار خریدنے کے لئے قرض بھی نہیں لیتا۔ کار کی انشورنس نہیں کرواتا - پیٹرول بھی نہیں خریدتا۔ اپنی گاڑی سروس اور مرمت کے لئے نہیں بھیجتا۔ کار پارکنگ کی فیس ادا نہیں کرتا۔ وہ ٹال پلازوں پر ٹیکس بھی ادا نہیں کرتا۔ سائیکل چلانے کی وجہ سے صحت مند رہتا ہے موٹا نہیں ہوتا !! صحت مند رہنے کے باعث وہ دوائیں نہیں خریدتا۔‏ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پاس نہیں جاتا۔ حتیٰ کہ ملک کے جی ڈی پی میں کچھ بھی شامل نہیں کرتا۔ اس کے برعکس ہر نیا فاسٹ فوڈ آؤٹ لیٹ اپنے ملازمین کے علاوہ کم از کم 30 طرح کے لوگوں کے لئے روزگار کا سبب بنتا ہے۔‏ جن میں ڈاکٹر ، امراض قلب کے ماہر، ماہرِ معدہ و جگر، ماہر ناک کان گلہ، دندان ساز، کینسر سپیشلسٹ، حکیم اور میڈیکل سٹور مالکان وغیرہ شامل ہیں۔ چنانچہ یہ بات ثابت ہوئی کہ سائیکل معیشت کی دشمن ہے اور مضبوط معیشت کے لئے صحت مند افراد سخت نقصان دہ ہیں۔‏

نوٹ:- پیدل چلنے والے معیشت کےلئے اور بھی خطرناک ھیں۔ کیونکہ وہ سائیکل بھی نہیں خریدتے
 

شرمین ناز

محفلین
اگر ایک گھنٹہ مسلسل ڈاکٹر شاہد مسعود کو سن لیں تو اس بات کا پختہ یقین ہونے لگے گا کہ اگلے چار گھنٹے بعد قیامت آنے والی ہے۔

آدھا گھنٹہ اگر مسلسل زید حامد کو سن لیں (خدا نخواستہ) تو ایسا محسوس ہونے لگے گا کہ آج رات ہی ہماری فوج دہلی پر پاکستانی پرچم ٹھوک ڈالے گی۔

کسی ٹاک شو میں حسن نثار کو پندرہ منٹ تک سننے کے بعد ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ابھی یہ ٹی وی سکرین سے نکل کر گریبان پکڑ کر ادھار مانگ لے گا۔

اگر ایک گھنٹہ مبشر لقمان کے انکشافات سن لیں تو آپ کو پختہ یقین ہو جائے گا کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ بھی نون لیگ نے کرایا۔

آدھا گھنٹا ارشاد بھٹی کو جھیلنے کی کوشش کے بعد آپ کو لگے گا کہ بھٹی کی جیب میں گھر کے سودے کی چار پانچ پرچیاں ہر وقت ہوتی ہیں جن کو وہ ٹی وی پر آ کر سبق کی طرح سناتا رہتا ہے۔

منصور علی خان سے تیس منٹ میں لفظ "میرے کپتان" تین ہزار چار سو دس بار سنائی دینے کی وجہ کانوں میں تان، تان، تان کی گونج اگلے دو ہفتے آتی رہے گی۔

رؤف کلاسرا کو صرف پانچ منٹ سن لیں تو ایسے لگتا ہے جیسے پوری دنیا کی کرپشن ہمارے ملک کی حکمران پارٹی ہی نے کی ہے۔

اگر ایک گھنٹہ حامد میر کو سن لیں تو ایسے لگتا ہے کہ اس کو بھی ابھی نامعلوم ایجنسیاں اسی طرح لاپتہ کرنے والی ہیں جس طرح باقی مسنگ پرسن کو کیا ہے۔

اگر دس منٹ ارشد شریف کو سن لیں تو ایسے محسوس ہونے لگے گا کہ اٹھارویں ترمیم کو فوری ختم کرنا کرونا ختم کرنے سے بھی زیادہ ضروری ہے، ورنہ اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہے۔

بندہ اگر اوریا مقبول بے جان کو چند منٹ سن لے تو اسے لگے گا کہ پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ فحاشی والا ملک ہے جس کی خواتین (اپنے مختصر غیر مناسب لباس کی وجہ سے) یہاں آنے والے ہر عذاب کی ذمہ دار ہیں اور ان کو کوڑے لگنے چاہیئں۔ جبکہ سب سے اچھا ہے کہ ملک میں فی الفور سپہ سالار کی قیادت میں اسلامی صدارتی نظام نافذ کر دیا جائے۔

صرف جاوید چودھری کو دس منٹ سن لیں تو اس کو ایسا محسوس ہوگا جیسے ابن رازی، توتن خامن، گوتم بدھ اور خلیل جبران سارے اس کے کلاس فیلو تھے اور یہ ان سب کا مانیٹر تھا.
(COPIED)
کچھ تصویریں صرف دیکھنے کے لیے، کچھ تحریریں صرف پڑھنے کے لیے اور کچھ لوگ صرف سننے کے لیے ہوتے ہیں
 

سیما علی

لائبریرین
ریل میل
ریل اور میل نے پورے متحدہ ہندوستان کو بدل کر رکھ دیا۔ کراچی سے چٹاگانگ اور پشاور سے راس کماری تک عام سے عام آدمی کا سفر بھی آسان ہو گیا۔ میل نے محبتوں کو پروان چڑھانے، کہیں دور گئے پیاروں سے رابطہ برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

معروف بھارتی دانشور رام پنیانی کا کہنا ہے کہ انگریز نے ریل اور میل کو متعارف کراکے ڈیڑھ سو برس ہندوستان پر حکمرانی کی۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن لوگوں نے اس کی حکمرانی کی راہ میں روڑے اٹکائے ان کے لیے جیل بھی تعمیر کی۔ یوں ان کا دعویٰ ہے کہ ریل، میل اور جیل ہندوستان پر انگریز کی حکمرانی کو مضبوط کرنے کا سبب بنے۔

انگریزوں پر نوآبادیاتی آقا کے طور پر تنقید اپنی جگہ، مگر انھوں نے اس خطے میں جو کام کیے وہ بھی قابل صد ستائش ہیں۔ پیمائش اراضی سے مردم شماری تک، قانون سازی سے اداروں کی تشکیل تک اور تعلیم و صحت کی سہولیات سے مواصلات کے نظام تک وہ کون سا ایسا شعبہ ہے جس میں انگریز نے ہندوستان کو نئی زندگی سے روشناس نہیں کرایا۔

مرزا غالب، جب پنشن کی بحالی کے لیے کلکتہ جانے پر مجبور ہوئے تو دہلی سے بہار تک مختلف ذرایع استعمال کیے لیکن جب جمشیدپور سے کلکتہ تک ریل میں سفر کیا تو ان کی جہاندیدہ نظروں نے بھانپ لیا کہ ہندوستان میں ایک نئی تبدیلی کروٹ بدل رہی ہے چنانچہ واپسی پر انھوں نے سر سید احمد خان کو مسلمانوں کی تعلیم پر توجہ دینے پر آمادہ کیا جو اس وقت دہلی کی قدیم عمارتوں پر اپنی تصنیف آثار صنادید لکھنے میں مگن تھے۔

سر سید نے مرزا کی بات کو اہمیت دی اور اپنی بقیہ زندگی تعلیم کے فروغ کے لیے وقف کر دی۔ سرسید کی راہ پر چلتے ہوئے حسن علی آفندی نے کراچی میں سندھ مدرسۃ الاسلام اور جسٹس امیر علی نے کلکتہ میں عصری تعلیم کا ادارہ قائم کیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسلمانان ہند پر غالب کا احسان ہے کہ انھوں نے سرسید کو جدید تعلیم کے فروغ کی جانب راغب کیا۔ آج برصغیر میں جتنے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ہیں وہ انھی تینوں مدبرین کی بے لوث محنت اور مرزا نوشہ کی بصیرت کا صلہ ہیں۔

ذکر ہو رہا تھا ریل کا۔ ریل کے سفر کی اپنی رومانیت ہے‘ جو مزا ریل کے سفر میں ہے وہ نہ تو ہوائی سفر میں نصیب ہوتا ہے اور نہ اپنی سواری میں۔ مجاز نے تو ایک پوری نظم ریل پر لکھ دی جس کا ہر شعر ایک نگینہ ہے۔ اس نظم کا پہلا شعر ہے:

پھر چلی ہے ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی

نیم شب کی خامشی میں زیرلب گاتی ہوئی

انگریز نے 1849ء میں ممبئی سے تھانے تک27 کلومیٹر ریل کی پٹڑی بچھا کر اس نئے ذریعہ آمدورفت کا آغاز کیا اور 1929ء تک محض 80برس کے دوران 66ہزار کلومیٹر ریلوے لائن بچھا کر پورے ہندوستان کے شہروں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا۔

بھارت نے تو آزادی کے بعد ریل کے نظام میں مزید توسیع کرکے اس کے سفر کو اور زیادہ بہتر اور آرام دہ بنا دیا مگر پاکستان میں ریلوے کوتاہ بین قیادتوں کی وجہ سے تباہی کے دہانے تک جا پہنچی ہے۔ پتا نہیں کب بند ہو کر ہمارے دقیانوسی ہونے کا منہ چڑائے۔ اگر ریلوے بند ہوتی ہے تو یہ اس ملک کے غریب عوام کے لیے ایک تازیانہ سے کم نہ ہو گا جن کے لیے سب سے سستا سفر ریل کا ہوتا ہے۔

انگریز کا دوسرا کارنامہ میل (Mail) یعنی ڈاک کا نظام تھا۔ پورے ہندوستان میں ڈاک خانوں کا جال بچھا دیا۔ ہر ڈاک خانے سے سرخ سائیکل پر خاکی وردی میں ملبوس ڈاکیا گلی گلی، محلہ محلہ جاتا اور ان کے پیاروں کے خط انھیں پہنچاتا۔

وہ ہر گھر کا رازدان بھی ہوتا کیونکہ وہ ان کے خط لکھتا اور انھیں اپنی ذمے داری پر پوسٹ کرتا۔ یہ ماضی قریب کا بڑا خوبصورت کلچر تھا۔ ڈاکیے کی گھنٹی سنتے ہی بچے بالے ہی نہیں بزرگ بھی اس امید پر گھر سے باہر آجاتے کہ شاید ان کا کوئی خط آیا ہو۔ ڈاک اور ریل میں چولی دامن کا رشتہ تھا۔

ڈاک زیادہ تر ٹرین کے ذریعے ہی پورے ہندوستان میں جاتی تھی۔ ہر ٹرین میں سرخ رنگ کا ایک خصوصی ڈبہ ہوا کرتا تھا جس میں ہر شہر کے خطوط تھیلوں میں بند ہوتے تھے۔ ہر اسٹیشن پر عملہ یہ تھیلہ متعلقہ شہر کے ڈاک خانے کے عملے کو دیا کرتا تھا۔ خط کا ذکر آتے ہیں آنکھوں میں شبنم کا چہرہ گھومنے اور کانوں میں ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز گونجنے لگتی ہے۔

چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے

حال میرے دل کا تمام لکھ دے

مگر نہ اب وہ ریل ہے اور نہ وہ میل ہے۔ میں نے بیسویں صدی کے آخری برس جب اپنی بہن کو زندگی کا پہلا ای میل بھیجا تو اس کا جواب آیا کہ تمہارا خط پڑھ کر دل کو سکون ضرور ملا مگر خط بے رنگ و بے بو لگا۔ اس میں نہ تمہارے ہاتھ کی خوشبو تھی اور نہ تحریر کا بانکپن‘ اگر مجھ پر عنایت کرو تو یہ ’’مشینی خط‘‘ نہ ہی بھیجو تو بہتر ہے۔ فون پر تمہاری آواز سن کر خوش ہو جائیں گے۔ لیکن زمانہ بدل گیا ہے یعنی بقول اکبر الہ آبادی

پانی پینا پڑا ہے پائپ کا

خط پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا

مگر آج ہماری مجبوری ہے کہ ہم پائپ سے آگے بڑھ کر منرل واٹر پیتے ہیں اور خط ہی پر کیا موقوف ہے عید کارڈ اور شادی کے دعوت نامے بھی ای میل کے ذریعے بھیجتے ہیں۔

ڈاکیے کی تو شکل کو ترس گئے ہیں۔ اس کی وہ خاکی وردی اور سرخ سائیکل قصہ پارینہ ہوئی۔ ٹیلی گرام کا محکمہ تو شاید بند ہی ہو گیا ہے۔ اس کی جگہ ٹیلی فون اور موبائل فون نے لے لی ہے۔ sms نے ای میل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اب تو سوشل میڈیا نے روایتی میڈیا کا ناطقہ بند کر دیا ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

زندگی کی بھاگ دوڑ، تیزی طراری نے سفر کی رومانیت کو کھا لیا ہے۔ ہم نے ٹرین کا آخری سفر 2004 میں کیا تھا۔ اس کے بعد نزدیکی سفر بذریعہ کار اور دور کے سفر بذریعہ ہوائی جہاز کیے۔ 2004 میں ممبئی سوشل فورم میں شرکت کے لیے پہلے قراقرم ایکسپریس سے لاہور اور پھر امرتسر سے ممبئی تک گولڈن ٹیمپل ایکسپریس میں سفر کیا۔

کراچی سے لاہور کے20گھنٹے کے سفر نے تھکا دیا مگر امرتسر سے ممبئی کے33گھنٹے کے سفر میں جو لطف آیا وہ ناقابل بیان ہے۔ اس کے بعد کئی بار ٹرین سے سفر کرنے کا قصد کیا مگر ٹرین کے تسلسل کے ساتھ کئی کئی گھنٹے تاخیر کی خبروں نے ہمت نہیں ہونے دی کہ ٹرین سے سفر کریں۔

65برس میں برصغیر میں کتنا فرق آگیا ہے۔1965 تک ان کی ٹرین سست روی کا شکار ہوتی تھیں جب کہ ہماری ٹرینیں تیز رفتار تھیں مگر ہم نے ریلوے کی ترقی پر توجہ دینے کے بجائے اس دودھ دینے والی گائے کو ہی کاٹنا شروع کر دیا۔ نہ کوئی نئی پٹڑی بچھائی گئی نہ ٹرینوں کی حالت بہتر بنانے کی کوشش کی بلکہ لوٹ مار، کرپشن اور اقربا پروری نے ریلوے کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ آج انجنوں کا قحط ہے اور انھیں چلانے کے لیے ڈیزل کی قلت۔

کوئی ٹرین نہ وقت پر روانہ ہوتی ہے اور نہ وقت پر منزل مقصود تک پہنچتی ہے۔ بہت سی نامی گرامی ٹرینیں بند ہو چکی ہیں، کچھ بند ہونے کو ہیں جب کہ وہاں ایک سے بڑھ کر ایک ٹرین چل رہی ہے جن میں ہر آنے والے دن نئی سہولیات متعارف ہو رہی ہیں۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ جس طرح آج ہم اپنے بچوں کو پرانے پوسٹ کارڈ دکھاتے ہیں اور انھیں ڈاک بابو کی کہانیاں سناتے ہیں اسی طرح ان کے بچوں یعنی اپنے پوتا پوتی کو ریل کی کہانی سنایا کریں گے اور بچے پوچھا کریں گے کہ دادا جان ٹرین کیسی ہوتی تھی، اس کی تصویر تو دکھائیں۔

علم سے دوری جہل آمادگی اور جنون پرستی کو جنم دیتی ہے۔ کوتاہ بینی قوموں کا مستقبل تباہ کرتی ہے۔ شاید ہمیں پتھر کا دور بہت عزیز ہے، اسی لیے ہر اس چیز کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں جو جدیدیت اور جدت طرازی کی طرف جاتی ہے۔ سقوط ڈھاکا نے ہم سے مڈل کلاس سوچ چھین لی جب کہ جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ دور نے ہماری عقل و خرد پر تالے لگا دیے۔

اب ہماری پہچان دھوکا دہی، جعل سازی اور بے ایمانی ہے۔ جس ملک کی قیادت اپنے مواصلاتی نظام کو درست نہیں کر سکتی اس سے کیا توقع کی جائے کہ اپنے ملک کو ترقی یافتہ دنیا کے ہم قدم بنا سکے گی۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے سوائے آنسو ضبط کرنے کے اور کوئی چارہ باقی نہیں رہا ہے۔
منقول
 
اپنی جائیداد ملکیتی کا قبضہ حاصل کرنے کا طریقہ کار.....

اگر آپ کی کسی جائیداد پر کوئی اور قابض ہے یا آپ نے کوئی جائیداد خریدی ہو اسکا قبضہ نہ مل رہا ہو تو مندرجہ ذیل طریقہ سے آپ قبضہ حاصل کرسکتے ہیں.
Section 8 Specific Relief Act ,1877
مذکورہ بالا سیکشن کے تحت آپ عدالت سے رجوع کرکے اپنی جائیداد کا قبضہ حاصل کرسکتے ہیں اور دعوی میں مذکورہ بالا قانون کی دفعہ 42 کا حوالہ بھی دیں. عدالت فریقین کو طلب کرے گی ضرورت پڑنے پر لوکل کمیشن بھی مقرر کرسکتی ہے.

قبضہ واپسی کے دعوی کرنے کی معیاد 6 سے 12 سال ہوتی ہے.

جبکہ کورٹ فیس مالیت کے مطابق ادا کرنے ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ کورٹ فیس بمطابق شیڈول پندرہ ہزار روپے ہوتی ہے.

مزید راہنمائی کے لیے مندرجہ ذیل عدالتی نظائر ملاحظہ کریں

2018 CCLN 40,2018 CCLN 19,2018 CLC 866,2017 SCMR 1851

منقول
 
اگلے چار گھنٹے بعد قیامت آنے والی ہے۔
قیامت ۔۔۔۔۔ اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
آج رات ہی ہماری فوج دہلی پر پاکستانی پرچم ٹھوک ڈالے گی۔
خواب دیکھنے میں کیا حرج ہے
کسی ٹاک شو میں حسن نثار کو پندرہ منٹ تک سننے کے بعد ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے
ایک زناٹے دار تھپڑ لگا ہو
جیب میں گھر کے سودے کی چار پانچ پرچیاں ہر وقت ہوتی ہیں
چھوڑتا کسی کو نہیں
پوری دنیا کی کرپشن ہمارے ملک کی حکمران پارٹی ہی نے کی ہے۔
نہیں کی کیا کرپشن ہماری حکمران جماعتوں نے
 
Top