جون ایلیا اُس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کل جون ایلیا کا ایک مشاعرہ سن رہا ہے، یہ غزل بہت پسند آئی اور تلاش کے باوجود بھی نہ ملی تو شریکِ محفل کر رہا ہوں۔

اُس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں
ہم کہیں ٹالنے سے ٹلتے ہیں

میں اُسی طرح تو بہلتا ہوں
اور سب جس طرح بہلتے ہیں

وہ ہے جان اب ہر ایک محفل کی
ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں

کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے، ہم اُس سے جلتے ہیں

ہے اُسے دور کا سفر در پیش
ہم سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں

ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں

ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں

تم بنو رنگ، تم بنو خوشبو
ہم تو اپنے سخن میں ڈھلتے ہیں

(جون ایلیا)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بہت خوب محمد بلال اعظم ۔۔۔ ۔۔ بہت پہلے یہ غزل میں نے یہی کہیں اردو محفل پر ارسال کی تھی ۔ اس کی گرد کو آج آپ نے جھاڑا ۔۔۔ بہت بہت شکریہ ۔ :)
زبردست۔
میں تو عام طور پہ گوگل ہی کرتا ہوں، اسی میں پہلے ایک دو پیجز پہ لنک آ جاتا ہے محفل کا، لیکن اس کا نہیں آیا تو سوچا شئیر کر دیتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ ظفری بھائی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب۔۔۔۔!

اچھی غزل ہے۔

اس سے ملتی جلتی ایک غزل اردو محفل پر یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔ یعنی اس غزل کے کچھ اشعار وہاں بھی ہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بہت خوب۔۔۔ ۔!

اچھی غزل ہے۔

اس سے ملتی جلتی ایک غزل اردو محفل پر یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔ یعنی اس غزل کے کچھ اشعار وہاں بھی ہیں۔
جون ایلیا نے اتنی ہی پڑھی تھی، اس لئے مجھے نہیں علم کہ مزید کتنے اشعار اور ہیں۔
البتہ آپ والے لنک میں ایک شعر نیا ہے
ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں​
شکریہ مشورت کا چلتے ہیں​
 
Top