اُس کی آنکھیں نہ پا سکا میں بھی۔ شہزاد نیر

شیزان

لائبریرین
اُس کی آنکھیں نہ پا سکا میں بھی
وہ بھی دُنیا میں کھو گیا، میں بھی

میری تصویر چوُمنے والی
سامنے ہوں کھڑا ہوا میں بھی

وہ بھی اُلجھی رہی سوالوں میں
ایک رش میں پھنسا رہا میں بھی

وہ اچانک لپٹ گئی مجھ سے
کتنا نادانِ عشق تھا میں بھی

لَمس کی لو میں تَپ رہی تھی وہ
جسم کے جل میں جل بجھا میں بھی

بارشوں میں مکان بہتے رہے
اپنے اشکوں میں بہہ گیا میں بھی

اُس نے دنیا کے در پہ دستک دی
اُس کے دل سے نکل گیا میں بھی

کون زر کا غلام تھا؟ سب تھے
یعنی زر کا غلام تھا میں بھی!

اپنے اندر جگہ نہ دی اس نے
اپنی جانب کو چل دیا میں بھی

کتنا حیران ہو رہا ہے تُو
ہاں ، کبھی آسمان تھا میں بھی

اِک انا میں پڑی رہی وہ بھی
ایک ضد پر اڑا رہا میں بھی

وہ ادا میں اگر الگ سی ہے
عام لوگوں سے ہوں جدا میں بھی

تھک گئی وہ بھلا بھلا کے مجھے
یاد کر کر کے تھک گیا میں بھی

میرا کہنا " سبھی مصیبت ہیں"
اس کا سنتے ہی پوچھنا " میں بھی؟


کال کا جال اُس نے کاٹ دیا
رابظے سے نکل گیا میں بھی

حافظے میں نہیں رہا لیکن
میسجز میں پڑا رہا میں بھی

اب مجھے کون؟ پوچھتی ہے تُو
تیرے سیل فون میں رہا میں بھی

یہ زمانہ بھی کیا زمانہ ہے
اِس زمانے کا ہو گیا میں بھی

شہزاد نیّر
 
Top