اولیائے ہند و پاک کی کرامات

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
ہم یہاں مشتاق احمد یوسفی صاحب کی نئی کتاب کے اقتباس کے ساتھ ایک نیا دھاگہ شروع کر رہے ہیں۔
محفلین سے گزارَژ ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کی یا جن مقامات تک بذات خود رسائی حاصل کی ہو، اولیائے
ہند و پاک کی کرامات کے واقعات یہاں پیش کریں:
"امروہا میں حضرت شرف الدّین شاہ ولایت کا مزارِ مبارک مرجع خاص و عام ہے۔ اُس کے احاطے اور اطراف و نواح میں زہریلے بچھو بکثرت پائے جاتے ہیں۔ لیکن کبھی کسی کو ڈنک نہیں مارتے۔ اگر کوئی اُن کو چُھو لے یا چھیڑے یا اٹھاکر ہتھیلی پر رکھ لے تو اپنا ڈنک سکیڑ لیتے ہیں۔ یہ حضرت شاہ ولایت کا اعجاز و فیضان ہے۔
کچھ دن ہوئے، ایک تجویز ذہن میں آئی۔ وہ یہ کہ ہمارے چند سیاست دانوں، شاعروں، لیکھکوں، نقادوں، اخباروں اور رسالوں کے مُدیروں کو بچھوؤں کے ساتھ چند روز گزارنے کے لیے سرکاری خرچ پر امروہے بھیج دیا جائے تاکہ اُن کے فیضانِ صحبت سے یہ حضرات اپنے معاصرین کو کاٹنا اور ڈنک مارنا چھوڑ دیں۔"
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
آں شمعِ خاندانِ نبوت و وِلایت،
آں معدنِ انوارِ صداقت و ہدایت،
آں مستغرقِ تجلیاتِ ذاتی
قطبِ عالم میر سید برہان الدین گجراتی
ۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃ( قد س سرہ ا لعز یز )

حضرت سید ا بو محمد برہان الدین قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے ہیں۔آپ کے دادا کے داداحضرت شیخ جلال الدین سرخ بخاری رحمۃ اللہ علیہ تھے ۔ وہ سادات حسینی سے تھے اور بخاراکے ایک معزز اور ذی علم خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔آپ کے والد ماجد کانام حضرت سید ناصر الدین محمودہے ۔بعض نے انہیں نصیر الدین محمد بھی لکھاہے ۔ آ پ کی والدہ ماجدہ کانام حاجرہ بی بی ہے۔وہ حضرت سید قاسم حسینی کی صاحبزادی تھیں حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ آپ کو سعادت خاتون کہا کرتے تھے ۔حضرت سید ا بو محمد برہان الدین قطبِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کا مزارمدینۃ الاولیاء احمدآباد، گجرات، انڈیا میں ہے ۔
آپ کی ایک مشہور اور عجیب کرامت :
یوں تو حضرت سیدناقطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ گرامی مجسمہ کرامتوں کاخزینہ تھی ۔ لیکن ایک کرامت آپ سے ایسے صادر ہوئی جو تقریباً پونے چھے سو سال گذرنے کے بعد آج بھی اسی شان سے آشکارا ہے ۔
ایک مرتبہ آپ نماز تہجد کے لیے اٹھے۔ صحن میں ایک لکڑی پڑی تھی جسکی ٹھوکر آپ کے پاؤں مبارک میں لگی۔ پاؤں خون آلود ہو گیا۔ آپ کی زبانِ فیض سے فوراً نکلا : لوہاہے۔لکڑی ہے۔۔کنکر ہے۔ پتھر ہے ۔ خدا معلوم کیا ہے ؟۔جب صبح ہوئی تو وہ لکڑی کا ٹکڑا ایک طرف سے لوہا ۔ دوسری طرف سے لکڑی۔تیسری طرف سے کنکر۔ چوتھی طرف سے پتھر ہو گیا ۔اور پانچویں طرف سے آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ کے سچے ولی کی زبان کی تاثیر ہے کہ جو فرمایا وہی ہوگیا ۔ اس ٹکڑے میں جو حصہ لوہا ہوگیا ہے اس میں موسمِ برسات میں زنگ لگتی ہے ۔جوحصہ لکڑی ہوگیا ہے اسے اگر ناخن سے کھرچو توخالص لکڑی کا برادہ نکلتا ہے ۔اور جو حصہ پتھر کا ہے وہ بالکل پتھر جیسا چکنا اور چمکدار معلوم ہوتا ہے ۔ اور چوتھا کلمہ جو حضرت کی زبانِ مبارک سے نکلا تھا کہ خدا معلوم کیا ہے ؟ آج تک ہر دیکھنے والااسے دیکھ کر کہتا ہے کہ خدا معلوم کیا ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اس پتھر کو ایک کونے میں دفن کردو اور جو شخص اسے نکالے گا اُس کی نسل آگے نہ چلے گی ۔ لیکن آپ کی وفات کے بعد آپ کا ایک مرید اسے منظر عام پر لے آیا ۔اور اپنی نسل کا خاتمہ فقط مرشد کے اظہارِ کرامت کے لیے منظور کرلیا ۔لوگ اس پتھر کی زیارت آج تک کرتے ہیں ۔ اس پتھر کا ایک ٹکڑا اکبر بادشاہ کاٹ کر دہلی لے گیا ۔ باقی احمدآباد کے ایک علاقے وٹوامیں جہاں آپ کا مزارِمبارک ہےموجود ہے:
 

x boy

محفلین
اگر ہند کی تاریخ دیکھیں تو 90 فیصد تاریخ کراماتی ہے تاریخ ہند دس ہزار سال پرانی ہے انکی کتابیں کوئی 3000 برس کوئی پانچ ہزار برس کوئی 6 سے 7 ہزار برس پرانی ہے اور ان سب میں کرامات ہی کرامات ہے ایک اہم چیز ہند کے باسیوں کی کتاب میں ہے وہ ہے تکبر، غرور کی ممانعت ،،، انکی ہر کتاب میں جو بھی اچھے لوگوں کا ذکر ہے اس میں اپنے لوگوں سے غرور و تکبر سے منع کیا گیا ہے،

کرامات سے دین پھیلنا ہوتا تو ہندو مذہب مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوتا ، لیکن ایسا نہیں ہے۔ یقین کرنے کے لئے کرامات ضرورت نہیں،،،
بنی اسرائیل میں بہت زیادہ انبیاء علیہ السلام کرامات کے ساتھ آئے، لیکن پھر بھی کیا ہوا، مریم علیہ السلام کو بنی اسرائیل کے لوگ نے آوارہ عورت کے القاب سے نوازا، جبکہ گود میں دودھ پیتے بچے عیسی ابن مریم علیہ السلام نے امی ماں کی گواہی دی،،

فرعون کے پاس موسی علیہ السلام ایک سے زائد کرامات لے کر اللہ کا حکم سنانے گئے ، موسی علیہ السلام کو فرعون نے جادوگر کہہ ٹھکرادیا،،،
سلیمان علیہ السلام کے کرامات کی مثال نہیں ملتی لیکن باغی جن پھر بھی باغی رہے۔ باغی انسانوں کی تو بات نہیں کرسکتے،۔

الحمدللہ ،،،
ہمارے پاس قرآن الکریم ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور یہی مسلمانوں کے لئے کافی ہے،،،
 
Top