اولمپک ویزہ سکینڈل، گیارہ اہلکارگرفتار

طمیم

محفلین
یہاں کبھی پاکستان کے سفارتخانے جانے کا اتفاق ہو تو ان کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے کہہ رہے ہوں "اج ای تھے پھسے او ساڈھے اگے، ہُن کِتھے جاؤ گے"

آج تک یہاں نمبر سسٹم رائج نہیں ہو سکا۔ جس کا جہاں داؤ لگتا ہے لائن میں کھڑا ہو جاتا ہے۔
یہاں جرمنی فرینکفرٹ میں تو نمبر سسٹم جاری ہے لیکن مشین ایسی ہے کہ ٹوکن پرنٹ کرکے باہر نہیں نکالتی اندر ہی کہیں پھنس جاتا ہے اور جب پاکستانی طریق پر نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو سارے پھنسے ہوئے نمبر باہر نکل آتے ہیں۔ ان نمبروں کو لے کر میں جب کاؤنٹر پر گیا تو اُنھوں نے کہا کہ سارے سنبھال لیں جب آپ کا نمبر پکارا جائے پھر سامنے آئیں ورنہ انتظار کریں۔
پھر وقفہ وقفہ سے تقریبا دس مختلف نمبر پکارے گئے لیکن کوئی سامنے نہیں آیا ۔ پھر خدا خدا کرکے میرے پاس موجود نمبروں میں سے ایک نمبر پکارا گیا تو میری باری آئی۔ باقی ٹوکن پھینک دیئے ۔ معلوم نہیں میرے بعد کتنے نمبروں کے بعد دوسرے کی باری آئی ہوگی۔
 
میاں محب علوی آپ بھی تو نادرا کے فین ہیں

میں کب سے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ویسے اتنا برا ادارہ نہیں جتنے اس کے پیشرو تھے البتہ بہتری کی گنجائش تو بہرحال ہوتی ہی ہے۔

رپورٹ چونکہ اخبار "سن" کی ہے جس کا کام ہی ایسی پھلجڑیاں چھوڑنا ہے اس لیے اس کی تو قطعی اہمیت نہیں۔

دوسرا پاسپورٹ بنانا یوکے میں بھی کوئی خاص مسئلہ نہیں ، کئی بندوں کو میں وہاں جانتا ہوں جو ایک زمانے میں چھ چھ پاسپورٹ بنا کر بیٹھے ہوتے تھے۔ پھر سختیاں شروع ہوئیں مگر اب بھی جو لوگ بنوانا چاہیں ان کے لیے مشکل ضرور ہے پر انہونی نہیں۔
 

طالوت

محفلین
یہاں کبھی پاکستان کے سفارتخانے جانے کا اتفاق ہو تو ان کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے کہہ رہے ہوں "اج ای تھے پھسے او ساڈھے اگے، ہُن کِتھے جاؤ گے"

آج تک یہاں نمبر سسٹم رائج نہیں ہو سکا۔ جس کا جہاں داؤ لگتا ہے لائن میں کھڑا ہو جاتا ہے۔
میرا تجربہ قدرے مختلف اور بہتر رہا ۔ البتہ میرا نمبر آنے تک میرے خیال میں کوئی پندرہ کے لگ بھگ مامے چاچے پھپھے تائے اور پیسے والوں کو بھگتا چکے تھے۔
 

ساجد

محفلین
جب تک میرا قیام سعودیہ میں رہا تب تک تو جدہ کے پاکستانی سفارت خانے کا تو واقعی برا حال تھا۔ نیچے کا عملہ ہی بندے کو اتنا تنگ کر دیتا تھا کہ دماغ ماؤف ہو جائے ۔ چونکہ زیادہ تر پاکستانی مزدور طبقہ اور نیم خواندہ ہوتے ہیں اس لئے کاغذات کی تکمیل میں زیادہ تکلیف اٹھاتے ہیں۔ "صاحب بہادر" اپنے دفتر میں یوں تشریف فرما ہوتے ہیں کہ شاید اپنے ہی ہم وطن عوام سے مل کر انہیں کوئی چھوت کی بیماری لگ جائے گی۔ لیکن جو لوگ ذرا ہمت کر کے ان تک رسائی پا لیتے تھے ان کا کام وقت پر مکمل ہو جاتا تھا اور اکثریت وعدوں کے چکر میں رہ جاتی تھی۔
2008 میں اپنے کمپیوٹر آئی ڈی کی خاطر مجھے وہاں حاضر ہونا پڑا تو اسی روایتی جواب سے پالا پڑا کہ "صاحب دفتر میں نہیں ہیں"۔ میرا جواب تھا کہ مجھے دفتر میں بٹھا دو صاحب آئیں گے تو ان سے مل لوں گا ۔ دربان اس وقت سٹپٹا گیا کہ جب میں خود ہی اسے ایک طرف دھکیل کر دفتر میں داخل ہو گیا اور میرے بالکل سامنے "صاحب بہادر" جہازی سائز کے یخ ٹھنڈے دفتر میں چائے کے ساتھ شغل فرما رہے تھے۔ شدید دھوپ میں کھڑے رہنے کے باعث اپنی بگڑی حالت کو قدرے درست کرنے کے بعد میں نے اپنا مدعا بیان کیا اور ان کے احکامات کے اجراء کے بعد میرا دو ماہ سے کھٹائی میں پڑا ہوا آئی ڈی صرف 15 یا 20 منٹ میں میرے سامنے موجود تھا اور ساتھ ہی صاحب بہادر کی لجاجت بھری آواز "اور کوئی حکم ہو تو فرمائیں"۔ میں نے وہاں تو کوئی "حکم" نہیں کیا ۔ خاموشی سے باہر نکل آیا لیکن باہر آ کر میں نے ان لوگوں ، جو صبح سے دربان کی بات پر یقین کر کے ایک ٹین کے چھپر کے نیچے سخت گرمی اور حبس میں بیٹھے تھے، کو بتا دیا کہ "صاحب " اندر ہی موجود ہے ، دربان جھوٹ بول رہا ہے۔ پھر وہی ہوا جس کی توقع کی جا سکتی ہے کہ بیس پچیس منتظر افراد یک دم دفتر پر ٹوٹ پڑے ۔
کاش ہمارے ارباب اختیار کچھ انسانیت اپنے اندر پیدا کر لیں تا کہ عوام کو کوئی سُکھ کی سانس میسر ہو۔
یہ تو سفارت خانے کا احوال تھا لیکن نادرا کے ساتھ جہاں تک میرا پاکستان میں واسطہ پڑا ہے اس کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ ادارہ قدرے بہتر کام کرتا ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
چاہے یہ رپورٹ پلانٹڈ ہی کیوں نہ ہو لیکن آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکتیں کہ پاکستان میں اس طرح کی چیزیں(کرپشن) عام ہیں۔آپ کو بس پیسہ لگانے کی ضرورت ہے آپکا کام چٹکی بجانے میں حل ہو جائیگا
آپ کا کہنا بجا کہ پاکستان میں کرپشن عام ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہونا چاہئیے کہ کرپشن کا ہر الزام درست ہی ہے۔ واللہ اعلم کہ یہ کیس کہاں تک جائے گا لیکن کم از کم میں اس اخبار کی رپورٹ کی بنیاد پرمیڈیا کے ہائے وائے مچانے کو عقلمندی نہیں سمجھتی۔
الحمد اللہ ابھی تک تو مجھے پیسہ لگانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ میرے کام خود ہی ہوتے ہی رہے ہیں۔ ویسے برطانیہ جہاں سے یہ اخبار تعلق رکھتا ہے وہاں بھی اکثر کام چیونٹی کی رفتار سے ہی ہوتے ہیں اور وہاں بھی کھلم کھلا کرپشن ہوتی ہے جیسے فاتح اور محب علوی نے ذکر کیا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اس رپورٹ کی وجہ سے اگر کچھ صحیح ہو جائے تو اور کیا چاہئیے۔چاہے رپورٹ جیسی بھی ہو
اللہ آپ کی خوش گمانی برقرار رکھے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسی رپورٹوں اور الزامات کی وجہ سے اگر کچھ صحیح ہونا ہوتا تو اب تک بہت کچھ درست ہو جاتا۔ دوسرا یہ کہ ایسی رپورٹوں کی بنیاد پر جو درستگی ہوتی ہے وہ عموماً وقتی ہوتی ہے۔ کچھ عرصے کے بعد حالات پھر اسی بگاڑ کے مقام پر آ جاتے ہیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
لیکن پاکستان سے تو کم ہونگی۔پاکستان میں تو انّی پئی ہوئی اے
حسیب ہر جگہ انی پڑی ہوئی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ دوسرے ممالک میں حکمران اور ادارے عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں اور عوام اپنے اس حق کو استعمال بھی کرتے ہیں اور یوں حالات قابو میں رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ جس قوم میں ابھی تک اپنے عوامی نمائندے چننے کا شعور نہیں آیا وہاں جو بھی ہو کم ہے۔ ہمارے لوگ ٹیکسٹ میسجز میں تو ملک کے حکمرانوں کے لئے بدترین الفاظ استعمال کر کے اپنی فرسٹریشن تو نکال لیتے ہیں لیکن جب ان کو اپنے نمائندے چننے کا حق دیا جاتا ہے تو وہ انہی 'کرپٹ' افراد کو سامنے لے آتے ہیں۔ تازہ مثال ملتان کے بائے الیکشن میں عبدالقادر گیلانی کی جیت ہے۔
 
ابھی کل ہی میں نے جیو کے پروگرام خبرناک میں ایک افسوسناک بات دیکھی۔۔ دو دوکاندار ٹی وی پر بیٹھ کر کروڑوں لوگوں کے سامنے بڑے اطمینان سے اپنی ملاوٹ اور کرپشن کی داستانیں سنا رہے تھے اور انہیں کوئی پچھتاوا کوئی افسوس نہیں ۔نلکہ الٹا ہنستے اور مسکراتے ہوئے پورے اعتماد کے ساتھ۔عذرِ گناہ بدتر از گناہ ۔ میڈیا کی ہمنوائی میں وہ علی الاعلان اپنی حرکتوں کا جواز یہ پیش کررہے تھے کہ حکومت بھی تو ایسا کرتی ہے، ہم نے کرلیا تو کیا ہوا۔ پہلے تو میں یہ سمجھا کہ یہ بھی پلانٹڈ بندے ہونگے لیکن پروگرام کے میزبان نے حلفیہ کہا کہ یہ پلانٹڈ نہیں ہیں اور وہ دونوں جس جگہ کاروبار کرتے ہیں، اس جگہ کا نام بھی بتا رہے تھے۔۔۔یعنی کرلو جو کرنا
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ابھی کل ہی میں نے جیو کے پروگرام خبرناک میں ایک افسوسناک بات دیکھی۔۔ دو دوکاندار ٹی وی پر بیٹھ کر کروڑوں لوگوں کے سامنے بڑے اطمینان سے اپنی ملاوٹ اور کرپشن کی داستانیں سنا رہے تھے اور انہیں کوئی پچھتاوا کوئی افسوس نہیں ۔نلکہ الٹا ہنستے اور مسکراتے ہوئے پورے اعتماد کے ساتھ۔عذرِ گناہ بدتر از گناہ ۔ میڈیا کی ہمنوائی میں وہ علی الاعلان اپنی حرکتوں کا جواز یہ پیش کررہے تھے کہ حکومت بھی تو ایسا کرتی ہے، ہم نے کرلیا تو کیا ہوا۔ پہلے تو میں یہ سمجھا کہ یہ بھی پلانٹڈ بندے ہونگے لیکن پروگرام کے میزبان نے حلفیہ کہا کہ یہ پلانٹڈ نہیں ہیں اور وہ دونوں جس جگہ کاروبار کرتے ہیں، اس جگہ کا نام بھی بتا رہے تھے۔۔۔ یعنی کرلو جو کرنا
اس سے ظاہر ہوتا ہے معاشرہ کس طرف جا رہا ہے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ 'ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات'۔ جیسے ہم لوگ ہیں ویسے ہی حکمران ملیں گے۔ اور میڈیا کی ذمہ داری دیکھیں۔کسی کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ آپ ایسے لوگوں کو ٹی وی پر لا کر بھلائی نہیں بلکہ برائی کو فروغ دے رہے ہیں۔ آج دو لوگوں نے ایسا کیا ہے کل یہی دو لوگ دو سو مزید لوگوں کے ایسا کہنے کا باعث بن جائیں گے۔
 
اس سے ظاہر ہوتا ہے معاشرہ کس طرف جا رہا ہے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ 'ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات'۔ جیسے ہم لوگ ہیں ویسے ہی حکمران ملیں گے۔ اور میڈیا کی ذمہ داری دیکھیں۔کسی کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ آپ ایسے لوگوں کو ٹی وی پر لا کر بھلائی نہیں بلکہ برائی کو فروغ دے رہے ہیں۔ آج دو لوگوں نے ایسا کیا ہے کل یہی دو لوگ دو سو مزید لوگوں کے ایسا کہنے کا باعث بن جائیں گے۔
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کوئی اس سے سبق بھی سیکھ لے۔اس پروگرام میں ان پر کافی تنقید بھی کی گئی ہے۔اور ان کو پروگرام میں لانے کا اصل مقصد تو حکومت کو جھنجھوڑنا ہے۔ویسے بھی اس وقت پروگرام میں پنجاب کے مشیرِ صحت مہمان تھے
 

زبیر مرزا

محفلین
فرحت کیانی اور محمود احمد غزنوی بہت شکریہ اس بات کی جانب توجہ مبذول کروانے کا کہ بہت عرصہ سے دل چاہ رہا تھاکہ
اس پر بھی بات کی جائے- سیاستدانوں کے کرپشن اورمنفی رویوں پر دن رات تنقید کرنے والے ہم اگر اپنے گریبان میں جھانک لیں تو
شرم سے مرجائیں- قومی اداروں سے لے کربینک ہو یا دوکان ہمیں ہرجگہ وی آئی پی پروٹاکول چاہیے ہوتا ہے ہمارا کام ہوجائے دوسرا
جائے بھاڑمیں ، بحثیت انسان ( مسلمان اور پاکستانی کی بات ہی چھوڑدیں) ہم اپنی اخلاقی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہے مگر حقوق کا
رونا دن رات روتے ہیں- رشوت لینے والا اوررشوت دینے والا دونوں جہنمی مگر ہم رشوت دے کر دودھ کے دُھلے اور رشوت لینے والا
پرغصہ؟ انفرادی سطح پر ہم اپنے روزمرہ اعمال کا جائزہ لیں اور ان میں درستگی لے آئیں تو ان شاءاللہ ملکی سطح پر اس کے مثبت
اثرات بہت جلد مرتب ہوں گے -
 
Top