اولاد کی خوشی کیسی ؟

ساجدتاج

محفلین
اولاد کی خوشی کیسی ؟

السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ:۔


اُس اللہ کی کس کس نعمت کا شکر ادا کروں جو ہمیں ہر لمحے کسی نہ کسی خوشی سے نواز ہی رہا ہے۔ جہاں بھی نظر گھمائو اُس کی رحمتیں اور نعمتیں نظر آتی ہیں‌۔ جب جب اُس سے مناگتے ہیں وہ تب تب عطا کرتا ہے اگر اُس کی نعمتوں کا حساب لگانے بیٹھیں تو شاید زبان تھک جائے، الفاظ ختم ہو جائیں مگر وہ اُس کی عطا کی گئی نعمتوںکا حساب نہ لگایا جا سکے جو وہ اپنے بندوں‌ نواز رہا ہے۔

انسان جب پیدا ہووتا ہے تو اُس کا سارا بچپن دوسروں کے سہارے پر ہی گزرتا ہے چاہے کھانا پینا ہو ، سونا جاگنا ہو، اُٹھنا بیٹھنا ہو یا چلنا پھرنا ہو اُسے ہر موڑ پر سہارے کی ضرورت پڑتی ہی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے انسان خود ، اُس کی سوچ اور اُس کے خیالات بڑے ہوتے جاتے ہیں اور اس طرح انسان بچپن سے نکل کر اپنی جوانی میں قدم رکھتا ہے جہاں اُسے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں پڑتی وہ اپنا ہر کام خود کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جوانی کی عمر میں ‌ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب اُسے ایک ایسے انسان کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جس کے ساتھ رہ کر وہ اپنی باقی کی زندگی خوشیوں اور آرام سے گزار سکے، اپنی ہر بات اُس سے شیئر کر سکے ، ایسے انسان کی خواہش کرنے لگتا ہے جو دکھ سکھ اور خوشی و غم میں اُس کا ساتھ دے۔ ایسے میں اللہ تعالی کی رحمت سے دو انسان مل کر ایک رشتہ بناتے ہیں اور ایک ایسے بندھن میں‌بندھ جاتے ہیں جن میں کوئی پردہ نہیں ہوتا۔ اُس رشتے کو دنیا والے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں مثال کے طور پر “میاں بیوی“ “ ہسبینڈ وائف “ “ لائف پارٹنر“ “بیٹر ہالف“۔

اس خوبصورت رشتے کو نبھاتے نبھاتے ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے جب اللہ تعالی ان رشتے میں بندھے مرد اور عورت کو ایک بہت بڑی نعمت سے نوازتا ہے اور وہ نعمت اللہ تعالی کی طرف سے انسان کو ایک انمول تحفہ ہے اور اُس تحفے کا نام ہے “اولاد“۔ اس نعمت کے ملنے کے بعد وہ ایک اعلی مقام پر فائز ہو جاتے ہیں جس پر پہنچنے کی خواہش سب کی ہوتی ہے اور اس طرح وہ اپنی اولاد کے لیے ماں باپ کا کردار ادا کرنے لگ جاتے ہیں۔

انسان جب کنوارہ ہوتا ہے تو وہ سب سے زیادہ اپنے آپ سے پیار کرتا ہے شادی کے بعد یہ پیار اپنے لائف پارٹنر کے ساتھ تقسیم ہو جاتا ہے لیکن جب اللہ تعالی مرد اور عورت کو اولاد سے نوازتا ہے تو اُن کا سارا پیار اپنی اولاد کے لیے نچھاور ہونے لگتا ہے۔ شادی کے بعد انسان کی سب سے بڑی خوشی اولاد ہوتی ہے جسے پاکر انسان خود کو سب سے خوش نصیب سمجھتا ہے۔ اولاد ہونے کے بعد ماں باپ کا سارا دھیان اُن کی پروش ، اُن کی خواہشات اور اُن کو سنبھالنے میں لگ جاتا ہے۔ اُس کے کپڑے خریدنا ، اُس کے لیے کھلونے لانا ، وغیرہ وغیرہ ۔ ماں باپ کا بس نہ چلے تو اپنی اولاد کی خوشی کے لیے ساری دنیا اُن کے قدموں میں لاکر رکھ دے۔

اولاد ہونے کے بعد انسان کی زندگی بدل سی جاتی ہے۔ “ماں“ جو اولاد پراپنا سارا پیار اور وقت نچھاور کردیتی ہے، اپنے منہ میں نوالہ ڈالنے سے پہلے اپنی اولاد کا پیٹ بھرتی ہے،خود کو تکلیف میں رکھ کر اپنی اولاد کو آرام دیتی ہے، اپنی نیندوں کو حرام کرکے اپی اولاد کو سکون کی نیند سُلاتی ہے، کس طرح گرمیوں اور سردیوں میں‌اُس کی حفاظت کرتی ہے۔

“باپ“ جو سارا دن کام کاج کرتا ہے اپنی ضرورت کو پورا کرنے کی بجائے اپنی اولاد کی ضرورت کو پورا کرتا ہے، اپنے لیے کچھ خریدنے کی بجائے اپنی اولاد کی ضرورت کی اشیاء خریدتا ہے۔ سخت سردی و گرمی میں محنت کرتا ہے تاکہ اپنی اولاد کا پیٹ پال سکے۔ سارا دن کام کاج کرنے کے بعد تھک ہار کر جب وہ گھر آتا ہے تو اپنی اولاد کو سامنے دیکھ کر ساری ٹینشن اور ساری تکھاوٹ کو بھول جاتاہے۔ عجیب چمک ہوتی ہے اُس وقت باپ کی آنکھوں میں جب وہ اپنی اولاد کو اپنے سامنے ہنستا کھیلتا دیکھتا ہے۔ اولاد کی ایک شرارت پر ماں باپ کا دس بار ہنسنا ، اُس کی غلطیوں پر اُس کو پیار سے سمجھانا، اُس کی تکلیف میں بوکھلا سا جانا یہ سب چیزیں ماں باپ کی محبت میں شامل ہوتی ہیں۔اولاد کی تکلیف برداشت کرنا شاید ماں باپ کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اولاد کی تکلیف دیکھ کر والدین کے اوپر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس تو کبھی کسی کے پاس ساری ساری رات جاگ کر گزار دیتے ہیں کہ کہیں اُن کی اولاد تکلیف میں تو نہیں۔

دورِ جہالت میں عورتوں کو بہت حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ رواج کم ہو گیا مگر مکمل طور پر ختم نہ ہوا آج بھی لڑکی کے پیدا ہونے پر لوگ غم و مایوسی اور ناشکری کا اظاہر کرتے ہیں، آج بھی لڑکوں کو لڑکیوں پر زیادہ ترجیح دی جاتی ہے، آج بھی لوگ لڑکا پیدا ہونے پر مغروری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں اللہ تعالی نے اولاد کو جس کے پیٹ سے پیدا کرتا ہے وہ بھی ایک عورت ہوتی ہے۔ لڑکی کے پیدا ہونے ہر اتنی مایوس کا اظہار کرتے ہیں تو عورت ذات سے شادی کیوں کرتے ہیں؟ اگر شادی کرتے ہیں تو لڑکی ہونے پر غم و مایوسی کا اظہار کیوں کرتے ہیں؟

اگر ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ایک ہے اور ہم اُسی کا حکم مانتے ہیں اور اُسی کی عبادت کرتے ہیں تو پھر یہ کیوں بھول جاتے ہیں جو اللہ تعالی سورہ الشورے میں فرماتا ہے۔

آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ تعالی کے لیے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتاہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے (49)

یا انہیں جمع کر دیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔ (50)

یہ بات واضح ہے کہ لڑکا لڑکی دینے کا اختیار صرف اللہ تعالی کے پاس ہے بلکہ اولاد کا ہونا نہ ہونا بھی صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں‌ہے تو پھر ہم اولاد کے ہونے نہ ہونے ، یا لڑکی ہونے پر نا شکری کا اظہار کیوں کرتےہیں؟

موجودہ دور شاید کچھ زیادہ ہی ماڈرن ہو چُکا ہے صرف کھانے اور پینے میں ہی نہیں بلکہ شادی اور اولاد کے بارے میں بھی بڑے بڑے خیالات ظاہر ہونے لگے ہیں۔ کوشش کریں گے کہ جو لائف پارٹنر ملے وہ تمام بُرائیوں سے پاک ہو چاہے خود میں بڑائیوں گھرا ہو۔ شادی ہو جانے کے بعد جلد اولاد کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ ابھی تو لائف کو انجوائے کرنا ہے ہمیں کیا ضرورت ہے اتنی جلدی اولاد کی۔ اگر شادی کے پہلے سال اولاد ہوجائے تو عجیب سی مایوسی چہرے پر دکھائی دیتی ہے پوچھنے پر کہتے ہیں کہ یار ہم ابھی کرنا نہیں چاہتے تھے اویں بچہ پیدا ہو گیا۔ ایسے لوگوں کو اللہ کے خوف سے ڈرنا چاہیے اولاد نہ ہونے کا دکھ کیا ہوتا ہے یہ اُن سے جا کر پوچھو جو ساری زندگی اولاد کی طلب کرتے رہتے ہیں مگر اولاد نصیب نہیں ‌ہوتی۔

اولاد کی خوشی کو لفظوں میں بیاں کرنا شاید میرے بس کی بات نہیں ہے یہ احساس وہی بخوبی بتلا سکتا ہے جنہیں اللہ تعالی اولاد جیسی نعمت سے نوازہ ہے۔ اللہ تعالی سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کو نیک اور صالح اولاد عطا کرے اور ایسے لوگوں کو ہدایت دے جو اس خوبصورت نعمت کی ناشکری کرتے ہیں اور اولاد کو اپنے اوپر بوجھ محسوس کرتے ہیں آمین۔
تحریر: ساجد تاج
 
Top